• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان کی شاخوں کے بیان میں-1

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایمان کی شاخوں کے بیان میں-1

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ۝۰ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا۝۱۳۶ (النساء:۱۳۶)
(ترجمہ) اے ایمان والو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے، اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں ایمان لاؤ، جو شخص اللہ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے، اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے، تو وہ بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑے گا۔
ایمان:
جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے ذریعہ سے بتائی ہیں، ان کو دل سے سچا جاننے، اور زبان سے اقرار کرنے، اور ظاہری اعضاء سے بجا لانے کو ایمان کہتے ہیں، ایمان اجمالی کلمہ شہادت اشھدان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ سچے دل و زبان سے ا قرار کر لینے سے حاصل ہوتا ہے، اور ایمان تفصیلی کی بہت تفصیل ہے،مگر مندرجہ ذیل چھ باتوں پر ایمان لانے کی قرآن و حدیث میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ پر کہ وہ ایک ہے، اس کی ذات اور صفت تمام عیبوں سے پاک ہے۔
(۲) تمام نبیوں اور رسولوں پر، کہ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے سچے بندے ہیں۔
(۳) تمام فرشتوں پر، کہ وہ اس کے نیک بندے ہیں۔
(۴) اس کی تمام کتابوں پر، جو اپنے نبیوں پر اتاری ہیں۔
(۵) قیامت پر، کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے، کہ اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کو فنا کر کے پھر سب کو دوبارہ زندہ کرے گا، اور سب کا حساب لے کر نیکوں کو انعام اور بدوں کو سزا دے گا۔
(۶) تقدیر پر، کہ رنج و خوشی آرام و تکلیف اور بھلائی برائی سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
ایمان و یقین کرنے والوں کو مومن اور نہ ماننے والوں کو کافر کہا جاتا ہے، اور صرف زبان سے ا قرار کرنے ، اور دل سے سچا نہ جاننے کو نفاق ، اور نفاق والے کو منافق کہتے ہیں، نیکی کرنے سے ایمان بڑھتا ہے، اور گناہ کرنے سے گھٹتا ہے، جس دل میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا، رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن اس کی اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر سفارش کر کے جنت میں داخل کرائیں گے۔
ایمان کی ستر سے کچھ اوپر شاخیں ہیں، سب سے بڑی شاخ کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ ہے، اور سب سے چھوٹی شاخ تکلیف دہ چیز کو راستہ سے دور کر دینا ہے، ان شاخوں کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس طرح تقسیم کیا ہے، اعمال کی تین قسمیں ہیں۔
(۱) اعمال قلبی (دل کے کام) (۲) اعمال لسانی (زبان کے کام) (۳) اعمال بدنی (بدن کے کام) دل کے چوبیس ، زبان کے سات، اور بدن کے اڑتیس کام ہیں۔
ان کے علاوہ اور بھی ہیں، ہم نے امام بیہقی کی شعب الایمان میں سے اخذ کر کے ’’اسلامی عقائد‘‘ اور ’’ایمان مفصل‘‘ میں ان کو بیان کیا ہے، یہاں چار خطبوں میں ان شاخوں کو بیان کیا جائے گا، تاکہ پڑھ کر، ا ور سن کر ایمان کے کامل کرنے کی کوشش کریں، اگر ان تمام باتوں پر پورا پورا عمل ہوگا، تو کامل ایمان ہوگا، نہیں تو ناقص! اسی لیے کہا جاتا ہے، کہ ایمان کامل بھی ہوتا ہے اور ناقص بھی ، اب ایمانی شاخوں کا بیان تفصیل وار سنیئے:
(۱) ایمان کی پہلی شاخ، اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دلیل اس کا یہ فرمان والا شان ہے:
۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِہٖ (النساء:۱۳۶)
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کتاب پرایمان لاؤ، جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔
ایک اور جگہ فرمایا:

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ (البقرۃ:۲۸۵)
ہمارا رسول اس کتاب پر ایمان لایا جو اس پر اس کے رب کی طرف سے اتاری گئی ، اور سب ایماندار ہر ایک اللہ پر اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں۔
نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا، کہ کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ایمان باللہ سب عملوں سے بہتر ہے۔(بخاری)
ابوسفیان نے حضور ﷺ سے عرض کیا، کہ آپﷺ مجھ کو ایسی بات بتائیں، کہ پھر کسی سے کچھ نہ پوچھوں، تو آپﷺ نے فرمایا: قل امنت باللہ ثم استقم (بخاری مسلم) ا للہ پر ایمان لاؤ اور اسی پر جمے رہو، پھر تم جنت میں داخل ہوگے، اور دوزخ سے دور ہو گے، جیسا کہ فرمایا من قال لاالہ الا اللہ دخل الجنۃ۔ (بیہقی)یعنی جو اللہ کو ایک سمجھ کر کہے، کہ اس کے سوا کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں ہے، اور اسی پر اس کا خاتمہ ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا، اس کے علاوہ ا ور بہت سی حدیثیں ہیں جن کو حدیث شریف کی کتابوں میں پڑھوگے۔
(۲) ایمان کی دوسری شاخ ہے ، اللہ کے رسولوں اور نبیوں پر ایمان لانا ، کہ سب اللہ کے سچے رسول اور پیغمبر تھے، جیسا کہ کل امن بِااللہ والی آیت میں ابھی بیان کیا گیا ہے، اور حدیث میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے نبی ﷺ سے دریافت فرمایا تھا، کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: کہ اللہ ا ور اس کے تمام فرشتوں اور اس کی تمام کتابوں اور اس کے تمام رسولوں کی تصدیق کرنا۔ (بخاری)
(۳) ایمان کی تیسری شاخ اللہ کے فرشتوں پر ایمان رکھنا، کہ وہ اللہ کے نیک بندے ہیں کھاتے، پیتے نہیں، اور نہ کبھی اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں، جس کام کا اللہ حکم دیتاہے، وہی کرتے ہیں، وہ ضرور موجود ہیں ان کے وجود پر بہت سی دلیلیں ہیں، اوپر والی آیت اور حدیث جبرئیل ؑ میں ’’وملائکتہ‘‘ بھی آیا ہے کہ اللہ کے فرشتوں پر ایمان لاؤ، اگرکوئی فرشتوں کے وجود کو تسلیم نہ کرے، تو وہ مسلمان نہیں ہے۔
(۴) ایمان کی چوتھی شاخ ہے، قرآن مجید پر ایمان لانا، کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ (البقرۃ:۲)
اس کتاب (قرآن) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
اور یہ بابرکت کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی ہے، چنانچہ فرمایا:
وَہٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْہِ وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَہَا۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ۝۹۲ (الانعام:۹۲)
اور یہ کتاب (قرآن مجید) ہم نے اتاری ہے جو برکتوں والی ہے اگلی کتابوں کو سچ بتانے والی ہے، تاکہ تم اس کے ذریعہ مکہ والوں اور اس کے آس پاس یعنی تمام دنیا والوں کو ڈرا دو ا ور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں( اور جو اس قرآن کو کلام ا ٰلٰہی نہ مانے، وہ مسلمان نہیں ہے)
(۵) ایمان کی پانچویں شاخ تقدیر پر ایمان لانا، کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کے انجام کو بھی لکھ دیا، کہ آگے چل کر اس کا انجام یہ ہوگا، نیک یا بد، پھر اسی کے مطابق ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ۝۴۹ (القمر:۴۹)
ہر چیز کو ہم نے اندازے اور تقدیر کے ساتھ بنایا ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا(حدید:۲۲)
جو مصیبت بھی زمین میں یا خود تمہاری طبیعتوں میں پہنچتی ہے وہ لکھی ہوئی تھی اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں۔
نبی ﷺ نے فرمایا:

کَتَبَ اللہُ مَقَادِیْرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ بِخَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ۔ (مسلم)
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے تمام مخلوقات کے اندازوں اور تقدیروں کو لکھ دیا ہے۔
اور آپﷺ نے فرمایا:

لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّٰی یُؤْمِنَ بِاَرْبَعٍ یَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ وَیُوْمِنَ بِالْمَوْتِ وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ وَیُوْمِنَ بِالْقَدْرِ۔ (ترمذی شریف)
جب تک ان چار باتوں کی تصدیق نہ کرے، تب تک کوئی بندہ ایماندار ہو ہی نہیں سکتا(۱) اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور اللہ نے حق دے کر مجھے بھیجا ہے(۲)موت پر ایمان رکھے(۳) مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لائے(۴) تقدیر پر ایمان لائے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو تقدیر کو نہ مانے، وہ مومن نہیں ہوسکتاہے۔
(۶) ایمان کی چھٹی شاخ، قیامت کے دن پر ایمان لانا، کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا، کہ سارا جہان برباد ہوجائے گا، دنیا ختم ہوجائے گی، یعنی زمین و آسمان کی یہ حالت و ہیئت باقی نہ رہے گی
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ (ابراہیم:۴۸) زمین و آسمان، سورج چاند وغیرہ سب متبدل ہوجائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ دوبارہ مخلوق کو زندہ کر کے حساب و کتاب لے گا حق پرست کو جنت میں داخل کرے گا ، اور با طل پرست کو دوزخ میں ڈال دے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۔ (التوبہ:۲۹)

جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہ لائے، اسی سے لڑو،
اور فرمایا:

وَنَحْشُرُہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ عَلٰي وُجُوْہِہِمْ عُمْيًا وَّبُكْمًا وَّصُمًّا۝۰ۭ مَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۔ (بنی اسرآئیل:۹۷)
اور قیامت کے دن ہم ان کافروں کو منہ کے بل ا ندھے، گونگے اور بہرے اٹھائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے
اور فرمایا:

وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا۔
اور قیامت کے دن ہم انصاف کی ترازو رکھیں گے، پھر کسی شخص پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔(الانبیاء:۴۷)
اور فرمایا:
ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ (مومنون:۱۶)
پھر قیامت کے دن تم سب اٹھائے جاؤ گے۔
اس کے علاوہ اور بہت سی آیتیں قیامت کے بارے میں ہیں، حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَالرَّجُلَانِ ثَوْبَھُمَا بَیْنَھُمَا فَلَا یَتَبَاعَانِہٖ ثَوْبَھُمَا وَلَا یَطْوِیَانِہٖ ۔(بخاری ص ۱۰۵۵ ج ۲)
اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، دو آدمی کپڑا خریدنے، بیچنے میں مصروف ہوں گے، کہ قیامت قائم ہو جائے گی، نہ تو وہ کپڑے کو خرید و فروخت کر سکیں گے، اور نہ اس کو لپیٹ سکیں گے۔
اور فرمایا:

لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلَّا عَلٰی شِرَارِالْخَلْقِ۔ (مسلم)
بدترین لوگوں پر قیامت آئے گی۔
یعنی قیامت کے آنے کے وقت خدا پرست اور خدا ترس نہیں ہوں گے، بلکہ نافرمان اور برے لوگ ہوں گے، غور کیجئے تو اس وقت قیامت کی نشانیاں بہت پائی جاتی ہیں۔
(۷) ایمان کی ساتویں شاخ مر جانے کے بعد پھر جی اٹھنے کی تصدیق کرنا ہے، قرآن و حدیث میں یہ بتایا گیا ہے، کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ ہوگا، اور عملوں کے محاسبہ کے بعد جو جس درجہ کے لائق ہوگا، وہ پائے گا، کافر اس پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، وہ اس بات کو نہیں مانتے ، کہ مر جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا پڑے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوااَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ۔ (التغابن:۷)
کفار کہتے ہیں، کہ لوگ مرنے کے بعد پھر ہر گز زندہ کر کے نہیں اٹھائے جائیں گے، آپ فرما دیجئے ، یوں نہیں، خدا کی قسم تم لوگ ضرور دوبارہ زندہ کیے جاؤگے۔
دوسری جگہ فرمایا:

قُلِ اللہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَارَیْبَ فِیْہِ۔ ( الجاثیۃ:۲۶)
اللہ تعالیٰ تم کو زندہ کرتاہے، پھر تم کو مار دے گا، پھر دوبارہ زندہ کر کے قیامت کے دن تم سب کو جمع کرے گا، جس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
اس قسم کی ا ور بھی بہت سی آیتیں ہیں، حدیث جبریل میں فرمایا:

اَلْاِیْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَرُسُلِہٖ َوبالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَبِالْقَدْرِکُلِّہٖ۔ (بخاری، مسلم)
ایمان یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ ا ور اس کے تمام فرشتوں اور رسولوں پر اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر اور تقدیر پر ایمان رکھنا۔
حضرت ابورزین العقیلی ؓ فرماتے ہیں:

قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللہِ کَیْفَ یُعِیْدُاللہُ الْخَلْقَ وَمَا اٰیَۃُ ذٰلِکَ فِیْ خَلْقِہٖ قَالَ اَمَامَرَرْتَ بِوَادِیْ قَوْمِکَ جَدْبًا ثُمَّ مَرَرْتَ یَھْتَزُّبِہِ خَضِرًا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَتِلْکَ اَیَۃُ اللہِ فِیْ خَلْقِہٖ کَذٖلِکَ یُحْیِی اللہُ الْمَوْتٰی۔ (مشکوۃ)
میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، کہ یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ مخلوق کو کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا، اور دنیا میں اس کی کیا نشانی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا، کیا تم اپنی قوم کے خشک میدان میں گئے ہو(جہاں بارش نہ ہونے کی وجہ سے میدان خشک رہتا ہے، نہ گھاس ہوتی ہے، نہ کوئی سبزی رہتی ہے، دھول اڑتی ہے، پھر بارش ہونے کے بعد) سبزی اور شادابی سے لہلہا ا ٹھتا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں(ایسا ہمیشہ دیکھتے ہیں)آپﷺ نے فرمایا یہی نشانی ہے، اسی طرح سے اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کر دے گا۔
ایک حدیث میں یہ بھی ہے:

ثُمَّ یُنَزِّلُ اللہُ مِنَ السَّمَائِ مَائً فَیَنْبتُونَ کَمَا یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَایَبْلٰی اِلَّا عَظْمًاوَّاحِدًا وَ ھُوَعَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (بخاری ،مسلم)
صور پھونکنے کے بعد اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا لوگ اس طرح زندہ ہوں گے،جس طرح گھاس اگتی ہے، اور انسان کی تمام چیزیں سڑگل جاتی ہیں، صرف ریڑھ کی ایک ہڈی باقی رہتی ہے، اور وہ’’ عجب الذنب‘‘ ہے اسی سے مخلوق مرکب ہوگی۔
(۸) ایمان کی آٹھویں شاخ حشر پر ایمان لانا، یعنی مرنے کے بعد قیامت کے دن اپنی اپنی قبروں سے ا ٹھ کر میدان حشر میں خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو کر تصدیق کرنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا۔ (الانعام:۱۲۸)
اور قیامت کے دن سب کو جمع کرے گا۔
اور فرمایا:
وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلٰي رَبِّہِمْ۝۰ۭ قَالَ اَلَيْسَ ہٰذَا بِالْحَقِّ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰى وَرَبِّنَا۝۰ۭ ( الانعام:۳۰)
(اے ہمارے نبی)، اگر آپ ان لوگوں کو دیکھیں، جب کہ یہ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جائیں گے(تو ایک عجیب بات دیکھیں گے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیایہ حق نہیںہے وہ کہیں گے کیوں نہیں اپنے پروردگار کی قسم یقیناً یہ سچ ہے۔
اور فرمایا:

يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا۝۸۵ۙ وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَہَنَّمَ وِرْدًا۝۸۶ۘ (مریم:۸۵۔۸۶)
اور اس دن کو یاد کرو، جس دن ہم متقیوں کو رحمن کے پاس یعنی اپنے پاس مہمانوں کو ا کٹھا کریں گے، اورمجرموں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے۔
اور فرمایا:

اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗىِٕكَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ۝۴ۙ لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ۝۵ۙ يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۶ۭ (مطفیفن:۴ تا۶)
کیا یہ لوگ اس بات کو نہیں جانتے، کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اس بڑے دن میں اٹھائے جائیں گے، اور سب لوگ اللہ کے پاس کھڑے ہوں گے، (یعنی یہ ضرور جانتے ہیں)
حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

یُحْشَرُالنَّاسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِعَلٰی اَرْضٍ بَیْضَاءَعَفْرَآءَ کَقُرْصَۃِالنَّقِیّ لَیْسَ فِیْھَاعَلَمٌ لِاَحَدٍ(بخاری)
جمع کیا جائے گا، لوگوں کو قیامت کے دن ایسے سفید چٹیل میدان میں جس میں کوئی پہاڑ نہ ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ حَتّٰی یَغِیْبَ اَحَدُ ھُمْ فِیْ رَشْحِہٖ اِلٰی اَنْصَافِ اُذُنَیْہِ۔(شعب الایمان)
سب لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے اور اپنے اپنے پسینوں میں بقدر اعمال ڈوبے ہوں گے، بعض آدھے کانوں تک پسینے میں ڈوبے ہوں گے۔
(۹) ایمان کی نویں شاخ مومنوں کے جنتی اور کافروں کے جہنمی ہونے کی تصدیق کرنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَـنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَآ اَبَدًا۔(النساء:۵۷)
جو لوگ ا یماندار ہو کرنیک عمل کریں، ہم ان کو ایسی جنت میں داخل کریں گے، جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
دوسری آیت میں فرمایا:

وَاُدْخِلَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۔ (ابراھیم:۲۳)
جو لوگ ایماندار ہو کر نیک کام کریں، وہ ایسی جنتوں میں داخل کئے جائیں گے، جن کے تلے نہریں بہتی ہوں گی۔
اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کے بارے میں فرمایا:

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۔(المائدۃ:۱۰)
اور جو لوگ کافر ہوئے، اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں۔
اور فرمایا:

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْہِمْ نَارًا۔ (النساء:۵۶)
جو لوگ ہماری آیتوں سے قطع تعلق کرتے ہیں،عنقریب ہم ا ن کو آگ میں ڈالیں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اِذَا مَاتَ اَحَدُکُمْ عُرِضَ عَلَیْہِ مَقْعَدُہ‘ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ اِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَمِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَاِنْ کَانَ مِنْ اَھْلِ النَّارِ فَمِنْ اَھْلِ النَّارِ یُقَالُ ھَذَا مَقْعَدُکُ حَتّٰی یَبْعَثَ اللہُ تَعَالٰی اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ (بخاری)
جب کوئی مر جاتا ہے، صبح و شام اس کا ٹھکانا اس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتی ہے، تو جنت دکھائی جاتی ہے، اور اگر دوزخی ہو، تو دوزخ دکھائی جاتی ہے ا ور اس سے کہا جاتا ہے، یہی تمہاری جگہ ہے، یہانتک کہ اللہ تعالیٰ تم کو اس سے اُٹھائے گا( اورتم اپنی اپنی جگہوں میں ہمیشہ رہو گے)۔
(۱۰) ایمان کی دسویں شاخ، اللہ کی محبت کے واجب ہونے کی تصدیق کرنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۝۰ۭ (البقرہ:۱۶۵)
(مشرکوں کو جو اپنے شرکاء سے محبت ہے)ایمان والوں کو اس سے زیادہ اللہ کی محبت ہے۔
حدیث میں رسول ا للہ ﷺنے فرمایا:

ثَلَاثٌ من کن فیہ وَجَدَبِھِنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ اَنْ یَّکُوْنَ اللہُ وَرَسُوْلُہ‘ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا وَمَنْ اَحَبَّ عَبْدًا لَا یُحِبِہ‘ اِلَّا لِلّٰہِ وَاَنْ یَّکْرَہَ اَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ اَنْ اَنْقَذَہُ اللہُ مِنْہُ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُّلْقٰی فِی النَّارِ۔ (متفق علیہ)
تین خصلتیں جن میں ہوں، وہ ایمان کی شیرینی کو پالیں گے (۱) اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت سب سے زیادہ ہو(۲) ہر شخص سے صرف اللہ ہی کے لیے دوستی یا دشمنی ہو (۳) اور شرک و کفر کو اس قدرنا پسند کرے، جس طرح آگ میں جلنے کو ناپسند کرتا ہے۔
(۱۱) ایمان کی گیارہویں شاخ (الایمان بوجوب الخوف من اللہ) یعنی اللہ تعالیٰ کے ڈر اور خوف کے واجب ہونے پر ایمان رکھنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۱۷۵ (آل عمران:۱۷۵)
تم ان سے مت ڈرو صرف مجھ ہی سے ڈرو، اگر تم ایماندار ہو۔
اور فرمایا:

فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ۔ (المائدہ:۴۴)
پس لوگوں سے مت ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو۔
اللہ تعالیٰ نے ڈرنے والوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے، ارشاد خداوندی ہے:

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۝۴۶ۚ ( الرحمن:۴۶)
جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

یَقُوْلُ اللہُ جَلَّ ذِکْرُہٗ اَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَکَرَنِیْ اَوْخَافَنِیْ فِیْ مُقَامٍ۔ (ترمذی)
اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ دوزخ سے اس کو نکال لو جس نے مجھے کسی دن یاد کیا ہو یا میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈراہو۔
(۱۲) ایمان کی بارہویں شاخ، حسن ظن باللہ یعنی اللہ تعالیٰ سے نیک امید رکھنے کی تصدیق کرنا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ۝۰ۭ (بنی اسرائیل:۵۷)
جو اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا یَمُوْتَنَّ اِلَّا وَھُوَ یُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللہِ۔ (مسلم)
نہ مرے کوئی مگر اس حال میں کہ وہ اللہ سے ا چھا ا ور نیک گمان رکھے۔
اور حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَنَاعِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۔ (بخاری)
میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس کے قریب ہوں۔
یعنی بندہ جیسی مجھ سے امید رکھے گا، میں ویسے ہی اس کے ساتھ پیش آؤں گا۔
(۱۳) ایمان کی تیرھویں شاخ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے کے واجب ہونے کی تصدیق کرنا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۝۱۲۲ (آل عمران:۱۲۲)
اللہ ہی پر مسلمانوں کو بھروسہ کرنا چاہیے۔
وَعَلَي اللہِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝۲۳ (مائدہ:۲۳)
اگر تم ایماندار ہو، تو اللہ ہی پر بھروسہ کرو۔
وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ فَہُوَحَسْبُہٗ۝۰ۭ (طلاق:۳)
اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔
اور حدیث میں رسول ا للہ ﷺنے فرمایا: توکل کرنے والے جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔
(۱۴) ایمان کی چودہویں شاخ،رسول ا للہ ﷺکی محبت کے واجب ہونے پر ایمان رکھنا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَ وَلِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ(بخاری)
تم میں سے کوئی ایماندار نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ اپنے ماں باپ اور اولاد، اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ رکھے۔
اور فرمایا، جس میں یہ تین خوبیاں ہوںگی، وہ ایمان کی حلاوت کو پائیں گے۔
(۱) اللہ اوررسول اللہ ﷺ کی محبت سب سے زیادہ ہو ۔
(۲) اللہ کے واسطے دوستی و دشمنی ۔
(۳) کفر و شرک کو اس قدر برا جانیں، جس طرح آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔ (بخاری )۔
ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، حضرت قیامت کب آئے گی؟ آپﷺ نے فرمایا: تم نے اس کے لیے تیاری کی ہے؟ اس نے کہا:

یَا رَسُوْلَ اللہِ مَا اَعْدَدْتُّ لَھَاکَثِیْرَ صَلٰوۃٍ وَلَاصَدَقَۃٍ اِلَّا اَنِّی اُحِبُّ اللہَ وَرَسُوْلَہ‘ قَالَ اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ۔ (بخاری شریف)
اے اللہ کے رسول! نماز اور روزہ اور صدقہ وخیرات تو میں نے کچھ زیادہ نہیں کیا، البتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت ضرور رکھتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا تو ان ہی کے ساتھ رہے گا، جن سے تو نے محبت رکھی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو ایمان و عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمین)

واخردعواناان الحمد للہ رب العالمین والصلوۃوالسلام علی رسولہ محمدوالہ واصحابہ وازواجہ اجمعین
 
Top