• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل سنت کا تصور سنت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پانچویں قسم
فقہائے حنفیہ کے نزدیک پانچویں قسم آپ کے ان افعال پر مشتمل ہے جو قرآن کی کسی نص کابیان ہوں۔آپۖ کے ان افعال کا وہی حکم ہوگا جو کہ اصل یعنی مبیَّن کا ہوگا۔امام جصاص فرماتے ہیں:
''آپ کا فعل کسی مجمل نص کا بیان بن رہا ہو اور اس مجمل نص کا حکم وجوب' ندب یا اباحت کا ہو تو جو حکم اس مجمل نص کا ہو گا وہی حکم آپ کے فعل کابھی ہو گا۔اگر اس مجمل نص کا حکم وجوب کا ہے تو اس نص کے بیان میں جو آپ کا فعل ہوگا وہ بھی واجب ہوگا۔اور اگر وہ مجمل نص مندوب کے درجے میں ہو تو اس کے بیان میں آپ کا فعل بھی مندوب ہوگااوراگر وہ مجمل نص مباح کا درجہ رکھتی ہو تو اس کے بیان میں آپ کا فعل بھی مباح ہو گا…چنانچہ جب آپۖ کا فعل کسی مجمل نص کا بیان بن رہا ہو اور وہ واجب کے درجے میں ہوتو اس کی مثال فرض نمازوں کی رکعات ہیں جو کہ قرآن کی مجمل نص(اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ) کا بیان ہیں۔اسی طرح حج میں آپ کے افعال(وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ)کی مجمل نص کا بیان ہیں۔اسی طرح ایک ایسی مجمل نص جو کہ مندوب کے حکم میں ہو اس کے بیان کی مثال(وَافْعَلُو الْخَیْرَ) اور(اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ) ہے' کیونکہ تمام قسم کی بھلائیوں پر عمل واجب نہیں ہے اور اسی طرح تمام قسم کے احسانات جو کہ آپ نے کیے ہیں وہ بھی واجب نہیں ہیں 'جیسا کہ نفلی صدقات اور نفلی نماز وغیرہ''۔(٣٠)
اما م جصاص نے اس بات کو بھی واضح کیاہے کہ اگر کسی مجمل نص کاحکم وجوب کاہے تو یہ لازم نہیں ہے کہ اس نص کے بیان میں آپ کے ہر ہر فعل کا حکم بھی وجوب کا ہی ہو'یعنی اس نص کے بیان میں بعض افعال کا حکم تووجوب کا ہی ہو گا لیکن بعض افعال مندوب یا مباح بھی ہوں گے۔جیسا(اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ) کا مجمل حکم تو وجوب کاہے لیکن آپ نے اس کے بیان میں جو بھی افعال مثلاً رکوع' سجدہ' قومہ' جلسہ استراحت' تکبیرات' تسبیحات' قعدہ وتشہد وغیرہ کیے ہیں وہ سب واجب نہیں ہیں۔یعنی نماز کے تمام افعال وجوب کا درجہ نہیں رکھتے ہیں۔
٭مذکورہ بالا بحث میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کسی مجمل نص کے بیان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افعال اباحت کے درجے میں ہیں کہ ان کے ارتکاب پر ثواب کا عقیدہ نہیں رکھا جائے گا۔
٭دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض اوقات آپ کے جبلی افعال بھی قرآن کی ان نصوص کے بیان سے متعلق ہوتے ہیں کہ جن کا اصل حکم وجوب یا استحباب کے درجے کا ہوتا ہے 'لہٰذا آپ کے یہ جبلی ا فعال کم از کم استحباب کا درجہ ضرور رکھتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
چھٹی قسم
چھٹی قسم آپ کے ان افعال پر مشتمل ہے جو کہ آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں۔آپ کے ان افعال میں بھی بالاتفاق اتباع نہیں ہے۔علامہ علاؤ الدین بخاری لکھتے ہیں:
