@عکرمہ
اہل علم خصوصاً تفاسیر قرآن سے شغف رکھنے والوں کے لیے کعب احبارؒ کوئی غیر معروف نام نہیں، اسرائیلیات کی روایت کے باب میں کعب احبارؒ کا تذکرہ تقریباً تمام تفاسیر میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔ کعب احبارؒ کے متعلق صحابہ کرام ؓکے مختلف رویوں کی بنا پر کعب احبارؒ کی شخصیت اور ان کی ثقاہت اہل علم کے ہاں زیر بحث رہتی ہے۔ علامہ کوثریؒنے کعب احبارؒ کے متعلق اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں ایک مضمون تحریر کیا تھا، جو اپنی جامعیت کے ساتھ ساتھ اپنی افادیت میں بھی بھرپور ہے۔ اس مضمون میں ’’اسرائیلیات ‘‘کے باب میں ایک فیصلہ کن موقف بیان کیا گیا ہے۔اس عربی مضمون کا ترجمہ اردو دان طبقے کے فائدے کے لیے پیش خدمت ہے۔ (از مترجم)
قریبی علاقوں کے کچھ فضلاء اہل علم کی خواہش تھی کہ میں مندرجہ ذیل سوال کے جواب کے بارے میں اپنی رائے پیش کروں، چنانچہ اس موضوع کے متعلق میں نے اپنی بساط کے مطابق کچھ تحریر کیا۔ ذیل میں سوال کی عبارت اور پھر اس کے متعلق میرا جواب حاضر خدمت ہے:
سوال:
جنت و جہنم کے متعلق اہل اسلام کے افکار و نظریات پرکعب احبار(یہودی یا مسلمان) کی ذکر کردہ روایات کا کس قدر اثر ہے؟ مثلاً قصۂ اسراء و معراج کے بارے میں مولائے مسلمانان ابن عباسؓ سے کعب احبار کی ذکر کردہ روایت جس کا ہماری قوم میں خوب شہرہ ہے، اور ’’التفسیر الحدیث‘‘ (جلد ثانی)میں بھی موجود ہے؟
جواب:
اب میرا جواب ملاحظہ کیجیے: سائل نے ’’التفسیر الحدیث ‘‘ سے اپنی مراد واضح نہیں کی، اور نہ ہی اس قصے ہی کو بتایا ہے جو قوم میں مشہور ہے کہ اس کے متعلق کسی طور پر کھل کر بات کی جا سکے، اگر سائل کی مراد اس قصے سے وہ طویل قصہ ہے جس کو ابن جریرؒ وغیرہ مفسرین نے سورۂ اسراء کی تفسیر میں ذکر کیا ہے، تو اس کی سند میں نہ تو کعبؒ ہیں اور نہ ہی ابن عباسؓ،بلکہ اس روایت میں ابو جعفر عیسی بن ماہان رازی ہیں جو اپنے ضعف حافظہ کی وجہ سے معروف ہیں۔ اسی طرح اس روایت میں ابو ہارون عمارہ بن جوین اور خالد بن یزید بن ابو مالک ہیں، اور یہ دونوں متہم بالکذب ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان روات کی روایت حجت نہیں ہو سکتی، خاص طور پر اس طویل قصے جیسی روایات میں۔ اس طویل قصے کا کعبؒ سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں، مزید یہ کہ جنت و جہنم دونوں ایسے موضوعات ہیں جن کے ذکر سے موجودہ تورات کے نسخے جو آج یہود کے پاس ہیں‘خالی ہیں، حتیٰ کہ ان دونوں کے ذکر سے تورات کا خالی ہونا تورات کے محرف ہونے پر واضح دلائل میں سے شمار کیا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ تورات جنت وجہنم کے اس اہم موضوع سے خالی ہے، جو انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کے خاص پہلو ’’ایمان بالبعث بعد الموت ‘‘(موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے پر ایمان) سے متعلق ہے۔ لہٰذا یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کعبؒ جنت و جہنم کے متعلق قصے کتب یہود سے نقل کرتے ہوں، بلکہ ’’تلمود ‘‘ میں تو تناسخ (آواگون) کے متعلق بھی نص موجود ہے، جو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کے سراسر منافی عقیدہ ہے۔
رؤیتِ باری تعالیٰ اور کعبؒ و ابن عباس ؓکا مکالمہ
