محمد علی جناح کا شجرہ نسب کچھ یوں ہے۔۔۔۔
محمد علی خوجانی بن جانیران بن پونجا بن میگ بن ھیر۔۔۔۔۔۔جی یہ ہیں وہ شخصیت جن کے لیے’’اہل التوحید‘‘رطب اللسان ہیں۔۔۔
محمد علی جناح کی تدفین کے حوالے سے ایک یادرگار ویڈیو جس میں’’اہل روافض‘‘کا عَلم میں فضا میں بلند ہے۔۔۔کیا مسحور کن شخصیت ہے۔۔۔۔
محمد علی جناح
اللہ کسی کو نامکمل علم نہ دے ۔ ۔ ۔ اگر آپ لا الہ ۔۔۔ تک رک جائیں تو یہ کلمہ توحید، کلمہ کفر بن جاتا ہے۔ محمد علی جناح کی پوری زندگی کو پڑھئے اور اگر اللہ توفیق دے تو۔ اپنی پہلی زوجہ کی وفات پر بمبئی آغاخانی مرکز کے اس مطالبہ پر کہ متوفیہ کی جنت میں بکنگ (آغاخانی عقیدہ کے مطابق) کے لئے مطلوبہ رقم فراہم کی جائے اور قائد اعظم کی طرف سے ادائیگی سے انکار پر بمبئی ہائی کورٹ میں اس مقدمہ کی روئیداد اور قائد اعظم کا اپنے آبائی مذہب سے لاتعلقی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر “ایمان لانے کے اقرار” کے اس واقعہ کو ضرور پڑھئے، جس کے بعد قائد اعظم نے پہلی مرتبہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا اچھا خاصہ مطالعہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ مطالعہ ہم جیسے لوگوں کا مطالعہ نہیں تھا بلکہ ہندوستان کے ایک جینئس ترین انسان اور کامیاب بیرسٹر کا مطالعہ تھا۔ اس مطالعہ کی جھلک آپ کو تحریک پاکستان کے دوران ان کے “بیانات” میں صاف نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود آپ کوئی عالم دین نہیں تھے اور نہ ہی ان کا مطالعہ کسی عالم دین کے ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔تاہم وہ ایک سیدھے سادھے اور صحیح العقیدہ مسلمان ضرور بن چکے تھے۔
مگر افسوس کہ آج کی طرح کل بھی دستیاب میڈیا پر مخصوص فرقوں کی اجارہ داری تھی۔ جو قائد اعظم کے آبائی مذہب کا تو پروپیگنڈہ کرتے ہیں لیکن ان کی ایک بھری عدالت میں “قبول اسلام” کا بلیک آؤٹ کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہتے تو اپنی اکلوتی بیٹی کو ایک غیر مسلم سے شادی کرنے پر کبھی عاق نہ کرتے۔
قائد اعظم اور ان کی تحریک پاکستان سے نفرت کا اظہار کرنے والے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا، پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کرنا ہی اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرلیا تھا۔ ورنہ وہ پاکستان مخالف دیگر علماء کی طرح بھارت ہی میں رہتے۔ مولانا مودودی کی تحریک پاکستان سے یہ مخالفت قائد اعظم سے کوئی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ آپ قائد اعظم اور مولانا مودودی کی خط و کتابت بھی ضرور پڑھئے، جس میں مولانا کے تحفظات اور قائداعظم کی وضاحت موجود ہے۔ پھر پاکستان بننے کے بعد گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم کی طرف سے مولانا مودودی کو یہ تحریری دعوت نامہ ملا کہ آپ ریڈیو پاکستان سے ایک اسلامی تقریری سلسلہ شروع کیجئے اور مولانا نے متعدد تقاریر بھی کیں۔
یہ واضح رہنا چاہئے کہ قائد اعظم کا آبائی تعلق “آغاخانی گھرانے” سے تھا اور مڈل کے بعد ان کی ساری تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی۔ شعوری طور پر انہوں نے اسلام کو بہت بعد میں (مذکورہ بالا واقعہ) قبول کیا۔ اور اس کے فوراً بعد وہ ایک وکیل کی حیثیت سے کروڑوں ہندوستانی مسلمانوں کو اسی انگریز کی غلامی سے آزاد کرانے کی جد و جہد میں مصروف ہوگئے، جن کے ساتھ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ (دور جاہلیت میں) گذارا تھا۔ قائد کی زندگی کا یہ “ٹرننگ پوائنٹ” کسی کو یاد نہیں۔ جنہیں معلوم ہے، وہ اسے ہائی لائیٹ نہیں کرتے۔ سیکولر طبقہ تو خیر اسے کیا کرے گا، دینی طبقہ بھی اس طرف توجہ نہیں دیتا۔ قائد اعظم کے پاکستان کو “قبول” کرنے والی جماعت اسلامی بھی ایوب خان کے مقابلہ میں اپنے آبائی دین پر قائم محترمہ فاطمہ جناح کی صدارت کی حمایت کرتے ہوئے اس دینی نکتہ کو بھی فراموش کردیتی ہے کہ اسلام میں خاتون سربراہ مملکت نہیں بن سکتی۔
قائد اعظم کے “قبول اسلام” کو انگریزوں کے منشا پر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونے والے ایسے ہی رہنماؤں اور نوابوں نے تو دل سے قبول ہی نہیں کیا جبھی تو قائد نے فرمایا تھا کہ میرے ساتھی مجھ سے مخلص نہیں ہیں لیکن میری مجبوری ہے کہ انہی سے کام لوں (مفہوم) قائد اعظم کا جنازہ تو ان کے اپنے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان (قادیانی) نے بھی نہیں پڑھا تھا۔ اگر اس موقع پر ان کے خاندان کے لوگوں نے (جن کا تعلق آخاخانی گروہ سے ہی ہوگا) اپنے مذہبی عقیدہ کے مطابق کچھ کیا بھی تھا تو اس کا قائد اعظم سے کیا واسطہ؟ فاطمہ جناح کی وفات پر تو ان کے سامان سے “پنجہ” بھی برآمد ہوا تھا۔ کیا قائد اعظم کے مرنے پر ان کے پاس سے ایسا کچھ برآمد ہوا تھا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ان کا تعلق بھی ان کے آبائی فرقہ سے تھا؟