''(اور آپ کے افعال میں آپ کی اتباع کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے) کہ وہ فعل آپ کی ذات سے مخصوص نہ ہو' جیسا کہ چاشت اور تہجد کی نماز کا آپ کے حق میں واجب ہونا یا آپ کوچار سے زائدنکاح کی اجازت ہونااور مال غنیمت کا کچھ حصہ اپنے لیے خاص کر لینا اور 'خمس' کا پانچواں حصہ وغیرہ۔کیونکہ ان افعال میں آپ کے ساتھ امت کے شریک ہونے کی بالاتفاق کوئی دلیل نہیں ہے''۔(٣٢)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوال: برصغیر پاک وہند میں حنفیہ کے علاوہ اہل الحدیث کی ایک بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے ۔کسی اہل حدیث عالم دین کی اس مسئلے میں اصولی گفتگو پر روشنی ڈالیں۔
جواب: شیخ صالح العثیمین کے شاگرد دکتورخالد بن علی المشیقح٭' اصولِ فقہ پر ان کی منظوم کتاب کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
واعلم أن أفعال النبیۖ تنقسم لی ثلاثة أقسام: القسم الأول: ما فعلہ النبیۖ علی وجہ القربة و الطاعة...القسم الثانی: ما فعلہ النبیۖ لا علی وجہ القربة والطاعة وھذا تحتہ أقسام: القسم الأول: ما فعلہ النبیۖ بمقتضی الجبلة و الطبیعة فھذا فی حد ذاتہ لا یتعلق بہ أمر ولا نھی فلا تقول للنسان نک تفعل کذا أو لا تفعل کذا...الخ .مثال ذلک: نوم النبیۖ و أکلہ و شربہ ونکاحہ...لخ . لکن ھیئات مثل ھذہ الأشیاء قد یتعلق بھا أمر أونھی فالأکل قد یتعلق بہ أمر وقد یتعلق بہ نھی کالأکل بالیمین' و الشرب بالیمین' والتسمیة' والحمدلة' ولا یأکل مایضرہ...لخ .وکذلک النوم فانہ ینام علی طھارة' و علی جنبہ الأیمن' ویذکر أذکار النوم...لخ. وأما ذات النوم' وذات الأکل والشرب...لخ . فھذہ الأشیاء فعلھا النبیۖ جبلة فلا یتعلق بھا أمر أو نھی۔القسم الثانی: ما فعلہ النبیۖ علی وجة العادة فھذا أیضا مباح: مثل کیفیة الأکل' والشرب و اللباس ھذہ من قبیل العادات لکن الشارع قد یأمر ببعض الکیفیات و ینھی عن بعض' مثل أن یأکل کذا' أو یشرب کذا' أو یأکل علی ھذہ الھیئة أو ینام علی ھذہ الھیئة...لخ. ما فعلہ النبیۖ علی سبیل العادة ھذا لا نقول بأن النسان مأمور أن یتابع النبیۖ فی ھذہ الأشیاء فنہ لا یتعلق بھا أمر أو نھی' بل السنة للنسان أن یفعل العادة فی المکان والزمان الذی ھو فیہ ما لم یخالف الشرع. یعنی یوافق أھل بلدہ فی عادتھم۔مثال ذلک: النبی ۖ لبس العمامة لکن عادة الناس فی مثل ھذا البلد أنھم یلبسون عمامة' والسنة أن النسان یوافق الزمان والمکان الذی ھو موجود فیہ کلبس الشماغ أو الغترة...لخ فیوافقھم فی ذلک ما لم بخالف الشرع' لأنہ لو خالف الناس لأصبح لباسہ لباس شھرہ۔وأیضا: النبیۖ رکب الخیل والحمار والناس الآن فی ھذا البلدلا یرکبون الخیل و الحمار...لخ فھل نقول بأنک توافق النبیۖ فی عادتہ' أو نقول لہ ارکب السیارة مثل فعل الناس؟ والسنة أن یترک مثل ھذہ الأشیاء و یفعل ما یفعلہ الناس' لأن کونہ یوافق الناس ھذہ یبعدہ عن الشھرة و کونہ یرکب الخیل ویقول أرید أن أقتدی بالنبیۖ نقول: ھذا من قبیل العادات و النبیۖ فعل مایوافق أھل بلدہ و زمانہ وأنت السنة أن توافق زمانک و مکانک(٣٣)
''جان لو! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال تین قسم پر ہیں۔پہلی قسم ان افعال کی ہے جن کو آپۖ نے اللہ کی عبادت و اطاعت کے لیے کیا...دوسری قسم ان افعال کی ہے کہ جن کو آپ نے اللہ کی عبادت و اطاعت کے پہلو سے نہیں کیا۔اس دوسری قسم کی پھر کئی ایک اقسام ہیں۔پہلی قسم تو وہ افعال ہیں جن کا جبلت اور طبیعت تقاضا کرتی ہے۔پس اس قسم کے افعال کے ساتھ کوئی امر یا نہی لاحق نہیں ہوتی۔پس آپ کسی بھی شخص کو اس قسم کے افعال میں یہ نہیں کہیں گے کہ تم ایسا کرو یا تم ایسا نہ کرو۔