• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان باللہ توحید کے ارکان

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
ایمان باللہ توحید کے ارکان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جس طرح ائمہ فقہاء نے نماز، روزہ اور اسلام کے دیگر ارکان بیان کیے ہیں۔ اس طرح ائمہ کرام نے ایمان باللہ' توحید کے ارکان بھی بیان کیے ہیں۔ جس طرح نماز کے ارکان ہیں جن کے بغیر نماز نہیں ہوتی مثلاً تکبیر تحریمہ، رکوع، سجود اور تشھد وغیرہ ان ارکان میں سے کوئی بھی رکن بندے سے رہ جائے تو آدمی ایمان باللہ کا حامل اور موحد نہیں رہتا۔ اور فقط لا اله الا اللہ کا زبانی اقرار اور محض اس کی شروط کا علم ہونا اسے کوئی فائدہ نہ دے گا۔

رکن سے مراد کسی چیز کا وہ جزو ہے جو اس چیز کی ماہیت میں داخل ہوتا ہے۔ رکن کے بغیر شئے صحیح نہیں ہو سکتی۔ شئے کی صحت کا دارومدار رکن کی صحت پر ہوتا ہے۔ رکن کے عدم سے کسی شئے کا عدم لازم آتا ہے۔ مگر رکن کے وجود سے کسی شئے کا وجود ضروری نہیں۔

ایمان باللہ' توحید کے دو ارکان ہیں
  • غیر اللہ کا انکار کرنا
  • اللہ پر ایمان لانا
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا (البقرہ: ۲۵۶)

پس جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے پس اس نے نہ ٹوٹنے والے کڑے کو مضبوطی سے تھام لیا۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

توحید عبادت میں قرآن حکیم کا طریقہ بیان یہی ہے کہ نفی کو اثبات کے ساتھ جوڑا ہے، چنانچہ قرآن مجید ہر غیراللہ کی عبادت کی نفی کرتا ہے اور ہر قسم کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ثابت کرتا ہے اور یہی توحید کی حقیقت ہے۔ نہ تو محض نفی توحید ہے اور نہ محض اثبات توحید ہے۔ نفی اور اثبات دونوں جمع ہوں گے تو توحید کے مکمل معنی حاصل ہوں گے اور یہی لا اله الا اللہ کی حقیقت ہے۔

(تیسر العزیز الحمید: ۷۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بنی الاسلام علی خمس علی أن یعبداللہ'ویکفر بما دونه…۔(صحیح مسلم: ۱۲-۱۱۲)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئے ہے، اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ماسوا کے ساتھ انکار کیا جائے…۔

نیز ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :

من قال لا الٰه الا اللّٰہ وکفر بما یعبد من دون اللّٰہ حرم ماله ودمه وحسابه علی الله۔ (صحیح مسلم: ۲۳)

جس نے لا اله الا اللہ کا اقرار کیا اور اللہ کے علاوہ جن جن کی عبادت کی جاتی ہے ان سب کا انکار کیا تو اس کا مال اور خون حرام ہے اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔


کلمہ لا اله الا اللہ ایمان باللہ' توحید کے انہی دو ارکان کو بیان کرتا ہے : "لا اله" غیراللہ کا انکار پہلا رکن ہے اور "الا اللہ" اللہ پر ایمان دوسرا رکن ہے۔ ایمان باللہ' توحید کے ان دونوں ارکان پر عمل کیے بغیر کلمہ توحید کا محض اقرار کوئی فائدہ نہ دے گا۔ اس لیے غیراللہ کی ہر قسم کی عبادت اور ان کو عطا کردہ صفات الٰہی کا انکار کرنا اور اللہ کی ذات، صفات اور عبادت کی تمام اقسام کو اللہ کے لئے خاص کرنا ضروری ہے۔ آج کل لوگ توحید کے ان دونوں ارکان کا محض اقرار کرتے اور مانتے ہیں۔ لیکن عملاً ان دونوں ارکان میں اللہ کو خاص کرنے میں کمی اور اس کے ساتھ غیراللہ کو شریک کرتے ہیں۔ اور لوگ اپنی دعا و ندا، محبت و تعظیم ، خوف و امید، توکل و یقین، تسلیم و اطاعت، نذرو نیاذ اور قربانی و طواف وغیرہ کو صرف اللہ کے لیے خاص نہیں کر رہے بلکہ اپنے اعتقاد اور عمل میں غیراللہ کو شریک کر رہے ہیں۔

پہلار کن : غیر اللہ کا انکار

شیخ عبدالرحمٰن بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

پس حقیقت یہ ہے کہ (جب تک) لا اله الا االلہ کے مدلول اور تقاضوں کو خواہ وہ نفی پر ہوں یا اثبات پر، سمجھا نہ جائے اور اس پر اعتقاد نہ رکھا جائے اور ان کو قبول کر کے عملی جامہ نہ پہنایا جائے اس وقت تک اس کلمہ سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔

(ہدایۃ المستفید: ۱-۱۹۸)


کلمہ طیبہ میں غیر اللہ کے انکار کا حکم اللہ تعالیٰ نے اللہ پر ایمان و اقرار سے پہلے بیان کیا ہے۔ کیونکہ جب تک غیر اللہ کا مکمل انکار نہ کیا جائے اس وقت تک اللہ پر ایمان و اقرار بھی قبول نہیں ہوتا۔

