• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث کے ہاں اللہ کے کتنے ہاتھ ہیں ؟؟

Star24

مبتدی
شمولیت
فروری 10، 2014
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
Hath sirf insano aur jandaro k hai Aur ALLAh ka hum tasawur nhi ker saktey kyon k Allah ney humain Takhleek kiya hai ,, aur ye jis ney sawal kiya hai i want to Report this thread
 

Star24

مبتدی
شمولیت
فروری 10، 2014
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
18
مسلمان اللہ تعالی کے متعلق کیسا خیال کرے ۔

مسلمان کواللہ تعالی کے متعلق کیسا خیال کرنا چاہۓ ؟

مجھے اس بات کا علم ہے کہ اللہ تعالی کودیکھنا ممکن نہیں تو کیا میں اللہ تبارک و تعالی کوآدمی کی شکل وہیئت کا خیال کروں یا کہ اللہ تبارک وتعالی نور ہے ؟

اس مسئلہ کے متعلق آپ میرا تعاون فرمائيں اللہ تعالی آپ کوجزاۓ خیر عطا فرماۓ .

الحمد للہ :

اللہ تبارک وتعالی کا کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ اللہ تعالی کی مثل کوئ نہیں اوروہ سننے والا دیکھنے والا ہے }

تو اس اللہ تعالی کی نہ تو کوئ مثل ہے اورنہ ہی کوئ شبیہ ہے اورنہ ہی اس کا کوئ ہمسر اورنہ شریک ہے ۔ اور وہ اللہ عزوجل مخلوق کی مماثلت سے منزہ اورپاک ہے ، تو اللہ تعالی کے متعلق ابن آدم کے ذہن میں جو بھی آتا ہے وہ اس سے بھی اعظم اور بڑھ کر ہے ، اورمخلوق کے لۓ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ جل وعلا کا احاطہ کرسکے اوراس کی صورت کا خیال بھی ذہن میں لا سکے ۔

Masha AllAh

JazaKum ALLAH Khair



اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورمخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہوسکتا }

اورپھراصل میں مسلمان تواس کا مکلف ہی نہیں کہ وہ اللہ تبارک وتعالی کا تخیل لاۓ اوریا اس کا تصورکرے ، بلکہ اس پر واجب تویہ ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی کی صفات علی اس طرح ہیں جس طرح کہ اس کی عظمت و جلال کےشایان شان اوراس کے لائق ہیں ان صفات میں اس کی کوئ مماثلت نہیں کرسکتا ۔

اور مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالی کو نہیں دیکھا جا سکتا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

{ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں } بلکہ اللہ تعالی کومومن لوگ آخرت میں میدان محشرکے اندر اوراسی طرح جنت میں بھی دیکھیں گے ۔

حدیث میں وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا کہ کیا آپ نے اپنے رب کودیکھا ہے ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں نے نور دیکھا ، اوردوسری روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نور کوکیسے دیکھ سکتاہوں ۔ صحیح مسلم ۔

اوریہ اللہ تعالی کے اس قول کے موافق ہے جوکہ موسی علیہ السلام کو کہا تھا اور اس کا ذکر سورۃ اعراف میں موجود ہے { لن ترانی } تومجھے نہیں دیکھ سکتا " یعنی دنیا میں نہیں دیکھ سکتا ۔

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے علاوہ کسی نے بھی اللہ تعالی کواپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ، توجب روزقیامت میدان محشر میں مومن لوگ اللہ تعالی کودیکھیں گے تو اللہ تعالی کی عظمت وجلال کی وجہ سے سجدہ میں گر پڑیں گے ، اور اسی طرح جنت میں سب سے بڑی اور عظیم نعمت اللہ تعالی کا دیدار ہوگا جو کہ اہل جنت کو مطلقا عطا کی جاۓ گی ۔