اس کی مثال اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کا سونا' کھانا' پینا اور نکاح کرنا وغیرہ ہے۔یہ واضح رہے کہ ان افعال کی بعض ہیئات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے ساتھ کوئی نہ کوئی امر یا نہی لاحق ہو تی ہے۔پس کھانے کے فعل کے ساتھ بعض اوقات کوئی امر متعلق ہوتا ہے اور بعض اوقات کوئی نہی لاحق ہوتی ہے۔مثلاً دائیں ہاتھ سے کھانا' دائیں ہاتھ سے پینا' کھانے' پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ' کھانے پینے کے بعد الحمد للہ کہنا' ایسی چیز نہ کھانا جو کہ مضرت رساں ہو(لہٰذا ان صفات کے ساتھ کھانا ' پینا مستحب ہے)۔اسی طرح سونے کے فعل میں یہ مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوضو اور دائیں پہلو پر سوتے تھے(لہٰذا اس طرح سے سونا مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے)۔اور سونے سے پہلے ذکر اذکار کرتے تھے۔ جہاں تک مجر د سونے یا کھانے کے فعل کا تعلق ہے توآپ نے یہ افعال جبلی تقاضے کے تحت کیے تھے لہٰذا ان کے ساتھ کوئی امر یا نہی متعلق نہیںہے۔دوسری قسم ان افعال کی ہے جن کو آپ نے عادتاً(رواج کے تحت) کیاہو۔ یہ افعال بھی مباح ہیں۔مثلا کھانے ' پینے اور لباس کی کیفیات وغیرہ عادات کی قبیل سے ہیں۔لیکن بعض اوقات شارع بعض افعال میںبعض کیفیات کے اختیار کا حکم دیتے ہیں اور بعض کیفیات سے منع کرتے ہیں' مثلاً یہ کہ اس طرح سے کھائے یا اس طرح سے پیے یا اس ہیئت کے ساتھ کھائے یا اس ہیئت کے ساتھ سوئے۔پس آپ نے جو کام عادتاً کیے ہیں تو ان افعال کے بارے میں ہم یہ نہیں کہتے کہ انسان کو یہ لازمی حکم ہے کہ ان افعال میں آپ کی پیروی کرے کیونکہ ان افعال کے ساتھ کوئی امر یا نہی لاحق نہیں ہے۔ بلکہ اصل سُنّت تو یہ ہے کہ انسان عادی امور میں اپنے علاقے اور زمانے کے رسم و رواج کے مطابق عمل کرے جب تک کہ وہ رسم و رواج شریعت کے خلاف نہ ہو۔مراد یہ ہے کہ انسان اپنے ملکی رواج کی پیروی کرے ۔اس کی مثال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ پہنناہے۔لیکن اگر کسی شخص کے ملک میں لوگوں کا عرف یہ ہے کہ وہ عمامہ نہیں پہنتے تو انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے اور علاقے کے لوگوں کی موافقت کرے (اور عمامہ پہننے کی بجائے اپنے علاقے کے رواج کے مطابق لباس مثلاً)سعودی رومال وغیرہ پہنے۔پس انسان اپنے علاقے کے لوگوں کی موافقت اس وقت تک کرے گا جب تک شرع کی مخالفت نہ ہوکیونکہ اگر وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لباس کی مخالفت کرے گا تو اس کا لباس شہرت کا لباس بن جائے گا۔اسی طرح آپ نے گدھے اور گھوڑے کی سواری کی جبکہ آج ان علاقوں میں گھوڑوںاور گدھوں کی سواری نہیں ہوتی ۔پس کیا ہم کسی شخص سے یہ کہیں کہ تم آج بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمکی موافقت و اتباع میں گھوڑے یا گدھے کی سواری کرو یا ہم لوگوں سے یہ کہیں کہ آپ اور لوگوں کی طرح گاڑی و غیرہ کی سواری کریںکیونکہ اس مسئلے میں اپنے علاقے کے لوگوں کی موافقت اس شخص کو شہرت سے دور رکھے گی۔اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں گھوڑے پر آج اس لیے سفر کرتا ہوں تاکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کروں تو ہم اس سے یہ کہیں گے کہ آپ نے اپنے فعل کے ذریعے اپنے زمانے اور علاقے کے لوگوں کی موافقت کی(یعنی آپ نے وہ سواری سفر کے لیے اختیار کی جو کہ آپ کے علاقے و زمانے میں رائج تھی مثلاً اونٹ' گھوڑا اور گدھا وغیرہ) اورتمہارے لیے سُنّت یہ ہے کہ تم بھی اپنے فعل میں اپنے زمانے اور علاقے کے لوگوں کی موافقت کرو۔