• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان باللہ کی حقیقت

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
غیر اللہ کی مالی بندگی:
بعض کلمہ پڑھنے والے بد نصیب بھی غیر اللہ کے نام کا جانور ذبح کرتے ہیں،غیر اللہ کے نام کی نذر ونیاز دیتے ہیں ان کی منت مانتے ہیں اورچڑھاوا چڑھاتے ہیں،جعفر صادق رحمہ اللہ کے کونڈے بھرتے ہیں،عبدالقادر جیلانی گیارھویں دیتے ہیں اور حسین رضی اللہ کے نام کی پانی کی سبیل لگاتے ہیں،یہ غیر اللہ کی مالی بندگی ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ(البقرہ:۱۷۳)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر مردار،خون،خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کر دی جائے حرام کر دیا ہے‘‘
سیدنا علی رضی اللہ سے روایت ہےکہ
رسول اللہﷺنے فرمایا:’’اللہ کی لعنت اس شخص پر جو غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرے‘‘(مسند احمد عن ابن عباس:۲۱۷/۱۔۱۸۲۵)
غیر مشروط اطاعت:

اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ شریعت یعنی قوانین اور احکام نازل فرمائے،ایک مسلمان کی عبادات،معاملات اور زندگی کے تمام شعبے ان احکامات کے مطابق چلنے چاہیے کیونکہ اللہ ہی جانتا ہےکہ بندے کے لیے کیا مفید ہے،جو شخص اللہ کی شریعت کی بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے خود ساختہ قوانین کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر۶۵ اور ۶۰میں ان کے ایمان کی نفی کی ہےجو شخص اللہ کی شریعت کے علاوہ کسی نظام کو(چاہے سوشلزم ہو،کمیونزم ہو،جمہوریت ہو یا کوئی اور نظام)عادلانہ اور منصفانہ سمجھتا ہےوہ کافر ہےاسی طرح کسی فقیریا پیر کی بتائی ہوئی شریعت پر چلنا اس کی عبادت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ(شوری:۲۱)
’’کیا ان لوگوں نے اللہ کے ایسے شریک مقرر کر رکھے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا ایسا طریقہ مقرر کیا ہےجو اللہ کا فرمایا ہوا نہیں ہے‘‘
اللہ تعالیٰ یہود ونصاری کے بارے میں فرماتا ہے:
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ(التوبہ:۳۱)
’’انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے۔ اور اسی طرح مسیح ؑ ابن مریم کو بھی ۔‘‘
رسول اللہﷺنے رب بنانے کا مطلب یو ں بیان فرمایا ہے:
’’جب ان کے علماء کسی چیز کو حلال کہتے ہیں تو وہ بھی اس کو حلال جان لیتے اور جب علماء کسی چیز کو اپنی طرف سے حرام ٹھہراتے تو وہ بھی اسے حرام جان لیتے‘‘(جامع ترمذی:۳۰۹۵)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہےکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں علماء اور درویشوں یا حکمرانوں کی غیر مشروط اطاعت کرنا ان کی عبادت ہے اور یہ شرک اکبر ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
لا الہ الا اللہ کی شروط

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور اس پر اسکی موت آئی وہ جنت میں داخل ہوگاخواہ اس نے زنا کیا ہویا چوری کی ہو‘‘(مسلم:۹۴)
لیکن یاد رکھیے کہ لا الہ الا اللہ کی گواہی میں کچھ شروط ہیں اگر کسی کلمہ میں یہ ساری شرطیں نہیں پائی جاتیں تو اس کو یہ کلمہ فائدہ نہیں دے گا،ان شروط کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔علم:
مسلم بننے کے لیے شرط اول یہ ہےکہ اسے لا الہٰ الا اللہ کے معنی معلوم ہوں،اسے معلوم ہو کہ کلمہ پڑھنے کے بعد اسے کن باتوں کو ماننا پڑے گا اور کن باتوں کا انکار کرنا پڑے گا،جو شخص کلمہ کے معنی ہیں نہیں جانتا وہ اپنے دل سے کلمہ کے معنی پر اعتقاد ہی نہیں رکھ سکتا لہذا یہ کلمہ اسے فائدہ نہیں دے گا۔
عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’جو اس حال میں مرگیا کہ وہ اس بات کا علم رکھتا تھا کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو یہ آدمی جنت میں داخل ہوگا‘‘(صحیح مسلم:۲۶)
اس علم سے مراد دل کی تصدیق اورزبان کا اقرار ہے۔
2۔یقین:
ایک مسلم کوکلمہ کا مفہوم اچھی طرح سمجھ کر اس پر یقین کرنا چاہیے اور یقین بھی ایسا ہو کہ شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’جو اپنے دل سے یقین کرتے ہوئے لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہواسے جنت کی بشارت دے دو‘‘(صحیح مسلم:۳۱)
لہذا جو شخص دل سے اس کلمہ کے معنی پر یقین نہ رکھتا ہو اور شک و شبہ میں پڑا ہوا ہووہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔
3۔کلمہ کے تقاضوں کو قبول کرنا:
جو شخص دل و زبان سے اقرار نہیں کرتا کہ وہ کلمہ کے تقاضوں کو پورا کرے گامسلم نہیں ہوسکتا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہےکہ میں اس وقت تک لوگوں سے جہاد کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کرلیں،جب لوگ لا الہ الا اللہ کااقرار کرلیں تو انہوں نے اپنی جان اور مال مجھ سے بچایا لیا البتہ ان سے اس کلمہ کا حق لیا جائے گا اور ان کے دل کا حساب اللہ کے ذمے ہے‘‘(صحیح بخاری:۲۹۴۶،صحیح مسلم:۲۱)
4۔تابعداری اور اطاعت کرنا:
لا الہٰ الا اللہ جس چیز پر دلالت کرتا ہےاس کو مان لینا اور اس پر عمل کرنا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اَنِيْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ(الزمر:۵۴)
’’تم سب اپنے پروردگارکی طرف جھک جاؤ اور اس کی فرماں برداری کرو‘‘
5۔سچائی:
سچائی سے مراد ہےکہ وہ سچے دل سےاس کلمہ کا اقرار کرے،اگر کوئی اپنی زبان سےاس کلمہ کا اقرار کرتا ہےلیکن دل سے اس کو سچا نہیں مانتا وہ منافق ہے۔منافق ہمیشہ اپنا مفاد دیکھتا ہےاور ہر آزمائش کے موقع پر اسلام سے بے تعلق ہوجاتا ہےاس لیے یہ کلمہ اس کو فائدہ نہیں دے گا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’جس نے صدق دل کے ساتھ یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں اللہ نے اس کو جہنم کی آگ پر حرام کر دیا‘‘(بخاری:۱۲۸،مسلم:۳۲)
6۔اخلاص:
عمل کو شرک کی تمام آمیزشوں اورملاوٹوں سے پاک صاف کرنا اور لا الہ الا اللہ کے اقرار سے کے اقرار سے کسی دنیاوی فائدے کا حصول،ریا اور شہرت کا طلب نہ ہوتا ایمان کی لازمی شرط ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریمﷺنے فرمایا:’’کہ لوگوں میں میری شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہےجو دل کے اخلاص سے’’لا الہٰ الا اللہ‘‘کا اقرار کرے‘‘(بخاری:۹۹)
7۔محبت:
لا الہ الا اللہ سے محبت کرنا اور جس پر یہ کلمہ دلالت کرتا ہےاس سے محبت کرنا اوراس کے تقاضوں پر عمل کرنے والے اہل توحید سے محبت کرناایمان کا جزء ہے۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہﷺنے فرمایا:’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس کے اندر پائی جائیں اس نے ایمان کی حلاوت کو پالیا:
۱:اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک ساری چیزوں سےکہیں زیادہ بڑھ کر محبوب ہوں۔
۲:کسی سے اللہ کی خاطر محبت کرے
۳:جب اللہ نے اسے کفر سے نکالاتو دوبارہ اس میں جانا ایسا ہی ناپسند ہوجیسے آگ میں جانا‘‘(صحیح بخاری:۱۶،مسلم:۴۳)
8۔تمام طواغیت کا انکار کرے اور انہیں باطل سمجھے:
