کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
لوگوں کے پاس ثواب اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ وہ اس کا بعض حصہ دوسروں کو ایصال کررہے ہیں ، کیا یہ لوگ قیامت کے دن بھی اپنی سخاوت دکھا سکیں گے۔
جس کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچاہے۔
{ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (34) وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (35) وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ } [عبس: 34 - 37]
اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے،اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے،اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے،ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامن گیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی ۔
میں پریشان ہوں کہ میرے پاس نیکیاں بہت کم ہیں ، اگرمیں نے انہیں بھی کسی اورکو بخش دیا توقیامت کے دن میرا کیا ہوگا وہاں توکسی سے مانگنے سے بھی نیکی نہیں ملیں گی ،چہ جائے کہ کوئی خودسے ایصال کرے !
اس لئے سوچتاہوں کہ اپنے گناہ ہی کسی کو ایصال کردوں !
چلو میں اپنے سارے گناہ اہل بدعت کے امام کو ایصال کرتا ہوں وہ بھی کیا یاد کریں گے ۔
کوئی یہ نہ کہے کہ گناہ کا ایصال نہیں ہوتا ہے بلکہ صرف ثواب کا ایصال ہوتا ہے ، کیونکہ میں پلٹ کرسوال کروں گا کہ:
اگرگناہ کے ایصال کی دلیل نہیں ہے تو ثواب کے ایصال کی کیا دلیل ہے؟
اگرکہا جائے کہ بہت ساری روایات میں اس بات کی دلیل ہے زندوں کی بعض نیکیوں کا ثواب مردوں کو پہنچتاہے تو :
میں بھی کہوں گا کہ بہت سی ایسی روایات ہیں جن میں اس بات کی دلیل ہے کہ زندوں کی بعض برائیوں کا گناہ مردوں کو پہنچتاہے۔
مثلا ملاحظہ ہو یہ حدیث:
لا تقتل نفس ظلما إلا کان علي ابن آدم الأول کفل من دمها، لأنه أول من سن القتل [أخرجه البخاري: (11/ 493) رقم 3335]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جب بھی دنیا میں) کوئی ناحق قتل ہوتا ہے تو اس کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے بیٹے (یعنی قابیل) پر ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔
بلکہ ایک وہی حدیث ملاحظہ ہو جس سے ایصال ثواب کی دلیل لی جاتی ہے ، اگرواقعی اس حدیث کے ابتدائی ٹکڑے میں ایصال ثواب کی دلیل ہے ، تو بے شک اس کے آخری ٹکڑے میں ایصال گناہ کی بھی دلیل ہے، حدیث یہ ہے:
... من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء [أخرجه مسلم (2/ 704) رقم1017]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
کیا خیال ہے یارو!
ایصال گناہ کی دلیل ہے یا نہیں ؟
لوگ اپنے اقرباء تک ثواب ایصال کررہے ہیں ۔
میں اپنے دینی دشمنوں تک اپنے گناہ ایصال کروں گا ، میرے یہ دشمن جوابا اپنے گناہ میرے سر لاد نہیں سکتے ، کیونکہ وہ مرچکے ہیں۔
لیکن ان کے پس ماندگان تو کہیں گے کہ وہ قبرمیں جانے کے بعد بھی زندہ ہیں !
مجھ پر یہ دھمکی بھی اثرہونے والی نہیں ہے کیونکہ ان کے پسماندگان کا جہاں یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے یہ دشمن زندہ ہیں وہیں ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان سے پوری زندگی میں کبھی کوئی گناہ ہوا ہی نہیں !
اب جب ہمارے دشمنوں کے پاس کوئی گناہ ہے ہی نہیں ، تو وہ بیچارے جوابا ہم تک کیا ایصال کریں ، ثواب توبھیجنے سے رہے۔
اگر کوئی میرے خوفناک ارادے سے پریشان ہوکر یہ کہنے لگے احادیث میں مردوں تک زندوں کے جن جن گناہوں کے پہنچنے کی بات ہے صرف وہی گناہ پہنچیں گے بس !