غیر اللہ کے انکار کی اہمیت کے پیش نظر اس پر قرآن مجید میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ غیر اللہ کے انکار پر مکمل بصیرت اور فہم حاصل کیا جائے۔

ایمان باللہ' توحید کی مقبولیت کے لیے ضروری ہے کہ غیر اللہ کا انکار اعتقاد، قول اور عمل ہر طرح سے کیا جائے۔ جب تک ان تینوں طریقوں سے غیر اللہ کا انکار نہ کیا جائے تو آدمی غیر اللہ کا انکار اور اس کی نفی کرنے والا شمار نہ ہوگا۔

جس طرح ایمان کا اثبات تین صورتوں میں ہوتا ہے جیساکہ ایمان کی تعریف (قول بل اللسان، تصدیق بالقلب و عمل بالجوارح) سے ظاہر ہے۔ اس طرح غیر اللہ کا انکار کرنے اور اسے چھوڑ دینے کی بھی تین قسمیں ہیں :
  1. اعتقاًًدا ترک کرنا
  2. قولاً ترک کرنا
  3. فعلاً ترک کرنا
غیر اللہ کے انکار کے لیے قرآن مجید میں پانچ چیزوں کا بیان ہوا ہے۔ غیر اللہ کے انکار کے لئے ان پانچ چیزوں کا اپنے اعتقاد، قول اور فعل میں ہونا ضروری ہے۔

(۱) غیراللہ کے باطل ہونے کا عقیدہ رکھنا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ(الحج: ۶۲)

یہی برحق ہے اور اللہ کے سوا یہ جس کو پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔

(۲) غیراللہ سے عملاً اجتناب کرنا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ(النحل: ۳۶)

اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (اس دعوت کے ساتھ) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (غیر اللہ) سے اجتناب کرو۔

(۳) غیراللہ سے دل میں نفرت و بغض رکھنا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ (الشعراء: ۷۷)

کیا تمہیں معلوم ہے کہ جن کی تم پوجا کرتے ہو، تم اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد، سو یہ تمام میرے دشمن ہیں سوائے اللہ رب العالمین کے۔

(۴) مشرکین سے عملاً عداوت و دشمنی کا اظہار کرنا

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ (الممتحنۃ: ۴)

بے شک ہم تم سے اور ان تمام چیزوں سے بیزار ہیں کہ جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، ہم تمہارا انکار کرتے ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان کھلی دشمنی اور بغض واضح ہو چکا ہے یہاں تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان لے آؤ۔


(۵) مشرکین کی تکفیر کرنا

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ
(الانبیاء: ۹۸)

تم اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو۔

دوسرا رکن :اللہ پر ایمان لانا


ایمان باللہ' توحید کا دوسرا رکن اللہ واحد پر ایمان لانا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے تمام افعال ربوبیت، اسماء و صفات اور بندوں کے تمام افعال عبادت میں اکیلا اور خاص ٹھہرانا ہے۔

(۱) اللہ کی ربوبیت پر ایمان لانا

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (المومن: ۶۲)
یہی اللہ تمہارا رب ہے وہی ہر چیز کا خالق ہے۔

(۲) اللہ کی الوہیت پر ایمان لانا

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
(الفاتحہ)
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

(۳) اللہ کے اسماء و صفات پر ایمان لانا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا (الاعراف: ۱۸۰)
اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں لہذا تم اسے ان سے پکارو۔

امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

میرے بھائیو تمہیں اللہ کا واسطہ اپنے دین کی بنیاد تھام لو شروع سے آخر تک اور یہ بنیاد ہے لا الٰه الا اللہ اس کا معنی و مطلب سمجھو اس سے محبت رکھو اس کے ماننے والوں سے محبت رکھو انہیں اپنا بھائی بناؤ اگرچہ وہ تم سے دور ہی کیوں نہ ہوں طاغوت کا انکار کرو اس سے نفرت کرو، طاغوت کے ماننے والوں سے نفرت کرو ان سے بھی نفرت کرو جو ان کی حمایت کرتے ہیں یا ان کو کافر نہیں سمجھتے یا یہ کہتے ہیں کہ ہمارا انکے کرتوتوں سے کیا واسطہ یا یہ کہتے ہیں کہ میری ذمہ داری نہیں کہ میں طاغوت کے پیروکاروں سے دشمنی کروں اگر کوئی ایسی بات کرتا ہے تو وہ اللہ کی بات کو جھٹلاتا ہے بلکہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے اس پر فرض کر دیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کرے اس سے اور اس کے ماننے والوں سے نفرت و بیزاری وبرأت کا اعلان کرے اگرچہ وہ اس کے بھائی اور اولاد ہی کیوں نہ ہوں۔ لہذا ان باتوں کو مضبوطی سے تھام لو تاکہ تم اللہ کے پاس جاؤ تو مشرک بن کے نہ جاؤ، اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں اسلام پر موت دے اور ہمیں صالحین کے ساتھ یکجا کردے۔

(مجموعۃ التوحید: ١-١٤١)

نیز فرماتے ہیں :

دین اسلام کی دو بنیادیں ہیں ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کا حکم دینا، لوگوں کو اس کی دعوت دینا، جو لوگ توحید پر کاربند ہوں انہیں اپنا دوست اور ولی سمجھنا اور دوسرا جو لوگ اکیلے اللہ کی عبادت کا انکار کریں یا اس کے ساتھ شرک کریں ان کی تکفیر کرنا۔
 
Top