- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
لو جی اب پوری بات سمجھ آ گئی۔ مسئلہ آپ کی شاعری میں نہیں، میری سمجھ ہی میں تھا۔ بلکہ سمجھ میں بھی نہیں، سخن ناشناسی یا "بےادبی" میں تھا۔ خاتون کا شکوہ اور آپ کے جواب کا اصل لطف اب آیا ہے دوبارہ پڑھ کر۔ اور اب دل سے داد وصول فرمائیں۔ وہ واہ وہ واہ!!ویسے اچھی شاعری وہ ہوتی ہے، جسے “سمجھانا” نہ پڑے۔ لیکن چونکہ میں بنیادی طور پر شاعر نہیں ہوں اس لئے عین ممکن ہے کہ میری منظوم تُک بندی میں چند آنچ کی کسر رہ جانے کے سبب یہ “ناپختہ” رہ گئی ہو۔ سو اس کمی کو نثر کا تڑکا لگا کر پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ (ابتسامہ)
جب کوئی خاتون “تنہائی” کا اس طرح شکوہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس کی “ابھی تک” شادی نہیں ہوئی ہے۔ مذکورہ خاتون اسی “سبب” سے پریشانی میں کہتی ہیں کہ ع کیسے پاؤں میں ہم زمیں رکھتے ؛ سر پہ جب آسمان نہیں رکھتے ۔ یعنی ہم زمین پر اعتماد سے کیسے چلیں کہ ہمارے اوپر گھر (داری) کی چھت تو دور کی بات ہے، آسمان تک کا سایہ نہیں ہے (یہاں کوئی جھوٹ بولنے کا فتویٰ نہ دے۔شاعری میں اسے جھوٹ نہیں بلکہ “مبالغہ” کہتے ہیں)۔ یہاں تک تو تمہید تھی۔ آگے “حالِ دل” کا بیان کچھ یوں ہے کہ ع کوئی بھی جب بھا نہ سکا دل کو ؛ اس مکاں میں کیسے مکیں رکھتے ۔ یہاں شاعر کی زبانی خاتون فرماتی ہیں کہ میرے دل کے مکاں میں (رہنے والا) کوئی مکیں اس لئے نہیں آیا کہ اس دل کو کوئی اب تک بھا ہی نہیں سکا، پسند ہی نہیں آسکا۔ یہ ایک شاعرانہ تعلی ہے، اپنی “محرومی” کے بیاں کا۔ یہ باکل ایسے ہی ہے جیسےکوئی پیسے نہ ہونے کے سبب لنچ بریک میں کھانا کھانے نہ جاسکے اور کوئی اُس سے پوچھے کے لنچ کے لئے چلنا ہے اور وہ اپنی عزت نفس کو بچانے کے لئے کہہ دے نہیں آج مجھے بھوک نہیں ہے۔
چونکہ میں اُس خاتون کے اِن حالات سے بخوبی واقف تھا، اس لئے اس قطعہ میں بیان کردہ اُن کی “محرومی کی شدت” کو بخوبی سمجھ رہا تھا، لہٰذا اُنہیں انہی کے مصرعوں کے جواب میں، جواب دیتے ہوئے کہا کہ ع نگاہ بلند، قدم بر زمیں رکھتے ؛ ماورائے آسماں پر یقیں رکھتے ۔ یعنی آپ اپنے (زاویہ) نگاہ کو (عام لوگوں سے) بلند (تر) رکھیں اور اپنے قدم کو زمیں پر (مضبوطی سے جمائے) رکھیں۔ اگر سر پہ آسمان کی چھت (بھی) نہیں ہے تو اس کا غم نہ کریں بلکہ آسماں سے ماورا (بالائے آسماں) جو کچھ (بلکہ بہت کچھ) ہے، اُس پر یقین و ایمان رکھیں۔ اور یہ جان لیجئے کہ ع دل کا مکاں خالی نہیں رہتا ؛ دل کو گر جنت مکیں رکھتے۔ یعنی وہ دل کبھی “خالی” نہیں رہتا، جسے جنت میں بسنا ہو، جنت میں بسنے کی آرزو ہو۔ لہٰذا اگر آپ کے دل میں کوئی انسان (بحیثیت شوہر) بَس نہیں پایا تو اس میں صرف اور صرف اللہ کی ذات کو بسا لیجئے تاکہ آپ کا یہ دل جنت کا “مکیں” بن جائے۔ شکوہ کناں خاتون نے اپنے دل کو ایسے “مکاں” سے تشبیہ دی ہے، جس میں (بوجوہ) کوئی “مکیں” نہیں ہے اور وہ “خالی خالی” ہے۔ میں نےبین السطور کہا کہ دل کا “اسٹیٹس” بدل دیجئے تو اس “خالی پن” کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اسے (کسی فرد کے) “مکاں” کی بجائے (جنت کا) “مکیں” بنادیجئے۔ جب دل مکاں سے مکیں بن جائے گا (اور وہ بھی جنت کا) تو پھر تنہائی کا یہی دکھ، پُرمسرت خوشی میں بدل جائے گا۔
پس نوشت: مذکورہ بالا خاتون چونکہ انجینئر نہیں بلکہ سخن شناس ہیں، (ابتسامہ) اس لئے انہوں نے “جواب شکوہ” میں پنہاں نصیحت کو خوشی خوشی “وصول” کیا اور اُن کا اُداس دل باغ باغ ہوگیا۔
ویسے آپ کی نثری تشریح پڑھ کر میٹرک کی یاد آ گئی جب اشعار کی نثری تشریح یاد کیا کرتے تھے، غالب و فیض وغیرہ کی شاعری کی خصوصیات کے رٹے لگاتے تھے۔ اُن دنوں بھی میں نے اپنی سخن ناشناسی کی وجہ سے ایسی "عمومی" قسم کی تشریحات اکٹھی کر رکھی تھیں جو ہر شاعر کے اوپر بآسانی فٹ کی جا سکے۔