(یعنی سفر کے لیے وہی سواری اختیار کریں جو ان کے علاقے اور زمانے کی سواری ہے 'پس اصل سُنّت اہل زمان و مکان کی موافقت ہوئی نہ کہ آپ کے ظاہری فعل کی پیروی)''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سوال: کبھی آپ یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سونا' اٹھنا بیٹھنا ' کھانا اور پینا وغیرہ مباح افعال ہیں اور اس کے ثبوت میں علماء کے اقوال نقل کرناشروع کر دیتے ہیں اور کبھی آپ یہ کہتے ہیں کہ آپۖ کا کھانا' پینا' سونا وغیرہ سے متعلق بہت سے ایسے احکامات ہیں جو استحباب یا وجوب کا درجہ رکھتے ہیں اور اس کے حق میں علماء کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔ذرا تفصیل سے اپنے موقف کو واضح کریں 'آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟
جواب: ہماری ساری بحث کو اب ایک سادہ سی مثال کے ذریعے سمجھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سونا جبلی تقاضے کے تحت تھا لہٰذا مجردسونا ایک مباح امر ہے۔یعنی اگر کوئی شخص یہ سوچ کرسوتا ہے کہ آپ بھی تو سوئے تھے تو اس کا یہ سونے کا فعل باعث اجر و ثواب نہیں ہے۔لیکن اگر وہ اس طریقے سے سوتا ہے جس طریقے سے سونے کی آپ نے تعلیم دی ہے تو اب اس سونے کے فعل میں اس کواجر ملے گا۔سونے کے عمل کے بارے میںنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض تعلیمات مروی ہیں' جن میں بعض استحباب کا درجہ رکھتی ہیں ' جبکہ بعض اسباب کے تحت ہیں اور بعض مباح ہیں۔مثال کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سونے کے عمل کی درج ذیل سُنّتیں ہیں 'یعنی اگر کوئی شخص سونے کے عمل سے پہلے درج ذیل اعمال کرے گا تو یہ اعمال اس کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہوں گے 'کیونکہ روایات سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے سونے کے عمل سے پہلے تقربالی اللہ کی نیت سے خود سے ان اعمال کو کیا یا ان کے کرنے کی تلقین کی۔
١۔ رات سونے سے پہلے 'اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا' پڑھنا۔(٣٤)
٢۔ را ت سونے سے پہلے دونوںہاتھوں میں پھونک ماریں اور آخری تین سورتیں پڑھ کرجہاں تک ممکن ہو لیٹے لیٹے سر' چہرے اور جسم کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیریںاور اس عمل کو تین مرتبہ دہرائیں۔(٣٥)
٣۔ رات سونے سے پہلے آیت الکرسی پڑھنا۔(٣٦)
٤۔ سونے سے پہلے 'بِاسْمِکَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِیْ وَبِکَ اَرْفَعُہ اِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَارْحَمْھَا وَاِنْ اَرْسَلْتَھَا فَاحْفَظْھَا بِمَا تَحْفَظُ بِہ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ' پڑھنا۔(٣٧)
٥۔ سونے سے پہلے 'اَللّٰھُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِیْ وَاَنْتَ تَوَفَّاھَا لَکَ مَمَاتُھَا وَمَحْیَاھَا ' اِنْ اَحْیَیْتَھَا فَاحْفَظْھَا وَاِنْ اَمَتَّھَا فَاغْفِرْلَھَا ' اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الْعَافِیَةَ' پڑھنا۔(٣٨)
٦۔ سونے سے پہلے'اَللّٰھُمَّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تُبْعَثُ عِبَادَکَ' پڑھنا۔(٣٩)