البتہ معراج کی رات رؤیتِ باری تعالیٰ کے بارے میں جو گفتگو کعبؒ اور ابن عباسؒکے درمیان ہوئی ہے، وہ امام ترمذیؒنے اپنی جامع میں ’’سورۃ النجم ‘‘کی تفسیر کے ذیل میں روایت کی ہے، لیکن اس کی سند میں مجالد بن سعید موجود ہیں جو حافظے کے کمزور اور مختلط ہیں۔ اس روایت میں جو شعبیؒ کے الفاظ ہیں، وہ اس روایت کے اتصال کا فائدہ نہیں دیتے ہیں اورکچھ احادیث صحاح بھی اس روایت کے معارض مروی ہیں۔
کعبؒ کا تعارف
یہ کعبؒ جو موضوع بحث ہیں، انہیں ’’کعب احبار ‘‘اور ’’کعب حبر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’’ابن مانع حمیری ‘‘ہیں۔ یہود کے سرکردہ اہل علم میں سے تھے اور کتب یہود کے بارے میں سب سے وسیع اطلاع رکھتے تھے۔ مخضرمین میں سے تھے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام دونوں پائے۔ یمن میں پیدا ہوئے، اور وہیں رہائش پذیر رہے، تا آنکہ وہاں سے ہجرت فرمائی، اور سن ۱۲ ہجری حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اسلام لائے۔ابن سعد ؓنے اہل شام کے تابعین میں آپ کو طبقۂ اولیٰ میں ذکر کیا ہے، اور مزید کہتے ہیں کہ :’’آپ دین یہود پر تھے، پھر اسلام لائے اور مدینہ منورہ ہجرت فرمائی، شام کی طرف روانہ ہوگئے اور تاحیات حمص ہی میں رہے۔ سن ۳۲ ہجری حضرت عثمان ؓکے دور خلافت میں آپؒ کی وفات ہوئی۔سن وفات کے بارے میں ایک سے زائد قول ہیں۔
ابن حبان ’’الثقات‘‘میں فرماتے ہیں: آپؒ نے سن ۳۴ ہجری میں وفات پائی، اور ایک قول کے مطابق سن ۳۳ ہجری میں وفات پائی۔ ۱۰۴ سال زندگی پائی۔ ابن سعد ؓ نے ابن مسیب ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ ابن عباس ؓنے کعبؒ سے فرمایا : آپ کو عہد نبوی، اور عہد صدیقی میں اسلام لانے سے کیا چیز مانع تھی کہ آپ عہد فاروقی میں اسلام لائے؟ تو کعبؒ نے جواب میں کہا: میرے والد نے میرے لیے تورات کے منتخبات سے ایک کتاب تیار کی تھی اور کہا تھا کہ : ’’بس! اس پر عمل کرو‘‘، اور باقی تمام کتب کو مہربند کردیا تھا،اور مجھ سے باپ بیٹے کا عہد لیا تھا کہ میں ان کتب سے مہر کو نہ توڑوں، جب میں نے اسلام کے غلبے کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ شاید میرے والد نے مجھ سے ان کتب میں کوئی علم چھپا کر رکھا ہے، چنانچہ میں نے اس مہر کو کھولا تو اس میں آپ ﷺ اور آپﷺ کی امت کا تذکرہ موجود تھا، چنانچہ میں مسلمان ہو کر آگیا۔
اس قصے کی سند میں حماد بن سلمہ ہیں جو مختلط تھے، اور جن کی روایت سے امام بخاری ؒو امام مسلم ؒدونوں پرہیز کرتے ہیں۔البتہ حماد بن سلمہ کی دوسری روایات جو ثابتؒ سے ہیں، وہ چونکہ مرضِ اختلاط کے بعد بھی ویسی ہی تھیں، جیسی مرض اختلاط سے پہلے تھیں، اس لیے وہ روایات بخاری ؒ و مسلمؒ نے ذکر کی ہیں۔ نیز اس روایت میں علی بن زید بن جدعان بھی ہیں، جنہیں کئی اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے۔
کعب ؒ کی ثقاہت وعدمِ ثقاہت
جمہور اہل علم نے کعبؒ کی توثیق کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ضعفاء و متروکین کی کتب میں آپ کو ان کا تذکرہ نہیں ملے گا۔امام ذہبی ؒنے انہیں طبقات الحفاظ میں ذکر کیا ہے، اور ان کا مختصر سا تعارف ذکر کیا ہے۔ابن عساکرؒ نے تاریخ دمشق میں آپ کاکھل کر تعارف پیش کیا ہے۔ابو نعیم ؒ نے ’’حلیۃ الأولیاء‘‘ میں کعب ؒ کے قصص، آپ کے مواعظ، آپ کی مجالس، آپ کی حضرت عمرؓکو نصائح، اور جنت و جہنم کے متعلق آپ کی روایات کو طویل سندکے ساتھ مفصل ذکر کیا ہے، جس سند میں فرات بن سائب بھی ہیں، البتہ ابو نعیم ؒنے ان کا ماخذ ذکر نہیں کیا۔ ابن حجرؒ نے ’’الإصابۃ‘‘ اور ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں آپ کا تعارف پیش کیا ہے۔ بہرحال نقاد محدثین آپ کی ثقاہت پر متفق ہیں، لیکن امام بخاری ؒنے اپنی صحیح کی ’’کتاب الاعتصام‘‘ میں حضرت معاویہ ؓ کا مقولہ نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے کعبؒ کا ذکر کرتے ہوئے فرما یا :’’ہم اس کے جھوٹ کا امتحان لیتے ہیں‘‘۔ ’’الإصابۃ ‘‘ میں حضرت حذیفہ ؓسے کعبؒ کی تکذیب مروی ہے۔اسی طرح ابن عباس ؓنے بھی کعبؒ کو جھوٹ کی طرف منسوب کیا ہے۔
