ڈاکٹر محمد یٰسین
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 31، 2015
- پیغامات
- 31
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 36
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں :تحقیقی جائزہ
ازقلم : ڈاکٹر محمد یٰسین
طلاق کے اقسام:سنت اوربدعت کے اعتبار سے طلاق کے دو اقسام ہیں ۔
1۔ طلاق سنی 2۔ طلاق بدعی
1۔ طلاق سنی: ایسے طہر میں ایک طلاق دینا جس میں ہم بستری نہ کی ہو یا حالت حمل میں ایک طلاق دینا نیز اس پر دو گواہ بھی مقرر کر لے، "طلاق سنی" کہلاتی ہے۔ مزید وضاحت کے لئے یہ جان لیجئے کہ طلاق سنی میں مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
1۔ حالت حیض میں طلاق نہ دی گئی ہو: جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت میں ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهْىَ حَائِضٌ فِى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِى أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ ».
" انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو جبکہ وہ حائضہ تھیں طلاق دےدی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ اس پر بہت غصہ ہوئےاور فرمایا کہ وہ ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اسے اپنے نکاح میں رکھیں حتی کہ جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجائے،پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو، اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھیں تو اس کی پاکی (یعنی طہر) کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے طلاق دےسکتے ہیں۔پس یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے (مردوں کو) حکم دیا ہے کہ اس میں یعنی (حالت طہر)میں طلاق دیں"۔ ﴿صحیح مسلم کتاب الطلاقباب تَحْرِيمِ طَلاَقِ الْحَائِضِ بِغَيْرِ رِضَاهَا﴾
2۔ حالت نفاس میں طلاق نہ دی گئی ہو: کیونکہ نفاس طہر نہیں ہوتا اور حدیث میں ہے کہ حالت طہر میں طلاق دی جائے جیسا کہ نبیﷺ نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:﴿ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ۔۔۔﴾
"ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اسے اپنے نکاح میں رکھیں حتی کہ جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجائے،پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو( پھر اگر چاہے تو طلاق دےدے)۔ (صحیح مسلم)۔
3۔ ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مرد نے عورت سے مباشرت نہ کی ہو: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ﴿فلیطلقھا طاھراقبل ان یمسھا﴾ "حالت طہر میں اس سے ہم بستری سے پہلے طلاق دے" (صحیح مسلم کتاب الطلاق)۔
4۔ ایسے طہر میں طلاق نہ دے جس سے پچھلے حیض میں اس نے طلاق دی ہو: جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو روک لیں حتی کہ طہر آ جائے پھر حیض آئے اور پھر طہر آجائے ، پھر اس طہر میں طلاق دیں۔ (صحیح مسلم)۔ اگر یہ شرط نہ ہوتی تو نبی کریمﷺ پہلے حیض کے بعد آنے والے طہر میں ہی طلاق کا حکم دے دیتے۔
5۔ صرف ایک طلاق دی جائے: اکھٹی تین طلاقیں دینا قرآن کے خلاف ہے۔ او ر ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے شخص سے نبیﷺ نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔
دلائل حسب ذیل ہیں۔
1۔جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے ۔ ﴿الطلاق مرتان﴾(البقرہ 229) "طلاق (رجعی )دو مرتبہ ہے"۔ لفظ "مرتان" مرۃ کا تثنیہ ہے جس کے معنی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ یعنی وقفہ کے ساتھ۔
2۔ حدیث میں ہے کہ أخبرنا سليمان بن داود عن بن وهب قال أخبرني مخرمة عن أبيه قال سمعت محمود بن لبيد قال : أخبر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا فقام غضبانا ثم قال أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم حتى قام رجل وقال يا رسول الله ألا أقتله
ترجمہ: حضرت محموم بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ آپ ﷺ غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے۔جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں اسے قتل نہ کر ڈالوں۔
(سنن نسائی کتاب الطلاق باب الثلاث المجموعہ ومافیہ من التغلیظ)
6۔دوگواؤں کی موجودگی میں طلاق دینا:
دلیل: فرمان الٰہی ہے: ﴿فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ﴾ "پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں توا نہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو اور اللہ کی رضا مندی کے لئے ٹھیک ٹھیک گواہی دو" (سورۃ الطلاق آیت نمبر 2)۔
اما م بخاری رقم طراز ہیں کہ :وَطَلَاقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ وَيُشْهِدَ شَاهِدَيْنِیعنی سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور اس طہر میں عورت سے ہم بستری نہ کی ہو نیز اس پر دو گواہ بھی مقرر کر لے۔ (صحیح بخاری قبل الحدیث کتاب الطلاق)
