• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث کے مقلدین کو 7 چیلنج !!!

شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
عامر بھائی :
ایک فتوی اور دیکھیں:
"اور نماز تراویح کی تعداد متعین نہيں ہے بلکہ کم یا زيادہ پڑھنا جائز ہیں"
شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ تعالی نے نماز تروایح میں رکعات کی تعداد ذکر کرنے کے بعد کہا ہے : اس معاملہ میں وسعت پائي جاتی ہے ، بلکہ جوگیارہ رکعت ادا کرتا ہے یا جو تئيس رکعات ادا کرے اسے غلط نہيں کہنا چاہیے ، بلکہ الحمد للہ اس میں وسعت پائي جاتی ہے ۔ ا ھـ دیکھیں فتاوی الشيخ ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی ( 1 / 407 )
http://islamqa.info/ur/38021
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی معین عدد ثابت ہے ؟؟؟اس بارے محدثین کیا کہتے ہیں؟؟؟
4r.jpg

ان محدثین کے بارے اہل حدیثوں کا کیا خیال ہے کہ انہوں نے یہ سچ کہا ہے یا جھوٹ؟
کیا کوئی اہل حدیث بھائی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات نماز تراویح پورا ماہ رمضان میں مسجد کے اندر بعد نماز عشاء باجماعت پڑھنا ثابت کر سکتا ہے؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عامر بھائی :
الشیخ محمد صالح المنجد کا یہ فتوی بھی غور سے پڑھیں :
نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :

ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟

توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )

ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔

علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔

رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔

اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :

آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔

دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔

اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :


ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے
، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔

دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔

نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :

1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔

2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )

3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔

صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔

حاصل یہ ہوا کہ :

جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔

دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔

امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔

ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "

یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔

دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔

اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ur/9036

میرے بھائی آپ اس کو بھی ہائی لائٹ کر دیتے


حاصل یہ ہوا کہ :

جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔

دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔

امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔

ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "

یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔

دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔


اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ur/9036[/QUOTE]
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم -

احناف ایک طرف تو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو اپنی قبر مبارک میں زندہ مانتے ہیں اور کچھ تو ان کو دنیا میں حاضر و ناظر بھی مانتے ہیں - اور دوسری طرف اس بحث میں الجھے ہوے ہیں کہ تراویح بیس رکعات ثابت ہے وغیرہ - تو احناف سے گزارش ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر پوچھ لیں اور جو جواب ملے وہ ہمیں بھی بتا دیں کہ -ان کے دور میں رمضان میں تراویح کی کتنی رکعات پڑھائی جاتی تھیں - ہم مان لیں گے -

ظاہر ہے جب آپ کے عقیدے کے مطابق نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اپنی قبر مبارک میں آپ کا سلام سن سکتے ہیں تو ظاہر ہے آپ کا دین اسلام سے متعلق سوال بھی سن سکتے ہونگے ؟؟؟ اور پھر راویوں کو سقہ اور غیر سقہ ثابت کرنے کا یہ جھنجھٹ ہی ختم ہو جائے گا -

کیا کہتے ہیں یہ احناف ؟؟؟
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
السلام علیکم -

احناف ایک طرف تو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو اپنی قبر مبارک میں زندہ مانتے ہیں اور کچھ تو ان کو دنیا میں حاضر و ناظر بھی مانتے ہیں - اور دوسری طرف اس بحث میں الجھے ہوے ہیں کہ تراویح بیس رکعات ثابت ہے وغیرہ - تو احناف سے گزارش ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر پوچھ لیں اور جو جواب ملے وہ ہمیں بھی بتا دیں کہ -ان کے دور میں رمضان میں تراویح کی کتنی رکعات پڑھائی جاتی تھیں - ہم مان لیں گے -

