• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان کی کتاب

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
باب نمبر ۶ ایمان کے نواقض کا بیان

نواقض ِ ایمان کا معنی ومفہوم
نواقضِ ایمان
اللہ کی عبادت میں شرک کرنا
مشرکین کو کافر نہ کہنا یا ان کے کفر میں شک کرنا
مسلمانوں کے خلاف مشرکین کے ساتھ تعاون کرنا
اعتقادی نفاق
اللہ کے دین سے اعراض
شک
انکار
اللہ یا اللہ کی آیات یا اللہ کے رسول ﷺ کا مذاق اُڑانا
اللہ کو یا اللہ کے رسول ﷺ یا اللہ کے دین کو گالی دینا
اللہ اور اُس کی شریعت کے مقابلے میں تکبر کرنا
تکذیب
کہانت اور عرافت
جادو کرنا اور کرانا
اللہ اور رسول ﷺ یا اُن کے کسی حکم سے بغض رکھنا
اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے حلال کردہ کو حرام بنا لینا
کیا ترکِ واجبات سے انسان ایمان سے خارج ہو جاتا ہے؟

کیا کبیرہ گناہ کا مرتکب ایمان سے خارج ہو جاتا ہے؟
ارتداد کا مفہوم اور حکم
کفر کا مفہوم اور اقسام
تکفیر معین کا حکم
تکفیر کے موانع
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
باب نمبر ۷ عقیدہ ولاء و براء کا بیان

ولاء و براء کا مفہوم اور اہمیت

باب نمبر ۸ طاغوت کے ساتھ کفر کا بیان
طاغوت کا معنی و مفہوم
طاغوت کے ساتھ کفر کا حکم دیا گیا ہے
طاغوت کے ساتھ کفر کا کیا مطلب ہے؟
طاغوت کے ساتھ کفر پہلے ہےاور اللہ پر ایمان بعد میں
تمام انبیاء طاغوت کے ساتھ کفر کی دعوت لے کر مبعوث ہوئے
کافروں کے دوست طاغوت ہیں
کافر طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں
سابقہ اقوام کی ہلاکت کا سبب بھی طاغوت کی عبادت تھا
طاغوت سے بچنے والوں کے لیے خوشخبری ہے
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
باب نمبر ۹ ایمان و عقائد کے متفرق مسائل
صحابہ کرام کے حقوق کا بیان
صحابی کون ہے؟
صحابہ سے محبت واجب اور ایمان کا جزو ہے
صحابہ سے محبت کامیابی کا ذریعہ ہے
تمام صحابہ کی فضیلت و عدالت کا اعتقاد رکھنا واجب ہے
کسی بھی صحابی کو برا بھلا کہنا حرام ہے
نبی کریم ﷺ کے اہلِ بیت سے عقیدت رکھنا واجب ہے
صحابہ میں چار خلفائے راشدین افضل ہیں
دس صحابہ کو جنت کی بشارت دی گئی ہے

اسلامی حکمرانوں کو خیر خواہی کے مستحق سمجھنا
سلف صالحین کے فہم ومنہج کو سب سے بہتر اور قابلِ اتباع سمجھنا چاہیے
سلف صالحین کے عقیدے پر مشتمل چند کتب
ایمان و عقائد سے متعلقہ چند ضعیف احادیث
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
چند ضروری اصطلاحات بترتیب حروف تہجی
اجتہاد
شرعی احکام کےعلم کی تلاش میں ایک مجتہد کا استنباطِ احکام کے طریقے سے اپنی بھرپور ذہنی کوشش کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔

اجماع
اجماع سے مراد نبی ﷺ کی وفات کے بعد کسی خاص دور میں (امتِ مسلمہ کے) تمام مجتہدین کا کسی دلیل کے ساتھ کسی شرعی حکم پر متفق ہوجانا ہے۔
استحسان
قرآن ، سنت یا اجماع کی کسی قوی دلیل کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دینا۔اس کے علاوہ بھی اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔
استصحاب
شرعی دلیل نہ ملنے پر مجتہد کا اصل کو پکڑ لینا استصحاب کہلاتا ہے۔واضح رہے کہ تمام نفع بخش اشیاء میں اصل اباحت ہے اور تمام ضرر رساں اشیاء میں اصل حرمت ہے۔
اصل
اصل کا واحد ہے اور اس کے پانچ معنی ہیں ۔(۱)دلیل (۲)قاعدہ (۳) بنیاد (۴) راجح بات(۵) حالتِ مستصحبہ
امام
کسی بھی فن کا معروف عالم کیسے فنِ حدیث میں امام بخاریؒ اور فنِ فقہ میں امام ابو حنیفہ ؒ
آحاد