حالت حمل میں طلاق دینا: دوران حمل دی گئی طلاق، طلاق سنی ہے۔ اور جائز و مباح ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے انہیں حکم دیا:﴿ثُمَّ لْيُطَلِّقْهَا إِذَا طَهُرَتْ أَوْ وَهِىَ حَامِلٌ﴾ یعنی" پھر اسے حالت طہر میں یا حمل میں طلاق دو" (سنن ابوداؤد کتاب الطلاق باب فی طلاق السنۃ)
بچی اور جس کا حیض منقطع ہو چکا ہو،کی طلاق: بچی سے مراد ایسی لڑکی ہے جسے حیض کا خون آنا ابھی شروع ہی نہ ہوا ہو(یاد رہے کہ ایسا نادر ہی ہوتا ہےکہ لڑکی بالغ ہونے کے بعد بھی خون نہ آئے۔) اور" جس کا حیض منقطع ہو چکا ہو" سے مراد ایسی عمر رسیدہ عورت ہےجسے بڑھاپے کی وجہ سےخون آنا بند ہو چکا ہو۔ایسی عورت کو دی گئی طلاق ، طلاق سنی ہی ہےبشرطیکہ صرف ایک ہی طلاق دی جائے۔علاوہ ازیں حالت طہر میں جماع سے پہلےطلاق دینے والی شرط ایسی عورت میں نہیں لگائی جاسکتی۔کیونکہ حیض نہ آنے کی وجہ سے وہ ہر وقت حالت طہر ہی میں ہے۔
2۔ طلاق بدعی: گزشتہ صورت کے علاوہ کسی اور صورت میں طلاق دینا حرام ہے۔ اور اسی کو طلاق بدعی کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی حالت طہر میں نہیں بلکہ حالت حیض یاحالت نفاس میں طلاق دیتا ہےیا ہم بستری کے بغیر نہیں بلکہ حالت طہر میں ہم بستری کے بعد طلاق دیتا ہے یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیتا ہےمثلا یوں کہتا ہےکہ تمہیں میری طرف سے تین طلاقیں یا یوں کہ طلاق،طلاق،طلاق تو ایسی طلاق بدعی ہے۔کیونکہ یہ مسنون طریقہ طلاق کے خلاف ہے۔اور اللہ تعالیٰ مسنون طریقہ کے مطابق طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ﴾ (سورۃ الطلاق :1) یعنی "اے نبی! (اپنی امت سے کہدو کہ)جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو" ۔
اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو جبکہ وہ حائضہ تھیں طلاق دےدی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ اس پر بہت غصہ ہوئےاور فرمایا کہ وہ ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اسے اپنے نکاح میں رکھیں حتی کہ جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجائے،پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو، اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھیں تو اس کی پاکی (یعنی طہر) کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے طلاق دےسکتے ہیں۔﴿ فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِى أَمَرَ اللَّهُ ﴾ "یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے" (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب الطلاق)۔
طلاق بدعی واقع ہو جائےگی:
دلیل نمبر1۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دےدی تو نبیﷺ نےانہیں رجوع کا حکم دیا۔لہٰذہ ثابت ہوا کہ دورانِ حیض دی گئی طلاق واقع ہوگی کیونکہ رجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے۔
دلیل نمبر2۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ﴿حُسِبَتْ عَلَيَّ بِتَطْلِيقَةٍ ﴾ یعنی "یہ طلاق جو میں نے حالتِ حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی" (صحیح بخاری کتاب الطلاق بابإِذَا طُلِّقَتْ الْحَائِضُ تَعْتَدُّ بِذَلِكَ الطَّلَاقِ)
دلیل نمبر 3۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نےفرمایا: ﴿ھی واحدۃ﴾ یعنی "یہ (جو تم نے طلاق دی ہے )ایک ہے" (صحیح :ارواء الغلیل 7/126، دارِقطنی 3/9، بھقی 7/ 326)
بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوگی:
مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت اکٹھی تین طلاقیں دے دیتا ہے تو وہ تینوں واقع نہیں ہوں گی بلکہ صرف ایک ہی شمار ہوگی۔ اس کے دلائل حسب ِ ذیل ہیں۔
دلیل نمبر1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ﴿الطلاق مرتان﴾(البقرہ 229) "طلاق (رجعی )دو مرتبہ ہے"۔ لفظ "مرتان" مرۃ کا تثنیہ ہے جس کے معنی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ یعنی وقفہ کے ساتھ۔ یہ معنی نہیں ہے کہ اکھٹی دو طلاقیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل آیت سے بھی ہم سمجھ سکتے ہیں:
﴿وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ﴾ (سورۃ النور آیت نمبر 58)
اس آیت میں لفظِ مرات مرۃ کی جمع ہے ، اس لفظ کے بعد تین اوقات بیان کئے گئے ہیں جن میں وقفہ ہےنہ کہ اکٹھے ہیں (یعنی ایک مرتبہ فجر سے پہلے ، دوسری مرتبہ دوپہر کو، تیسری مرتبہ نمازِ عشاء کے بعد) لہٰذا معلوم ہوا کہ پہلی آیت میں بھی وقفے کے ساتھ طلاق دینا مراد ہےنہ کہ اکھٹی۔
دلیل نمبر2۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں کہ:
﴿كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدْ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ﴾