تواس لۓ میرے بھائ آپ اللہ تعالی کو ان اسماء اور صفات سے پہچانیں جن کی خبر اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن کریم میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ، اوراپنے آپ کو اس چیز کی طرف نہ لے جائيں جس کے آّّپ مکلف ہی نہیں اور جس کی آپ میں طاقت نہیں ، اور وہ کام کریں جن کا اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے ، اور آپ شیطانی وسوسوں کوچھوڑ دیں اللہ تعالی آپ کو وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرماۓ جس میں اس کی رضاہو ۔ آمین

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میں جواب دینے سے پہلے استوی کے بارے اہل حدیث کے نظریے کو بیان کر دوں جو موجودہ سوال کی قبیل سے ہے


الاستواء معلومٌ ، والكيف مجهولٌ ، والإيمان بـــه واجبٌ ، والسؤال عنه بدعةٌ ".​
" الإستواء غير مجهول - والكيف غير معقول - والإيمان به واجب - والسؤال عنه بدعة " .
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية بعد قول مالك : " وهذا الجواب ثابتُ عن ربيعة شيخ مالك , وقد روي هذا الجواب عن أم سلمة رضي الله عنها موقوفاً ومرفوعاً ولكن ليس في إسناده مما يعتمد عليه , وهكذا سائر قولهم يوافق مالك " [ مجموع الفتاوى ] : ( 5/365 ) .
تخریج:
رواه اللالكائي في [ شرح السنة ] : ( 664 ) . والبهقي في : [ الأسماء والصفات ] : ( 867 ) . وقال الحافظ في : [ الفتح ] : ( 13/407 ) << إسناده جيد >> . ورواه الدارمي في : [ الرد على الجهمية ] : ( 104 ) . وابن عبد البر في : [ التمهيد ] : ( 7/151 ] .

معلوم: أي: معناه في لغة العرب ، ومن ظن أن معنى " معلوم " أي: موجود مذكور في القرآن فهو جاهل كما قال شيخ الإسلام رحمه الله " مجموع الفتاوى" ( 5/149) و (13/309). الكيف مجهول : فيه اثبات الكيف لكنه مجهول بالنسبة لنا . والإيمان به واجب : الإيمان بالكيف . والسؤال عنه بدعة : أي : السؤال عن الكيف

خلاصہ:
استوی تو معلوم ہے (معلوم سے مراد کیفیت کا علم نہیں بلکہ لغت میں معنی کا علم ہے) مگر کیفیت مجہول ہے یعنی کیفیت ہے تو سہی مگر ہمیں اسکا علم نہیں اور اس (کیفیت) پر ایمان واجب ہے جبکہ اس (کیفیت) بارے سوال بدعت ہے
سوال و جواب

اہل حدیث کے ہاں اللہ کے کتنے ہاتھ ہیں ؟؟
اوپر وضاحت کے پس منظر میں یہ عرض ہے کہ اہل حدیث معلوم چیز کا تو بتا سکتے ہیں اور غیر معلوم چیز کے بارے سوال کرنے کو بدعت جانتے ہیں
پس جیسے استواء تو معلوم تھا پس ہم نے اسکو بیان کیا مگر اسکی کیفیت کا بیان غیر معلوم تھا تو اسکے بارے جواب تو دور کی بات سوال کرننے والے کو ہی بدعتی سمجھتے ہیں
اسی طرح اللہ کے ہاتھ ہونے کا ہمیں علم ہے تو ہم اسکو بیان کرتے ہیں مگر تعداد کا تعین قرآن و حدیث میں نہ ہونے کی وجہ سے اسکے بارے سوال کو بدعت کہتے ہیں تو جواب کیسے دے سکتے ہیں
محترم خضر حیات بھائی اصلاح کر دیں جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
الله تعالى کا ارشاد "يد الله فوق أيديهم" (اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے ) کی تفسیر

( جلد کا نمبر 3، صفحہ 83)



تفسير فرمانِ الہی: يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ﺍﻥ ﻛﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺍللہ کا ﮨﺎﺗﮫ ﮨﮯ :

عبد العزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے برادر محترم جناب...کے نام۔ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته. حمد و صلوٰۃ کے بعد!