خبر واحد کی جمع ہے۔اس سے مراد ایسی حدیث ہے جس کے راویوں کی تعداد متواتر حدیث راویوں سے کم ہو۔
آثار
ایسے اقوال اور افعال جو صحابہ کرام اور تابعین کی طرف منقول ہوں۔
اطراف
وہ کتاب جس میں ہر حدیث کا ایسا حصہ لکھا گیا ہے جو باقی حدیث پر دلالت کرتا ہے مثلاً تحفۃ الاشراف از امام مزیؒ وغیرہ
اجزاء
اجزاء جز ءکی جمع ہے اور جزء اس چھوٹی کتاب کو کہتے ہیں جس میں ایک خاص موضوع سے متعلق بالاستیعاب احادیث جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہو مثلاً جزء رفع الیدین از امام بخاریؒ وغیرہ
اربعین
حدیث کی وہ کتاب جس میں کسی بھی موضوع سے متعلقہ چالیس احادیث ہوں۔
باب
کتاب کا وہ حصہ جس میں ایک ہی نوع سے متعلقہ مسائل بیان کیے گئے ہوں۔
تعارض
ایک ہی مسئلہ میں دو مخالف احادیث کا جمع ہوجانا تعارض کہلاتا ہے۔
ترجیح
باہم مخالف دلائل میں سے کسی ایک کو عمل کے لیے زیادہ مناسب قرار دے دینا ترجیح کہلاتا ہے۔
جائز
ایسا شرعی حکم جس کے کرنے اور چھوڑنے میں اختیار ہو۔مباح اور حلال بھی اسی کو کہتے ہیں -
جامع
حدیث کی وہ جامع کتاب جس میں مکمل اسلامی معلومات مثلاً عقائد، عبادات، معاملات،تفسیر،سیرت،مناقب،فتن اور روزِ محشر کے احوال وغیرہ سب جمع کردیا گیا ہو۔
حدیث
ایسا قول،فعل اور تقریر جس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی گئی ہو۔سنت کی بھی یہی تعریف ہے۔یاد رہے کہ تقریر سے مراد آپﷺ کی طرف سے کسی کام کی اجازت ہے۔
حسن
جس حدیث کے راوی حافظے کے اعتبار سے صحیح حدیث کے راویوں سے کم درجے کے ہوں۔
حرام
شارع ؑ نے جس کام سے لازمی طور پر بچنے کا حکم دیا ہے نیز اس کے کرنے میں گناہ ہو جبکہ اس سے اجتناب میں ثواب ہے۔
خبر
خبر کے تین اقوال ہیں ۔(۱) خبر حدیث کا ہی دوسرا نام ہے۔(۲) حدیث وہ ہے جو نبی ﷺ سے منقول ہو اور خبر وہ ہے جو کسی اور سے منقول ہو۔(۳)خبر حدیث سے عام ہے یعنی اس روایت کو بھی کہتے ہیں جو نبی کریم ﷺ سے منقول ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو کسی اور سے منقول ہو۔


 
Last edited:

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
راجح
ایسی رائے جو دیگر آراء کے بالمقابل زیادہ صحیح اور اقرب الی الحق ہو۔

سنن
حدیث کی وہ کتب جن میں صرف احکام کی احادیث جمع کی گئی ہوں مثلاً سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور سنن ابی داؤد وغیرہ

سد الذرائع
ان مباح کاموں سے روک دینا کہ جن کے ذریعے ایسی ممنوع چیز کے ارتکاب کا واضح اندیشہ ہو جو فساد وخرابی پر مشتمل ہو۔
شریعت
قرآن و سنت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے احکامات۔