ظاہر ہے جب آپ کے عقیدے کے مطابق نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اپنی قبر مبارک میں آپ کا سلام سن سکتے ہیں تو ظاہر ہے آپ کا دین اسلام سے متعلق سوال بھی سن سکتے ہونگے ؟؟؟ اور پھر راویوں کو سقہ اور غیر سقہ ثابت کرنے کا یہ جھنجھٹ ہی ختم ہو جائے گا -

کیا کہتے ہیں یہ احناف ؟؟؟
عقیدہ حیات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق
علماء اہلحدیث کے کے فتاوی جات اور موقف

فتاوی نذیریہ
شیخ الکل فی الکل حضرت مولانای سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی1902
حضرات انبیاءعلیہم الصلوة والسلام اپنی اپنی قبراوں میں زندہ ہیں۔ خصوصاً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کہ فرماتے ہیں کہ عند القبر درود بھیجتا ہے میں سنتا ہوں اور دور سے پہنچا یاجاتا ہوں۔
فتاوی ستاریہ
شیخ الحدیث حضرت مفتی عبدالستار محدث دہلوی
امام جماعت غربا اہلحدیث
انبیاءکی لاش دورد آپ تک پہنچنے اور خودسننے بابت سوال
سوال (559) کیا فرماتے ہیں علماءدین اس بارے میں کہ جس طرح عام مردوں کی لاش خراب ہوجاتی ہے کہ اسی طرح انبیاءکی لاش خراب ہو جاتی ہے اور تمام انبیاءحیات ہیں کہ نہیں؟
(2) جو شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور يہ درود فرشتے لے جاکر آنحضرت کو سناتے ہیں یا نہیں؟
(3)جو شخص آنحضرت کی قبر پر جا کر سلام کرتاہے آنحضرت خو داس کو جواب ديتے ہیں یا نہیں؟
عبد الرحمن جیکب لاين کراچی
جواب(559) الجواب بعون الوباب۔ صورت مسنون میں واضح بادکہ
(1) انبیاءعلیہ السلام کا جسم مرنے کے بعد خراب نہیں ہوتا بلکہ بعینہ صحیح سالم رہتا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے ۔ ان اﷲ حرم علے الارض ان تاکل اجساد الانبیا۔ یعنی اﷲ تعالی نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ اجساد انبیاءکو کھائے(یعنی خراب کرے) انبیاء برزخی زندگی حاصل ہے۔
(2) ہاں فرشتے درود نبی علیہ السلام کو پہنچاتے ہیں۔
(3) جو شخص آپ کی قبر پر جاکر سلام کہتا ہے اس کا سلام آپ خود سنتے ہیں۔یہاں سے نہیں سنتے کیونکہ فرشتے پہنچانے کے لئے اس نے مقرر فرمائے ہیں۔فقط عبد الستار عفرلہ

تو اہل حدیث سے گزارش ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر پوچھ لیں اور جو جواب ملے وہ ہمیں بھی بتا دیں کہ -ان کے دور میں رمضان میں تراویح کی کتنی رکعات پڑھائی جاتی تھیں - ہم مان لیں گے -

ظاہر ہے جب آپ کے عقیدے کے مطابق نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اپنی قبر مبارک میں آپ کا سلام سن سکتے ہیں تو ظاہر ہے آپ کا دین اسلام سے متعلق سوال بھی سن سکتے ہونگے ؟؟؟ اور پھر راویوں کو سقہ اور غیر سقہ ثابت کرنے کا یہ جھنجھٹ ہی ختم ہو جائے گا -

