ایک حدیث کے متعلق اہل حدیث حضرات سے ایک سوال
صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَ يُقِيمُوا الصَّلاَةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكَاةَ فَإِذَا فَعَلُوا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ إِلاَّ بِحَقِّهَا وَ حِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:'' مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بیشک محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں پھر جب یہ کریں تو انھوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچا لیا مگر حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔ ''
میرا اہل حدیث مسلک کے اہل علم سے یہ سوال ہے کہ اگر کوئي شخص لا الہ الا اللہ کے بجائے لا الہ الا الرحمن کہے تو کیا پھر بھی اس کے خلاف قتال کیا جائے گا یا قتال نہیں کی جائے گی ۔ یعنی لا الہ الا الرحمن کہنے والے کو لا الہ الا اللہ کہنے والوں میں شمار کیا جائے گا اور جو حکم لا الہ الا اللہ کہنے کے متعلق ہے وہ حکم لا الہ الا الرحمن کہنے والے کے متعلق ہے یا نہیں ۔ اگر دونوں کے لئيے ایک حکم ہے تو وجہ اور الگ الگ حکم ہے تو کیا وجہ ہے