• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان کی شاخوں کا بیان - 2

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایمان کی شاخوں کا بیان - 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ الذی ھدانا لھذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا اللہ ط ونشھد ان لا ا لہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ اما بعد۔ فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیم ط
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِىْٓ اُوْفِ بِعَہْدِكُمْ۝۰ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ۝۴۰ (بقرہ:۴۰)
(ترجمہ)تم میرے عہد اور قول کو پورا کرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا، اور صرف مجھ ہی سے ڈرا کرو۔
(۳۲) ایمان کی بتیسویں شاخ نذر ا ور وعدے کو پورا کرنا ہے، یعنی جب کسی سے وعدہ کرے یا کوئی نذر مانے، تو اس کا پورا کرنا جزو ایمان ہے، ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے اوفوا بالعقود (المائدہ) عہد و اقرار کو پورا کرو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ۝۰ۚ اِنَّ الْعَہْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا۝۳۴ (بنی اسرائیل:۳۴)
عہد اور قول و قرار کو پورا کرو، کیونکہ اس کے بارے میں (قیامت کے دن)سوال ہوگا۔
وعدہ خلافی اور بدعہدی کرنا نفاق کی علامت ہے، جیسا کہ حدیثوں میں اس کا بیان آچکا ہے۔
(۳۳) ایمان کی تینتیسویں شاخ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کرنا، اور اس کو لوگوں میں بیان کرنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، واما بنعمۃ ربک فحدث۔ (والضحی) اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرو، اللہ فرماتا ہے:

لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراھیم:۷)
اگر تم نعمتوں کی شکر گزاری کرو گے، تو ہم ضرور زیادہ دیں گے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝۱۵۲ۧ (البقرہ:۱۵۲)
تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، اور میری شکرگزاری کرو اور ناشکری مت کرو۔
ان آیتوں سے معلوم ہوا، کہ شکر گزاری ایمان میں داخل ہے، اور ناشکری کفران نعمت ہے۔
(۳۴) ایمان کی چونتیسویں شاخ زبان کی حفاظت ہے یعنی زبان کو غیبت، چغلی، جھوٹ، فحش اور بدگوئی وغیرہ سے بچانا ایمان کا جزو ہے، اور سچے لوگوں کی بڑی تعریف ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کونوا مع الصادقین۔ (انفال) سچے لوگوں کے ساتھ رہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ۝۱۱۶ۭ (نحل:۱۱۶)
بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں وہ نجات نہیں پائیں گے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: ان ا لصدق یھدی الی البر الحدیث (مشکوۃ) سچائی نیکی کی طرف پہنچاتی ہے(اور نیکی جنت میں پہنچاتی ہے) اور سچا آدمی اللہ کے یہاں سچوں میں لکھا جاتا ہے، اور جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے، اور جھوٹا آدمی اللہ تعالیٰ کے یہاں جھوٹوں میں لکھا جاتا ہے(بخاری، مسلم) اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من یضمن ما بین لحییہ ومابین فخذیہ اضمن لہ الجنۃ۔ (مسلم)
جو زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ذمہ داری لے لے تو میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری لیتا ہوں۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من کان یؤمن باللہ والیوم الاخرفلیقل خیرا اولیصمت۔ (مشکوۃ)
جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اس کو بھلی بات کرنی چاہیے، یا خاموش رہنا چاہیے۔
(۳۵) ایمان کی پینتیسویں شاخ، امانتوں کا ادا کرنا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَــتَہٗ۔ (البقرہ:۲۸۳)
جس کے پاس امانت رکھی جائے اس کو چاہیے کہ امانت والے کو امانت دیدے
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۔ (النسا:۵۸)
بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے، کہ امانت والے کو امانت ادا کرو۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ادالامانۃ الی من ائتمنک ولا تخن من خانک۔ (ترمذی، شعب الایمان، ابوداؤد و صححہ فی الجامع الصغیر)
جو تیرے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کر، اور خیانت کرنے والے کے ساتھ تم خیانت مت کرو۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لا ایمان لمن لا امانۃ لہ ولا دین لمن لا عھدلہ۔ (بیہقی، احمد، ابن حبان و صححہ فی الجامع الصغیر)
جوامانت کو ا دا نہیں کرتا، وہ ایماندار نہیں، اور جو عہد کو پورا نہیں کرتا، وہ دیندار نہیں۔
اور فرمایا:’’امانت میں خیانت کرنا نفاق ہے۔‘‘
(۳۶)ایمان کی چھتیسویں شاخ مسلمانوں کے قتل کرنے سے بچنا، اور ان کو تکلیف نہ پہنچانا ہے۔ جو بغیر شرعی اجازت کے کسی مسلمان کو قتل کر ڈالے گا، وہ ایمان سے نکل جائے گا، اور ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاۗؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِيْھَا وَغَضِبَ اللہُ عَلَيْہِ۔ (النساء:۹۳)