کیا کہتے ہیں اس بارے میں اہل حدیث ؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شاید اس موضوع پر بات ہورہی ہے کہ ’’ رمضان کے اندر کتنی رکعات تراویح پڑھنا سنت ہے ؟‘‘
فریقین اپنا اپنا موقف بیان کریں اور اس پر جواب لیں بھی اور دیں بھی ۔
اگر موضوع کا تعین کرنے میں مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو اس کا تعین بھی کرلیں ۔
مختصر یہ کہ ایک موضوع پر بات کریں ، کھچڑی پکانے سے پرہیز کریں ۔ اور اچھے اسلوب سے بات کریں ۔ بہت مہربانی ۔
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
محترم خضر حیات صاحب:
آپ نے درست نشاندہی کی ہے اس سے پہلے بھی لولی ٹائم بھیا نے موضوع سے ہٹ کر بات کی تھی اور اب جواد بھائی نے ،بندہ نے مجبورا جواب لکھا ۔یہ لوگ اگر اس دھاگہ میں کھچڑی پکانے اور اگر ان کا پیٹ خراب نہ ہو تو کھانے سے بھی پرہیز کریں ؟کیونکہ چند دن بعد رمضان کی آمد آمد ہے پھر افطاری میں طرح طرح کے کھانے چلیں گے
اللہ تعالی ہر مسلمان کو صحت و عافیت کے ساتھ رمضان المبارک میں نیکیوں کا خزانہ لوٹنے کی توفیق بخشے( امین)
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
میرے بھائی آپ اس کو بھی ہائی لائٹ کر دیتے


حاصل یہ ہوا کہ :

جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔

دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔

امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔

ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "

یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔

دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔


اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ur/9036
[/QUOTE]

عامر بھائی بندہ نے اس ہائی لائٹ کیوں نہ کیا ؟
"جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔"

شیخ صالح المنجد جب خود رات کی نماز کی تعداد رکعات کے مقید کرنے کا رد کر رہے ہیں تو یہ سنت کیسے ہوگئی ؟

رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749

اور شیخ کا یہ فتوی تو بلکل واضع ہے کہ

"اور نماز تراویح کی تعداد متعین نہيں ہے بلکہ کم یا زيادہ پڑھنا جائز ہیں"
جب شیخ کے بقول خود "نماز تراویح کی تعداد متعین نہيں ہے" تو شیخ کا گیارہ کو "سنت" کہنا " چہ معنی دا رد"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ سیوطی ،علامہ تاج الدین سبکی ،علامہ شوکانی رحمہ اللہ تعالیٰ ان سب کا بھی یہی کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی رکعات کی تعین ثابت نہیں تو گیارہ کا عدد "سنت" کیسے کہلائے گا؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عامر بھائی بندہ نے اس ہائی لائٹ کیوں نہ کیا ؟
"جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔"

شیخ صالح المنجد جب خود رات کی نماز کی تعداد رکعات کے مقید کرنے کا رد کر رہے ہیں تو یہ سنت کیسے ہوگئی ؟

رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749

اور شیخ کا یہ فتوی تو بلکل واضع ہے کہ

"اور نماز تراویح کی تعداد متعین نہيں ہے بلکہ کم یا زيادہ پڑھنا جائز ہیں"
جب شیخ کے بقول خود "نماز تراویح کی تعداد متعین نہيں ہے" تو شیخ کا گیارہ کو "سنت" کہنا " چہ معنی دا رد"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ، علامہ سیوطی ،علامہ تاج الدین سبکی ،علامہ شوکانی رحمہ اللہ تعالیٰ ان سب کا بھی یہی کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی رکعات کی تعین ثابت نہیں تو گیارہ کا عدد "سنت" کیسے کہلائے گا؟؟؟[/QUOTE]

یہاں پر میں کیا کہہ سکتا ہو کیا آپ کو شیخ کا واضح وضاحت سمجھ نہیں آئی

"جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔"
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
10425042_727332137305172_221040994432612459_n.png


حنفی بھائیوں بس اتنا کرو کہ اپنے امام ابو حنیفہ سے باسند صحیح 20 رکعات تراویح ثابت کرو۔ دوسرے اماموں کا حوالہ دے کر اپنے آپ کو غیر مقلد ثابت مت کرو۔ ویسے ہی امام ابو حنیفہ کے عقیدے کی خرابی کی وجہ سے تم لوگوں سے اسے چھوڑا ہوا ہے اور تراویح کے مسئلے میں بھی چھوڑ دیا ہے تم لوگوں نے۔
 
Top