"عہدِ رسالت، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک (اکٹھی ) تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، لوگوں نے ایسے معاملے میں جلدی کی ہے جس میں ان کے لئے سہولت دی گئی تھی پس چاہئیے کہ ہم اسے نافذ کر دیں لہٰذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ان پر جاری کر دیا(یعنی تین طلاقوں کے بیک وقت واقع ہونے کا حکم دے دیا)"۔ (صحیح مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث)
دلیل نمبر 3۔ حضرت ابو رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں پھر اس پر نادم و پشیمان ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابورکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ﴿اِنھا وَاحِدۃ﴾ "وہ (تینوں طلاقیں) ایک ہی ہیں"
(حسن : مسند احمد 1/265 )
دلیل نمبر4۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ابو رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم اُم رکانہ سے رجوع کر لو ۔ انہوں نےعرض کیا میںنے اسے تین طلاقیں دےدی ہیں تو آپﷺ نے فرمایا: "مجھے معلوم ہے ،تم اس سے رجوع کرلو"
(حسن :سنن ابوداؤد کتاب الطلاق باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث)
دلیل نمبر 5۔ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ:
أخبر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا فقام غضبانا ثم قال أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم حتى قام رجل وقال يا رسول الله ألا أقتله
ترجمہ: " نبیﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ آپ ﷺ غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے۔جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں اسے قتل نہ کر ڈالوں۔
(صحیح : سنن نسائی کتاب الطلاق باب الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ)
ان تمام دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے دیتا ہے تو وہ در حقیقت ایک ہی شمار ہوگی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام عکرمہؒ اور امام طاؤس وغیرہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
(فتح الباری 10/456)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی حقیقت:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "جب لوگ لگاتار ایسی طلاقیں دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس قسم کی طلاق کو ان پر نافذ کر دیا"۔ (صحیح مسلم)
اس سلسلہ میں خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "جس چیز میں لوگوں کے لئے تاخیر رکھی گئی تھی اس کام میں وہ عجلت کرنے لگے ہیں(یعنی تین طلاق کے لئیے تین طہر کی تاخیر رکھی گئی تھی انہوں نے عجلت کی اور ایک طہر میں تین طلاق دینے لگے) تو کیوں نہ ہم ان کی اس طلاق کو ان پر نافذ کر دیں"۔ (صحیح مسلم)
لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طلاق کے سلسلہ میں جو خلاف ورزی ہو رہی تھی کہ مذاقاتین طلاق دیتے تھے اس کے سدِباب کے لئے بطور سزا اس طلاق کو ان پر نافذ کر دیا۔
بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کےتین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ کرنا باطل ہے۔
تین طلاقوں کےتین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے،لیکن اس کے بر عکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنابالکل برحق ہے،کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس کی مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۵ ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابی بھی ایسے نہ تھے جنہوں نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو،تمام صحابہؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئیے طلاق ثلاثہ کو ایک قرار دینے والے اپنے اس موقف پر حق بجانب ہیں۔ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں: " طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنےکا حق رکھتے ہیں۔ اور ہمارے موقف پر اجماع کا پایاجانا زیادہ واضح ہے۔ جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ میں اختلاف چلا آرہا ہے۔ " (إغاثۃ اللھفان :1/289)
بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوگی بشرطیکہ نیت ایک ہی طلاق کی ہو: ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف
چاروں فقہوں (حنفی ، مالکی، شافعی اور حنبلی) میں ایک اور نقطئہ نظر سے بھی تین دفعہ طلاق کا لفظ دہرانے کے باوجود ،اسے ایک طلاق شمار کرنے کی گنجائش موجود ہے۔وہ گنجائش کیا ہے اور کس طرح ہے؟ وہ اس طرح کہ کبھی محض تاکید کے لئے طلاق کا لفظ دہرایا جاتا ہے جیسے مرد کہتا ہے تجھے طلاق،طلاق،طلاق۔ لیکن اس طرح کہتے ہوئے اس کی نیت تین طلاق دینے کی نہیں ہوتی بلکہ صرف طلاق دینے کی ہوتی ہے۔اور وہ طلاق کا لفظ صرف تاکید کے طور پر دُہراتا ہے،ایسی صورت میں مذکورہ فقہاء بھی ایک ہی طلاق شمار کرنے کے قائل ہیں، دلائل حسب ذیل ہیں۔