طواغیت وہ باطل معبود ہیں جو اللہ کے علاوہ پوجے جاتے ہیں اوروہ اپنے پوجے جانے پر راضی ہوں۔انبیاء کرام اور اولیاءاللہ چونکے اپنے پوجے جانے پرراضی نہیں اوروہ شرک کرنے والوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں اس لیے وہ طواغیت نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ يُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا(البقرہ:۲۵۶)
’’جو کوئی طاغوت کا اِنکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا ، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا ، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘
رسول اللہﷺنے فرمایا
کہ جو شخص لا الہٰ الا اللہ کہے اور اللہ کے سواجن جن کی پوجا کی جاتی ہےان کا انکار کرےاس نے اپنا مال اورجان مسلمانوں کی تلوار سے بچا لیاالبتہ اس سے کلمہ کا حق لیا جائے گا اور اس کے دل کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے‘‘(مسلم:۲۳)
غور فرمائیے کہ صرف کلمہ پڑھنے سےمال اور جان محفوظ نہیں بلکہ مسلمانوں کی تلوار سے جان اور مال اس وقت محفوظ ہوگاجب وہ اس عبادت کا انکار کرےجو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کی کرتے ہیں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
صحیح عقیدہ سے انحراف کے اسباب

صحیح عقیدہ سے انحراف کے اسباب کی معرفت ضروری ہے۔جن میں اہم درج ذیل ہیں:
1۔صحیح عقیدہ سے ناواقفیت:
آج مسلمان کہلانے والوں کی اکثریت دنیا اور اس کی آسائشوں میں مشغول ہے۔اسکولوں کے اندر بھی اللہ کے قرآن اوراس کے رسول کی سنت سکھانے کی طرف توجہ نہیں ہے،وہ صرف مادی اور تفریحی چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں،اکثر و بیشتر والدین بھی صحیح عقیدہ سے بے خبر ہیں،اللہ کے قرآن میں غوروفکر کرنے سے غافل ہیں اس طرح مسلمانوں کی وہ نسل پیدا ہو چکی ہےجو صحیح عقیدہ سےبالکل نا واقف ہےوہ حق کو باطل جانتی ہے اور باطل نظریات کودین اسلام سمجھنے لگ گئی ہے۔
۲۔آباء و اجداد کے طریقوں پر جمے رہنا:
ہمیشہ گمراہ لوگ یہی کہتے ہیں:
اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّقْتَدُوْنَ(الزخرف:۲۳)
’’بیشک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے اور ہم تو قدم با قدم ان ہی کے پیچھے چل رہے ہیں‘‘
اپنے آباء و اجداد کے طریقوں پر جمے رہنا اگرچہ وہ باطل ہی کیوں نہ ہوں اور آباء واجداد کے طریقوں کے مخالف راستے کو ہر گز قبول نہ کرنا اگرچہ وہ حق ہی کیوں نہ ہوگمراہی کے اہم اسباب میں سے ہےاس طرح قرآن و سنت میں غوروفکر کرنے کی بجائےگمراہ لوگ اپنے بڑوں کے راستے پر چلتے ہیں۔مگر قیامت کے دن غفلت اوربڑوں کی پیروی کایہ عذر قبول نہیں فرمائے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰى ١ۛۚ شَهِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَۙاَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ(الاعراف:۱۷۲،ا۷۳)
’’اور جب تمہارے رب نےبنی آدم کی پشت سے اس کی اولاد نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ بنایا(یعنی ان سے پوچھا کہ)کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں(کہ تو ہمارا رب ہے)(اور یہ اقرار ہم نے اس لیے کرایا تاکہ)تم قیامت کے دن(یوں نہ)کہنے لگو کہ ہم تو اس(توحید)سے بالکل بے خبر تھےیا یوں کہنے لگوکہ شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا تھا اور ہم تو ان کی اولاد تھےجو ان کے بعد(پیدا ہوئے)تو کیا جو کام اہل باطل کرتے رہے تو ہمیں اس کے بدلےہلاک کرے گا‘‘
۳۔انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کی شان میں غلو کرنا:
معاشرے میں شرک پھیلنے کااہم سبب یہ ہےکہ شیطان انبیاء کرام اور اولیاء اللہ سے محبت کی آڑ بنا کران کی محبت کا رخ اندھی عقیدت کی طرف موڑ دیتا ہےاور پھر یہ گمراہ لوگ ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ نفع پہنچانا اور نقصان کو دور کرنا ان کے اختیار میں ہےاور یہ بزرگ ان کے اوراللہ کے درمیان واسطہ اور وسیلہ ہیں،یہ اللہ سےہمیشہ اولاد دلواتے ہیں،ہمارے اولاد کو زندگی اور صحت بخشتے ہیں،پھر معاملہ یہاں تک پہنچتا ہےکہ وہ خود ان کی عبادت شروع کر دیتے ہیں،ان کو راضی کرنے کے لیےان کے نام کی سبیل لگاتے ہیں،ان کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں،ان کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔قبروں کا طواف کرتے ہیں اور انہی سے دعا اور فریاد کرتے ہیں ان سے مدد طلب کرتے ہوئے’’یا علی مدد،ادرکنی یا رسول اللہ اور أغثنی یا رسول اللہ‘‘کے نعرے بلند کرتے ہیں۔
۴۔ضعیف اور موضوع روایات:
معاشرے میں شرک پھیلانے کا ایک اہم سبب وہ ضعیف اور موضوع روایات ہیں جو عوام ایک عرصہ سے سنتے آرہے ہیں،صوفیا اور بدعتی لوگوں نے اپنے دروس اور اپنی کتب کے ذریعے ان باطل روایات کو خوب پھیلایا،اگرچہ ان روایات پر موثرجرح موجود ہےمگر عوام علمائے حق کی بجائےان علمائے سو پر اعتماد کر رہے ہیں جو قصے کہانیوں،کرامات اور من گھڑت روایات کے ذریعہ شرک پھیلارہے ہیں۔
۵۔کتمان حق:
معاشرہ میں شرک کے پھیلنے کا ایک اور اہم سبب حق کا چھپانا ہے،بہت سے علماء جو توحید اور شرک کے فرق کو جانتے ہیں وہ بھی الیکشن میں لوگوں سے ووٹ لینے کی خاطر یا مساجد و مدارس کے لیے چندہ وصول کرنے کے لیے یا جہاد فنڈ لینے کے لیے یا لوگوں کو چالیس دن کے لیے تبلیغی جماعت کے ساتھ نکالنے کے لیے حق کو چھپاتے ہیں کیونکہ توحید و سنت کے بیان سے معاشرہ میں کشمکش پیدا ہوتی ہے اورلوگوں کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
مشرکوں کی چند اہم صفات

1۔واسطہ اور وسیلہ:
مشرکین ہمیشہ یہی دلیل دیتے ہیں کہ یہ بزرگ ہمارے سفارشی ہیں۔مشرکین مکہ بھی یہی کہا کرے تھے۔
مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى (الزمر:۳)
’’ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں‘‘
وَ يَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ(یونس:۱۸)
’’وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں‘‘
آج بھی یہی مثال دی جا رہی ہےکہ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے،بادشاہ سے ملنے کے لیے وزیر کی سفارش کی ضرورت ہوتی ہےاسی طرح اللہ سے ملنے کے لیے اولیاء اللہ ضرورت ہے،
حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(النحل:۷۴)
’’پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو ، اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے‘‘
اللہ قادر ہے’’کن‘‘کہتا ہے اور کام ہوجاتا ہےوہ کائنات کا نظام چلانے کے لیےکسی کا محتاج نہیں جبکہ صدر اور بادشاہ سلطنت کا مکمل انتظام کرنے سے فطرتاً عاجز ہوتے ہیں انہیں ایسے مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہےجو حکومت میں شریک ہوتے ہیں،وزیر صحت،وزیر بلدیات اور ان کے بعد بلدیاتی ممبران اور سرکاری ملازمین وغیرہ دراصل بادشاہ کی حکومت میں شریک ہوتے ہیں۔
اللہ’’الغنی‘‘ہے،الصمد ہے،بے نیاز ہے
حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے میرے بندوں،اگر تمہارے اول و آخر سب جن و انس دنیا کے نیک ترین انسان کی طرح نیک دل ہوجائیں میری بادشاہت میں ذرہ برابر اضافہ نہ ہوگااور اے میرے بندو!اگر تمہارے اول وآخر سب جن و انس دنیا کے بدکار ترین شخص جیسے برے ہو جائیں میری حکومت میں ذرہ برابرفرق نہ آئے گا‘‘(صحیح مسلم)