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا، تو اس کی جزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، اور اللہ اس سے ناراض رہے گا۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

قتل المسلم کفروسبابہ فسق۔ (بخاری)
مسلمان کو مار ڈالنا کفر ہے ا ور اس کو گالی دینا فسق ہے۔
یعنی کسی مسلمان کو مار ڈالنے سے مارنے والا کافر ہوجاتاہے، اور گالی دینے والا فاسق ہو جاتا ہے۔
(۳۷)ایمان کی سینتیسویں شاخ، زناکاری سے بچنا ہے اور عصمت و عفت سے رہنا ہے، اللہ فرماتا ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً۝۰ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا۝۳۲ (بنی اسرآئیل:۳۲)
زنا کے قریب بھی مت جاؤ، یہ نہایت بے حیائی اور بری راہ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ۔ (النور:۳۱)
مسلمانوں سے کہہ دیجیے، کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔
’’ویحفظن فروجھن‘‘ اور عورتیں بھی اپنی شرم گاہوں کی (زناوغیرہ سے )حفاظت کریں۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لایزنی ا لزانی حین یزنی وھومومن۔ (بخاری)
زانی زناکاری کے وقت مومن نہیں رہتا۔
قرآن وحدیث میں زناکاری کی بڑی مذمت ہے، جس سے بچنا ایمان داری کی نشانی ہے اور نہ بچنا بے ایمانی کی دلیل ہے۔
(۳۸)ایمان کی اڑتیسویں شاخ حرام مال سے بچنا ہے، یعنی چوری، لوٹ مار، رشوت اور سود وغیرہ سے بچنا فرض ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ۔ (البقرہ:۱۸۸)
آپس میں ایک دوسرے کا مال حرام طریقے سے مت کھاؤ۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ان دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرام۔ (بخاری)
تمہارا خون، مال اور عزت و آبرو آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں۔
(۳۹) ایمان کی انتالیسویں شاخ، کھانے پینے میں حلال حرام کی تمیز کرنا،حلال کا استعمال کرنا اور حرام سے بچنا ہے، اللہ تعالیٰ نے حلال روزی کھانے کا حکم دیا ہے، اور حرام سے منع فرمایا ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ۔ (البقرہ:۱۷۲)
اے لوگو! ہماری دی ہوئی پاک و حلال روزی کھاؤ۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۝۰ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۵۱ۭ (المؤمنون:۵۱)
اے ہمارے رسولو! حلال اور پاکیزہ روزی کھاؤ، اور نیک کام کرتے رہو، میں تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہوں۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۔ (البقرۃ:۱۶۸)
اے لوگو! زمین کی پیداوار میں سے حلال و پاک روزی کھایا کرو۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، کہ کوئی آدمی اپنے لمبے لمبے سفروں میں نہایت عاجزی اور تواضع سے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول نہیں فرماتا، کیونکہ اس کا کھانا، پینا حرام ہے ، اس کا لباس حرام کمائی کا ہے، اور اس نے حرام مال سے ا پنے جسم کی پرورش کی ہے تو بھلا اس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے۔ (بخاری)
اوررسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، حلال ظاہر ہے، اور حرام بھی ظاہر ہے، اورحلال و حرام کے بیچ میں کچھ شک و شبہ والی چیزیں بھی ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو ان شبہ والوں چیزوں سے بچ گیا، اس نے اپنے دین و عزت کو بچا لیا، اور جس نے شبہ والی چیزوں کو استعمال کر لیا، وہ حرام میں پڑ گیا، جس طرح کوئی چرواہا کسی دوسرے کی چراگاہ کے قریب اپنے جانور چرائے ، تو کیاعجب ہے، کہ کوئی جانور اس چراگاہ میں بھی چرلے، دنیا کے سب بادشاہوں کی چراگاہ ضرور ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے یہ اس کی چراگاہ ہے، لہٰذا حرام کے پاس بھی نہیںجانا چاہیے، اور جس میں شک و شبہ ہے اس کے استعمال سے بھی بچنا چاہیے۔ (بخاری شریف)
(۴۰) ایمان کی چالیسویں شاخ، حرام لباس سے بچنا ہے، یعنی اپنی ظاہری شکل و صورت شریعت کے موافق رکھے اور شریعت کے خلاف نہ ہو، ریشم کا استعمال نہ ہو، چاندی سونے کے برتنوںمیں نہ کھایا جائے اور نہ پیا جائے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔
ولا تلبسوا الحریر ولاالدیباج ولا تشربوا فی انیۃ الذھب والفضۃ۔ (بخاری)
ریشم کا لباس مت پہنو، اور نہ سونے چاندی کے برتنوں میں کھاؤ پیو۔
یہ چیزیں دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لاینظراللہ تعالیٰ یوم القیامۃ الی من جرثوبہ خیلاء۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا، جو تکبر سے اپنے کپڑے کو لٹکا کر چلتاہے۔
البتہ عورتوں کے لیے ریشم، سونا، چاندی کا پہننا جائز ہے، ا ور بلا تکبر اتنا کپڑا لٹکا کر چل سکتی ہیں۔ جس سے ٹخنے اچھی طرح ڈھک جائیں، جیسا کہ دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے۔