شارع
شریعت بنانے والا یعنی اللہ تعالیٰ اور مجازی طور پر اللہ کے رسول ﷺ پر بھی اس کااطلاق کیا جاتا ہے۔
شاذ
ضعیف حدیث کی وہ قسم جس میں ایک ثقہ راوی نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کی ہو-
صحیح
جس حدیث کی سند متصل ہو اور اس کے تمام راوی ثقہ،دیانت دار اور قوت حافظہ کے مالک ہوں۔نیز اس حدیث میں شذوذ اور کوئی خفیہ خرابی بھی نہ ہو۔
صحیحین
صحیح احادیث کی دو کتابیں یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم۔
صحاح ستہ
معروف حدیث کی چھ کتب یعنی بخاری،مسلم،ابوداؤد،ترمذی،نسائی اور ابن ماجہ۔
ضعیف
ایسی حدیث جس میں نہ تو صحیح حدیث کی صفات پائی جائیں اور نہ ہی حسن حدیث کی-
عرف
عرف سے مراد ایسا قول یا فعل ہے جس سے معاشرہ مانوس ہو،اس کا عادی ہو،یا اس کا ان میں رواج ہو۔
علت
علمِ فقہ میں علت سے مراد وہ چیز ہے جسے شارع ؑ نے کسی حکم کے وجود اور عدم میں علامت مقرر کیا ہو جیسے نشہ حرمتِ شراب کی علت ہے۔
علت
علمِ حدیث میں علت سے مراد ایسا خفیہ سبب ہے جو حدیث کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہےاور اُسے صرف فنِ حدیث کے ماہر علماء ہی سمجھتے ہیں۔
فقہ
ایسا علم جس میں اُن شرعی احکام سے بحث ہوتی ہو جن کا تعلق عمل سے ہے اور جن کو تفصیلی دلائل سے حاصل کیا جاتا ہے۔
فقیہ
علمِ فقہ جاننے والا بہت سمجھ دار شخص۔
فصل
باب کا ایسا جزء جس میں ایک خاص موضوع سے متعلقہ مسائل مذکور ہوں۔

فرض
شارعؑ نے جس کام کو لازمی طور پر کرنے کا حکم دیا ہونیز اۃسے کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر گناہ ہو مثلاً نماز، روزہ وغیرہ
قیاس
قیاس یہ ہےکہ فرع (ایسا مسئلہ جس کے متعلق کتاب و سنت میں حکم موجود نہ ہو) کو حکم میں اصل (ایسا حکم جو کتاب و سنت میں موجود ہو) کے ساتھ اس وجہ سے ملا لینا کہ اِن دونوں کے درمیان علت مشترک ہے۔
کتاب
کتاب مستقل حیثیت کے حامل مسائل کے مجموعے کو کہتے ہیں، خواہ وہ کئی انواع پر مشتمل ہو یا نہ ہو مثلاً کتاب الطہارت وغیرہ
مستحب
ایسا کام جسے کرنے میں ثواب ہو جبکہ اُسے چھوڑنے میں گناہ نہ ہو مثلاً مسواک وغیرہ یاد رہے ۔علمِ فقہ میں مندوب،نفل اور سنت وغیرہ اِسی کو کہتے ہیں۔
مکروہ
جس کام کا نہ کرنا اُسے کرنے سے بہتر ہو اور اُس سے بچنے پر ثواب ہوجبکہ اُسے کرنے پر گناہ نہ ہو مثلاً کثرتِ سوال وغیرہ۔
مجتہد
جس شخص میں اجتہاد کرنے کا ملکہ موجود ہو یعنی اس میں فقہی مآخذ سے شریعت کے عملی احکام مستنبط کرنے کی پوری قدرت موجود ہو۔
 
Last edited:

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
مصالح مرسلہ
یہ ایسی مصلحت ہے جس کے متعلق شارع ؑ سے کوئی ایسی دلیل نہ ملتی ہو جو اُس کے معتبر ہونے یا اُسے لغو کرنے پر دلالت کرتی ہو۔