ملاعلی قاری ؒموضوعات کبریٰ (صفحہ: ۱۰۰، طبع ہند )میں فرماتے ہیں: حضرت عمرؓنے جب مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو لوگوں سے مشورہ کیا کہ مسجد کی تعمیر’’ صخرہ ‘‘ کے آگے کی جائے یا پیچھے؟ کعبؒ نے حضرت عمرؓسے کہا: امیر المؤمنین! صخرہ کی پچھلی جانب تعمیر کیجیے۔ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے یہودی عور ت کے بیٹے! تجھ میں یہودیت سرایت کی ہوئی ہے، میں اس مسجد کو صخرہ کی اگلی جانب تعمیر کروں گا، تاکہ نمازی اس صخرہ کا استقبال نہ کریں، چنانچہ حضرت عمرؓنے اس کو اسی طرح تعمیر کیا جس طرح اب تک موجود ہے۔
یہ حضرت عمرؓکی فکر و نظر تھی کہ وہ کعب ؒ کو کسی طور یہ موقع نہ دینا چاہتے تھے کہ وہ مسلمانوں کی مسجد میں یہود کے قبلے کی طرف رخ کرسکے۔کعبؒ نے حضرت عمرؓکی جانب سے اپنے اوپر لگنے والی تہمت کو دل میں رکھا تھا، حتیٰ کہ حضرت عمرؓکے خلاف سازشیوں کے ساتھ بھی کعبؒ کے تعلقات دیکھے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کعبؒ ، اہل کتاب کی کتب سے نقل کردہ روایت باور کر واکر حضرت عمرؓسے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ وہ عنقریب قتل کیے جائیں گے، حالانکہ حضرت عمرؓاور اہل کتاب کی سابقہ کتب کا کیا تعلق!!! اگر شریعت اسلامیہ میں متہم بالظن کو پکڑنے کی گنجائش ہوتی تو حضرت عمرؓکے قتل کے معاملے میں شرعی عدالت حضرت کعبؒ سے بھی تفتیش کرتی۔حضرت ابو ذر ؓ کوحضرت معاویہ ؓ کی شکایت کی بنا پر دمشق سے مدینہ منورہ بھیج دیاجانا، کعبؒ کا حضرت عثمان ؓ کی مجلس میں حضرت ابوذرؓ کی مال جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کے بارے میں رائے کی تردید اور حضرت ابو ذرؓ کا کعبؒ سے یوں خطاب فرمانا: اے یہودی عورت کے بیٹے! یہ تیرے مسائل میں سے نہیں ہے (کہ تو اس پر گفتگو کرے)، یہ واقعات کتب تاریخ میں معروف ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ عوف بن مالک ؓنے کعبؒ کو قصہ گوئی سے منع کیا تھا، یہاں تک کہ حضرت معاویہ ؓ نے انہیں اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔
مذکورہ بحث کا نتیجہ
ماقبل کی تفصیل سے واضح ہوا کہ حضرت عمرؓ، حضرت حذیفہؓ، حضرت ابوذرؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت عوف بن مالکؓ اور حضرت معاویہ ؓکعبؒ پر کلی اطمینان نہیں رکھتے تھے، جب کہ حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے کعبؒ سے کچھ روایات بھی نقل کی ہیں، اس لیے کہ تمام اسرائیلیات ایک فیصلہ کن قاعدے کے تحت آتی ہیں کہ ان میں سے جس روایت کی شریعت اسلامیہ تصدیق کرے، اس کی تصدیق کی جائے اور شریعت اسلامیہ جس روایت کی تکذیب کرے، اس کی تکذیب کی جائے، اور اس کے علاوہ دیگر روایات کی تصدیق و تکذیب کے بارے میں توقف کیا جائے۔ صحیح بخاریؒ کی ایک روایت ہے: ’’اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ہی تکذیب، اور یوں کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے، اور اس پر جو ہماری طرف نازل ہوا، اور جو تمہاری طرف نازل ہوا، ہمارا ور تمہارا الٰہ و معبود ایک ہی ہے، اور ہم اسی کے تابعدار ہیں‘‘۔
