- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
سوال:اس مضمون میں اہل سُنّت کا لفظ جب آپ استعمال کرتے ہیں تو اس سے آپ کی مراد کون سی جماعت ہوتی ہے ؟
جواب: ہم یہ بات پہلے بیان کر چکے ہیں کہ فقہی مباحث میں جب اہل سُنّت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد صحابہ ''تابعین'' تبع تابعین'' حنفیہ' شافعیہ' مالکیہ ' حنابلہ ' اہل الحدیث اور اہل الظواہر ہوتے ہیں اور ہمارے اس مضمون میں بھی اہل سُنّت سے مراد یہی گروہ ہیں۔یہ واضح رہے کہ عقائد کے باب میں اہل سنت کے مفہوم میں علیحدہ سے تفصیل موجود ہے۔
سوال: اہل سُنّت کے ہاں'سُنّت' کے لفظ کا اصطلاحی معنی کیا ہے؟
جواب: جمیع اہل سُنّت کے نزدیک 'سُنّت' سے مراد اللہ کے رسولۖ کے اقوال 'افعال و تقریرات ہیں۔معروف حنفی فقہاء علامہ کمال الدین ابن الہمام ( متوفی٨٦١ھ) اورعلامہ ابن امیر الحاج (متوفی٨٧١ھ) لکھتے ہیں:
(السنة) و ھی لغة (الطریقة المعتادة) محمودة کان أو لا...( و فی الأصول قولہ علیہ السلام و فعلہ و تقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة(٢)
'' 'سُنّت 'کا لغوی معنی ایسا طریقہ ہے جس کے لوگ عادی ہوں چاہے وہ اچھاہو یا برا...اور اصولِ فقہ میں 'سُنّت ' سے مراد رسول اللہۖ کا وہ قول' فعل اور تقریر ہے جو طبعی امور کے علاوہ ہیں''۔
شافعی فقیہ امام زرکشی (متوفی٧٩٤ھ) فرماتے ہیں:
المراد ھنا ما صدر من الرسول ۖ من الأقوال والأفعال والتقریر و الھم وھذا الأخیر لم یذکرہ الأصولیون(٣)
''یہاں یعنی اصولِ فقہ میں سُنّت سے مراد رسول اللہۖ کے اقوال' افعال' تقریرات اور کسی کام کو کرنے کا ارادہ ہیں۔اس آخری قسم کو 'سُنّت' کی تعریف میںعموماً اصولیین نے بیان نہیں کیا ہے''۔
مالکی فقیہ امام شاطبی (متوفی٧٩٥ھ) لکھتے ہیں:
واذا جمع ما تقدم تحصل منہ فی الاطلاق أربعة أوجہ قولہ علیہ الصلاة والسلام و فعلہ و تقریرہ وکل ذلک اما متلقی بالوحی أو بالاجتھاد بناء علی صحة الاجتھاد فی حقہ وھذہ الثلاثة والرابع ما جاء عن الصحابة أو الخلفاء(٤)
' 'سُنّت کے بارے میں ہم نے جو پیچھے بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ 'سُنّت' سے مطلق طور پر مراد رسول اللہۖ کا قول' فعل اور تقریر ہے اور یہ تینوں یا تو وحی کی بنیاد پر ہوں گے یا آپۖ کا اجتہاد ہو گا'بشرطیکہ آپ کے لیے اجتہاد کرنے کا قول صحیح ہو۔یہ 'سُنّت' کی تین صورتیں ہیں اور اس کی چوتھی صورت صحابہ اور خلفائے راشدین کی سُنّت ہے''۔
حنبلی فقیہ و مجتہد امام ابن تیمیہ (متوفی ٧٢٨ھ) فرماتے ہیں:
الحدیث النبوی ھو عند الاطلاق ینصرف علی ماحدث بہ عنہ بعد النبوة من قولہ و فعلہ واقرارہ فان سُنّتہ ثبتت من ھذہ الوجوہ الثلاثة (٥)
''حدیث نبویۖ سے مراد آپۖ کا وہ قول' فعل اور تقریر ہے جوکہ آپۖ سے نبوت کے بعد صادر ہوا ہو۔پس آپۖ کی' سُنّت' ان تین صورتوں سے ثابت ہوتی ہے''۔
سلفی فقیہ و مجتہد امام شوکانی ( متوفی١٢٥٠ھ) ٭ لکھتے ہیں:
واما معناھا شرعا أی فی اصطلاح أھل الشرع فھی قول النبیۖ وفعلہ وتقریرہ(٦)
''اور سُنّت کا شرعی معنی یعنی اہل شرع کی اصطلاح میں' سُنّت' نبی مکرمۖ کے قول' فعل اور تقریر کوکہتے ہیں''۔
٭محققین کے نزدیک پہلے یہ زیدی تھے 'بعد میں انہوں نے زیدیہ (اہل تشیع کا ایک معتدل فرقہ) کے عقائد و فروعات سے رجوع کر لیا تھا۔ شروع میں یہ زیدی تھے جبکہ بالآخر یہ سلفی المسلک کے پرجوش داعی و مبلغ تھے۔ان کی کتاب ''التحف بمذھب السلف'' اور ''کشف الشبھات عن المشتبھات“اس بات پر دلیل ہیں کہ وہ عقیدے میں سلفی تھے۔ اسی طرح ان کی کتاب ''القول المفید فی ادلة الاجتھاد والتقلید'' اور ''السیل الجرار'' یہ واضح کرتی ہے کہ وہ فقہی آراء کے اختیار میں امام زید بن علی کے مذہب کو چھوڑ کر اہل الحدیث کے منہج کو اختیار کر چکے تھے۔