1۔فقہ مالکی کا فتویٰ: کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ کے مؤلف فقہ مالکی کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
" اگر اس نے کہا تجھے طلاق،طلاق،طلاق بغیر عطف اور تعلیق کے تو اس صورت میں ایک ہی طلاق ہوگی،جب کہ اس کی نیت دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید ہو" (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ، کتاب الطلاق)
2۔فقہ حنبلی کا فتویٰ: حنبلی مسلک کی کتاب "لمغنی" میں علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:
"اگر کہا جائے تجھے طلاق ہے،طلاق ہے،طلاق ہے،اور کہے کہ میں نے تاکید کی غرض سے کہا تھا تو اس کا یہ بیان قبول کر لیا جائے گا کیونکہ بات تاکیدًا دُہرائی جاتی ہے جس طرح نبیﷺ کا ارشاد ہے: اس کا نکاح باطل ہے،باطل ہے،باطل ہے (یعنی حدیث میں نکاح کے باطل ہونےکا لفظ تاکید کی غرض سے تین مرتبہ دُہرایا گیا ہے) لیکن اگر اس کی نیّت تین طلاقوں کے واقع کرنے کی تھی اور طلاقوں کو دُہرایا تھا تو پھر تین طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر کوئی نیّت نہیں تھی تو صرف ایک طلاق واقع ہوگی"۔ (المغنی 7/232)
3۔فقہ شافعی کا فتویٰ: شافعی مسلک کی کتاب "روضتہ الطالبین" میں امام نویؒ لکھتے ہیں:
"اگر اس نے طلاق کا لفظ تین مرتبہ دُہرایہ لیکن آخری دو مرتبہ سے اس کا مقصد پہلی طلاق کی تاکید تھا تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی"۔ (روضتہ الطالبین 8/78)
4۔فقہ حنفی کا فتویٰ: 1۔حنفی مسلک کی کتاب "بہشتی زیور" میں اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
"کسی نے تین دفعہ کہا : تجھ کو طلاق،طلاق،طلاق۔ تینوں طلاقیں پڑگئیں یا گول الفاظ میں تین مرتبہ کہا تب بھی تین پڑ گئیں لیکن اگر نیّت ایک ہی طلاق کی ہے ، فقط مضبوطی کے لئے تین دفعہ کہا کہ بات خوب پکی ہو جائے تو ایک ہی طلاق ہوئی لیکن عورت کو اس کے دل کا حال تو معلوم نہیں،اس لئی یہی سمجھے کہ تین طلاقیں مل گئیں"۔ (بہشتی زیور 8/78)
2۔ مفتی مہدی حسن سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند اپنی کتاب "اقامۃالقیامۃ" میں تحریر کرتے ہیں:
"اگر عورت مدخول بہا ہے اور ایک ہی طلاق دینے کا ارادہ تھا لیکن بتکرار لفظ تین طلاق دی اور دوسری اور تیسری طلاق کو بطور تاکیدًا استعمال کیا ہو تو دیا نتاً قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہوگا اور ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اس میں اختلاف نہیں"۔ (إقامۃ القیامۃ ص75)
علماءمقلدین سے گذارش
آجکل جو لوگ ایک طہر میں تین طلاقیں دیتے ہیں وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی قصدًا اور مذاقاً نہیں کرتے۔ وہ تو لاعلمی میں ایسا کرتے ہیں تو آخر ان کو کس بات کی سزا دی جارہی ہےکہ ان کو بیویوں کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔حضرت عمرؓکی سزا تو اس صورت میں ہے جب مذاقاًاور کثرت سے ایسا ہونے لگے۔
مگر ہمارے زمانے میں جہالت اور نا واقفیت اور شرعی تعلیمات سے دوری کے باعث صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ طلاق واقع ہی اس وقت ہوتی ہے جب تین بار طلاق کا لفظ کہا جائے۔جس کی وجہ سے تین کے عدد کے ساتھ طلاق دیتے ہیں لیکن بعد میں جب اس کا علم ہوتو ہے تو کہتا ہے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ تین مرتبہ طلاق کے الفاظ استعمال کئے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ اس صورت حال میں ایسے شخص کی تین طلاقوں کو تاکید پر محمول کرکے ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگانا چائیے۔
اللہ تعالیٰ کا دین آسان ہے ۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی دی ہوئی آسانیوں سے عوام کو محروم نہ کریں۔ان کو مصیبت میں نہ ڈالیں۔صحیح مسلم کی حدیث کو نہ چھپائیں اور نہ اپنے مذہب کی خاطر اس کی تاویل کریں۔میدانِ محشر میں مسلک یامذہب کہ بارے میں سوال نہیں ہوگا بلکہ دینِ اسلام کے متعلق سوال ہوگا۔
تمام اچھائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تمام غلطیاں میری طرف سے۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے آمین۔
ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں :تحقیقی جائزہ
ازقلم : ڈاکٹر محمد یٰسین
طلاق کے اقسام:سنت اوربدعت کے اعتبار سے طلاق کے دو اقسام ہیں ۔
1۔ طلاق سنی 2۔ طلاق بدعی
1۔ طلاق سنی: ایسے طہر میں ایک طلاق دینا جس میں ہم بستری نہ کی ہو یا حالت حمل میں ایک طلاق دینا نیز اس پر دو گواہ بھی مقرر کر لے، "طلاق سنی" کہلاتی ہے۔ مزید وضاحت کے لئے یہ جان لیجئے کہ طلاق سنی میں مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
1۔ حالت حیض میں طلاق نہ دی گئی ہو: جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت میں ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهْىَ حَائِضٌ فِى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِى أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ ».
" انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو جبکہ وہ حائضہ تھیں طلاق دےدی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ اس پر بہت غصہ ہوئےاور فرمایا کہ وہ ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اسے اپنے نکاح میں رکھیں حتی کہ جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجائے،پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو، اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھیں تو اس کی پاکی (یعنی طہر) کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے طلاق دےسکتے ہیں۔پس یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے (مردوں کو) حکم دیا ہے کہ اس میں یعنی (حالت طہر)میں طلاق دیں"۔ ﴿صحیح مسلم کتاب الطلاقباب تَحْرِيمِ طَلاَقِ الْحَائِضِ بِغَيْرِ رِضَاهَا﴾
2۔ حالت نفاس میں طلاق نہ دی گئی ہو: کیونکہ نفاس طہر نہیں ہوتا اور حدیث میں ہے کہ حالت طہر میں طلاق دی جائے جیسا کہ نبیﷺ نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:﴿ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ۔۔۔﴾
"ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اسے اپنے نکاح میں رکھیں حتی کہ جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجائے،پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو( پھر اگر چاہے تو طلاق دےدے)۔ (صحیح مسلم)۔
3۔ ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مرد نے عورت سے مباشرت نہ کی ہو: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ﴿فلیطلقھا طاھراقبل ان یمسھا﴾ "حالت طہر میں اس سے ہم بستری سے پہلے طلاق دے" (صحیح مسلم کتاب الطلاق)۔
4۔ ایسے طہر میں طلاق نہ دے جس سے پچھلے حیض میں اس نے طلاق دی ہو: جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو روک لیں حتی کہ طہر آ جائے پھر حیض آئے اور پھر طہر آجائے ، پھر اس طہر میں طلاق دیں۔ (صحیح مسلم)۔ اگر یہ شرط نہ ہوتی تو نبی کریمﷺ پہلے حیض کے بعد آنے والے طہر میں ہی طلاق کا حکم دے دیتے۔
5۔ صرف ایک طلاق دی جائے: اکھٹی تین طلاقیں دینا قرآن کے خلاف ہے۔ او ر ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے شخص سے نبیﷺ نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔
دلائل حسب ذیل ہیں۔
1۔جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے ۔ ﴿الطلاق مرتان﴾(البقرہ 229) "طلاق (رجعی )دو مرتبہ ہے"۔ لفظ "مرتان" مرۃ کا تثنیہ ہے جس کے معنی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ یعنی وقفہ کے ساتھ۔
2۔ حدیث میں ہے کہ أخبرنا سليمان بن داود عن بن وهب قال أخبرني مخرمة عن أبيه قال سمعت محمود بن لبيد قال : أخبر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا فقام غضبانا ثم قال أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم حتى قام رجل وقال يا رسول الله ألا أقتله
ترجمہ: حضرت محموم بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ آپ ﷺ غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے۔جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں اسے قتل نہ کر ڈالوں۔
(سنن نسائی کتاب الطلاق باب الثلاث المجموعہ ومافیہ من التغلیظ)
6۔دوگواؤں کی موجودگی میں طلاق دینا:
دلیل: فرمان الٰہی ہے: ﴿فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ﴾ "پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں توا نہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو اور اللہ کی رضا مندی کے لئے ٹھیک ٹھیک گواہی دو" (سورۃ الطلاق آیت نمبر 2)۔
اما م بخاری رقم طراز ہیں کہ :وَطَلَاقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ وَيُشْهِدَ شَاهِدَيْنِیعنی سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور اس طہر میں عورت سے ہم بستری نہ کی ہو نیز اس پر دو گواہ بھی مقرر کر لے۔ (صحیح بخاری قبل الحدیث کتاب الطلاق)
حالت حمل میں طلاق دینا: دوران حمل دی گئی طلاق، طلاق سنی ہے۔ اور جائز و مباح ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے انہیں حکم دیا:﴿ثُمَّ لْيُطَلِّقْهَا إِذَا طَهُرَتْ أَوْ وَهِىَ حَامِلٌ﴾ یعنی" پھر اسے حالت طہر میں یا حمل میں طلاق دو" (سنن ابوداؤد کتاب الطلاق باب فی طلاق السنۃ)