یہی وہ درست راہ ہے، جس پر اسرائیلیات کے کسی خطرے کا خوف نہیں ہے، اس لیے کہ جنہوں نے اسرائیلیات ذکر کیں، انہوں نے اسی نظریے کے ساتھ ذکر کیں کہ یہ اسرائیلیات اس خالص اور سچی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ نہ کعبؒ اور نہ ہی اسرائیلیات کا کوئی اور راوی ہی اسلامی افکار، نظریات اور تعلیمات پرکسی بھی طرح اثر انداز ہو سکتا ہے، جب تک کہ ان کی روایات اس دقیق معیار پر جانچی جاتی رہیں گی۔ اسی بنا پر آپ نے بہت کئی مفسرین کو دیکھا ہوگا کہ وہ ہر نفع بخش روایت کو نقل ضرور کرتے ہیں، تاکہ ان مفسرین کے زمانے میں مروج یہودوغیرہ اہل کتاب سے منقول معارف و روایات کی روشنی میں قرآن کریم کی ذکر کردہ اخبار وقصص کے بعض پہلو واضح ہو جائیں، ساتھ ہی یہ مفسرین ان روایات کی چھان بین بعد میں آنے والے نقاد کے حوالے کرتے ہیں۔اس طرح اسرائیلیات کے ذکر کرنے کا مقصد ان کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ کم از کم یہ معارف بعد میں آنے والوں تک پہنچ ضرور جائیں، اس لیے کہ یہ احتمال تو بجا طور پر موجود ہوتا ہے کہ ان اسرائیلیات سے قرآن کریم کے اجمالی بیانات کی وضاحت میں مدد لی جاسکے۔ مفسرین کی یہ غرض نہیں ہوا کرتی کہ ان روایات کو مسلمانوں کی نظر میں حقائق و عقائد کا درجہ دے دیا جائے، جن کے صحیح ہونے کا عقیدہ رکھا جانا ضروری ہو، اور کسی چھان بین کے بغیر ان روایات کو ان کی کمزوریوں کے باوجود قبول کر لیا جائے۔چنانچہ اسرائیلیات کی تدوین کرنے والوں پر۔جب تک کہ ان کا مقصد یہی ہو۔کسی قسم کی ملامت وتنقید نہیں کی جاسکتی۔
سلیمان بن عبد القوی طوفیؒ نے اپنی کتاب ’’الاکسیر فی قواعد التفسیر‘‘میں مفسرین کے اپنی تفاسیر کو اسرائیلیات سے بھر دینے کے بارے میں اعتذار پیش کرتے ہوئے ان کا مقصد یہی بیان کیا ہے۔ ’’الاکسیر فی قواعد التفسیر‘‘مکتبہ قرا حسام الدین جو آستانہ میں واقع ہے، محفوظ ہے۔ انہوں نے مفسرین کے اس طریق کار کی مثال روات حدیث کے طریق کار سے دی ہے کہ جس طرح انہوں نے شروع شروع میں تمام روایات کے بلا کم و کاست نقل کردینے کا اہتمام کیا اور ان روایات کے صحیح و ضعیف ہونے کا معاملہ آنے والے ناقدین پر چھوڑ دیا، یہی طرز عمل ان مفسرین نے بھی اختیار کیا ہے۔یہ عذر واقعی عمدہ ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ باطل اسرائیلیات سے صرف وہی شخص دھوکہ کھاسکتا ہے جو کثیر پہلو مباحث میں بھی اہل علم کی طرف رجوع کیے بغیر ہر ایک سے روایات لے لینے کا عادی ہو۔ مزید یہ کہ اہل علم کی ایک کثیر تعداد نے ان کھوٹی روایات کی، جو امت کو کسی طرح نقصان پہنچاتیں، جانچ کا خصوصی اہتمام فرمایا ہے، چنانچہ انہوں نے تفسیر کو باطل اسرائیلیات سے خالی کرنے کی خدمت بھی انجام دی ہے، جیسا کہ شیخ عبد الحق بن عطیہ ؒنے اپنی تفسیر’’ المحرر الوجیز فی تفسیر کتاب اللّٰہ العزیز‘‘ میں کیا۔ نتیجہ یہ کہ اسرائیلیات اور اسی قسم کی ساری خرافات اسلامی تعلیمات پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہو سکتی ہیں۔ البتہ ان سے بعض عوام اور وہ حضرات جو اپنے آپ کو اہل علم سمجھتے ہیں اور اہم مسائل و معاملات میں بھی علماء اور مستند مآخذ کی طرف رجوع کرنے سے اپنے آپ کو مستغنی خیال کرتے ہیں‘ ضرور متأثر ہو سکتے ہیں۔اللہ ہی سیدھی راہ دکھلانے والے ہیں۔
لنک