٧۔ سونے سے پہلے ٣٣ مرتبہ الحمد للہ ' ٣٣مرتبہ سبحان اللہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا۔(٤٠)
٨۔ سونے سے پہلے 'اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمْنَا وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَآوَانَا فَکَمْ مِمَّنْ لَا کَافِیَ لَہ وَلَا مُؤْوِیَ' پڑھنا۔(٤١)
٩۔ سونے سے پہلے'اَللّٰھُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَمَلِیکَہ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطٰنِ وَشِرْکِہ وَاَنْ اَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِیْ سُوْئً اَوْ اَجُرَّہ اِلٰی مُسْلِمٍ' پڑھنا ۔(٤٢)
١٠۔ سونے سے پہلے'اَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَوَجَّھْتُ وَجْھِیَ اِلَیْکَ وَاَلْجَاْتُ ظَھْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَةً وَرَھْبَةً اِلَیْکَ لَا مَلْجَاَ وَلَا مَنْجَا مِنْکَ اِلاَّ اِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ' پڑھنا۔(٤٣)
١١۔ سونے سے پہلے' اَللّٰھُمَ رَبَّ السَّمٰوَاتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ آخِذ بِنَاصِیَتِہ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئ وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٍ اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَاَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ' پڑھنا۔(٤٤)
١٢۔ سونے سے پہلے سورة البقرة کی آخری دوآیات کا پڑھنا۔(٤٥)
١٣۔ سونے سے پہلے سور ة الکافرون پڑھنا۔(٤٦)
١٤۔ سونے سے پہلے سورة الملک پڑھنا۔(٤٧)
١٥۔ سونے سے پہلے سورة الم سجدة پڑھنا۔(٤٨)
١٦۔ باوضو ہو کر سونا۔(٤٩)
١٧۔ دائیں پہلو پر لیٹنا۔(٥٠)
١٨۔ دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھنا۔(٥١)
١٩۔ آپ نے سونے سے پہلے بستر جھاڑنے کا حکم دیا۔(٥٢)
٢٠۔ سونے سے پہلے کھانے پینے کی چیزوں اور برتنوں کوڈھانپنے کابھی حکم دیا گیا۔(٥٣)
یہ بیس سنن ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں احادیث و روایات ہی میں ایسے قرائن و دلائل موجود ہیں جو اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ سنن شرعیہ ہیں۔یعنی ان افعال میں آپ کی پیروی و اتباع مطلوب اور باعث اجر و ثواب ہے۔
ان کے علاوہ جب بعض ایسی روایات پر غور کرتے ہیں کہ جن کا تعلق سونے کے آداب کے ساتھ ہے تو مختلف قرائن یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ آداب سننِ شرعیہ میں سے نہیں ہیں ۔مثلا ً ایک صحیح روایت کے مطابق آپ نے رات کو چراغ جلاکے سونے سے منع فرمایا۔اب آپ'کا یہ حکم کسی سبب کے تحت تھا' جیسا کہ بعض دوسری روایات میں آتا ہے کہ مدینہ میں رات کے وقت ایک گھر میں آگ لگ گئی اورآپ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے کہا: ''رات کو سونے سے پہلے چراغ بجھا دیا کرو''۔اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ رات کو سونے سے پہلے چراغ اس لیے بجھا دیا کرو کہ کوئی چوہیا وغیرہ اس کی آگ سے کھیل کر پورے گھر کوآگ لگانے کا باعث نہ بن جائے۔پس اگر کوئی شخص اس روایت سے یہ حکم نکالے کہ رات کو سوتے وقت لائٹ جلانا جائز نہیں ہے یا لائٹ آف کر کے ہی سونا مستحب و پسندیدہ ہے توہمارے خیال میں یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے۔