موقف
کسی مسئلہ میں کسی عالم کی ذاتی رائے جسے اُس نے دلائل کے ذریعے اختیار کیا ہو۔
مسلک
اُس کی بھی وہی تعریف ہے جوموقف کی ہے لیکن یہ لفظ مختلف مکاتبِ فکر کی نمائندگی کے لیے معروف ہو چکا ہے مثلاً حنفی مسلک وغیرہ۔
مذہب
لغوی طور پر اس کی بھی وہی تعریف ہے جو مسلک کی ہے لیکن عوام میں یہ لفظ دین(جیسے مذہب عیسائیت وغیرہ) اور فرقہ (جیسے حنفی مذہب وغیرہ) کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
مراجع
وہ کتابیں جن سے کسی کتاب کی تیاری میں استفادہ کیا گیا ہو۔

متواتر
وہ حدیث جسے بیان کرنے والے راویوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر جمع ہو جانا عقلاً محال ہو۔

مرفوع
جس حدیث کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہو خواہ اُس کی سند متصل ہو یا نہ ہو۔
موقوف
جس حدیث کو صحابی کی طرف منسوب کیا گیا ہو خواہ اُس کی سند متصل ہو یا نہ ہو۔
مقطوع
جس حدیث کو تابعی یا اُس سے کم درجے کے کسی شخص کی طرف منسوب کیا گیا ہو خواہ اُس کی سند متصل ہو یا نہ ہو۔
موضوع
ضعیف حدیث کی وہ قسم جس میں کسی من گھڑت بات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔

مرسل
ضعیف حدیث کی وہ قسم جس میں کوئی تابعی یا صحابی کے واسطے کے بغیر رسول اللہ ﷺ سے روایت کرے۔

معلق
ضعیف حدیث کی وہ قسم جس میں ابتدائےِ سند سے ایک یا سارے راوی ساقط ہوں۔
معضل
ضعیف حدیث کی وہ قسم جس کی سند کے درمیان میں سے اکٹھے دو یا دو سے زیادہ راوی ساقط ہوں۔
منقطع
ضعیف حدیث کی وہ قسم جس کی سند کسی بھی وجہ سے منقطع ہو یعنی متصل نہ ہو۔

متروک
ضعیف حدیث کی وہ قسم جس کے کسی راوی پر جھوٹ کی تہمت ہو۔
منکر
ضعیف حدیث کی وہ قسم جس کا کوئی راوی فاسق،بدعتی،بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا یا بہت غفلت برتنے والا ہو۔

مسند
حدیث کی وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی احادیث کو الگ الگ جمع کیا گیا ہو مثلاً مسند شافعی وغیرہ۔
مستدرک
ایسی کتاب جس میں کسی محدث کی شرائط کے مطابق ان احادیث کو جمع کیا گیا ہو جنہیں اُس محد ث نے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا مثلاً مستدرک حاکم وغیرہ
مستخرج
ایسی کتاب جس میں مصنف نے کسی دوسری کتاب کی احادیث کو اپنی سند سے بیان کیا ہو مثلاً مستخرج ابو نعیم الاصبہانی وغیرہ
معجم
ایسے کتاب جس میں مصنف اپنے اساتذہ کے ناموں کی ترتیب سے احادیث جمع کی ہوںمثلاً معجم کبیر از طبرانی وغیرہ
نسخ
بعد میں نازل ہونے والی دلیل کے ذریعے پہلے نازل شدہ حکم کو ختم کر دینا نسخ کہلاتا ہے۔
واجب
واجب کی تعریف وہی ہے جو فرض کی ہے۔جمہور فقہاء کے نزدیک ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔البتہ حنفی فقہاء اس میں کچھ فرق کرتے ہیں۔
 
Last edited:

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
مقدمۃ

ایمان کا لفظی معنی ہے۔"یقین و تصدیق" اور اس کا اصطلاحی معنی ہے " دل کی تصدیق ، زبان کا اقرار اور اعضاء کا عمل"۔یعنی ایمان میں عمل بھی داخل ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ حسبِ حال ایمان میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
مقدمہ
ایمان کا لفظی معنی ہے۔"یقین و تصدیق" اور اس کا اصطلاحی معنی ہے " دل کی تصدیق ، زبان کا اقرار اور اعضاء کا عمل"۔یعنی ایمان میں عمل بھی داخل ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ حسبِ حال ایمان میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔اسلام کا لفظی معنی ہے "مطیع و فرمانبردار ہوجانا " اور اصطلاحی معنی ہے "عقیدہِ توحید اپنا کر اطاعتِ الہی کے لیے خود کو جھکانا"۔ایمان اور اسلام میں اہلِ علم نے یہ فرق کیا ہے کہ اگر یہ دونوں اکٹھے ذکر ہوں تو ایمان سے باطنی اعمال اور اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہوتے ہیں اور اگر یہ الگ الگ ذکر ہوں تو ہر ایک سے دونوں طرح کے اعمال مراد ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایمان کا ہی ایک شعبہ اسلام ہے جس کا درجہ بالاتفاق ایمان سے کم ہے جبکہ ایمان کا اعلیٰ ترین درجہ احسان ہے(کہ انسان ہر عبادت اس طرح کرے کہ وہ اپنے پروردگار کو دیکھ رہا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو کم از کم یہ ذہن نشین رکھے کہ اس کا پروردگار اُسے دیکھ رہا ہے)۔ایمان کے چھ ارکان ہیں؛اللہ پر ایمان،فرشتوں پر ایمان،الہامی کتابوں پر ایمان،نبیوں پر ایمان،یومِ آخرت پر ایمان اور اچھی بری تقدیر پر ایمان۔کچھ اہل علم نے جنات و شیاطین پر ایمان کو بھی ایمان کا رکن قرار دیا ہے۔
اللہ پر ایمان یہ ہے اس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ موجود ہے اور وہ اپنی ذات و صفات اور عبادات وافعال میں یکتا ہے،اس کا کوئی شریک و ہمسر نہیں۔فرشتوں پر ایمان یہ ہے کہ عقیدہ رکھا جائے کہ فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جنہیں اس نے اپنے احکام کی تنفیذ کے لیے پیدا کیا ہے، اُن کی ڈیوٹیاں مقرر ہیں او ر وہ اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ ہمہ وقت اللہ کی عبادت و اطاعت میں مصروف رہتے ہیں۔الہامی کتابوں پر ایمان یہ ہے کہ اس بات کی پختہ تصدیق کی جائے کہ تمام کتابیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، اللہ کا کلام ہیں،سب توحید کی دعوت دیتی ہیں،ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں اور آخری کتاب قرآن مجید کے ذریعے سابقہ تمام کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں۔ پیغمبروں پر ایمان یہ ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کی ہدایت و راہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی پیغمبر بھیجا ہے،ہر پیغمبر نیک، متقی،دیانتدار اور امین تھا،ہر پیغمبر حق لے کر آیا،ہر ایک نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی،سب نے اللہ کاپیغام پورا پورا آگے پہنچا دیا ،پیغمبروں کے ،مختلف درجے ہیں جن میں سب سے بلند مقام اور افضل ترین پیغمبر محمد ﷺہیں۔یومِ آخرت پر ایمان یہ ہے کہ وفات کے بعد سے لیکر جنتیوں کے جنت میں اور جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہوجانے تک جوکچھ کتاب و سنت میں ذکر ہوا ہے اُس پر کامل یقین رکھا جائے۔اچھی بری تقدیر پر ایمان یہ ہے کہ پختہ طور پر یہ اعتقاد رکھا جائے کہ دنیا میں ہونے والا ہر اچھا بر ا کام اللہ کے علم و ارادے کے مطابق ہو رہا ہے جو اس نے کا ئنات کی تخلیق سے پہلے ہی لکھوا دیا تھا۔جنات و شیاطین پر ایمان یہ ہے کہ اُن کے متعلق کتاب وسنت میں جو کچھ بھی ذکر ہوا اُس پر بغیر کسی تاویل و تحریف کے کامل یقین رکھا جائے اور اُسے برحق سمجھا جائے۔
ایمان کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اللہ سے ،اللہ کے پیغمبر سے اور اللہ کے مومن بندوں سے محبت کی جائے،اُن کی محبت کے مقابلے میں کسی کی محبت کو ترجیح نہ دی جائے اور اللہ کے،اللہ کے پیغمبر کے اور اللہ کے مومن بندوں کے دشمنوں (کافروں ،مشرکوں اور منافقوں وغیرہ) سے دشمنی رکھی جائے۔
ایمان میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ طاغوت کا انکار کیا جائے اور طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادات و اطاعت کی جائے خواہ وہ شیطان ہو،بت ہو،جادوگر ہو،علمِ غیب کا مدعی ہویا حکمران ہو۔طاغوت کا انکار یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ ہر ایک کی عبودیت و حاکمیت کےبطلان کا اعتقاد رکھا جائے اور پھر عملاً اُسی کا مظاہرہ کیا جائے۔
کچھ اعمال ایسے ہیں جو انسان کو دائرہ ایمان سے خارج کر دیتے ہیں جیسے اللہ کی عبادت میں شرک کرنا ،مشرکین کے شرک میں شک کرنا یا اُ ن کے مذہب کو صحیح سمجھنا ، مسلمانوں کے خلاف مشرکین کاتعاون کرنا ،دل میں نفاق رکھنا ، اللہ کے دین سے اعراض کرنا ،اسلام کے مسلمہ مسائل کا انکار کرنا یا اُن میں شک کرنا ، دین کا مذاق اُڑانا یا اُسے گالی دینا ،جادو کرنا یا کرانا،اللہ اور رسول سے بغض رکھنا اور اللہ اور رسول کے کسی حرام کردہ کام کو حلال سمجھنا یا حلال کردہ کام کو حرام سمجھنا وغیرہ۔علاوہ ازیں اگر شخص موحد ہے مگر واجبات کو ترک کرتا ہے یا کبائر کا ارتکاب کرتا ہےتو وہ ناقص الایمان تو ہے کافر نہیں۔اِسی طرح اگر کوئی شخص جہالت میں ،خطاء سے یا تاویل کر کے کوئی کفریہ کام کرے تو وہ کافر نہیں ۔نیز اگر کسی کو کفر کرنے پر مجبور کیا گیا ہو یا کوئی شخص کسی کفریہ کام سے بچنے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہے تو اُسے دائرہ ایمان سے خارج اور کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
باب نمبر ۱