(۴۱)ایمان کی اکتالیسویں شاخ، کھیل تماشوں اور دیگر حرام لہو ولعب سے بچنا ہے، کیونکہ یہ سب شیطانی کام ہیں، ان حرام کاموں سے اور حرام کھیلوں سے بچنا ایمانداری کا کام ہے، قرآن مجید میں ا للہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَہْوَالْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۔ (لقمان:۶)
اور بعض لوگ کھیل کی باتوں کو خریدتے ہیں، تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے گمراہ کریں۔
رسول اللہ ﷺ ہر قسم کے لہوولعب اور گانے بجانے سے روکنے کے لیے دنیا میں تشریف لائے تھے، آپﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
ان اللہ بعثنی رحمۃ و ھدی وامرنی بمحق المعازف والمزامیر والاوثان والصلب وامر الجاھلیۃ۔ (مسند احمد)
اور اللہ تعالیٰ نے مجھے سارے جہان والوں کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے، اور مجھے حکم دیا ہے، کہ میں ہر قسم کے ہاتھ سے بجانے کے باجوں اور گانوں کی چیزوں اور بتوں اور صلیبوں اور جاہلیت کے رسم و رواج کو مٹا دوں۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب لوگ گانے والیوں اور باجوں کو لیں گے، تب قیامت آئے گی، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من لعب بالنردفقد عصی اللہ و رسولہ۔ (احمد)
چو سر کھیلنے والا اللہ ا ور اس کے رسول کانا فرمان ہے۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں، جو (نرد شیر)چوسر، شطرنج کھیلے، تو اس نے اپنے ہاتھوں کو گویا سور کے خون سے رنگ دیا۔(مشکوۃ)
(۴۲) ایمان کی بیالیسویں شاخ، اقتصاد ہے، یعنی ہر چیز میں میانہ روی کا طریقہ ا ختیار کرنا، اور افراط و تفریط سے بچنا ہے، فضول خرچی اور ناحق مال خرچ کرنے کو حرام جاننا، نہ حد سے زیادہ بخل ہو، اور نہ سب کو خرچ ہی کر ڈالنا چاہیے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً إِلٰی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ ۔ (بنی اسرائیل:۲۹)
اور نہ تم اپنے ہاتھ کو گردن میں باندھ لو، اور نہ بالکل ان کو کھول دو۔
یعنی خرچ میں میانہ روی اختیار کرو، افراط و تفریط سے بچو، چنانچہ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(الفرقان:۶۷)
رحمان کے بندے وہ ہیں، جو خرچ کرتے وقت فضول خرچی نہیں کرتے، اور نہ تنگی اور بخیلی کرتے ہیں، بلکہ اس کے درمیان کی روش اختیار کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ان الھدی الصالح والسمت الصالح والاقتصادجزء من خمس وعشرین جزء من النبوة۔ (ابو داؤد)
اچھی عادت اور حسن اخلاق اور میانہ روی نبوت کے پچیس حصوں میںسے ایک حصہ ہے۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الاقتصاد فی النفقۃ نصف المعیشۃ۔ (بیہقی)
خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے۔
(۴۳) ایمان کی تینتالیسویں شاخ کینہ، حسد و بغض، مکر و فریب، جھوٹ کو حرام جاننا، اور ان برے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا ہے، ان باتوں کی برائی کتاب و سنت میں کثرت سے آئی ہے، حسد کی برائی سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۝۵ۧ (الفلق:۵)
الٰہی میں حاسدوں کے حسد سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: کہ سب سے پہلے آسمان پر یہی گناہ ہوا ہے، یعنی شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ حسد ہی کیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں لوگو! تم آپس میں حسد نہ کرو، اور بغض نہ رکھو، اور نہ رشتے ناطے کو توڑو، بلکہ اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کے رہو(مسلم) حسد کرنے والے کی نیکی برباد ہوجاتی ہے اور مسلمان کینہ پرورنہیں ہوتا ہے، جو بلا وجہ شرعی کے کینہ کپٹ رکھے گا، وہ کامل مسلمان نہ ہوگا۔
(۴۴) ایمان کی چوالیسویں شاخ، لوگوں کی بے عزتی کرنے ا ور ان کی آبروریزی کرنے سے بچنا ہے کسی انسان پر نہ توتہمت لگاؤ، اور نہ اس کی توہین کرو، اور نہ اس کے ساتھ بدگوئی سے پیش آؤ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰۠ (النور:۲۳)
جو لوگ پاک دامن اور بھولی بھالی ایماندار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ، ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے۔
یہی حال مردوں پر تہمت لگانے اور بہتان باندھنے کا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۰ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ (النور:۲۳)
جو لوگ ایماندار لوگوں میں فحش اور برائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دونوں جہاں میں بڑی مار و سزا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان: مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرے، اور نہ اسے دشمن کے حوالے کرے ، اور نہ اسے ذلیل و خوار کرے، اور تقویٰ سینے میں ہے، انسان کے لیے اتنی برائی کافی ہے، کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر و ذلیل جانے۔
کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ وعرضہ۔ (مسلم)
ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون و مال اور عزت و آبرو حرام ہے۔
