السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
حدیث کے اس ٹکڑے کا ترجمہ اور اسکی تشریح کر دیں.
کیا اس حدیث سے یہ پتا چلتا ھے کہ جو اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتا وہ جہنم میں جاۓ گا؟
محترم شیخ
@اسحاق سلفی صاحب حفظہ اللہ
محترم شیخ
@خضر حیات صاحب حفظہ اللہ
وَأَنَا آمُرُكُمْ بِخَمْسٍ اللَّهُ أَمَرَنِي بِهِنَّ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ وَالْجِهَادُ وَالْهِجْرَةُ وَالْجَمَاعَةُ فَإِنَّهُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِهِ إِلاَّ أَنْ يَرْجِعَ وَمَنِ ادَّعَى دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّهُ مِنْ جُثَا جَهَنَّمَ " . فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ قَالَ " وَإِنْ صَلَّى وَصَامَ فَادْعُوا بِدَعْوَى اللَّهِ الَّذِي سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ الْمُؤْمِنِينَ عِبَادَ اللَّهِ " .
(قال الترمذی ) هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ . قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْحَارِثُ الأَشْعَرِيُّ لَهُ صُحْبَةٌ وَلَهُ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ
ترجمہ ::
حارث اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی تمہیں ان پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جن کا حکم مجھے اللہ نے دیا ہے (۱) بات سننا (۲) (سننے کے بعد) اطاعت کرنا (۳) جہاد کرنا (۴) ہجرت کرنا (۵) جماعت کے ساتھ رہنا کیونکہ جو جماعت سے ایک بالشت بھی ہٹا (علیحدہ ہوا) اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے باہر نکال پھینکا۔ مگر یہ کہ پھر اسلام میں واپس آ جائے۔ اور جس نے جاہلیت کا نعرہ لگایا تو وہ جہنم کے ایندھنوں میں سے ایک ایندھن ہے۔ (یہ سن کر) ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں۔ اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ تو تم اللہ کے بندو! اس اللہ کے پکار کی دعوت دو ،جس نے تمہارا نام مسلم و مومن رکھا“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: حارث اشعری صحابی ہیں اور اس حدیث کے علاوہ بھی ان سے حدیثیں مروی ہیں۔
سنن الترمذی (2863 ) و (أخرجہ النسائي في الکبری) (التحفة: ۳۲۷۴)، و مسند احمد (۴/۲۰۲)
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3694) ، التعليق الرغيب (1 / 189 - 190) ، صحيح الجامع (1724)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2863
وضاحت: ۱؎ : جاہلیت کی پکار : یعنی جاہلیت کا نعرہ اور اس کی پکار جو خانہ جنگی کی پکار ہے اس سے بچو اور اللہ کی توحید اور اس کی تعلیمات کی طرف لوگوں کو بلاؤ۔
(۱)۔۔اس میں پہلا حکم (سمع و طاعت ،یعنی سننا اور ماننا )اس کے متعلق تحفۃ الاحوذی میں لکھا ہے :
(السمع والطاعة) أي للأمير في غير المعصية ،’’ یعنی سمع و طاعت ،یعنی سننے اور ماننے سے مراد حاکم وقت کی بات جو خلاف شرع نہ ہو ،
یہاں موجودہ مذہبی تنظیموں کے امیر ہرگز مراد نہیں ، ۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲) ۔۔دوسری بات جس کا حکم ہے وہ ہے جہاد ۔۔اور تمام صحیح العقیدہ مسلمان جانتے ہیں کہ جہاد صرف اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے ہوتا (اعلاء کلمۃالفرقۃ )کیلئے نہیں ہوتا
یا پھر دفاع اسلام و مسلمین کیلئے ہوتا ہے ۔۔۔حزبی دفاع کیلئے نہیں ہوتا۔۔۔
(۳)ہجرت سے مراد بھی اس وقت مکہ سے مدینہ کی طرف ۔۔دار الکفر سے دار السلام ۔۔اور دارالبدع سے دار السنہ کی طرف اور معصیت کے دیار سے فرمانبرداروں کے دیس کی جانے کو ہجرت کہا جاتا ہے ۔جب کہ پاکستان میں کاروائی ڈالنے کے بعد افغانستان و ایران جانے کا نام ہجرت نہیں۔۔۔
(والهجرة) أي الانتقال من مكة إلى المدينة قبل فتح مكة ومن دار الكفر إلى دار الإسلام ومن دار البدعة إلى دار السنة ومن المعصية إلى التوبة لقوله صلى الله عليه وسلم المهاجر من هجر ما نهى الله عنه (
تحفۃ الاحوذی
(۴ )۔۔اور جماعت سے مراد صحابہ کرام و تابعین اور دیگر سلف صالحین ہیں ،مطلب یہ ہے کہ ان کے منہج و طریقہ اور سیرت کو اپنایا جائے
(والجماعة) قال الطيبي المراد بالجماعة الصحابة ومن بعدهم من التابعين وتابعي التابعين من السلف الصالحين أي آمركم بالتمسك بهديهم وسيرتهم ‘‘
تحفۃ الاحوذی)
۔۔(قيد شبر) بكسر القاف وسكون التحتية أي قدره وأصله القود من القود وهو المماثلة والقصاص والمعنى من فارق ما عليه الجماعة بترك السنة واتباع البدعة ونزع اليد عن الطاعة ولو كان بشيء يسير يقدر في الشاهد بقدر شبر
جو جماعت (یعنی سنت اور راہ صحابہ ،اور خلیفہ اسلام کی اطاعت ) سے ایک بالشت بھی ہٹا (علیحدہ ہوا) اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے باہر نکال پھینکا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ۔۔جاہلیت کا نعرہ ۔۔لگانے سے مراد ’’ راہ سنت و جماعت صحابہ کو چھوڑ نا اور اطاعت خلیفہ سے نکل کر اسکے مقابل لوگوں کو اکسانا ہے ،جو جاہلیت کا طریقہ ہے
جیسا دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ جو اطاعت (سنت اور اطاعت خلیفہ ) سے نکلا ،روز محشر اس کے پاس کوئی دلیل (نجات ) نہیں ہوگی ،
اور اس حال میں فوت ہوا کہ خلیفہ وقت کی بیعت نہیں کی ہوئی تھی ،وہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔
(ومن ادعى دعوى الجاهلية) قال الطيبي عطف على الجملة التي وقعت مفسرة لضمير الشأن للإيذان بأن التمسك بالجماعة وعدم الخروج عن زمرتهم من شأن المؤمنين والخروج من زمرتهم من هجيرى الجاهلية كما قال صلى الله عليه وسلم من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة ولا حجة له ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية
تحفۃالاحوذی ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور آخری بات بہت لائق توجہ ہے کہ :
(سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ الْمُؤْمِنِينَ عِبَادَ اللَّهِ ) کہ تمہارا نام مسلم و مومن اور عباد اللہ یعنی اللہ کے بندے رکھا ہے ۔
اس کے مقابل کچھ جاہل کہتے ہیں کہ اللہ نے تمہارا نام صرف مسلم رکھا ہے ۔