- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
پانچویں قسم
فقہائے حنفیہ کے نزدیک پانچویں قسم آپ کے ان افعال پر مشتمل ہے جو قرآن کی کسی نص کابیان ہوں۔آپۖ کے ان افعال کا وہی حکم ہوگا جو کہ اصل یعنی مبیَّن کا ہوگا۔امام جصاص فرماتے ہیں:
٭مذکورہ بالا بحث میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کسی مجمل نص کے بیان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افعال اباحت کے درجے میں ہیں کہ ان کے ارتکاب پر ثواب کا عقیدہ نہیں رکھا جائے گا۔
٭دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض اوقات آپ کے جبلی افعال بھی قرآن کی ان نصوص کے بیان سے متعلق ہوتے ہیں کہ جن کا اصل حکم وجوب یا استحباب کے درجے کا ہوتا ہے 'لہٰذا آپ کے یہ جبلی ا فعال کم از کم استحباب کا درجہ ضرور رکھتے ہیں۔
فقہائے حنفیہ کے نزدیک پانچویں قسم آپ کے ان افعال پر مشتمل ہے جو قرآن کی کسی نص کابیان ہوں۔آپۖ کے ان افعال کا وہی حکم ہوگا جو کہ اصل یعنی مبیَّن کا ہوگا۔امام جصاص فرماتے ہیں:
اما م جصاص نے اس بات کو بھی واضح کیاہے کہ اگر کسی مجمل نص کاحکم وجوب کاہے تو یہ لازم نہیں ہے کہ اس نص کے بیان میں آپ کے ہر ہر فعل کا حکم بھی وجوب کا ہی ہو'یعنی اس نص کے بیان میں بعض افعال کا حکم تووجوب کا ہی ہو گا لیکن بعض افعال مندوب یا مباح بھی ہوں گے۔جیسا(اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ) کا مجمل حکم تو وجوب کاہے لیکن آپ نے اس کے بیان میں جو بھی افعال مثلاً رکوع' سجدہ' قومہ' جلسہ استراحت' تکبیرات' تسبیحات' قعدہ وتشہد وغیرہ کیے ہیں وہ سب واجب نہیں ہیں۔یعنی نماز کے تمام افعال وجوب کا درجہ نہیں رکھتے ہیں۔''آپ کا فعل کسی مجمل نص کا بیان بن رہا ہو اور اس مجمل نص کا حکم وجوب' ندب یا اباحت کا ہو تو جو حکم اس مجمل نص کا ہو گا وہی حکم آپ کے فعل کابھی ہو گا۔اگر اس مجمل نص کا حکم وجوب کا ہے تو اس نص کے بیان میں جو آپ کا فعل ہوگا وہ بھی واجب ہوگا۔اور اگر وہ مجمل نص مندوب کے درجے میں ہو تو اس کے بیان میں آپ کا فعل بھی مندوب ہوگااوراگر وہ مجمل نص مباح کا درجہ رکھتی ہو تو اس کے بیان میں آپ کا فعل بھی مباح ہو گا…چنانچہ جب آپۖ کا فعل کسی مجمل نص کا بیان بن رہا ہو اور وہ واجب کے درجے میں ہوتو اس کی مثال فرض نمازوں کی رکعات ہیں جو کہ قرآن کی مجمل نص(اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ) کا بیان ہیں۔اسی طرح حج میں آپ کے افعال(وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ)کی مجمل نص کا بیان ہیں۔اسی طرح ایک ایسی مجمل نص جو کہ مندوب کے حکم میں ہو اس کے بیان کی مثال(وَافْعَلُو الْخَیْرَ) اور(اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ) ہے' کیونکہ تمام قسم کی بھلائیوں پر عمل واجب نہیں ہے اور اسی طرح تمام قسم کے احسانات جو کہ آپ نے کیے ہیں وہ بھی واجب نہیں ہیں 'جیسا کہ نفلی صدقات اور نفلی نماز وغیرہ''۔(٣٠)
٭مذکورہ بالا بحث میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کسی مجمل نص کے بیان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افعال اباحت کے درجے میں ہیں کہ ان کے ارتکاب پر ثواب کا عقیدہ نہیں رکھا جائے گا۔
٭دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض اوقات آپ کے جبلی افعال بھی قرآن کی ان نصوص کے بیان سے متعلق ہوتے ہیں کہ جن کا اصل حکم وجوب یا استحباب کے درجے کا ہوتا ہے 'لہٰذا آپ کے یہ جبلی ا فعال کم از کم استحباب کا درجہ ضرور رکھتے ہیں۔