(۴۵) ایمان کی پینتالیسویں شاخ، اخلاص ہے، یعنی ہر ایک کام کو اللہ کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے ، اس میں ریا و نمود نہ ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ۔ (البینۃ:۵)
سب کو یہی حکم دیا گیا ہے، کہ خالص اللہ کی عبادت کریں، ایک طرف ہو کر۔
اخلاص کا پورا بیان اسی کتاب کے پہلے خطبہ میں آچکاہے، اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
(۴۶) ایمان کی چھیالیسویں شاخ نیکی سے خوش ہونا، اور بدی سے ناخوش ہونا ہے، یہی ایمانداری کی نشانی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من سرتہ حسنتہ وساء تہ سیئتہ فھو مومن۔
جسے نیکی اچھی لگے اور بدی بری معلوم ہو، تو وہ مومن ہے۔
(۴۷) ایمان کی سنتالیسویں شاخ، ہر گناہ کا علاج توبہ سے کرنا، کیونکہ ہر ایک سے کچھ نہ کچھ قصور ہو جاتا ہے، اس قصور سے معافی چاہنا ایمانداری کی نشانی ہے۔
بندہ ہما بہ کہ ز تقصیر خویش
عذر بدرگاہ خدا آورد
اللہ تعالیٰ توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے قصور ہوگیا تھا، اور شیطان سے بھی،حضرت آدم علیہ السلام نے توبہ کی، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، اور اس سے خوش ہوگیا، اور شیطان نے توبہ نہیں کی، تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا۝۰ۭ (التحریم:۸)
اےایمان والو! اللہ تعالیٰ کے سامنے سچی توبہ کرو۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ۔ (الزمر:۵۴)
اپنے رب کی طرف جھک جاؤ، اور اس کے فرمانبردار بن جاؤ۔
قرآن و حدیث میں توبہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کثرت سے توبہ و استغفار کیا کرتے تھے۔
(۴۸) ایمان کی اڑتالیسویں شاخ، قربانیاں کرنا ہے، جیسے حج کے موقع پر اور بقر عید میں اللہ کے واسطے کوئی جانور ذبح کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ o (الکوثر:۲)
اللہ کے لیے نماز پڑھو، اور اس کے لیے قربانی کرو۔
یہ قربانی شعائر اللہ میں سے ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللہِ۔ (الحج:۳۶)
قربانی کا اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کے دین کی نشانیوں میںسے ٹھہرایا ہے۔
یعنی جو ان کی تعظیم کرے، وہ متقی ، پرہیز گار اور دیندار ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲ (الحج:۳۲)
اور جو اللہ کے شعائر کی عزت کرے، تو یہ دلوں کی پرہیز گاری میں سے ہے۔
(۴۹) ایمان کی انچاسویں شاخ، مسلمان حاکموں کی فرمانبرداری کرنا، جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مطابق حکم دیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ (النساء:۵۹)
اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو، اور اپنے (مسلم) حاکموں کا کہا مانو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من یطع الامیر فقد اطاعنی و من یعصی الامیر فقد عصانی۔ (بخاری)
جس نے مسلمان حاکم کی اطاعت کی اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے مسلمان حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
آپﷺ نے فرمایا: مسلم سردار کی اطاعت کرو، اگرچہ بدشکل ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری ، مسلم)
(۵۰) ایمان کی پچاسویں شاخ، جماعت مسلمین کے ساتھ رہنا، اور اسلامی اتحاد و اتفاق کو مضبوطی سے تھامے رہنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:۱۰۳)
اور اللہ کی رسی (شریعت اسلام)کو مضبوطی سے تھام لو، اور پھوٹ نہ ڈالو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمانوں کی جماعت سے نکل جائے، اور اسی پر مرجائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا (مسلم)
(۵۱) ایمان کی اکیاونویں شاخ،لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ (نساء:۵۸)
جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاَقْسِطُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۔ (الحجرات:۹)
عدل کرو، عدل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے۔
کتاب و سنت میں عدل و انصاف کرنے کی بڑی تاکید اور بہت فضیلت آئی ہے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق و انصاف کی راہ پر چلائے، اور ایمان و عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (آل عمران:۱۰۴)
(ترجمہ) اور تم میںسے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے، جو بھلائی کی طرف بلاتی رہے، اور نیک کاموں کا حکم کرتی رہے، اور برے کاموں سے روکتی رہے، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
اس جماعت سے صلحاء ا مراء اور علماء کی جماعت مراد ہے، جن کا یہی کام ہونا چاہیے، کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں، اور ہر برے کام سے روکنے کی کوشش کرتے رہیں، یہ بھی ایمان کی نشانی ہے، ایمان کی تہتر نشانیوں میں سے اکیاون نشانیوں کا بیان پہلے ہو چکا ہے، آگے باقی نشانیوں کو سنیئے:۔
(۵۲) ایمان کی باونویں شاخ، امربالمعروف ونہی عن المنکر ہے، یعنی اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا ا یمان کا ایک حصہ ہے، اللہ تعالیٰ اسی بات پر امت محمدیہﷺ کی تعریف فرماتا ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ (آل عمران:۱۱۰)
