وعلیکم السلام
قرآن مجید میں یہود و نصاری اور کفار کے ساتھ ولایت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿المائدۃ : ٥١ ﴾
اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
ولایت کا صحیح ترجمہ دوستی نہیں بنتا۔ ولایت کا لفظ دو معنوں میں عام طور کتاب وسنت میں کثرت سے استعمال ہوا ہے ۔ ایک تو سر پرستی کے معنی میں جیسا کہ لڑکی کا ولی اس کا باپ ہوتا ہے اور اللہ تعالی اہل ایمان کا ولی ہے۔ دوسرا گہرےقلبی تعلق کے معنی میں۔ جن آیات میں کفار کی ولایت سے منع کیا گیا ہے وہاں مراد ان سے ایک خاص نوعیت کاقلبی تعلق رکھنا ہے جو صرف اہل ایمان کے لیے جائز ہے۔
اسی طرح اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
اسے مناکحات کہتے ہیں۔ پس اہل کتاب کے ساتھ مناکحات جائز ہے جیسا کہ ان کے ساتھ معاملات بھی جائز ہیں اگر یہ حربی نہ ہوں۔
الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٥﴾
آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جبکہ ان کا مہر دے دو۔ اور ان سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی اور جو شخص ایمان سے منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا ۔
تو اہل کتاب سے مناکحات جائز ہیں جیسا کہ ان کے ساتھ معاملات بھی جائز ہیں بلکہ عام کفار کساتھ بھی معاملات تو کیا حسن سلوک بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ حربی نہ ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
پس کتابی بیوی سے نکاح کرنا، معاملات کرنا یا حسن سلوک وغیرہ کرنا جائز ہے لیکن ویسا قلبی تعلق رکھنا جائز نہیں ہے جو اہل ایمان کا آپس میں مطلوب ہے۔ اور یہ سوال صرف بیوی کے بارے میں نہیں پیدا ہوتا ہے بلکہ کافر ماں باپ اور بہن بھائیوں کے بارے میں بھی پیدا ہوتا ہے کہ جن سے انسان کا ایک خونی تعلق بھی قائم ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٣﴾
اے اہل ایمان! اگر تمہارے (ماں) باپ اور (بہن) بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو۔ اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں ۔
یہاں جس ولایت سے منع کیا جا رہا ہے وہ ایسا گہرا قلبی تعلق ہے جو دین کی بنیاد پر اہل ایمان میں قائم ہوتا ہے۔ باقی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید نے مشرک والدین سے حسن سلوک سے منع نہیں فرمایا ہے۔
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿١٥﴾
اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا ۔