عامر بھائی کے برعکس ۔ ۔ ۔ ابتسامہ ۔ ۔ ۔ میں گفٹ والے دروازہ میں داخل ہوا ۔ یہ دروازہ ایک کمرہ میں کھلتا تھا۔ کمرہ کے درمیان میں ایک بڑی میز تھی۔ جس پر گفٹ کے ڈھیر پڑے تھے۔ میں نے بھی اپنا گفٹ اس میز پر رکھ دیا ۔ سامنے پھر دو دروازے نظر آئے ۔ ایک پر لکھا تھا: ضیافت کھانے کے خواہشمندوں کے لئے۔ دوسرے پر لکھا تھا۔ ضیافت کھائے بغیر جانے والوں کے لئے۔ میں ضیافت کھانے والے دروازہ سے داخل ہوا تا آگے مزید دو دروازہ ۔ ایک پر لکھا تھا: دیسی کھانا کھانے والوں کے لئے ۔ دوسرے پر لکھا تھا: فائیو اسٹار ہوٹل کاکھانا کھانے والوں کے لئے۔ میں فائیو اسٹار والے دروازہ میں داخل ہوگیا۔ آگے پھر دو دروازہ۔ ایک پر لکھا تھا: اپنی گاڑی میں آنے والوں کے لئے اور دوسرے پر لکھا تھا: پبلک ٹراسپورٹ پر آنے والوں کے لئے۔ میں دوسرے دروازہ سے داخل ہوگیا۔ آگے پھر دو دروازہ۔ ایک پر لکھا تھا۔ ٹیکسی پر آنے والوں کے لئے اور دوسرے پر لکھا تھا۔ بس ویگن پر آنے والوں کے لئے۔ میں نے آہستگی سے دائیں بائیں دیکھا اور کسی کو نہ پاکر بس ویگن والے دروازہ کو آہستہ ۔ ۔ ۔ آہستہ کھولا
تو کیا دیکھتا ہوں کہ
دروازہ مین روڈ پر
ایک بس اسٹاپ پر
کھلتا ہے اور کنڈکٹروں کی آوازیں آرہی ہیں۔ استاد روک دے۔ ایک اور سواری آرہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بس ڈرائیور نے اتنے زور سے بریک کے ساتھ ہارن کو دبایا کہ اس شور و غل سے میری آنکھ کھل گئی ۔ قہقہہ کم مسکراہٹ پلیز