بچی اور جس کا حیض منقطع ہو چکا ہو،کی طلاق: بچی سے مراد ایسی لڑکی ہے جسے حیض کا خون آنا ابھی شروع ہی نہ ہوا ہو(یاد رہے کہ ایسا نادر ہی ہوتا ہےکہ لڑکی بالغ ہونے کے بعد بھی خون نہ آئے۔) اور" جس کا حیض منقطع ہو چکا ہو" سے مراد ایسی عمر رسیدہ عورت ہےجسے بڑھاپے کی وجہ سےخون آنا بند ہو چکا ہو۔ایسی عورت کو دی گئی طلاق ، طلاق سنی ہی ہےبشرطیکہ صرف ایک ہی طلاق دی جائے۔علاوہ ازیں حالت طہر میں جماع سے پہلےطلاق دینے والی شرط ایسی عورت میں نہیں لگائی جاسکتی۔کیونکہ حیض نہ آنے کی وجہ سے وہ ہر وقت حالت طہر ہی میں ہے۔
2۔ طلاق بدعی: گزشتہ صورت کے علاوہ کسی اور صورت میں طلاق دینا حرام ہے۔ اور اسی کو طلاق بدعی کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی حالت طہر میں نہیں بلکہ حالت حیض یاحالت نفاس میں طلاق دیتا ہےیا ہم بستری کے بغیر نہیں بلکہ حالت طہر میں ہم بستری کے بعد طلاق دیتا ہے یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیتا ہےمثلا یوں کہتا ہےکہ تمہیں میری طرف سے تین طلاقیں یا یوں کہ طلاق،طلاق،طلاق تو ایسی طلاق بدعی ہے۔کیونکہ یہ مسنون طریقہ طلاق کے خلاف ہے۔اور اللہ تعالیٰ مسنون طریقہ کے مطابق طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ﴾ (سورۃ الطلاق :1) یعنی "اے نبی! (اپنی امت سے کہدو کہ)جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو" ۔
اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو جبکہ وہ حائضہ تھیں طلاق دےدی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ اس پر بہت غصہ ہوئےاور فرمایا کہ وہ ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اسے اپنے نکاح میں رکھیں حتی کہ جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجائے،پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو، اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھیں تو اس کی پاکی (یعنی طہر) کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے طلاق دےسکتے ہیں۔﴿ فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِى أَمَرَ اللَّهُ ﴾ "یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے" (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب الطلاق)۔
طلاق بدعی واقع ہو جائےگی:
دلیل نمبر1۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دےدی تو نبیﷺ نےانہیں رجوع کا حکم دیا۔لہٰذہ ثابت ہوا کہ دورانِ حیض دی گئی طلاق واقع ہوگی کیونکہ رجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے۔
دلیل نمبر2۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ﴿حُسِبَتْ عَلَيَّ بِتَطْلِيقَةٍ ﴾ یعنی "یہ طلاق جو میں نے حالتِ حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی" (صحیح بخاری کتاب الطلاق بابإِذَا طُلِّقَتْ الْحَائِضُ تَعْتَدُّ بِذَلِكَ الطَّلَاقِ)
دلیل نمبر 3۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نےفرمایا: ﴿ھی واحدۃ﴾ یعنی "یہ (جو تم نے طلاق دی ہے )ایک ہے" (صحیح :ارواء الغلیل 7/126، دارِقطنی 3/9، بھقی 7/ 326)
بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوگی:
مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت اکٹھی تین طلاقیں دے دیتا ہے تو وہ تینوں واقع نہیں ہوں گی بلکہ صرف ایک ہی شمار ہوگی۔ اس کے دلائل حسب ِ ذیل ہیں۔
دلیل نمبر1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ﴿الطلاق مرتان﴾(البقرہ 229) "طلاق (رجعی )دو مرتبہ ہے"۔ لفظ "مرتان" مرۃ کا تثنیہ ہے جس کے معنی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ یعنی وقفہ کے ساتھ۔ یہ معنی نہیں ہے کہ اکھٹی دو طلاقیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل آیت سے بھی ہم سمجھ سکتے ہیں:
﴿وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ﴾ (سورۃ النور آیت نمبر 58)
اس آیت میں لفظِ مرات مرۃ کی جمع ہے ، اس لفظ کے بعد تین اوقات بیان کئے گئے ہیں جن میں وقفہ ہےنہ کہ اکٹھے ہیں (یعنی ایک مرتبہ فجر سے پہلے ، دوسری مرتبہ دوپہر کو، تیسری مرتبہ نمازِ عشاء کے بعد) لہٰذا معلوم ہوا کہ پہلی آیت میں بھی وقفے کے ساتھ طلاق دینا مراد ہےنہ کہ اکھٹی۔
دلیل نمبر2۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں کہ:
﴿كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدْ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ﴾