تم سب امتوں میںسے بہتر امت ہو، کہ لوگوں کے فائدہ کے لیے پیدا کیے گئے ہو، تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو ا ور برائیوں سے منع کرتے ہو، اور خدا پر ایمان رکھتے ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم برا کام دیکھو، تو اسے ہاتھ سے مٹا دو، اگر ہاتھ سے مٹانے کی طاقت نہیں ہے، تو زبان سے منع کرو، اگر زبان سے بھی منع کرنے کی ہمت نہیں ہے، تو اس برے کام کو دل سے برا جانو، اور یہ نہایت ہی ضعیف درجہ کا ایمان ہے۔(مسلم)
اس کا مفصل بیان امربالمعروف کے خطبہ میں آئے گا۔
(۵۳) ایمان کی تریپنویں شاخ، نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے اور گناہ اور ظلم پر کسی کی مدد نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (مائدہ:۲)
نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو، اور نافرمانی اور ظلم کے کاموں میں امداد مت کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
انصراخاک ظالما اومظلوما۔ (مشکوۃ)
اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
ایک شخص نے عرض کیا، مظلوم کی امداد تو کرتے ہیں، لیکن ظالم کی امداد کیسے کریں؟ آپﷺ نے فرمایا: اس کو ظلم سے روکو، یہی اس کی امداد ہے۔ (بخاری، مسلم)۔
(۵۴) ایمان کی چونویں شاخ، شرم اور حیا کرنا ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے سنا، کہ وہ اپنے بھائی کو شرم کرنے سے منع کر رہا تھا تو آپﷺ نے فرمایا:

دعہ فان الحیاء من الایمان۔ (بخاری، مسلم)
اس کو حیا کرنے سے منع نہ کرو، شرم تو ایمان میں سے ہے۔
شرم کرنے والا ایمان دار ہے، بے حیائی کرنے والا پورا مسلمان نہیں ہے، شرم سے بھلائی حاصل ہوتی ہے، اور بے شرمی سے بدبختی۔
(۵۵)ایمان کی پچپنویں شاخ، والدین یعنی ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا اور ان کی خدمت کرنا ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وبالوالدین احسانا۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو،اور سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۝۰ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُہُمَآ اَوْ كِلٰـہُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۔ (بنی اسرائیل:۲۳)
اور تیرے رب نے یہ حکم دے رکھا ہے کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو ان کو اف بھی نہ کہو، اور نہ ان کو جھڑکو، اور ان سے ادب سے بات چیت کرو، اچھی اور نرم بات کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا، اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی باپ کی رضامندی میں ہے، اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔
(۵۶) ایمان کی چھپنویں شاخ، صلہ رحمی کرنا ہے، یعنی خویش و اقارب کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اور ان کے حقوق کو ادا کرنا فرض ہے، صلہ رحمی نہ کرنے والے ملعون ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَہَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ لَعَنَہُمُ اللہُ۔ (محمد:۲۲۔۲۳)
پھر کیا تم لوگوں سے یہ بھی توقع ہے، کہ اگر تم کو حکومت ملے، تو زمین میں فساد کرو، اور رشتے ناطے کو کا ٹ ڈالو، ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی روزی میں کشائش چاہتا ہے، اور اپنی عمر میں زیادتی چاہتا ہے، تو اس کو صلہ رحمی کرنا چاہیے۔
(۵۷) ایمان کی ستاونویں شاخ، حسن خلق ہے، یعنی اچھے اخلاق سے پیش آنا، تواضع اور انکساری کرنا، کسی کو گالی نہ دینا، غصہ کو دبالینا، حرام اور گناہ کی باتوں سے بچنا، خدا کی مخلوق کی خدمت کرنا وغیرہ وغیرہ، سب ا چھے کام کرنا حسن خلق ہے، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق فرمایا ہے:

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ o (نٓ:۴)
بےشک آپ(ﷺ) بڑے اخلاق والے ہیں۔
حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے اچھا وہ ہے، جس کے اخلاق اچھے ہیں اور ایک روایت میں ہے، حسن خلق والا میرا بڑا دوست ہے(مسلم) اور بھی بہت سی احادیث ہیں، جس میں حسن خلق کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کا مفصل بیان حسن خلق کے خطبہ میں آئے گا انشاء اللہ۔
(۵۸) ایمان کی اٹھاونویں شاخ، نوکروں اور غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (النساء:۳۶)
اور اپنے غلاموں اور باندیوں کے ساتھ احسان کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان غلاموں کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ماتحتی میں دے دیا ہے، فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یاکل جو تمہارا دینی بھائی تمہاری ماتحتی میں ہو، تو تم کو چاہیے کہ جو خود کھاؤ وہی اس کو کھلاؤ، اورجو خود پہنو، وہی اس کو پہناؤ، اور ان سے ا تنا کام نہ لو کہ وہ پریشان ہو کر ہار جائیں، اگر کوئی ایسا سخت، بڑا مشکل کام آجائے، تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔(بخاری)