جبکہ صدر اور بادشاہ کی حکومت لوگوں کی مرہون منت ہوتی ہے،اگر عوام خلاف ہو جائیں تو ایران کے بادشاہ کو بھی اپنی جان بچانے کے لیےملک سے بھاگنا پڑتا ہے۔کبھی عوام صدر ایوب کو اور کبھی ذوالفقار علی بھٹو کواستعفیٰ دینے پر مجبور کر دیتے ہیں اس لیے یہ بادشاہ عوام کو خوش رکھنے پر مجبور ہیں،یہی وجہ ہےکہ وہ بعض لوگوں کی مدد حاصل کرتے ہیں جو بادشاہ کو لوگوں کی تکلیفوں سے آگاہ کرتے ہیں اور وہ بادشاہ تک رسائی کےلیے وسیلہ بنتے ہیں۔
اللہ’’الرحمن‘‘’’الرحیم‘‘ ہے
دنیا کی نعمتیں مسلمانوں اور کا فروں سب کے لیے ہیں۔مرنے کے بعد زندگی کی نعمتیں صرف اہل ایمان کے لیے ہوں گی دنیا کی دولت وہ سب کو دیتا ہےجبکہ بادشاہ اور صدر اپنے حامیوں کو نوازتے ہیں،لیکن فطرتاً اتنے کمزور ہیں کہ ان کے یہ جاننا ممکن ہی نہیں کہ کون اس کے حامی ہیں اورکون اس کے مخالف ہیں،بادشاہوں کو ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہےجو ان کو ان کی باتوں کی خبر دےکیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور ہو سکتا ہے؟اپنے حامیوں کو نوازے کی وجہ یہ بھی ہےکہ بادشاہوں کے پاس محدود نوکریاں ہیں،محدود خزانے ہیں جس وجہ سے وہ ہر ایک کووہ چیز نہیں دے سکتے،کیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ سوچا جا سکتا ہےکہ اس کے خزانوں میں بھی کمی ہے؟یقیناً نہیں کبھی یہ بادشاہ اپنے وزیروں اور درباریوں کی سفارش قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہیں ان کی سرکشی کا خوف ہوتا ہےیا ان کے احسان کا بدلہ دینا مقصود ہوتا ہے اور کبھی ان بادشاہوں کوسفارش کرنے والے سے کوئی غرض بھی ہوتی ہےیہ ان پر احسان کرکےاپنی غرض پوری کرنا چاہتے ہیں اور کبھی یہ سفارش کرنے والوں کی محبت میں یوں مجبور ہوتے ہیں کہ انہیں اپنا قانون اور اصول توڑنا پڑتا ہےجبکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسا سوچنا بھی کفر وشرک ہے،
فرمایا:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(البقرہ:۲۵۴)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، جو کچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے ، اِس میں سے خرچ کرو قبل اِس کے کہ وہ دن آئے ، جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں‘‘
۲۔اللہ اکیلے کا ذکر سن کر ان مشرکوں کے دل تنگ ہو جاتے ہیں:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۠(الزمر:۴۵)
’’اور جب تنہا اللہ کا ذکر کیا جاتا ہےتو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل تنگی محسوس کرتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہےتو وہ خوش ہو جاتے ہیں‘‘
اس آیت میں مشرکین مکہ کا شرک بیان ہوا ہےآج بھی کلمہ پڑھنے والے مشرکین کا یہی حال ہےجب صرف’’یااللہ مدد‘‘کی پکار لگتی ہےتو ان کے دل تنگ ہوتے ہیں اورجب’’یارسول اللہ مدد‘‘یا’’یا علی مدد‘‘کہا جائے تو خوش ہوتے ہیں
ان آیات کے بارے میں دھوکہ دیا جاتا ہےکہ اس میں’’من دونہ‘‘یعنی اللہ کے سوامیں انبیاءکرام اور اولیاءاللہ شامل نہیں ہیں،اس سے تو بت مراد ہیں۔
حالانکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمائے گا:
وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ(المائدہ:۱۱۶)
’’اور جن اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم سے کہے گاکیا تم نے لوگوں سے کہا تھاکہ مجھے اور میری ماں کو اللہ تعالیٰ کے سوا معبود بنا لینا‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ مریم علیہا السلام کو ’’من دون اللہ‘‘میں شامل کیا ہےاور التوبہ کی آیت نمبر۳۱میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو اور بنی اسرائیل کے علماء و مشائخ کو’’من دون اللہ‘‘میں شامل کیا،لہذا یہ کہنا کہ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ’’من دون اللہ‘‘میں شامل نہیں صرف شیطان کا دھوکہ ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
