محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۰۠ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا۰ۣ ثُمَّ اَحْيَاھُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ۲۴۳ وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۲۴۴ مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَۃً۰ۭ وَاللہُ يَقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ۰۠ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۲۴۵
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ اسے ہمارے مال ودولت کی ضرورت نہیں۔ اس کے خزانے بھرے پڑے ہیں البتہ ہمیں توشۂ آخرت کی سخت حاجت ہے، اس لیے فرمایا کہ تم اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اعمال کی دولت کو جمع کراؤ۔ وہ اسے بڑھاتا رہے گا اورتمھیں کئی گنا نفع کے ساتھ واپس کرے گا۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالاجداح انصاری نے پوچھا۔ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔'' ہاں''۔ تو کہا۔ ہاتھ بڑھائیے۔ اس کے بعد باغ کو اللہ کی راہ میں دینے کا اعلان فرمادیا۔ جس میں تقریباً چھ سو درخت کھجور کے تھے۔
آیت کو ان الفاظ پر ختم فرمایا کہ وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔مقصدیہ ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے آدمی مفلس وقلاش نہیں ہو جاتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور یہ جان لو کہ تمھیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے ۔تم چاہتے ہو کہ تم احکم الحاکمین کی جناب میں خالی ہاتھ جاؤ۔
۱؎ اس سے پیشتر کی آیات میں قوم بنی اسرائیل کا واقعہ ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح وہ جہاد سے ڈرکر بھاگ کھڑے ہوئے اور کس طرح موت کے چنگل میں گرفتار ہوگئے اور پھرکیوں کر اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ زندگی بخشی۔ مقصد یہ ہے کہ جہاد کی اہمیت بتلائی جاوے اور یہ بتلایاجاوے کہ موت بہرحال آنے والی چیز ہے۔ اس سے مفر نہیں، اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ موت خدا کی راہ میں آئے۔اس کے بعد دعوتِ جہاد ہے اور اس کا ذکر ہے کہ خدا کو قرض دو، تاکہ قیامت کے دن اسے کئی گنا زیادہ کرکے تمھیں اجر کی صورت میں بدل دے۔کیا تونے (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) وہ لوگ نہیں دیکھے جو ہزاروں تھے اور موت کے ڈرسے اپنے گھروں سے نکلے تھے۔ سوخدا نے ان سے کہا کہ مرجاؤ۔پھران کو جلادیا۔ بے شک خدا آدمیوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں شکر کرتے۔۱؎(۲۴۳)اورتم خدا کی راہ میں لڑائی کرو اور جانو کہ اللہ سنتا اور جانتا ہے۔(۲۴۴) ایسا کون شخص ہے جو خدا کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کو کئی گنا دگنا کردے اور خداہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف جاؤگے۔(۲۴۵)
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ اسے ہمارے مال ودولت کی ضرورت نہیں۔ اس کے خزانے بھرے پڑے ہیں البتہ ہمیں توشۂ آخرت کی سخت حاجت ہے، اس لیے فرمایا کہ تم اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اعمال کی دولت کو جمع کراؤ۔ وہ اسے بڑھاتا رہے گا اورتمھیں کئی گنا نفع کے ساتھ واپس کرے گا۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالاجداح انصاری نے پوچھا۔ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔'' ہاں''۔ تو کہا۔ ہاتھ بڑھائیے۔ اس کے بعد باغ کو اللہ کی راہ میں دینے کا اعلان فرمادیا۔ جس میں تقریباً چھ سو درخت کھجور کے تھے۔
آیت کو ان الفاظ پر ختم فرمایا کہ وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔مقصدیہ ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے آدمی مفلس وقلاش نہیں ہو جاتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور یہ جان لو کہ تمھیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے ۔تم چاہتے ہو کہ تم احکم الحاکمین کی جناب میں خالی ہاتھ جاؤ۔
{اُلُوْفٌ} ہزاروں۔ جمع اَلْفٌ۔{ حَذْرَ} خوف۔ ڈر۔حل لغات