(۵۹) ایمان کی انسٹھویں شاخ، آقا و مالک کا حق ، نوکر و ملازم اور غلام کو ادا کرنا، یعنی غلام پر لازم ہے کہ اپنے آقا کی خدمت کرے، اس کے حکم پر چلے، اس کی فرمانبرداری کرے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

ان العبداذا نصح لسیدہ واحسن عبادۃ اللہ فلہ اجرہ مرتین (بخاری)
جو غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے، اور اللہ تعالیٰ کی بھی اچھی طرح عبادت کرے، تو اس کو دوگنا ثواب ملے گا۔
یعنی ایک دنیاوی آقاکی خدمت گزاری کا، دوسرے ا للہ تعالیٰ کی عبادت کا، اور فرمایا جو ا پنے آقا کی خدمت سے بھاگ جاتا ہے، تو جب تک واپس نہ آجائے، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ابوداؤد)
(۶۰) ایمان کی ساٹھویں شاخ، بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا ہے، کیونکہ ہر ایک انسان پر لازم ہے کہ بیوی کو نان نفقہ دے، اور بچوں کی تعلیم وغیرہ کی نگرانی کرتا رہے، اور برے کاموں سے روکتا رہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کرتا رہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ۔ (التحریم:۶)
اپنی اور اپنے بچوں کی جانوں کو آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیامة انا وھو ھکذا وضم اصبعیہ۔ (مسلم)
جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرتا ہے، یہاںتک کہ وہ دونوں بالغ ہو جائیں، تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ساتھ آئیں گے (آپﷺ نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ملا کر بتایا، یعنی دونوں ملے ہوں گے)۔
(۶۱) ایمان کی ا کسٹھویں شاخ، اللہ والوں سے میل جول رکھنا، اور ان سے محبت کرنا، اور ان سے سلام و مصافحہ کرنا ا ور سلام پھیلانا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَاتَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَہْلِہَا۝۰ۭ (النور:۲۷)
جب تم دوسروں کے گھر جاؤ تو سلام کے بغیر مت داخل ہو، اور گھر والوں کو سلام کرو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا تدخلوا الجنۃ حتی تومنوا ۔(مسلم) تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور ایماندار نہیں ہوسکتے ، جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو، میں تمہیں ایسا کام بتائے دیتا ہوں ، کہ تم اسے کرو گے، تو محبت کرنے لگوگے، وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کرنا پھیلاؤ، تو گویا ا فشاء اسلام ا یمان میںسے ہے، آپﷺ نے فرمایا کہ جو دینداروں اور اللہ والوں سے فی سبیل اللہ محبت رکھے، وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سایہ کے تلے ہوگا۔
(۶۲) ایمان کی باسٹھویں شاخ، سلام کا جواب دینا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّۃٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا۝۸۶ (النساء:۸۶)
جب تم دعا دیئے جاؤ اور سلام کیے جاؤ، تو تم بھی اس کو دعا دو، اور سلام کا بہترین جواب دو یا اسی کو لوٹا دو۔
رسول اللہ ﷺ نے راستہ میں بیٹھنے والوں کو فرمایا: راستے کا حق ادا کرو، اور راستہ کا حق یہ ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو، اور تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹادیا کرو، اور سلام کا جواب دے دیا کرو، اور اچھی باتوں کا حکم دو، اور بری باتوں سے منع کرو۔ (بخاری)
(۶۳) ایمان کی تریسٹھویں شاخ، بیماروں کی بیمار پرسی کرنا ہے، مسلمانوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں (۱)جب وہ بیمار پڑے، تو اس کی بیمار پرسی کرے (۲)جب وہ مرے تو جنازہ میں شریک ہو (۳)جب ملاقات ہو، تو سلام کرے (۴)جب چھینکے تو اس کا جواب دے (۵) اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیر خواہی کرے (۶) جب وہ دعوت دے ، تو قبول کرے۔ (بخاری)
(۶۴) ایمان کی چونسٹھویںشاخ،مسلمانوں کے جنازے کی نماز پڑھنا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں، ان میںسے ایک یہ ہے، کہ مسلمان کے جنازے کی نماز پڑھے، اور جو اس کی نماز پڑھ لیتا ہے، اسے دو پہاڑ کے برابر ثواب ملتا ہے۔ (بخاری)
(۶۵) ایما ن کی پینسٹھویں شاخ، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دینا جب کہ وہ الحمد کہے،حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اذاعطس احد کم فحمد اللہ فشمتوہ واذا لم یحمد اللہ فلا تشمتوہ۔ (مسلم)
جب تم میں سے کوئی چھینکے اور الحمد کہے تو تم اس کا جواب دو، اور جو الحمد نہ کہے، تو اس کو جواب مت دو۔
(۶۶) ایمان کی چھیاسٹھویں شاخ، کافروں اور مشرکوں سے علیحدگی اختیار کرنا، اور ان سے دوستی نہ کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۰ۚ (آل عمران:۲۸)
مومن( مسلمانوں کو چھوڑ کر) کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا، اس کاخدا سے کوئی تعلق نہیںہے۔
(۶۷)ایمان کی سٹرسٹھویں شاخ، پڑوسی کی عزت کرنا ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ۔ (النساء:۳۶)