اگر کوئی شخص کسی وجہ سے رات کولائٹ آن کر کے سوتا ہے تو سُنّت کی مخالفت نہیں کر رہا ہے۔اسی طرح سونا ایک مباح امر ہے اور دن و رات کے کسی بھی وقت میں انسان سو سکتا ہے بشرطیکہ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو رہی ہو۔لہٰذا اگر کسی شخص کی ملازمت کی صورت ایسی ہے کہ وہ رات کو جاگتا ہے اور دن کو سوتا ہے مثلاً چوکیدار وغیرہ تو یہ سُنّت کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے۔اسی طرح اگر کوئی رات کو دیر تک جاگتا رہے اور اپنی نیند پوری کرنے کے لیے فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعدسو جائے تو یہ بھی سُنّت کی خلاف ورزی نہیں ہے 'کیونکہ کوئی ایسی صحیح روایت مروی نہیں ہے کہ جس میںصبح کی نماز کے بعد سونے سے منع کیاگیا ہو۔ہاں ایسی روایت ضرور موجود ہے جس میں عشاء کی نماز سے پہلے سونے سے منع کیا گیا ہے 'لیکن اس کا سبب بھی یہ ہے کہ رات کی نماز ضائع نہ ہو جائے' کیونکہ بعض دوسری صحیح روایات میں موجود ہے کہ آپ بعض اوقات عشاء کی نماز کے لیے اپنے حجرے سے رات گئے نکلتے تھے اور صحابہ اس دوران نماز کے انتظار میں مسجدمیں سو رہے ہوتے تھے۔پس اگر نماز کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو ضرورت کے تحت عشاء سے پہلے سونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔اسی طرح زمین پریا کسی چارپائی و پلنگ وغیرہ پر سونا یا نہ سونابھی کوئی دین کا موضوع نہیں ہے۔انسان جہاں چاہے سو جائے۔
پس ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افعال تو واقعتاً ایسے ہیں جو سنن شرعیہ کا درجہ رکھتے ہیں 'اور ایسے اعمال بلاشبہ ٢٤ گھنٹوں میں ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں' جیسا کہ ہم نے ایک سونے کے عمل کے بارے میں ٢٠ سنن نقل کر دی ہیں'لیکن آپ کے بعض اعمال و افعال ایسے ہیں جو سنن شرعیہ کا درجہ نہیں رکھتے 'بلکہ زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں جو حکم لگایا جا سکتا ہے وہ اباحت یا جواز کا ہے ۔پس آپ کے ایسے افعال جو اباحت کے درجے میںہیں' کی ترغیب و تشویق کی بجائے ہمیں عامة الناس کو فرائض کی ادائیگی' محرمات سے اجتناب اور ایسی سنن کی پابندی کی تلقین کرتے رہنا چاہیے جن کے استحباب کے بارے میں واضح قرائن موجود ہیں۔عامة الناس کی اکثریت تو ایسی ہے جو فرائض کو ادا نہیں کر رہی اور محرمات سے اجتناب نہیں کرتی' ان کو عمامے یا تہبندکی ترغیب و تشویق دلانا دعوتِ دین کی حکمت کے بھی منافی ہے۔جتنا وقت ہم لوگوں کو عمامے اور تہبند کی تلقین میں صرف کرتے ہیں اگر وہی وقت ہم لوگوں کو فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کرنے کی موعظت و نصیحت میں کھپائیں تو یہ اس وقت کا صحیح و زیادہ قیمتی مصرف ہو گا 'کیونکہ ابھی ہم یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہمارے معاشرے کے تمام مسلمان تمام فرائض دینیہ کو ادا کرنے یا محرمات سے اجتناب کرنے والے بن گئے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
(١) تفسیر اللباب فی علوم الکتاب' آل عمران:١٣٧۔
(٢) التقریر و التحبیر : الباب الثالث السنة۔
(٣) البحر المحیط : مباحث السنة۔
(٤) الموافقات'ج٢' جزئ٤' ص ٧۔
(٥) مجموع الفتاویٰ' جلد١٨' ص ٦' ٧۔
(٦) ارشاد الفحول' المقصد الثانی فی السنة۔
(٧) الفصول فی الاصول : باب القول فی افعال النبیۖ۔
