السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یوں تو تاویل اور تفسیر میں کافی تفصیل ہے مگر اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ:
تاویل کا معنی تفسیر و شرح ہوتا ہے، اور تاویل دو طرح کی ہیں، ایک مقبول اور ایک مردود!
مقبول تاویل وہ ہے کہ جس میں عبارت کے معنی و مفہوم کا تعین لغت و شرع کے اعتبار سے اس طرح کیا جائے کہ عبارت کا انکار ہو اور نہ ہی اس میں تحریف واقع ہو!
اور مردود تاویل وہ ہے کہ جس میں کوئی ایسا معنی و مفہوم متعین کیا جائے جس میں عبارت کا انکار و تحریف لازم آتی ہو!
اب مذکورہ حدیث کی جو تاویل اہل سنت والجماعت کرتے ہیں ، یعنی کہ اس حدیث کے معنی و مفہوم کا تعین کرتے ہیں، اس میں عبارت کا نہ انکار ہے اور نہ اس میں تحریف ہے، اگر کوئی شخص اس تاویل یعنی اس عبارت کی تفسیر و شرح و معنی و مفہوم کے تعین کو رد کرتے ہوئے یہ باور کروانا چاہئے کہ معاذ اللہ بندہ کا ہاتھ، کان آنکھ بندہ کا نہیں رہتا بلکہ وہ اللہ بن جاتا ہے ، تو اس سے تو اس کا بندہ کو اللہ بن جانا لازم آتا ہے!ٰ
اور بندہ کا اللہ بن جانا یا اللہ کا مجسم بندہ بن جانا محال ہے! یعنی کہ اس عبارت کا یہ معنی محال ہے!
اور عجب تو یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت یعنی اہل الحدیث کے بیان کردہ تاویل یعنی معنی و مفہوم کو رد کرنے والے جہلا خود تو اللہ کے ہاتھ کے وجود کا ہی انکار کرتے ہیں!
بہر حال اہل سنت والجماعت یعنی اہل الحدیث کی بان کردہ تاویل یعنی کہ اس کا یہ معنی و مفہوم مقبول تاویل ہے!
اور اہل سنت والجماعت یعنی اہل الحدیث یہ کہتے ہیں کہ ہم تاویل کے قائل نہیں، تو وہ قرآن کی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی تاویل یعنی تفسیر و شرح کی بات نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات میں تاویل نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جن الفاظ میں قرآن و سنت مین وارد ہوئیں ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں ، اور کیونکہ اللہ کی صفات کی کیفیت فہم پر انسان قادر نہیں، اس کے جو معنی لغت وشرع میں بیان ہوئے ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔
فورم پر تلاش کرنے پر اس پر بہت کچھ مل جائے گا،ایک تھریڈ درج ذیل ہے:
أسماء وصفات کے باب میں سلف صالحین کا منہج اور اہم اصو ل