ماں باپ اور رشتہ داروں، اور قریبی پڑوسی ا ور اجنبی پڑوسی، اور ساتھی کے ساتھ احسان کرو۔
حدیث شریف میں ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیکرم جارہ۔ (مشکوۃ، بیہقی)
جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔
پڑوسی کا بڑا حق ہے، حدیث میں ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ حضرت جبریل علیہ السلام مجھے ہمیشہ نصیحت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے خیال کیا، کہ شاید پڑوسی بھی ورا ثت کا حق دار ہو جائے گا۔(بخاری شریف)۔
(۶۸)ایمان کی اڑسٹھویں شاخ، مہمانوں کی مہمانداری کرنا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیکرم ضیفہ۔ (بخاری)
جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، تو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔
یعنی ایک دن رات تک اچھے سے اچھا کھانا کھلانے کی کوشش کرے، اور مہمانی کا حق تین روز تک ہے، اس کے بعد مہمان کو بلاضرورت نہیں ٹھہرنا چاہیے، اگر ٹھہرے گا، تو مہمان نواز کو اس کے کھلانے پلانے پر صدقہ خیرات کا ثواب ملے گا۔ (بیہقی)۔
(۶۹)ایمان کی انہترویں شاخ، مسلمان گناہ گاروں کی پردہ پوشی کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَۃُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝۰ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ۭ (نور:۱۹)
جو لوگ مسلمانوں میں برائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دونوں جہان میں درد ناک عذاب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیمۃ۔ (بخاری شریف)
جو مسلمانوں کی پردہ پوشی کرے گا ، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔
(۷۰)ایمان کی سترویں شاخ، مصیبتوں پر صبر کرنا اور نا جائز خواہشوں سے نفس کو روکنا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔ (البقرة:۱۵۳)
اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۵ۙ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِيْبَۃٌ۝۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ۝۱۵۶ۭ (البقرۃ:۱۵۶)
اور ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیجیے کہ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے، تو وہ لوگ کہتے ہیں، کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف جانے والے ہیں۔
ایسے لوگوں پر خدا کی رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ومن یتصبر یصبرہ اللہ ولن یعطوا عطاء اوسع من الصبر۔ (بخاری)
اور جو صبر اختیار کرے گا،اللہ اسے صبر کی توفیق عطا فرمائیگا اور صبر سے زیادہ وسیع بخشش کسی کو نہیں ملی ہے۔
(۷۱) ایمان کی اکہترویں شاخ، دنیا سے بے رغبتی کرنا، اور امیدوں کو کم کرنا ہے، کیونکہ دنیا ختم ہونے والی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہے گی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من احب دنیاہ اضربا خرتہ ومن احب اخرتہ اضر بدنیاہ فاثروا ما یبقی علی مایفنی (احمد)
جو دنیا سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی آخرت کو خراب کرتا ہے اور جو آخرت کو چاہتا ہے وہ اپنی دنیا کو خراب کرتا ہے ، لہٰذا تم باقی رہنے والی آخرت کو فنا ہونے والی دنیا پر تر جیح دو۔
اور ایک حدیث میں فرمایا: کہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں ایک قطرے کی طرح ہے، اور آخرت دنیا کے مقابلہ میں ایک سمندر کی طرح ہے ۔ (مسلم شریف)
اور دنیا مسلمانوں کے حق میں جیل خانہ ہے، اور کافروں کے لیے جنت ہے۔(مسلم شریف)
اور دنیا کی ہر چیز ملعون ہے، مگر ذکر الٰہی اور دیگر نیک عمل اور عالم و متعلم۔ (ترمذی شریف)۔ دنیا سے مراد ہر وہ اشیاء ہیں جو یاد الٰہی واعمال صالحہ سے روکیں اور غافل کریں۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ضرورت سے زیادہ زمین و شغل دنیا وی مت رکھو، اس لیے کہ اس سے تم دنیا میں رغبت کرو گے، اور آخرت سے نفرت کرنے لگو گے، ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور عرض کیا، کہ یا رسول اللہ! مجھے ایسا کام بتائیے کہ اس کے کرنے سے میں ا للہ اور مخلوق کے نزدیک محبوب بن جاؤں، آپﷺ نے فرمایا: کہ دنیا سے بےرغبتی کرو، تو اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا، اور لوگوں کے مال وغیرہ سے بے نیاز ہو جاؤ، تو سب لوگ تم کو اپنا لیں گے۔
(۷۲)ایمان کی بہترویں شاخ، غیرت دار ہونا ہے، یعنی حرام و ممنوعات سے نفرت کرنا، سخت ناراض ہونا، اور بے شرمی اور دیوثی کو چھوڑنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ (النور:۳۱)
آپ مسلمان عورتوں سے فرما دیجیے ، کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے، اور مسلمان بھی غیرت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہے، کہ مومن آدمی ان کاموں کو نہ کرے، جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ (بخاری)۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الغیرۃ من ا لایمان والمذاء من النفاق۔ (مختصر شعب الایمان)
غیرت کرنا ایمان سے ہے، اور دیوثی کرنا نفاق سے ہے۔
