میں جواب دینے سے پہلے استوی کے بارے اہل حدیث کے نظریے کو بیان کر دوں جو موجودہ سوال کی قبیل سے ہے
الاستواء معلومٌ ، والكيف مجهولٌ ، والإيمان بـــه واجبٌ ، والسؤال عنه بدعةٌ ".
" الإستواء غير مجهول - والكيف غير معقول - والإيمان به واجب - والسؤال عنه بدعة " .
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية بعد قول مالك : " وهذا الجواب ثابتُ عن ربيعة شيخ مالك , وقد روي هذا الجواب عن أم سلمة رضي الله عنها موقوفاً ومرفوعاً ولكن ليس في إسناده مما يعتمد عليه , وهكذا سائر قولهم يوافق مالك " [ مجموع الفتاوى ] : ( 5/365 ) .
تخریج:
رواه اللالكائي في [ شرح السنة ] : ( 664 ) . والبهقي في : [ الأسماء والصفات ] : ( 867 ) . وقال الحافظ في : [ الفتح ] : ( 13/407 ) << إسناده جيد >> . ورواه الدارمي في : [ الرد على الجهمية ] : ( 104 ) . وابن عبد البر في : [ التمهيد ] : ( 7/151 ] .
معلوم: أي: معناه في لغة العرب ، ومن ظن أن معنى " معلوم " أي: موجود مذكور في القرآن فهو جاهل كما قال شيخ الإسلام رحمه الله " مجموع الفتاوى" ( 5/149) و (13/309). الكيف مجهول : فيه اثبات الكيف لكنه مجهول بالنسبة لنا . والإيمان به واجب : الإيمان بالكيف . والسؤال عنه بدعة : أي : السؤال عن الكيف
خلاصہ:
استوی تو معلوم ہے (معلوم سے مراد کیفیت کا علم نہیں بلکہ لغت میں معنی کا علم ہے) مگر کیفیت مجہول ہے یعنی کیفیت ہے تو سہی مگر ہمیں اسکا علم نہیں اور اس (کیفیت) پر ایمان واجب ہے جبکہ اس (کیفیت) بارے سوال بدعت ہے
سوال و جواب
اہل حدیث کے ہاں اللہ کے کتنے ہاتھ ہیں ؟؟
اوپر وضاحت کے پس منظر میں یہ عرض ہے کہ اہل حدیث معلوم چیز کا تو بتا سکتے ہیں اور غیر معلوم چیز کے بارے سوال کرنے کو بدعت جانتے ہیں
پس جیسے استواء تو معلوم تھا پس ہم نے اسکو بیان کیا مگر اسکی کیفیت کا بیان غیر معلوم تھا تو اسکے بارے جواب تو دور کی بات سوال کرننے والے کو ہی بدعتی سمجھتے ہیں
اسی طرح اللہ کے ہاتھ ہونے کا ہمیں علم ہے تو ہم اسکو بیان کرتے ہیں مگر تعداد کا تعین قرآن و حدیث میں نہ ہونے کی وجہ سے اسکے بارے سوال کو بدعت کہتے ہیں تو جواب کیسے دے سکتے ہیں
محترم
خضر حیات بھائی اصلاح کر دیں جزاک اللہ خیرا