• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایسے شخص کی طرف سے قربانی دینے کا حکم جس کا عقیقہ نہیں ہوا ہے

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
عقیقہ اور قربانی دونوں سنت مؤکدہ کے حکم میں ہے یہی جمہور اہل علم کا موقف ہے اور یہی موقف راحج ہے جیساکہ دلائل سے واضح ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من وُلِدَ لهُ ولدٌ فأحبَّ أن يَنسُكَ عنهُ فلينسُكْ( صحيح أبي داود:2842)
ترجمہ: جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سےقربانی (عقیقہ )کرنا چاہتا ہو تو کرے ۔
یہاں احب کا لفظ بتلارہاہے کہ عقیقہ واجب نہیں ہے اس سے بعض اہل علم نے استحباب کا حکم اخذ کیاہے جبکہ دیگر احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے سنت مؤکدہ کا حکم راحج لگتا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا رأيتم هلالَ ذي الحجةِ ، وأراد أحدكم أن يُضحِّي ، فليُمسك عن شعرِهِ وأظفارِهِ(صحيح مسلم:1977)
ترجمہ: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
اس حدیث میں "من اراد" کا لفظ اختیاری ہے یعنی جو قربانی کرنا چاہے گویا قربانی واجبی نہیں اختیاری ہے اس حدیث اور اس سے متعلق دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے ۔
اب یہاں مسئلہ درپیش ہے کہ بچپن میں جس کا عقیقہ نہیں ہوا اس کی طرف سے قربانی دے سکتے ہیں کہ نہیں ؟
اس سوال کے جواب میں کہنا چاہوں گا چونکہ عقیقہ بڑی عمر میں بھی دیا جاسکتا ہے، علماء نے اس کی وضاحت کی ہے ۔ اس وجہ سے اگر قربانی کرنے والے کے پاس وسعت ہو تو ساتھ میں عقیقہ بھی دیدے تاکہ دونوں سنتیں پوری ہوجائیں لیکن اگر مالی وسعت نہ ہو تو بہرحال قربانی کا وقت ہے اس وجہ سے قربانی دینا ہی اولی ہے ۔ اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں کہ بچپن میں اس کا عقیقہ نہیں ہوا تھا ۔
عقیقہ چونکہ سنت مؤکدہ ہے اس وجہ سے ضروری نہیں ہے کہ پہلے عقیقہ دینا واجب ہے تبھی قربانی دے سکتے یعنی بغیر عقیقہ کئے بھی قربانی دے سکتے ہیں ۔

واللہ اعلم

کتبہ
مقبول احمد سلفی
داعی اسلامی سنٹر طائف

 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا رأيتم هلالَ ذي الحجةِ ، وأراد أحدكم أن يُضحِّي ، فليُمسك عن شعرِهِ وأظفارِهِ(صحيح مسلم:1977)
ترجمہ: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
اس حدیث میں "من اراد" کا لفظ اختیاری ہے یعنی جو قربانی کرنا چاہے گویا قربانی واجبی نہیں اختیاری ہے اس حدیث اور اس سے متعلق دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے ۔
”جو قربانی کا ارادہ کرے“ سے ایک مطلب یہ بھی تو نکلتا ہے کہ قربانی کا ارادہ وہی کرسکتا ہے، جس کے پاس قربانی کرنے کے لئے مال موجود ہو۔ جن کے پاس مال موجود نہ ہو، وہ قربانی کا ارادہ تو نہیں کریں گے۔ یوں قربانی کے حوالہ سے دو ”گروپ“ بن جاتے ہیں۔ ایک قربانی کرنے (کرسکنے) والے اور دوسرا قربانی نہ کرنے (کرسکنے) والے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”من اراد“ کہہ کر پہلے گروپ کے لوگوں سے خطاب کیا ہوگا۔ لہٰذا صرف اس لفظ کے استعمال کی وجہ سے تو قربانی کے وجوب کی نفی نہیں ہوتی یا ہوتی ہے؟۔۔۔۔ صرف ایک طالب علم کی حیثیت سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا میرا یہ خیال درست ہے؟
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
”جو قربانی کا ارادہ کرے“ سے ایک مطلب یہ بھی تو نکلتا ہے کہ قربانی کا ارادہ وہی کرسکتا ہے، جس کے پاس قربانی کرنے کے لئے مال موجود ہو۔ جن کے پاس مال موجود نہ ہو، وہ قربانی کا ارادہ تو نہیں کریں گے۔ یوں قربانی کے حوالہ سے دو ”گروپ“ بن جاتے ہیں۔ ایک قربانی کرنے (کرسکنے) والے اور دوسرا قربانی نہ کرنے (کرسکنے) والے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”من اراد“ کہہ کر پہلے گروپ کے لوگوں سے خطاب کیا ہوگا۔ لہٰذا صرف اس لفظ کے استعمال کی وجہ سے تو قربانی کے وجوب کی نفی نہیں ہوتی یا ہوتی ہے؟۔۔۔۔ صرف ایک طالب علم کی حیثیت سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا میرا یہ خیال درست ہے؟
واقعی ایسے ہی لوگوں کو خطاب ہے جو قربانی کی وسعت رکھتے ہیں کیونکہ "ایک حدیث میں ہے جو قربانی کی وسعت رکھے اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ نہ آئے "۔ اور وسعت نہ رکھنے والے تو معذورہیں۔ قربانی کی وسعت رکھنے والوں کو" اذا اراد "کے ذریعہ خطاب کیا گیا جس سے کم از کم وجوب کی نفی ضرور ہوتی ہے ورنہ خطاب دوسرے پیرائے میں ہوتا۔
واللہ اعلم
 
Top