تو میں بھی یہ کہہ سکتا ہوں کہ جن جن اعمال کے ثواب پہنچنے کی بات ہے صرف انہیں اعمال کا ثواب پہنچے گا بس ! ایسی صورت میں ہم دونوں کو اپنے اپنے ارادے سے باز آجانا چاہئے۔
جس کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچاہے۔
{ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (34) وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (35) وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ } [عبس: 34 - 37]
اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے،اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے،اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے،ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامن گیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی ۔
میں پریشان ہوں کہ میرے پاس نیکیاں بہت کم ہیں ، اگرمیں نے انہیں بھی کسی اورکو بخش دیا توقیامت کے دن میرا کیا ہوگا وہاں توکسی سے مانگنے سے بھی نیکی نہیں ملیں گی ،چہ جائے کہ کوئی خودسے ایصال کرے !
اس لئے سوچتاہوں کہ اپنے گناہ ہی کسی کو ایصال کردوں !
چلو میں اپنے سارے گناہ اہل بدعت کے امام کو ایصال کرتا ہوں وہ بھی کیا یاد کریں گے ۔
کوئی یہ نہ کہے کہ گناہ کا ایصال نہیں ہوتا ہے بلکہ صرف ثواب کا ایصال ہوتا ہے ، کیونکہ میں پلٹ کرسوال کروں گا کہ:
اگرگناہ کے ایصال کی دلیل نہیں ہے تو ثواب کے ایصال کی کیا دلیل ہے؟
اگرکہا جائے کہ بہت ساری روایات میں اس بات کی دلیل ہے زندوں کی بعض نیکیوں کا ثواب مردوں کو پہنچتاہے تو :
میں بھی کہوں گا کہ بہت سی ایسی روایات ہیں جن میں اس بات کی دلیل ہے کہ زندوں کی بعض برائیوں کا گناہ مردوں کو پہنچتاہے۔
مثلا ملاحظہ ہو یہ حدیث:
لا تقتل نفس ظلما إلا کان علي ابن آدم الأول کفل من دمها، لأنه أول من سن القتل [أخرجه البخاري: (11/ 493) رقم 3335]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جب بھی دنیا میں) کوئی ناحق قتل ہوتا ہے تو اس کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے بیٹے (یعنی قابیل) پر ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے قتل کا طریقہ ایجاد کیا۔
بلکہ ایک وہی حدیث ملاحظہ ہو جس سے ایصال ثواب کی دلیل لی جاتی ہے ، اگرواقعی اس حدیث کے ابتدائی ٹکڑے میں ایصال ثواب کی دلیل ہے ، تو بے شک اس کے آخری ٹکڑے میں ایصال گناہ کی بھی دلیل ہے، حدیث یہ ہے:
... من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء [أخرجه مسلم (2/ 704) رقم1017]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
کیا خیال ہے یارو!
ایصال گناہ کی دلیل ہے یا نہیں ؟
لوگ اپنے اقرباء تک ثواب ایصال کررہے ہیں ۔
میں اپنے دینی دشمنوں تک اپنے گناہ ایصال کروں گا ، میرے یہ دشمن جوابا اپنے گناہ میرے سر لاد نہیں سکتے ، کیونکہ وہ مرچکے ہیں۔
لیکن ان کے پس ماندگان تو کہیں گے کہ وہ قبرمیں جانے کے بعد بھی زندہ ہیں !
مجھ پر یہ دھمکی بھی اثرہونے والی نہیں ہے کیونکہ ان کے پسماندگان کا جہاں یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے یہ دشمن زندہ ہیں وہیں ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان سے پوری زندگی میں کبھی کوئی گناہ ہوا ہی نہیں !
اب جب ہمارے دشمنوں کے پاس کوئی گناہ ہے ہی نہیں ، تو وہ بیچارے جوابا ہم تک کیا ایصال کریں ، ثواب توبھیجنے سے رہے۔
اگر کوئی میرے خوفناک ارادے سے پریشان ہوکر یہ کہنے لگے احادیث میں مردوں تک زندوں کے جن جن گناہوں کے پہنچنے کی بات ہے صرف وہی گناہ پہنچیں گے بس !
تو میں بھی یہ کہہ سکتا ہوں کہ جن جن اعمال کے ثواب پہنچنے کی بات ہے صرف انہیں اعمال کا ثواب پہنچے گا بس ! ایسی صورت میں ہم دونوں کو اپنے اپنے ارادے سے باز آجانا چاہئے۔