آپ کے استفتاء کے حوالے سے جو إدارة البحوث العلمية والإفتاء کے نام برقم 3137 بتاريخ 11 / 7 / 1408 هـ ہے جس کی عبارت حسب ذیل ہے: ہم ابو ہیثم تيهان نامی علاقے کی ایک مسجد میں تفسیر کے ايک حلقۂ درس میں تھے، جو کویت میں ایک صلیبی (عيسائي) علاقہ ہے ، مسجد کے إمام صاحب الله تعالى کے اس ارشاد مبارک کی تفسیر کر رہے تھے، ﺍﻥ ﻛﮯﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺍللہ کا ﮨﺎﺗﮫ ﮨﮯاس نے کہا : کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ کہ "ان پر الله کا احسان ہے " نیز کہا گیا ہے کہ " الله تعالی کی قوت ان کے ساتھ ہے" اور کہا گیا ہے کہ "الله تعالی ان کے حال اور ان کی نیتوں پر مطلع ہے" تو ہمارے دینی بھائیوں میں سے ایک نوجوان نے تقریر کے اختتام پر بات کی اور کہا، آپ کی یہ تفسیر تو اہل سنت و جماعت کے عقیدے کے موافق نھیں ہے، بلکہ یہ تو اشعری لوگوں کا کلام ہے ، اس پر امام صاحب ناراض ہوگئے، اور بولے یہ تو ماوردی اور ابن کثیر کی کتاب میں موجود ہے، تو اس جوان نے اس کا رد کیا، اور بولا یہ امام ابن کثیر کی کتاب میں نہیں ہے، یہ تو ماوردی اشعري کی کتاب میں ہے، جب عوام نے دیکھا کہ شیخ غصہ میں ہیں، تو لوگ بھی طیش میں آگئے، بلکہ بعض نے اس جوان کو یہاں تک کہہ دیا کہ "تم تو عیسائی ہو یا تم بدھ مت کے آدمی ہو"، اگر روک تھام نہ کی گئی ہوتی، تو کچھ لوگ تو اسے مار پیٹ بھی ديتے، اور الله جانتا ہے کہ اس جوان نے مسلمانوں کے عقیدے پر غیرت کی وجہ سے ہی کلام کیا، اور اس لئے بھی کہ وضاحت کو وقت ضرورت سے موخر کرنا درست نہیں ہے. اس نوجوان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو عوام اس پر متفق ہوجائے گی. لہٰذا آپ ارشاد فرمائیں اور ہم آپ کے جواب کے منتظر ہیں۔ الله تعالی آپ کو ہماری طرف سے اور تمام مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر سے نوازے۔
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 84)

میں آپ کو واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم اللہ تبارک و تعالی کے صفت "ید" اور دیگر ان صفات کو بھی ثابت کرتے ہیں، اور اس کا عقیدہ رکھتے ہیں جن کو اللہ تعالی نے اپنی مبارک کتاب میں ذکر فرمایا ہے، یا اس کے رسول حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے اپنی سنت مطہرہ میں ثابت فرمایا ہے، انہیں اللہ تبارک و تعالی کے لئے حقیقی طور پر ثابت کرنا جو اللہ تبارک و تعالی کی عظمت شان اور اس کی بزرگی کے لائق ہے، نہ اس میں کوئی تحريف ہوگی، نہ انہیں بے معنی رکھا جائے گا، نہ اس کی کیفیت کے بارے میں بات کی جائے گی، اور نہ اس کی مثال دی جائے گی.

