چند دن ہوئےفیس بک پرقاری حنیف ڈار صاحب نے ایک پوسٹ شیئرکی اور بتایا کہ بقر عیدپر ایک دنبہ کی قربانی میاں خود اپنی طرف سے اور بیوی بچوںو ماں باپ کی طرف سے کرسکتا ہے۔ جو کہ معروف بات سے بالکل ہٹ کر ایک بات ہے ۔ اس بات تعجب تو ہوا لیکن انہوں نے یہ بات احادیث کے حوالے سے کی تھی کہ یہ بات احادیث سے ثابت ہے اور اسکی گنجائش موجودہے۔ اس بات سے مجھے خوشی بھی ہوئی کہ کم از کم ہمارے جیسےکمزور لوگوں کیلئے بھی قربانی کی گنجائش نکل آئیگی اگر یہ بات درست ثابت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ہم ہر گھر کے ہر فرد کی طرف سے الگ الگ قربانی اگر کرتے ہیں تو کافی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات تو نوبت قرض تک کی آجاتی ہے۔ اس لئے علماء و مفتی حضرات دلائل کو دیکھتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پراس مسئلہ کو واضح کریں۔
کیا دنبہ کی جگہ بکری کی قربانی میں مذکورہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے ؟
کیا دنبہ کی جگہ بکری کی قربانی میں مذکورہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے ؟