• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں حافظ زبیر علی زئی کا فتوی؟؟

محمد اسد

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
25
اسلام علیکم،
میرا سوال یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں محدث عصر حافظ زبیر علی زئی کا فتوی کیا ہے؟
کیا کوئی بھائی حافظ صاحب کا فتوی نقل کر سکتا ہے حوالے کے ساتھ
جزاک اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
السلام علیکم
محترم @شاہد نذیر صاحب نے شیخ زبیر صاحب کے متعلق ایک تفصیلی مضمون میں اس تعلق سے لکھا ہے :
بہت سارے لوگوں کے علم میں یہ بات نہیں اور صرف کچھ گنے چنے اور مخصوص لوگ ہی اس بات پر مطلع ہیں کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ قربانی کے دنوں کے مسئلہ کی طرح طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پربھی جماعت اہل حدیث کے متفقہ نظریہ سے بالکل جداگانہ اور مختلف موقف رکھتے تھے۔لیکن انکی معاملہ فہمی اور احتیاط کی بھرپور داد دینی چاہیے کہ وہ صرف اور صرف اس غرض کے پیش نظر اپنے موقف کو منظر عام پر لانے سے رکے رہے کہ اس سے اہل حدیثوں کے درمیان جنگ جدل کا ایک نیا محاذ کھل جائے گااور مخالفین کے ہاتھ بھی ایک زبردست شوشہ آجائے گا جو اہل حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور انہیں مطعون کرنے میں ان کا معاون و مددگار ہوگا۔حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کو اس بات کا بھی بخوبی احساس تھا کہ وہ جماعت اہل حدیث میں جو مقام و مرتبہ حاصل کرچکے ہیں اس مقام پر پہنچ کر ان کی زرا سی بے احتیاطی اہل حدیثوں کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تمام مسائل میں کمال احتیاط کا مظاہرہ کرنا اور ہر معاملہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا انکی احساس ذمہ داری اور مسلک اہل حدیث سے محبت و لگاؤ کی روشن دلیل ہے۔ اس احتیاط کے باوجود دیوبندیوں کو حافظ صاحب کے اس موقف کی بھنک پڑ گئی تھی۔اس لئے وہ آئے روز مختلف ذرائع اور مختلف سوالوں کے ذریعے انکا موقف جاننے کی جستجو میں رہتے تھے۔لیکن حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی طلاق ثلاثہ پر کسی سائل کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ہمارے اس دعویٰ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے آل تقلید اور اہل حدیث کے مابین تقریباً تمام ہی معرکتہ الآراء مسائل پر ایک نئے انداز سے تحقیق پیش کی ۔جیسے تقلید، رفع الیدین، آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام،تراویح، قیام نماز میں ہاتھ باندھنے کی حالت وغیرہ لیکن حیرت انگیز طور پرمجلس واحدہ کی طلاق ثلاثہ جس پر آل تقلید اور اہل حدیث ایک لمبے عرصہ سے مناقشے، مناظرے اور مجادلے کرتے چلے آرہے ہیں اس پر کچھ نہیں لکھا حتی کہ ان کے فتوؤں میں بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں پر کوئی فتویٰ نہیں ملتا۔
حافظ زبیر علی زئی اہل حدیث کے طلاق ثلاثہ پر دلائل سے مطمئن نہیں تھے اور انکے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک قرار دینا کمزور موقف تھا۔ راقم الحروف کو علم ہوا ہے کہ طلاق ثلاثہ پریہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کاوہ موقف تھاجو ابھی تحقیق کے مراحل سے گزر رہا تھا اور اس موقف کا حق ہونا ابھی ان پر پوری طرح واضح نہیں ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ حافظ رحمہ اللہ اس مسئلہ پر بات چیت کو ناپسند فرماتے تھے اور اسی لئے وہ اپنے اس مسئلہ کو منظر عام پر نہیں لائے تھے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ جب ایک مسئلہ پوری طرح محقق ہو کر ان پر واضح حق ثابت ہوجاتا تھا تو پھر وہ اسے بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ شیخ زبیر علی زئی کی یاد میں اپنے مضمون ’’میرے شیخ، میرے محسن، میرے مربی فضیلۃ الشیخ محدث العصر علامہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ‘‘ میں رقم طراز ہیں: ہمارے شیخ حق و صداقت کی علامت تھے۔ جس مسئلہ کا حق ہونا ان پر واضح ہو جاتا اس پر مضبوطی سے ڈٹ جاتے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتی تھی اور وہ اس معاملہ میں کسی بھی لومۃ لائم کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے۔
اپنے بھی خفا مجھ سے اور بے گانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند

(ماہنامہ دعوت اہل حدیث،شمارہ نمبر 151، جنوری2014،صفحہ 36 )
 

محمد اسد

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
25
السلام علیکم
محترم @شاہد نذیر صاحب نے شیخ زبیر صاحب کے متعلق ایک تفصیلی مضمون میں اس تعلق سے لکھا ہے :
بہت سارے لوگوں کے علم میں یہ بات نہیں اور صرف کچھ گنے چنے اور مخصوص لوگ ہی اس بات پر مطلع ہیں کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ قربانی کے دنوں کے مسئلہ کی طرح طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پربھی جماعت اہل حدیث کے متفقہ نظریہ سے بالکل جداگانہ اور مختلف موقف رکھتے تھے۔لیکن انکی معاملہ فہمی اور احتیاط کی بھرپور داد دینی چاہیے کہ وہ صرف اور صرف اس غرض کے پیش نظر اپنے موقف کو منظر عام پر لانے سے رکے رہے کہ اس سے اہل حدیثوں کے درمیان جنگ جدل کا ایک نیا محاذ کھل جائے گااور مخالفین کے ہاتھ بھی ایک زبردست شوشہ آجائے گا جو اہل حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور انہیں مطعون کرنے میں ان کا معاون و مددگار ہوگا۔حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کو اس بات کا بھی بخوبی احساس تھا کہ وہ جماعت اہل حدیث میں جو مقام و مرتبہ حاصل کرچکے ہیں اس مقام پر پہنچ کر ان کی زرا سی بے احتیاطی اہل حدیثوں کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تمام مسائل میں کمال احتیاط کا مظاہرہ کرنا اور ہر معاملہ میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا انکی احساس ذمہ داری اور مسلک اہل حدیث سے محبت و لگاؤ کی روشن دلیل ہے۔ اس احتیاط کے باوجود دیوبندیوں کو حافظ صاحب کے اس موقف کی بھنک پڑ گئی تھی۔اس لئے وہ آئے روز مختلف ذرائع اور مختلف سوالوں کے ذریعے انکا موقف جاننے کی جستجو میں رہتے تھے۔لیکن حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے بھی طلاق ثلاثہ پر کسی سائل کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ہمارے اس دعویٰ کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے آل تقلید اور اہل حدیث کے مابین تقریباً تمام ہی معرکتہ الآراء مسائل پر ایک نئے انداز سے تحقیق پیش کی ۔جیسے تقلید، رفع الیدین، آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام،تراویح، قیام نماز میں ہاتھ باندھنے کی حالت وغیرہ لیکن حیرت انگیز طور پرمجلس واحدہ کی طلاق ثلاثہ جس پر آل تقلید اور اہل حدیث ایک لمبے عرصہ سے مناقشے، مناظرے اور مجادلے کرتے چلے آرہے ہیں اس پر کچھ نہیں لکھا حتی کہ ان کے فتوؤں میں بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں پر کوئی فتویٰ نہیں ملتا۔
حافظ زبیر علی زئی اہل حدیث کے طلاق ثلاثہ پر دلائل سے مطمئن نہیں تھے اور انکے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک قرار دینا کمزور موقف تھا۔ راقم الحروف کو علم ہوا ہے کہ طلاق ثلاثہ پریہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کاوہ موقف تھاجو ابھی تحقیق کے مراحل سے گزر رہا تھا اور اس موقف کا حق ہونا ابھی ان پر پوری طرح واضح نہیں ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ حافظ رحمہ اللہ اس مسئلہ پر بات چیت کو ناپسند فرماتے تھے اور اسی لئے وہ اپنے اس مسئلہ کو منظر عام پر نہیں لائے تھے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ جب ایک مسئلہ پوری طرح محقق ہو کر ان پر واضح حق ثابت ہوجاتا تھا تو پھر وہ اسے بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ شیخ زبیر علی زئی کی یاد میں اپنے مضمون ’’میرے شیخ، میرے محسن، میرے مربی فضیلۃ الشیخ محدث العصر علامہ حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ‘‘ میں رقم طراز ہیں:
ہمارے شیخ حق و صداقت کی علامت تھے۔ جس مسئلہ کا حق ہونا ان پر واضح ہو جاتا اس پر مضبوطی سے ڈٹ جاتے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتی تھی اور وہ اس معاملہ میں کسی بھی لومۃ لائم کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے۔
اپنے بھی خفا مجھ سے اور بے گانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند

(ماہنامہ دعوت اہل حدیث،شمارہ نمبر 151، جنوری2014،صفحہ 36 )
جزاک اللہ،
ان کے ایک تلمیذ شایدآپ ان کو جانتے ہوں انجینئر محمد علی مرزا صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں حافظ صاحب کا فتوی یہی تھا کہ وہ تین ہی شمار ہوتی ہیں۔
ان کی ایک ویڈیو بھی ہے جس میں مرزاصاحب نے یہ بات بتائی ہےکہ حافظ صاحب کا موقوف کیا تھا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
ان کے ایک تلمیذ شایدآپ ان کو جانتے ہوں انجینئر محمد علی مرزا صاحب ہیں
اگر واقعہ ہی تلمیذ ہے تو اللہ تعالی اسے ہدایت دے ، اور کم از کم اپنے شیخ کے نقش قدم پر ہی چلنے کی توفیق دے ، شیخ تو بر بنائے مصلحت طلاق جیسے ایک فرعی مسئلہ میں بھی اپنی رائے کو بیان نہیں کرتے ، جبکہ تلمیذ صاحب تو اہل سنت کے مسلمہ اصولوں سے نہ صرف انحراف بلکہ مکمل بے شرمی کے ساتھ اس کے اظہار پر بھی ذرا نہیں جھجکتے ۔
 
شمولیت
اکتوبر 03، 2016
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
20
مسئلہ طلاق میں ابن عباس رض کا فتوی
”ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۱)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسنادہ صحیح (تعلیق المغنی ص۴۳۰

+



مسئلہ طلاق ثلاثہ حدیث رکانہ کا جائزہ
حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور آنحضرت
نے ارشاد فرمایا کہ اے رکانہ تم رجوع کر لو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت میں نے تو بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، آنحضرت نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم رجوع کر لو۔ (ابو داؤد جلد ۱ ص۲۹۷ و سنن الکبرٰی جلد ۷ ص۳۳۹)
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں بعض بن ابی رافع مجہول راوی ہیں۔ (شرح مسلم جلد ۱ ص۴۷۸)

علامہ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ بعض بنی ابی رافع مجہول ہیں اور مجہول سند سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔ (محلی جلد ۱۰ص۱۶۸)
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
صحيح البخاري - (ج 16 / ص 300)
4855 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُ
أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ فَقَالَ لَهُ يَا عَاصِمُ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ عَاصِمٌ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ مَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ يَا عَاصِمُ مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَاصِمٌ لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا قَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَ النَّاسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا قَالَ سَهْلٌ فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَا قَالَ عُوَيْمِرٌ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَكَانَتْ تِلْكَ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ

صحيح البخاري - (ج 16 / ص 307)
بَاب مَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ وَقَالَ الْحَسَنُ نِيَّتُهُ وَقَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ إِذَا طَلَّقَ ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْهِ فَسَمَّوْهُ حَرَامًا بِالطَّلَاقِ وَالْفِرَاقِ وَلَيْسَ هَذَا كَالَّذِي يُحَرِّمُ الطَّعَامَ لِأَنَّهُ لَا يُقَالُ لِطَعَامِ الْحِلِّ حَرَامٌ وَيُقَالُ لِلْمُطَلَّقَةِ حَرَامٌ وَقَالَ فِي الطَّلَاقِ ثَلَاثًا لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي نَافِعٌ قَالَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا قَالَ لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا فَإِنْ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا حَرُمَتْ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ

صحيح مسلم - (ج 7 / ص 450)
2712 - و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ أَخْبَرَتْهُ
أَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ لَهَا أَهْلُهُ لَيْسَ لَكِ عَلَيْنَا نَفَقَةٌ فَانْطَلَقَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فِي نَفَرٍ فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ فَقَالُوا إِنَّ أَبَا حَفْصٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَهَلْ لَهَا مِنْ نَفَقَةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَتْ لَهَا نَفَقَةٌ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا أَنْ لَا تَسْبِقِينِي بِنَفْسِكِ وَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهَا أَنَّ أُمَّ شَرِيكٍ يَأْتِيهَا الْمُهَاجِرُونَ الْأَوَّلُونَ فَانْطَلِقِي إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى فَإِنَّكِ إِذَا وَضَعْتِ خِمَارَكِ لَمْ يَرَكِ فَانْطَلَقَتْ إِلَيْهِ فَلَمَّا مَضَتْ عِدَّتُهَا أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَابْنُ حُجْرٍ قَالُوا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ يَعْنُونَ ابْنَ جَعْفَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ح و حَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَ كَتَبْتُ ذَلِكَ مِنْ فِيهَا كِتَابًا قَالَتْ كُنْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ فَطَلَّقَنِي الْبَتَّةَ فَأَرْسَلْتُ إِلَى أَهْلِهِ أَبْتَغِي النَّفَقَةَ وَاقْتَصُّوا الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو لَا تَفُوتِينَا بِنَفْسِكِ


سنن أبي داود - (ج 6 / ص 126)
1887 - حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ
أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ قَالَ وَاحِدَةً قَالَ آللَّهِ قَالَ آللَّهِ قَالَ هُوَ عَلَى مَا أَرَدْتَ
قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ عَنْ بَعْضِ بَنِي أَبِي رَافِعٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

سنن النسائي - (ج 11 / ص 79)
3348 - أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ لَبِيدٍ قَالَ
أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ حَتَّى قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أَقْتُلُهُ

سنن النسائي - (ج 11 / ص 82)
3350 - أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ الْأَحْمَسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ قَالَ حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ قَالَتْ
أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ أَنَا بِنْتُ آلِ خَالِدٍ وَإِنَّ زَوْجِي فُلَانًا أَرْسَلَ إِلَيَّ بِطَلَاقِي وَإِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَهُ النَّفَقَةَ وَالسُّكْنَى فَأَبَوْا عَلَيَّ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ أَرْسَلَ إِلَيْهَا بِثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ إِذَا كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا الرَّجْعَةُ


سنن أبي داود - (ج 6 / ص 115)
1880
- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ طَاوُسٍ
أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ أَبُو الصَّهْبَاءِ كَانَ كَثِيرَ السُّؤَالِ لِابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَلَى كَانَ الرَّجُلُ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا جَعَلُوهَا وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ فَلَمَّا رَأَى النَّاسَ قَدْ تَتَابَعُوا فِيهَا قَالَ أَجِيزُوهُنَّ عَلَيْهِمْ


سنن البيهقى جز 7 صفحه 336
حديث نمبر 14748 عن سويد بن غفلة قال ثم كانت عائشة الخثعمية ثم الحسن بن علي رضي الله عنه فلما قتل علي رضي الله عنه قالت لتهنئك الخلافة قال بقتل علي تظهرين الشماتة اذهبي فأنت طالق يعني ثلاثا قال فتلفعت بثيابها وقعدت حتى قضت عدتها فبعث إليها لها من صداقها وعشرة آلاف صدقة فلما جاءها الرسول قالت متاع قليل من حبيب مفارق فلما بلغه قولها بكى ثم قال لولا أني سمعت جدي أو حدثني أبي أنه سمع جدي يقول أيما رجل طلق امرأته ثلاثا ثم الإقراء أو ثلاثا مبهمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره لراجعتها وكذلك روي عن عمر بن شمر عن عمران بن مسلم وإبراهيم بن عبد الأعلى عن سويد بن غفلة
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
مسئلہ طلاق میں ابن عباس رض کا فتوی
”ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۱)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسنادہ صحیح (تعلیق المغنی ص۴۳۰

+



مسئلہ طلاق ثلاثہ حدیث رکانہ کا جائزہ
حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور آنحضرت
نے ارشاد فرمایا کہ اے رکانہ تم رجوع کر لو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت میں نے تو بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، آنحضرت نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم رجوع کر لو۔ (ابو داؤد جلد ۱ ص۲۹۷ و سنن الکبرٰی جلد ۷ ص۳۳۹)
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں بعض بن ابی رافع مجہول راوی ہیں۔ (شرح مسلم جلد ۱ ص۴۷۸)
علامہ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ بعض بنی ابی رافع مجہول ہیں اور مجہول سند سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔ (محلی جلد ۱۰ص۱۶۸
)
کیا ہر جگہ یہی عبارت لکھنی ضروری ہے؟؟
اگر بحث وغیرہ مقصود ہو تو بس ایک جگہ لکھ دیں
 
Top