جواب: ہم یہ بات پہلے بیان کر چکے ہیں کہ فقہی مباحث میں جب اہل سُنّت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد صحابہ ''تابعین'' تبع تابعین'' حنفیہ' شافعیہ' مالکیہ ' حنابلہ ' اہل الحدیث اور اہل الظواہر ہوتے ہیں اور ہمارے اس مضمون میں بھی اہل سُنّت سے مراد یہی گروہ ہیں۔یہ واضح رہے کہ عقائد کے باب میں اہل سنت کے مفہوم میں علیحدہ سے تفصیل موجود ہے۔
سوال: اہل سُنّت کے ہاں'سُنّت' کے لفظ کا اصطلاحی معنی کیا ہے؟
جواب: جمیع اہل سُنّت کے نزدیک 'سُنّت' سے مراد اللہ کے رسولۖ کے اقوال 'افعال و تقریرات ہیں۔معروف حنفی فقہاء علامہ کمال الدین ابن الہمام ( متوفی٨٦١ھ) اورعلامہ ابن امیر الحاج (متوفی٨٧١ھ) لکھتے ہیں:
(السنة) و ھی لغة (الطریقة المعتادة) محمودة کان أو لا...( و فی الأصول قولہ علیہ السلام و فعلہ و تقریرہ) مما لیس من الأمور الطبیعیة(٢)
'' 'سُنّت 'کا لغوی معنی ایسا طریقہ ہے جس کے لوگ عادی ہوں چاہے وہ اچھاہو یا برا...اور اصولِ فقہ میں 'سُنّت ' سے مراد رسول اللہۖ کا وہ قول' فعل اور تقریر ہے جو طبعی امور کے علاوہ ہیں''۔
شافعی فقیہ امام زرکشی (متوفی٧٩٤ھ) فرماتے ہیں:
المراد ھنا ما صدر من الرسول ۖ من الأقوال والأفعال والتقریر و الھم وھذا الأخیر لم یذکرہ الأصولیون(٣)
''یہاں یعنی اصولِ فقہ میں سُنّت سے مراد رسول اللہۖ کے اقوال' افعال' تقریرات اور کسی کام کو کرنے کا ارادہ ہیں۔اس آخری قسم کو 'سُنّت' کی تعریف میںعموماً اصولیین نے بیان نہیں کیا ہے''۔
مالکی فقیہ امام شاطبی (متوفی٧٩٥ھ) لکھتے ہیں:
واذا جمع ما تقدم تحصل منہ فی الاطلاق أربعة أوجہ قولہ علیہ الصلاة والسلام و فعلہ و تقریرہ وکل ذلک اما متلقی بالوحی أو بالاجتھاد بناء علی صحة الاجتھاد فی حقہ وھذہ الثلاثة والرابع ما جاء عن الصحابة أو الخلفاء(٤)
' 'سُنّت کے بارے میں ہم نے جو پیچھے بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ 'سُنّت' سے مطلق طور پر مراد رسول اللہۖ کا قول' فعل اور تقریر ہے اور یہ تینوں یا تو وحی کی بنیاد پر ہوں گے یا آپۖ کا اجتہاد ہو گا'بشرطیکہ آپ کے لیے اجتہاد کرنے کا قول صحیح ہو۔یہ 'سُنّت' کی تین صورتیں ہیں اور اس کی چوتھی صورت صحابہ اور خلفائے راشدین کی سُنّت ہے''۔
حنبلی فقیہ و مجتہد امام ابن تیمیہ (متوفی ٧٢٨ھ) فرماتے ہیں:
الحدیث النبوی ھو عند الاطلاق ینصرف علی ماحدث بہ عنہ بعد النبوة من قولہ و فعلہ واقرارہ فان سُنّتہ ثبتت من ھذہ الوجوہ الثلاثة (٥)
''حدیث نبویۖ سے مراد آپۖ کا وہ قول' فعل اور تقریر ہے جوکہ آپۖ سے نبوت کے بعد صادر ہوا ہو۔پس آپۖ کی' سُنّت' ان تین صورتوں سے ثابت ہوتی ہے''۔
سلفی فقیہ و مجتہد امام شوکانی ( متوفی١٢٥٠ھ) ٭ لکھتے ہیں:
واما معناھا شرعا أی فی اصطلاح أھل الشرع فھی قول النبیۖ وفعلہ وتقریرہ(٦)
''اور سُنّت کا شرعی معنی یعنی اہل شرع کی اصطلاح میں' سُنّت' نبی مکرمۖ کے قول' فعل اور تقریر کوکہتے ہیں''۔
٭محققین کے نزدیک پہلے یہ زیدی تھے 'بعد میں انہوں نے زیدیہ (اہل تشیع کا ایک معتدل فرقہ) کے عقائد و فروعات سے رجوع کر لیا تھا۔ شروع میں یہ زیدی تھے جبکہ بالآخر یہ سلفی المسلک کے پرجوش داعی و مبلغ تھے۔ان کی کتاب ''التحف بمذھب السلف'' اور ''کشف الشبھات عن المشتبھات“اس بات پر دلیل ہیں کہ وہ عقیدے میں سلفی تھے۔ اسی طرح ان کی کتاب ''القول المفید فی ادلة الاجتھاد والتقلید'' اور ''السیل الجرار'' یہ واضح کرتی ہے کہ وہ فقہی آراء کے اختیار میں امام زید بن علی کے مذہب کو چھوڑ کر اہل الحدیث کے منہج کو اختیار کر چکے تھے۔