اور ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی طرح کوئی چیز نہیں ہے، اور وہ سنتا، دیکھتا ہے، ہم ایسی کسی بات کو اللہ تعالی کی ذات سے نفی نہیں کرتے ہیں، جسے اس نے خود اپنے لئے ثابت فرمایا ہے، اور ہم کلام میں تحریف نہیں کرتے ہیں، نہ کیفیت بيان کرتے ہيں، اور نہ اس کی صفات کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دیتے ہیں؛ کیونکہ اللہ سبحانه و تعالی کا نہ کوئی ہم نام ہے، نہ کوئی اس کے برابر ہے، اور نہ کوئی اس کے مد مقابل ہے، اور اللہ سبحانه وتعالى کو اس کی مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے. جس طرح اس کی ذات حقیقی ہے اور اس کی مخلوق کی ذاتوں کے مشابہ نہیں ہے، اسی طرح اس کی صفات بھی حقیقی ہیں اور اس کی مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں. واضح رہے کہ خالق سبحانه و تعالی کے لئے صفات کو ثابت کرنے سے مخلوق کی صفات سے مشابہت لازم نہیں آتی ہے، اور یہی صحابہ کرام اور تابعین عظام اور سلف صالحین کا مذھب ہے، اور یہی مذہب تینوں بابرکت زمانوں میں رہا، اسی طرح یہی مذہب ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا ہے، بلکہ آج تک متاخرین میں سے جو ان کے طریقوں پر چلتے ہیں ان کا بھی مذہب ہے.

شيخ الإسلام ابن تیمیہ - رحمه الله - اس بارے میں رقم طراز ہیں کہ کئی لوگوں نے سلف کا اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ صفات باري جل وعلا ظاہر پر ہی رکھے جائیں گے، لیکن کیفیت اور تشبیہ کی نفی کی جائے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ صفات کے بارے میں گفتگو دراصل ذات کے بارے میں گفتگو کی فرع ہے، اور جو حکم ذات کا ہے وہی حکم فرع کا بھی ہے، اور جو بات ذات میں کہی جائے گی وہی بات فرع میں بھی کہی جائے گی، لہٰذا جب ذات ثابت کرنے سے کیفیت کا اثبات لازم نہیں آتا ہے، تو اسی طرح صفات کو ثابت کرنے سے بھی کیفیت کا اثبات لازم نہیں آتا ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں الله سبحانه و تعالی کے لئے يد [ہاتھ] ہے، اور وہ صفت سمع سے بھی متصف ہے، لیکن ہم ہرگز یہ نہیں کہتے ہیں کہ ید کا معنی قدرت ہے یا سمع کا معنی علم ہے. اس کے بعد انہوں نے اللہ تعالی کے لئے صفت ید کے اثبات پر اللہ تعالی کے ارشادات سے استدلال فرمایا،

چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

ﺍﻭﺭﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻧﮩﯽ ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﻛﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻥ ﭘﺮﻟﻌﻨﺖ ﻛﯽ ﮔﺌﯽ،ﺑﻠﻜﮧ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﻛﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺧﺮﭺﻛﺮﺗﺎ ﮨﮯ اور

اللہ تعالى نے ابليس کو فرمایا :

ﺗﺠﮭﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﻛﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻛﺲ ﭼﯿﺰ ﻧﮯ ﺭﻭکا ﺟﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﯿﺎ ؟نیز الله سبحانه وتعالى کا ارشاد ہے : ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯﺟﯿﺴﯽ ﻗﺪﺭ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﻛﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﯽ، ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻣﯿﻦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺍﺱﻛﮯ ﺩﺍﮨﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ

( جلد کا نمبر 3، صفحہ 85)

اور فرماتا ہے :

ﺑﮩﺖ ﺑﺎﺑﺮﻛﺖ ﮨﮯ ﻭﮦ ( ﺍللہ ) ﺟﺲ ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﯽ ﮨﮯ اسی طرح ارشاد ہے : ﺗﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﮭﻼﺋﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ، ﺑﮯ ﺷﻚ ﺗﻮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﮨﮯ ۔