"عہدِ رسالت، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک (اکٹھی ) تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، لوگوں نے ایسے معاملے میں جلدی کی ہے جس میں ان کے لئے سہولت دی گئی تھی پس چاہئیے کہ ہم اسے نافذ کر دیں لہٰذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ان پر جاری کر دیا(یعنی تین طلاقوں کے بیک وقت واقع ہونے کا حکم دے دیا)"۔ (صحیح مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث)
دلیل نمبر 3۔ حضرت ابو رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں پھر اس پر نادم و پشیمان ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابورکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ﴿اِنھا وَاحِدۃ﴾ "وہ (تینوں طلاقیں) ایک ہی ہیں"
(حسن : مسند احمد 1/265 )
دلیل نمبر4۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ابو رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم اُم رکانہ سے رجوع کر لو ۔ انہوں نےعرض کیا میںنے اسے تین طلاقیں دےدی ہیں تو آپﷺ نے فرمایا: "مجھے معلوم ہے ،تم اس سے رجوع کرلو"
(حسن :سنن ابوداؤد کتاب الطلاق باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث)
دلیل نمبر 5۔ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ:
أخبر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا فقام غضبانا ثم قال أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم حتى قام رجل وقال يا رسول الله ألا أقتله
ترجمہ: " نبیﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ آپ ﷺ غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے۔جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں اسے قتل نہ کر ڈالوں۔
(صحیح : سنن نسائی کتاب الطلاق باب الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ)
ان تمام دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے دیتا ہے تو وہ در حقیقت ایک ہی شمار ہوگی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام عکرمہؒ اور امام طاؤس وغیرہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
(فتح الباری 10/456)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی حقیقت:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "جب لوگ لگاتار ایسی طلاقیں دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس قسم کی طلاق کو ان پر نافذ کر دیا"۔ (صحیح مسلم)
اس سلسلہ میں خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "جس چیز میں لوگوں کے لئے تاخیر رکھی گئی تھی اس کام میں وہ عجلت کرنے لگے ہیں(یعنی تین طلاق کے لئیے تین طہر کی تاخیر رکھی گئی تھی انہوں نے عجلت کی اور ایک طہر میں تین طلاق دینے لگے) تو کیوں نہ ہم ان کی اس طلاق کو ان پر نافذ کر دیں"۔ (صحیح مسلم)
لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طلاق کے سلسلہ میں جو خلاف ورزی ہو رہی تھی کہ مذاقاتین طلاق دیتے تھے اس کے سدِباب کے لئے بطور سزا اس طلاق کو ان پر نافذ کر دیا۔
بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کےتین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ کرنا باطل ہے۔
تین طلاقوں کےتین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے،لیکن اس کے بر عکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنابالکل برحق ہے،کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس کی مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۵ ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابی بھی ایسے نہ تھے جنہوں نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو،تمام صحابہؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئیے طلاق ثلاثہ کو ایک قرار دینے والے اپنے اس موقف پر حق بجانب ہیں۔ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں: " طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنےکا حق رکھتے ہیں۔ اور ہمارے موقف پر اجماع کا پایاجانا زیادہ واضح ہے۔ جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ میں اختلاف چلا آرہا ہے۔ " (إغاثۃ اللھفان :1/289)
بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوگی بشرطیکہ نیت ایک ہی طلاق کی ہو: ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف
چاروں فقہوں (حنفی ، مالکی، شافعی اور حنبلی) میں ایک اور نقطئہ نظر سے بھی تین دفعہ طلاق کا لفظ دہرانے کے باوجود ،اسے ایک طلاق شمار کرنے کی گنجائش موجود ہے۔وہ گنجائش کیا ہے اور کس طرح ہے؟ وہ اس طرح کہ کبھی محض تاکید کے لئے طلاق کا لفظ دہرایا جاتا ہے جیسے مرد کہتا ہے تجھے طلاق،طلاق،طلاق۔ لیکن اس طرح کہتے ہوئے اس کی نیت تین طلاق دینے کی نہیں ہوتی بلکہ صرف طلاق دینے کی ہوتی ہے۔اور وہ طلاق کا لفظ صرف تاکید کے طور پر دُہراتا ہے،ایسی صورت میں مذکورہ فقہاء بھی ایک ہی طلاق شمار کرنے کے قائل ہیں، دلائل حسب ذیل ہیں۔