ایمان کی فضیلت کا بیان

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا ولی ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
ٱللَّهُ وَلِيُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يُخۡرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِۖ (البقرہ ۲۵۷)
" ایمان والوں کا ولی اللہ تعالیٰ خود ہے،وہ اُنہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔"
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے کہ

وَاللَّهُ وَلِيُّ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ال عمران۶۸
" اور اللہ تعالیٰ ہی اہل ایمان کا ولی و سہارا ہے۔"
(امام طبری ؒ) نقل فرماتے ہیں کہ امام جعفر ؒ نے فرمایا" اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا ولی ہے" کا مطلب ہے اللہ تعالی اہل ایمان کا معاون اور مدد گار ہے اور " اُنہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے" کا مطلب یہ ہے کہ انہیں کفر کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔۱
پہلی آیت سے اہلِ علم نے یہ بھی اخذ کیا ہے کہ حق ایک ہوتا ہے اور کفر کی بہت زیادہ انواع و اقسام ہوتی ہیں،اس لیے اللہ تعالیٰ نے لفظِ نور کو واحد ذکر فرمایا ہےجبکہ ظلمات کو جمع ذکر فرمایا ہے۔۲


اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل حاصل ہے

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
وَاللَّهُ ذُو فَضۡلٍ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ ١٥٢ ال عمران۱۵۲
"اور اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان پر بڑے فضل والا ہے۔"
(جلال الدین سیوطیؒ ،جلال الدین محلیؒ) بیان فرماتے ہیں کہ "اور اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان پر بڑے فضل والا ہے" یعنی اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرماتا اور اُن سے درگزر فرماتا ہے۔۳


اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا اجر ضائع نہیں فرماتا

ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِينَ ال عمران ۱۷۱
"اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا اجر ضائع نہیں فرماتے۔"
(طبریؒ) "اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا اجر ضائع نہیں فرماتے" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اُس شخص کے اعمال کا بدلہ باطل نہیں کرتا جس نے اس کے رسول کی تصدیق کی،اس کی پیروی کی اور جو کچھ بھی اللہ تعلایٰ کی طرف سے لے کر آیا ہے اس پر عمل کرے۔۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ۔ تفسیر طبری (۵/۴۲۴)
۲۔ تفسیر ابن کثیر(۱/۶۸۵)
۳۔ تفسیر جلالین (ص: ۴۴۴)
۴۔ تفسیر طبری (۷/۳۹۸)

 
Top