(٨) کشف الاسرار' باب اقسام العزیمة۔
(٩) اصول البزدوی' باب افعال النبیۖ۔
(١٠) اصول السرخسی' باب الکلام فی افعال النبیۖ۔
(١١) کشف الاسرار شرح اصول البزدوی' باب افعال النبیۖ۔
(١٢) کشف الاسرار' باب اقسام العزیمة۔
(١٣) المستصفی: القطب الاول فی الثمرة وھی الحکم' مسالة الجائز لا یتضمن الامر والمباح۔
(١٤) کشف الاسرار شرح اصول البزدوی' باب افعال النبیۖ۔
(١٥) التقریر والتحبیر: المقالة الثانیة فی احوال الموضوع' مسألة الاتفاق فی افعالہ الجبلیة الصادرة بمقتضی طبعیتہ۔
(١٦) کشف الاسرار' باب اقسام العزیمة۔
(١٧) الفصول فی الاصول' باب القول فی سنن رسول اللہۖ۔
(١٨) التقریر والتحبیر: المقالة الثانیة فی احوال الموضوع' تقسیم الحنفیة الحکم اما رخصة او عزیمة۔
(١٩) اصول الفقہ الاسلامی' ج١' ص٩٠۔
(٢٠) الفصول فی الاصول' باب القول فیما یستدل بہ علی احکام افعالہ علیہ السلام۔
(٢١) اصول السرخسی' باب افعال الرسول۔
(٢٢) کشف الاسرار' باب افعال النبیۖ۔
(٢٣) الفصول فی الاصول' باب القول فی افعال النبیۖ۔
(٢٤) الفصول فی الاصول' باب القول فی افعال النبیۖ۔
(٢٥) کشف الاسرار' باب افعال النبیۖ۔
(٢٦) اصول السرخسی' باب الکلام فی افعال النبیۖ۔
(٢٧) کشف الاسرار' باب افعال النبیۖ۔
(٢٨) الفصول فی الاصول' باب القول فی افعال النبیۖ۔
(٢٩) اصول السرخسی' باب الکلام فی افعال النبیۖ۔
(٣٠) الفصول فی الاصول' باب القول فیما یستدل بہ علی احکام افعالہ علیہ السلام۔
(٣١) الفصول فی الاصول' باب القول فیما یستدل بہ علی احکام افعالہ علیہ السلام۔
(٣٢) کشف الاسرار' باب افعال النبیۖ۔
(٣٣) العقد الثمین فی شرح منظومة الشیخ ابن العثیمین' ص ٧٦' ٧٧۔
(٣٤) صحیح البخاری' کتاب الدعوات' باب وضع الید الیمنی تحت الخد الایمن۔
(٣٥) صحیح البخاری' کتاب فضائل القرآن' باب فضل المعوذات۔
(٣٦) صحیح البخاری' کتاب بدء الخلق ' باب صفة ابلیس و جنودہ۔
(٣٧) صحیح البخاری' کتاب الدعوات ' باب التعوذو القراء ة عند المنام۔
(٣٨) صحیح مسلم' کتاب الذکر و الدعاء و التوبة و الاستغفار' باب ما یقول عند النوم و أخذ المضجع۔
(٣٩) سنن الترمذی' کتاب الدعوات عن رسول اللہ' باب منہ۔
(٤٠)صحیح بخاری' کتاب النفقات' باب خادم المرأة۔
(٤١)سنن الترمذی' کتاب الدعوات عن رسول اللہ' باب ما جاء فی الدعاء اذا آوی الی فراشہ۔
(٤٢) سنن الترمذی' کتاب الدعوات عن رسول اللہ' باب منہ۔
(٤٣) صحیح البخاری' کتاب الوضوئ' باب فضل من بات علی الوضوئ۔
(٤٤) صحیح مسلم' کتاب الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار' باب ما یقول عند النوم واخذ المضجع۔
(٤٥) صحیح البخاری' کتاب فضائل القرآن'باب فی کم یقرأ القرآن۔
(٤٦) سنن الترمذی' کتاب الدعوات عن رسول اللہ' باب منہ۔
(٤٧) سنن الترمذی' کتاب فضائل القرآن' باب ما جاء فی فضل سورة الملک۔
(٤٨)سنن الترمذی' کتاب فضائل القرآن' باب ما جاء فی فضل سورة الملک۔
(٤٩) صحیح البخاری' کتاب الوضوئ' باب فضل من بات علی الوضوئ۔
(٥٠) صحیح مسلم' کتاب الذکر و الدعاء و التوبة و الاستغفار' باب ما یقول عند النوم و أخذ المضجع۔
(٥١) صحیح البخاری' کتاب الدعوات' باب وضع الید الیمنی تحت الخد الأیمن۔
(٥٢) صحیح مسلم' کتاب الذکر و الدعاء و التوبة و الاستغفار' باب ما یقول عند النوم و أخذ المضجع۔
(٥٣) صحیح البخاری' کتاب الاستئذان' باب اغلاق الأبواب باللیل۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top