ہماری تخلیق کا اہم مقصد

دراصل شیطان نے آج ان اشکالات میں الجھا کرہمیں اس عظیم مقصد سے غافل کردیا ہےجس کے لیےاللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا تھا،فرمایا:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ۔مَاۤ اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ ۔اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ(الذاریات:۵۶،۵۷،۵۸)
’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہےکہ وہ صرف میری عبادت کریں،نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہےکہ وہ مجھے کھلائیں،اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں،قوت والا اورزورآور ہے‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں خبر دی ہےکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے،وہ اس بات کا ضرورت مند نہیں ہےکہ ہم اس کی عبادت کریں درحقیقت ہم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں اور اس بات کے ضرورت مند ہیں کہ اس کی عبادت کرکے اس کو راضی کریں اور عبادت بھی ایسی ہوکہ اس کے ساتھ غیر اللہ کی بندگی نہ ہو۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَؒ(الانعام:۸۲)
’’جو لوگ ایمان لائےاور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم(یعنی شرک) کی ملاوٹ نہیں کی تو ایسے ہی لوگوں کے لیے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں‘‘
معلوم ہوا کہ ہدایت یافتہ لوگ وہی ہیں جو اپنے ایمان میں شرک کی ملاوٹ نہیں کرتےکیونکہ اعمال اسی وقت قبول کیے جائیں گےجب وہ شرک سے پاک ہوں۔
وَ لَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَ اِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ(الزمر:۶۵)
’’اور بے شک تمہاری طرف اور تم سے پہلے(نبیوں)کی طرف یہ وحی کی گئی ہےکہ اگر (بالفرض محال)تم نے شرک کیاتو بلاشبہ تمہارا عمل ضائع ہو جائے گااور تم یقیناً خسارہ پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے‘‘
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک پر جنت حرام کی ہے۔
اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(المائدہ:۷۲)
’’جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں‘‘
یہی وجہ ہےکہ انبیاءکرام سب سے پہلے قوم کو یہی دعوت دیتے تھےکہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرواور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(الانبیاء:۲۵)
’’اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی الہٰ نہیں پس میری عبادت کرو‘‘
نوح،ہود،صالح،شعیب اور دیگر تمام انبیاء کرام علیہ السلام نے اپنی اپنی قوم کو یہی بات کہی:
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ(الاعراف:۵۹،۶۵،۷۳،۸۵)
’’اللہ کی عبادت کرواس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘
خود رسول اللہﷺنبوت کے پہلے 13سال مکہ میں لوگوں کو توحید ہی کی دعوت دیتے رہے،اسی طرح ہر دور میں اللہ کے نیک بندے انبیاءکرام کے راستے پرچلتے ہوئے اپنی دعوت کا آغاز توحید اور عقیدہ کی اصلاح سے کرتے رہےپھر اس کے بات بقیہ دین کے احکامات کی طرف لوگوں کو بلاتے رہےاللہ کے نبیﷺنے ان ہی کے لیے نجات کی خبردی۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’کہ بنی اسرائیل ۷۲ فرقوں میں تقسیم ہوئی اور میری امت ۷۳فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گےسوائے ایک کے،عرض کیا گیا کہ وہ کون سا گروہ ہوگاتو آپﷺنے فرمایا:’’یہ وہ فرقہ ہےجو اس راستے پر ہوں گےجس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں‘‘(جامع ترمذی:۲۶۴۱)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