اس کے بعد وہ فرماتے ہیں، اس کلام سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے لئے دو يد ہیں، جو اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں، اور دونوں اس کی ذاتی صفت ہیں، جیسا اس کی عظمت شان کے لائق ہے، اور یہ کہ اللہ سبحانه و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے دونوں ید سے پیدا فرمایا، فرشتوں اور ابلیس کو نہیں، اور یہ کہ اللہ سبحانه و تعالی زمین کو پکڑتا ہے، اور وہ اپنے داہنے ہاتھ سے آسمانوں کو لپیٹے گا اور یہ کہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں، اور دونوں کے کھلے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت ہی سخی ہے اور نوازنے والا ہے؛ کیونکہ جود و سخا عموما ہاتھ کھول کر اور دراز کرکے ہی ہوتا ہے، جبکہ جود وسخا کا ترک کبھی ہاتھ کو گردن کی طرف سميٹ کر ہوتا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے: ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﮧ ﺭﻛﮫ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍﺳﮯ ﺑﺎﻟﲁ ﮨﯽ ﻛﮭﻮﻝ ﺩﮮ ﻛﮧ ﭘﮭﺮ ﻣﻼﻣﺖ ﻛﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﺭﻣﺎﻧﺪﮦ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺋﮯ ۔

اور یہ عرف عام کی ایک حقیقت ہوگئی جب یہ کہا جائے کہ "وہ کشادہ دست ہے " تو اس سے حقیقی ہاتھ ہی سمجھا جاتا ہے، وہ - رحمه الله تعالى - مزید فرماتے ہیں کہ لفظ "يدين" تثنیہ کے صیغہ کے ساتھ نعمت یا قدرت کے معنی میں کبھی مستعمل نہیں ہوا، کیونکہ صیغہ واحد کا تثنیہ میں استعمال، یا صیغہ تثنیہ کا واحد کے معنی استعمال کا عربوں کی زبان میں کوئی نام و نشان نہیں ہے، جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا، لہٰذا اللہ تعالی کے ارشاد ﺟﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﯿﺎ ۔ کو قدرت کے معنی پر محمول کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ يہ تو ایک ہی صفت ہے، اور ایک کو دو کہنا جائز نہیں ہے، اور اس سے نعمت بھی مراد لینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ کی نعمتیں تو بے شمار ہیں، اور ان بے شمار نعمتوں کو تثنیہ سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے، اس کے بعد وہ - رحمه الله تعالى - الله تعالی کے لئے صفت ید کے اثبات پر احادیث مبارکہ سے استدلال کرتے ہیں-

اور حضرت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اس حدیث پاک کا حوالہ دیتے ہیں:

انصاف کرنے والے اللہ تعالى کے پاس اسکے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے، اور اسکے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل اور جن کے امور انہیں سونپے گئے ہیں ان میں عدل کرتے ہیں۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روايت کیا ہے۔

اور آپ صلى الله عليه وسلم كا ارشاد :
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 86)

اللہ کا داہنا بھرا ہوا ہے، رات دن کی عطا کرنے سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا، تمہیں اس عطا کے متعلق کیا لگتا ہے جوآسمان و زمین کی تخلیق سے لیکر (اب تک) خرچ کیا،اس سے اللہ کی دائیں ہاتھ ميں جو کچھ ہے اس ميں کوئی کمی نہیں آئی، اور ترازو اسکے دوسرے ہاتھ میں ہے، قیامت كے دن تک بلند کرتا ہے اور نیچے کرتا ہے (بعض لوگوں کو بلند کرے گا اور بعض کو رسوا کرے گا)۔
اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روايت كيا ہے-

اور حضرت أبو سعيد خدری رضي الله عنه سے مروی ہے وہ حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم سے روايت کرتے ہيں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :

قیامت کے دن زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی، اور اللہ رب العزت اسے اپنے ہاتھ سے الٹے پلٹے گا، جیساکہ تم میں سے کوئی شخص اپنے دسترخوان پر روٹی الٹ پلٹ کرتا ہے۔

اور صحيح میں ہی حضرت ابن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے وہ حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم سے نقل کرتے ہیں-

آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :

اللہ عزوجل آسمانوں اور زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں ميں لے گا، اور اپنے ہاتھوں کو بند کرے گا، اور اسے کھولے گا، اور فرمائے گا کہ میں رحمان ہوں، حتی کہ میں نے منبر کی طرف دیکھا کہ وہ نیچے سے ہل رہا تھا، مجھے لگا کہ کہیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیکر نیچے نہ گرجائے. اور ايک روايت ميں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے منبر پر اس آیت کی تلاوت فرمائی : ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯﺟﯿﺴﯽ ﻗﺪﺭ ﺍللہ ﺗﻌﺎلی ﻛﯽ ﻛﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻛﯽ، ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻣﯿﻦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻛﮯ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺩﺍﮨﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﯿﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ، ﻭﮦ ﭘﺎﻙ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺗﺮ ﮨﮯ ﮨﺮ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﺟﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ کا ﺷﺮﯾﻚ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرمائے گا: میں الله ہوں، میں جبار ہوں-

اور صحيح میں ہی حضرت ابو ہریرہ رضي الله عنه سے مروی ہے کہ حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا اللہ زمین کو پکڑے گا اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ سے لپیٹے گا، پھر فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔ زمين کے بادشاہ كہاں ہيں؟

اور ایک صحيح حديث میں ہے :

بے شک اللہ تعالی نے جب آدم کو پيدا فرمایا تو ان سے فرمایا {اور اس کے دونوں ہاتھ بند تھے ان دونوں میں سے کسی ایک کو جسے چاہو اختیار کرو}انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اپنے رب کا داہنا ہاتھ اختیار کیا، اور میرے رب کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں، پھر اللہ نے انہیں کھولا تو اس میں آدم اور انکی ذریت تھی۔

اور صحیح میں ہی ہے بے شک اللہ تعالی نے جب مخلوقات کو پیدا فرمایا تو اپنے ہاتھ سے اپنے آپ پر لکھ دیا کہ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی نیز صحیح میں ہے بے شک جب آدم اور موسی کا آپس میں بحث مباحثہ ہوگیا، تو آدم نے کہا كہ اے موسی؛ اللہ نے آپ کو اپنے کلام سے ممتاز فرمایا، اور تورات کو آپ کے لئے اپنے ہاتھ سے لکھا، اور موسی نے کہا كہ آپ آدم ہیں جسے اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، اور آپ میں اپنی روح پھونکا ہے۔ ایک دوسری حدیث شریف میں ہے کہ اللہ سبحانه و تعالی نے ارشاد فرمایا : میری عزت و جلال کی قسم جس مخلوق کی میں نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا ہے، اس کی نیک ذریت کو اس (مخلوق ) کی طرح نہیں بناوں گا جسے میں نے کہا کہ ہوجا تو وہ ہوگیا۔

اور سنن میں ایک دوسری حدیث شریف ہے :
( جلد کا نمبر 3، صفحہ 87)