علامہ حلیمی فرماتے ہیں: کہ ’’مذا‘‘(دیوثی) یہ ہے، کہ آدمی مردوں عورتوں کو جمع کر کے چھوڑ دے، کہ وہ آپس میں ملیں جلیں۔ (مختصرشعب الایمان)
(۷۳) ایمان کی تہترویں شاخ، فضول اور لغو باتوں سے الگ تھلگ رہنا، اور بے کار باتوں اور کاموں میں حصہ نہ لینا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں، اور گڑگڑاتے ہیں، اور لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں، اور منہ موڑتے ہیں (مومنون) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مومن اور اللہ کے وہی لوگ ہیں، جو جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے، اور جب لغو کام پر ان کا گذر ہو جاتا ہے، تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں(الفرقان) اور ایک جگہ فرمایا: اور جب لغو بات سنتے ہیں، تو منہ موڑ لیتے ہیں۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من حسن اسلام المرٔ ترکہ ما لا یعنیہ۔ (مشکوۃ)
آدمی کے اسلام کی خوبی میں یہ ہے کہ وہ بے کار باتوں کو چھوڑ دے۔
(۷۴) ایمان کی چوہترویں شاخ، سخاوت ہے، قرآن و حدیث میں سخاوت کی بڑی تعریف آئی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۝۰ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ (آل عمران:۱۳۴۔۱۳۵)
تم جلدی کرو، اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کا صرف عرض زمین و آسمان کے برابر ہے، جو ان پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی جو خوشحالی اور تنگدستی دونوں حالتوں میں اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سخی آدمی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے اور لوگوں سے بھی قریب ہے، اور بخیل اللہ سے دور، جنت سے دور اور لوگوں سے بھی دور ہے، اور نادان سخی اللہ کے نزدیک زیادہ پیارا ہے اس عابد سے جو بخیل ہے۔(مشکوۃ) اور آپﷺ نے فرمایا:

خصلتان لا یجتمعان فی مؤمن البخل وسوء الخلق۔ (ترمذی)
یہ دو باتیں مومن کامل کے اندر جمع نہیں ہو سکتی ہیں! بخل اور بدخلقی۔
اس سے معلوم ہوا کہ بخیل پورا مومن نہیں رہتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سخاوت جنت میں ایک درخت ہے، جو سخی ہوگا، اس درخت کی شاخ پکڑ کر جنت میں داخل ہو جائے گا اور بخل دوزخ میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہوگا، اس درخت کی شاخ اس کو دوزخ میں پہنچا دے گی۔ (مشکوٰۃ)
(۷۵) ایمان کی پچھترویں شاخ، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کرنا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

من لا یرحم الناس لا یرحمہ اللہ۔ (مشکوۃ)
جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرے گا۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا۔ (ترمذی)
جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:بڑوں کو پہلے کلام کرنے دو(بخاری) اور فرمایا: تم میں سے بڑا آدمی تمہاری امامت کرے، بڑوں کی عزت کرنے سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے، حدیث میں ہے کہ مسلمان بوڑھے آدمی کی عزت کرنا، گویا خدا کی عزت کرنا ہے۔ (ابو داؤد)
(۷۶)ایمان کی چھہترویں شاخ، آپس میں اصلاح کرنا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىھُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍؚ بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۭ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۔ (النساء:۱۱۴)
زیادہ سرگوشیوں میں بھلائی نہیں ہے، البتہ جو صدقہ کا حکم کرے اور بھلی باتوں کا ، یا لوگوں میں اصلاح کرنے کا حکم کرے، اور جو ان کاموں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کرے گا تو ہم اس کو عن قریب بہت زیادہ اجر دیں گے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ۔ (الحجرات:۱۰)
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس۔ (بخاری)
لوگوں میں صلح کروانے والا جھوٹا نہیں ہے۔
(۷۷)ستترویں شاخ، تکلیف دہ چیز کو راستہ سے دور کرنا، اور کسی کو تکلیف نہ دینا ہے، اور اپنے بھائی کے لیے وہ پسند کرنا جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لا یؤمن احدکم حتی یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ۔ (بخاری)
تم میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز نہ چاہے، جو اپنے لیے چاہتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الایمان بضع وستون اوبضع وسبعون شعبۃ افضلھا لاالہ الا اللہ وادناھا اماطۃ الاذی عن الطریق والحیاء شعبۃ من الایمان۔ (بخاری شریف)
ایمان کی ساٹھ یا ستر سے زیادہ شاخیں ہیں، سب سے بہتر شاخ کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور سب سے معمولی شاخ تکلیف دینے والی چیز کو راستے سے ہٹا دینا ہے اور شرم بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔
نوٹ: ایمان کی یہ ۷۷ شاخیں مدلل اور مکمل شعب الایمان بیہقی سے اخذ کی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ایمان پر ہمارا خاتمہ فرمائے آمین۔ثم آمین۔
 
Top