آپ نے جو خبر دی تھی وہ سچ ثابت ہوئی آج آپ کی امت کی اکثریت کے عقیدوں کی بنیاد کتاب و سنت نہیں ہےبلکہ وہ اپنے عقیدے یونانی فلسفہ،علم الکلام اور تصوف کے اصولوں سے اخذ کر رہے ہیں،اسی طرح بہت سے دین کی طرف دعوت دینے والے ایسے لوگ ہیں جو لوگوں کے عقائد کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دیتے بلکہ فضائل اعمال سنا کر اس کی دعوت دیتے ہیں۔لوگوں کی ناراضگی کی بنا پریا جماعت میں لوگوں کو شامل کرنے کے شوق میں حق اور باطل کا فرق بیان نہ کرنا بہت بڑا جرم ہے،حق کو چھپانے سے گمراہی کو پھلنے پھولنے کا موقعہ ملتا ہےاور شرک کو اسلام اور عقیدہ شرک کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والوں کو اسلامی رہنما سمجھا جانے لگتا ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ(البقرہ:۱۵۹)
’’بے شک جو کھلے دلائل اور ہدایت کی ان باتوں کو جو ہم نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم نے اپنی کتاب میں واضح طور پر بیان کردیا ہےتو ایسے لوگوں پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ يَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ۙ اُولٰٓىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ لَا يُزَكِّيْهِمْ١ۖۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ(البقرہ:۱۷۴)
’’بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب کی ان باتوں کو چھپاتے ہیں جن کو اللہ نے نازل فرمایا ہےوہ اپنے پیٹوں میں دوزخ کی آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ ایسے لوگوں سے کلام کرے گانہ انہیں پاک کرے گااوران کے لیے دردناک عذاب ہوگا‘‘
ایک داعی کے لیے ضروری ہےکہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر کرے اورلوگوں کو بتائے کے اللہ تعالیٰ کی صفات میں کوئی شریک نہیں:

(۱)وہ’’السمیع‘‘ہے،جہاں بھر کی آوازیں بآسانی سنتا ہے،کیسی کیسی زبانیں ہیں عربی،اردو انگریزی،ایک ایک ملک میں دسیوں زبانیں بولی جاتی ہیں صرف اللہ ہی ہر زبان کو جانتا ہے،انسان حتی کی رسول اللہﷺبھی اپنی زندگی میں ہر زبان کو نہیں جانتے تھے،پھر جس زبان ہی کو انبیاء اور اولیاءنہ جانتے ہوں تو اس زبان میں پکارنے والےکی درخواست کیسے پورا کر سکتے ہیں؟
(۲)وہ ’’السمیع‘‘ہےزمیں و آسمان کے ہر کونے سےفریاد کرنے والوں کامسلسل شور ہے،وہ ہر اہک کی الگ الگ سنتا ہےاور صاف پہچانتا ہےکہ کون پکار رہا ہے،سب کی بیک وقت سنتا ہے،کسی سے بھی غافل نہیں،جبکہ کوئی انسان ایسا نہیں جو بیک وقت سیکڑوں لوگوں کی التجاؤں کو سن سکے۔
(۳)وہ ’’السمیع‘‘ہےوہ جہاں بھر کی التجاؤں کو سنتا ہے،فاصلہ اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے،یہ تو انسان ہےجو صرف نزدیک سے سن سکتا ہےدور کی آواز اس کے کانوں میں نہیں آتی جب وہ دور والوں کی التجا ہی نہیں سن سکتا تو ان کی مشکل کشائی کیسے کرے گا؟
(۴)وہ ’’الحی‘‘ہےاس کے لیے نہ نیند ہےاورنہ ہی اونگھ،دن کے۱۲بجے ہوں یا رات کے ۱۲اس کے لیے برابر ہیں،
جبکہ رسول اللہﷺاور علی رضی اللہ عنہ سویا کرتے تھے،ایک سفر میں رسول اللہﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اتنی نیند آئی کہ صبح کی نماز قضا ہوگئی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج نکل چکا تھا(بخاری:۵۹۵،مسلم:۶۸۰)