جب اللہ تعالی نے آدم کو پیدا فرمایا، اور ان کی پشت پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا، اور آدم سے ان کی ذریت نکالی، اور ارشاد فرمایا: میں نے ان کو جنت کے لئے بنایا ہے، اور یہ جنت والوں كى طرح ہی عمل کریں گے، پھر اپنا دوسرا ہاتھ ان کی پشت پر پھیرا، اور فرمایا: میں نے ان کو جہنم کے لئے بنایا ہے، اور یہ جہنم والوں كى طرح ہی عمل کریں گے۔ شيخ الإسلام - رحمه الله - فرماتے ہیں : "یہ احاديث مبارکہ اور اس طرح کی دیگر احادیث شریف قطعی نصوص ہیں جن میں تاویل کی گنجائش نہیں ہے، اور امت نے انہیں قبول کیا اور ان کی تصدیق کی" اس کے بعد آپ - رحمه الله تعالى - فرماتے ہیں : "کیا یہ جائز ہے کہ قرآن و حدیث "ہاتھ" کے ذکر سے پر ہو اور اس کی حقیقت مراد نہ ہو "اللہ تعالی نے انہیں اپنے ہاتھ سے بنایا"، اور "اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں" اور "بادشاہت اس کے ہاتھ میں ہے " اور اس طرح کی عبارتیں احادیث مبارکہ میں بے شمار ہیں، پھر کیا یہ جائز ہے کہ حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم اور اہل حل و عقد لوگوں سے یہ بیان نہ فرمائیں کہ اس کلام کی حقیقت یا ظاہر مراد نہیں ہیں، پھر صحابہ کرام کا زمانہ ختم ہونے کے بعد جهم بن صفوان آئے، اور لوگوں کے لئے اس وحی کو بیان کرے جو ان کے نبی کی طرف نازل کی گئی ہے، اور پھر بشر بن غياث اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اس میں اس کی پیروی کرنے لگیں جو منافقت کے الزام میں پھنسے ہیں، یہ کس طرح جائز ہے ہمارے نبی تو ہمیں سب کچھ سکھائیں، یہاں تک کہ بیت الخلاء جانے کا بھی طریقہ سکھادیں، اور اس کے بعد یہ ارشاد فرمائیں کہ میں نے جنت کے قریب کرنے والی کسی بات کو نہیں چھوڑا، لیکن اسے کھول کھول کر بیان کردیا، اور میں تمہیں بالکل روشن راستے پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے، اس سے میرے بعد کوئی منحرف نہیں ہوگا لیکن وہی جو ہلاک ہونے والا ہے، یہ سب ہو اور پھر کتاب منزل کو بیان نہ فرمائیں، اور ان کی سنت مطہرہ تو ایسی عبارتوں سے بھری پڑی ہیں، جن کے بارے میں مخالف یہ خیال رکھتا ہے کہ اس کا ظاہر موجب تشبیہ و تجسیم ہے، اور یہ کہ اس کے ظاہر کا عقیدہ رکھنا سراسر گمراہی ہے، اور پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان نہ فرمائیں، اور اس کی وضاحت نہ کریں، اور پھر یہ کیسے جائز ہے کہ سلف یہ کہتے نظر آئیں کہ انہیں اسی طرح گذار دو جس طرح يہ وارد ہيں، جبکہ اس کا مجازی معنی ہی مراد ہو، اور یہ عرب کو ہی سمجھ میں نہ آئے، یہاں تک کہ فارس اور روم کے لوگ مہاجرین اور انصار کے فرزندوں سے زیادہ عربی زبان کو سمجھنے لگیں . ختم شد . اختصار کے ساتھ ماخوذ از مجموع الفتاوى جـ 6 ص 351 تک ، 373 اور جو ہم نے ذکر کیا ہے اس سے سب کو سمجھ میں آرہا ہے کہ جو اس جوان نے ذکر کیا تھا وہی درست ہے .

ہم اللہ تعالی سے دعاء کرتے ہیں کہ قول و عمل میں حق کی رسائی کی توفیق دے، بے شک وہی سننے والا اور قبول فرمانے والا ہے . و السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شرح العقیدۃ الواسطیہ ( ص 301 ط دار ابن الجوزي) میں شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر بڑی نفیس بحث فرمائی ہے لکھتے ہیں :