1۔فقہ مالکی کا فتویٰ: کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ کے مؤلف فقہ مالکی کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
" اگر اس نے کہا تجھے طلاق،طلاق،طلاق بغیر عطف اور تعلیق کے تو اس صورت میں ایک ہی طلاق ہوگی،جب کہ اس کی نیت دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید ہو" (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ، کتاب الطلاق)
2۔فقہ حنبلی کا فتویٰ: حنبلی مسلک کی کتاب "لمغنی" میں علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:
"اگر کہا جائے تجھے طلاق ہے،طلاق ہے،طلاق ہے،اور کہے کہ میں نے تاکید کی غرض سے کہا تھا تو اس کا یہ بیان قبول کر لیا جائے گا کیونکہ بات تاکیدًا دُہرائی جاتی ہے جس طرح نبیﷺ کا ارشاد ہے: اس کا نکاح باطل ہے،باطل ہے،باطل ہے (یعنی حدیث میں نکاح کے باطل ہونےکا لفظ تاکید کی غرض سے تین مرتبہ دُہرایا گیا ہے) لیکن اگر اس کی نیّت تین طلاقوں کے واقع کرنے کی تھی اور طلاقوں کو دُہرایا تھا تو پھر تین طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر کوئی نیّت نہیں تھی تو صرف ایک طلاق واقع ہوگی"۔ (المغنی 7/232)
3۔فقہ شافعی کا فتویٰ: شافعی مسلک کی کتاب "روضتہ الطالبین" میں امام نویؒ لکھتے ہیں:
"اگر اس نے طلاق کا لفظ تین مرتبہ دُہرایہ لیکن آخری دو مرتبہ سے اس کا مقصد پہلی طلاق کی تاکید تھا تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی"۔ (روضتہ الطالبین 8/78)
4۔فقہ حنفی کا فتویٰ: 1۔حنفی مسلک کی کتاب "بہشتی زیور" میں اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
"کسی نے تین دفعہ کہا : تجھ کو طلاق،طلاق،طلاق۔ تینوں طلاقیں پڑگئیں یا گول الفاظ میں تین مرتبہ کہا تب بھی تین پڑ گئیں لیکن اگر نیّت ایک ہی طلاق کی ہے ، فقط مضبوطی کے لئے تین دفعہ کہا کہ بات خوب پکی ہو جائے تو ایک ہی طلاق ہوئی لیکن عورت کو اس کے دل کا حال تو معلوم نہیں،اس لئی یہی سمجھے کہ تین طلاقیں مل گئیں"۔ (بہشتی زیور 8/78)
2۔ مفتی مہدی حسن سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند اپنی کتاب "اقامۃالقیامۃ" میں تحریر کرتے ہیں:
"اگر عورت مدخول بہا ہے اور ایک ہی طلاق دینے کا ارادہ تھا لیکن بتکرار لفظ تین طلاق دی اور دوسری اور تیسری طلاق کو بطور تاکیدًا استعمال کیا ہو تو دیا نتاً قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہوگا اور ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اس میں اختلاف نہیں"۔ (إقامۃ القیامۃ ص75)
علماءمقلدین سے گذارش
آجکل جو لوگ ایک طہر میں تین طلاقیں دیتے ہیں وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی قصدًا اور مذاقاً نہیں کرتے۔ وہ تو لاعلمی میں ایسا کرتے ہیں تو آخر ان کو کس بات کی سزا دی جارہی ہےکہ ان کو بیویوں کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔حضرت عمرؓکی سزا تو اس صورت میں ہے جب مذاقاًاور کثرت سے ایسا ہونے لگے۔
مگر ہمارے زمانے میں جہالت اور نا واقفیت اور شرعی تعلیمات سے دوری کے باعث صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ طلاق واقع ہی اس وقت ہوتی ہے جب تین بار طلاق کا لفظ کہا جائے۔جس کی وجہ سے تین کے عدد کے ساتھ طلاق دیتے ہیں لیکن بعد میں جب اس کا علم ہوتو ہے تو کہتا ہے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ تین مرتبہ طلاق کے الفاظ استعمال کئے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ اس صورت حال میں ایسے شخص کی تین طلاقوں کو تاکید پر محمول کرکے ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگانا چائیے۔
اللہ تعالیٰ کا دین آسان ہے ۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی دی ہوئی آسانیوں سے عوام کو محروم نہ کریں۔ان کو مصیبت میں نہ ڈالیں۔صحیح مسلم کی حدیث کو نہ چھپائیں اور نہ اپنے مذہب کی خاطر اس کی تاویل کریں۔میدانِ محشر میں مسلک یامذہب کہ بارے میں سوال نہیں ہوگا بلکہ دینِ اسلام کے متعلق سوال ہوگا۔
تمام اچھائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تمام غلطیاں میری طرف سے۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے آمین۔