اگر انبیاء اور اولیاء انسانوں کے مشکل کشا ہوں تو پھر ان کے سونے کا وقت معلوم ہونا چاہیےتانکہ انسان اپنی درخواست اس وقت پیش کرےجب وہ جاگ رہے ہوں اوریہ بھی سوچئے کہ جس وقت یہ مشکل کشا سو رہے ہوں اس وقت لوگ اپنی مشکلات میں کس کو پکاریں؟
(۵)وہ ’’العلیم‘‘ہےرات کی تاریکی میں اندھیری چٹان پر سیاہ چیونٹی کے قدموں کی آہٹ بھی پا لیتا ہے،کوئی راز اس کے لیے راز نہیں وہ ہر راز کو جانتا ہےکوئی اس کو دل میں پکارے وہ اس کی مشکل کو بھی جانتا ہے،سوچئے اگر انسان لوگوں کے مشکل کشا ہوں تو جو شخص اپنی مشکل کو زبان سے بیان نہیں کر سکتا گونگا تو اس کی مشکلات کو کون دور کرے گا؟
(۶)وہ ’’القادر‘‘ ہے
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےرسول اللہﷺنے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ’’اے میرے بندو!اگر اول وآخر سب مخلوقات جن و انس کسی میدان عظیم میں جمع ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر ایک کے سوال کو پو را کر دوں تو میرے خزانے میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی جتنا سمندر کے پانی میں انگلی کے داخل کرنے سے کمی آتی ہے(مسلم:۲۵۷۷)
جبکہ اللہ کے برگزیدہ انبیاء کرام بھی اپنی زندگی میں بعض معاملات میں مجبور نظر آتے ہیں:
1:نوح علیہ السلام کو بیٹا اور ان کی بیوی ان پر ایمان نہ لائے،نوح علیہ السلام ان کو جہنم کے عذاب سے بچا نہ سکے۔
2:لوط علیہ السلام کی بیوی جہنم میں جائے گی اوروہ ان کےکام نہ آسکیں گے۔
3:ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے۔
4:محمد رسول اللہﷺاپنے چچا ابو طالب کی تقدیر بدل نہ سکےخواہش اور کوشش کے باوجود انکی موت کفر پر ہوئی۔رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا جنازہ رسول اللہﷺنے پڑھایایعنی اس کے لیے مغفرت کی دعا کی مگر اللہ نے بخشنے سے انکار کردیا۔
بتائیے وہ کیسا مشکل کشا ہوگاجو اپنے والد،اولاد اور بیوی تک کی مشکلات حل کرنے پر قادر نہیں؟
(۷) وہ ’’الرحیم‘‘ اور ’’الرحمن‘‘ایسا ہےکہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب جو اس کے پاس عرش پر لکھ دیا ہےکہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے‘‘(بخاری:۷۴۰۴،صحیح مسلم:۲۷۵۱)

ایسا مہربان ہے کہ اس کے باغیوں کے لیے بھی دنیا کی نعمتیں اور سہولتیں موجود ہیں،سورج،بارش ،ہوا غرض دنیا کی ہر نعمت جہاں اس کی بندگی کرنے والوں کے لیے ہےوہاں اس کے نہ ماننے والے بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں،سوچئے وہ کیسا مشکل کشا ہوگا جو نہ رحمن اور رحیم ہے،نہ ہے قادر اور قدیر ہے،نہ ہے سمیع اور علیم ہے۔جو اللہ کی عظمت کو پہچانے گااور انسان کی بے بسی کو جانے گاوہ کسی اور کو مشکل کشا نہیں مان سکتا اور نہ کسی اور کو اللہ کا شریک بنا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو حق سمجھنے اوراس کی پیروی کی کرنے کی توفیق دےاور باطل کو باطل جاننے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
الحمد للہ۔۔۔’’ایمان باللہ کی حقیقت‘‘کتاب مکمل ہو چکی ہے۔
اللہ،میرے اس عمل کو شرف قبولیت بخشے۔ریاکاری کے عنصر سےمیرے اس عمل کو محفوظ رکھے۔آمین
کلیم حیدر بھائی!اس کتاب کو بھی یونی کوڈ کتب کی لسٹ میں شامل کر لیں۔
جزاک اللہ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کلیم حیدر بھائی!اس کتاب کو بھی یونی کوڈ کتب کی لسٹ میں شامل کر لیں۔
جزاک اللہ
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدارین عکرمہ بھائی جان۔
کتاب کو لسٹ میں شامل کردیا گیا ہے۔
 
Top