أجمع السلف على أن لله يدين اثنتين فقط بدون زيادة.
فعندنا النص من القرآن والسنة والإجماع على أن لله تعالى يدين اثنتين، فيكف نجمع بين هذا وبين الجمع: {مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا} [يس: 71] ؟!
فنقول الجمع على أحد الوجهين:
فإما أن نقول بما ذهب إليه بعض العلماء، من أن أقل الجمع اثنان، وعليه، فـ {أَيْدِينَا} لا تدل على أكثر من اثنتين، يعني: لا يلزم أن تدل على أكثر من اثنين، وحينئذ تطابق التثنية: {بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ} ، ولا إشكال فيه.
فإذا قلت: ما حجة هؤلاء على أن الجمع أقله اثنان؟
فالجواب: احتجوا بقوله تعالى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} [التحريم: 4] ، وهما اثنتان، والقلوب جمع، والمراد به قلبان فقط، لقوله تعالى: {مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ}
[الأحزاب: 4] ، ولا لامرأة كذلك.
واحتجوا أيضاً بقول الله تعالى: {فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ} [النساء: 11] ، فـ {إِخْوَةٌ} جمع، والمراد به اثنان.
واحتجوا أيضاً بأن جماعة الصلاة تحصل باثنين.
ولكن جمهور أهل اللغة يقولون: إن أقل الجمع ثلاثة، وإن خروج الجمع إلى الاثنين في هذه النصوص لسبب، وإلا فإن أقل الجمع في الأصل ثلاثة.
وإما أن نقول: إن المراد بهذا الجمع التعظيم، تعظيم هذه اليد وليس المراد أن لله تعالى أكثر من اثنتين.
ثم إن المراد باليد هنا نفس الذات التي لها يد، وقد قال الله تعالى: {ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ} [الروم: 41] ، أي: بما كسبوا، سواء كان من كسب اليد أو الرجل أو اللسان أو غيرها من أجزاء البدن، لكن يعبر بمثل هذا التعبير عن الفاعل نفسه.
ولهذا نقول: إن الأنعام التي هي الإبل لم يخلقها الله تعالى بيده، وفرق بين قوله: {مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا} ، وبين قوله: {لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ} ، فـ: {مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا} ، كأنه قال: مما عملنا، لأن المراد باليد ذات الله التي لها يد، والمراد بـ {بِيَدَيَّ} : اليدان دون الذات.
وبهذا يزول الإشكال في صفة اليد التي وردت بالإفراد والتثنية والجمع.
فعلم الآن أن الجمع بين المفرد والتثنية سهل، وذلك أن هذا مفرد مضاف فيعم كل منا ثبت لله من يد.
وأما بين التثنية والجمع، فمن وجهين:
أحدهما: أنه لا يراد بالجمع حقيقة معناه ـ وهو الثلاثة فأكثر ـ بل المراد به التعظيم كما قال الله تعالى: {إنَّا} و {نَحْنُ} و {وقُلْنَا} .... وما أشبه ذلك، وهو واحد، لكن يقول هذا للتعظيم.
أو يقال: إن أقل الجمع اثنان، فلا يحصل هنا تعارض.
وأما قوله تعالى: {وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ} [الذاريات: 47] ، فالأيد هنا بمعنى القوة، فهي مصدر آد يئيد، بمعنى: قيد، وليس المراد بالأيد صفة الله، ولهذا ما أضافها الله إلى نفسه، ما قال: بأيدينا! بل قال: {بِأَيْدٍ} ، أي: بقوة.

اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں ۔
جس کے دلائل قرآن مجید اور احادیث کے اندر موجود ہیں :
مثلا سورہ آل عمران کی آیت ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ۔
اسی طرح شیطان کو اللہ نے کہا تھا کہ ہم نے آدم کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا فرمایا ہے ۔
حدیث کے اندر آتا ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ۔
اورسلف صالحین کا اس بات پر اجماع بھی آیا ہے کہ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں ۔
پھر کچھ اشکالات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
بعض نصوص میں صرف لفظ ’’ ید ‘‘ یعنی واحد کے صیغہ کے ساتھ آیا ہے اسی طرح بعض جگہ جمع کے صیغہ کے ساتھ آیا ہے ۔
حالانکہ سلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ کے ہاتھ دو ہیں ۔
تو جہاں واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے وہ صیغہ اگرچہ واحد کا ہے لیکن مراد اس سے واحد نہیں اور عربی زبان میں یہ اسلوب عام ہے کہ واحد بول کر زیادہ مراد لی جاتی ہے ۔
لہذا اب واحد سےمراد ’’ ایک ‘‘ نہیں تو کتنے ہیں تو اس کی تفسیر دیگر قرآنی آیات و احادیث سے ہوجاتی ہے کہ یہاں مراد ’’ دو ‘‘ ہیں ۔
جہاں جمع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے وہاں بھی ’’ دو ‘‘ ہی مراد ہیں کیونکہ عربی زبان میں یہ اسلوب بھی موجود ہے کہ جمع کا صیغہ بول کر ’’ تثنیہ ‘‘ مراد لیا جاتا ہے ۔
تو خلاصہ یہ نکلا کہ قرآن وسنت کی نصوص اور فہم سلف کی روشنی میں اللہ کے ’’دو ہاتھ ‘‘ ہی ثابت ہیں ۔
واللہ اعلم
 
Top