• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں

شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں :تحقیقی جائزہ


ازقلم : ڈاکٹر محمد یٰسین

طلاق کے اقسام:سنت اوربدعت کے اعتبار سے طلاق کے دو اقسام ہیں ۔

1۔ طلاق سنی 2۔ طلاق بدعی

1۔ طلاق سنی: ایسے طہر میں ایک طلاق دینا جس میں ہم بستری نہ کی ہو یا حالت حمل میں ایک طلاق دینا نیز اس پر دو گواہ بھی مقرر کر لے، "طلاق سنی" کہلاتی ہے۔ مزید وضاحت کے لئے یہ جان لیجئے کہ طلاق سنی میں مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔

1۔ حالت حیض میں طلاق نہ دی گئی ہو: جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت میں ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ:

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهْىَ حَائِضٌ فِى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِى أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ ».

" انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو جبکہ وہ حائضہ تھیں طلاق دےدی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ اس پر بہت غصہ ہوئےاور فرمایا کہ وہ ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اسے اپنے نکاح میں رکھیں حتی کہ جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجائے،پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو، اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھیں تو اس کی پاکی (یعنی طہر) کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے طلاق دےسکتے ہیں۔پس یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے (مردوں کو) حکم دیا ہے کہ اس میں یعنی (حالت طہر)میں طلاق دیں"۔ ﴿صحیح مسلم کتاب الطلاقباب تَحْرِيمِ طَلاَقِ الْحَائِضِ بِغَيْرِ رِضَاهَا﴾

2۔ حالت نفاس میں طلاق نہ دی گئی ہو: کیونکہ نفاس طہر نہیں ہوتا اور حدیث میں ہے کہ حالت طہر میں طلاق دی جائے جیسا کہ نبیﷺ نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:﴿ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لْيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ ۔۔۔﴾

"ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اسے اپنے نکاح میں رکھیں حتی کہ جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجائے،پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو( پھر اگر چاہے تو طلاق دےدے)۔ (صحیح مسلم)۔

3۔ ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مرد نے عورت سے مباشرت نہ کی ہو: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ﴿فلیطلقھا طاھراقبل ان یمسھا﴾ "حالت طہر میں اس سے ہم بستری سے پہلے طلاق دے" (صحیح مسلم کتاب الطلاق)۔

4۔ ایسے طہر میں طلاق نہ دے جس سے پچھلے حیض میں اس نے طلاق دی ہو: جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبیﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو روک لیں حتی کہ طہر آ جائے پھر حیض آئے اور پھر طہر آجائے ، پھر اس طہر میں طلاق دیں۔ (صحیح مسلم)۔ اگر یہ شرط نہ ہوتی تو نبی کریمﷺ پہلے حیض کے بعد آنے والے طہر میں ہی طلاق کا حکم دے دیتے۔

5۔ صرف ایک طلاق دی جائے: اکھٹی تین طلاقیں دینا قرآن کے خلاف ہے۔ او ر ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے شخص سے نبیﷺ نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔

دلائل حسب ذیل ہیں۔

1۔جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے ۔ ﴿الطلاق مرتان﴾(البقرہ 229) "طلاق (رجعی )دو مرتبہ ہے"۔ لفظ "مرتان" مرۃ کا تثنیہ ہے جس کے معنی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ یعنی وقفہ کے ساتھ۔

2۔ حدیث میں ہے کہ أخبرنا سليمان بن داود عن بن وهب قال أخبرني مخرمة عن أبيه قال سمعت محمود بن لبيد قال : أخبر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا فقام غضبانا ثم قال أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم حتى قام رجل وقال يا رسول الله ألا أقتله

ترجمہ: حضرت محموم بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ آپ ﷺ غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے۔جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں اسے قتل نہ کر ڈالوں۔

(سنن نسائی کتاب الطلاق باب الثلاث المجموعہ ومافیہ من التغلیظ)

6۔دوگواؤں کی موجودگی میں طلاق دینا:

دلیل: فرمان الٰہی ہے: ﴿فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ﴾ "پس جب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں توا نہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو یا دستور کے مطابق انہیں الگ کر دو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو اور اللہ کی رضا مندی کے لئے ٹھیک ٹھیک گواہی دو" (سورۃ الطلاق آیت نمبر 2)۔

اما م بخاری رقم طراز ہیں کہ :وَطَلَاقُ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ وَيُشْهِدَ شَاهِدَيْنِیعنی سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ حالت طہر میں عورت کو ایک طلاق دے اور اس طہر میں عورت سے ہم بستری نہ کی ہو نیز اس پر دو گواہ بھی مقرر کر لے۔ (صحیح بخاری قبل الحدیث کتاب الطلاق)

حالت حمل میں طلاق دینا: دوران حمل دی گئی طلاق، طلاق سنی ہے۔ اور جائز و مباح ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے انہیں حکم دیا:﴿ثُمَّ لْيُطَلِّقْهَا إِذَا طَهُرَتْ أَوْ وَهِىَ حَامِلٌ﴾ یعنی" پھر اسے حالت طہر میں یا حمل میں طلاق دو" (سنن ابوداؤد کتاب الطلاق باب فی طلاق السنۃ)

بچی اور جس کا حیض منقطع ہو چکا ہو،کی طلاق: بچی سے مراد ایسی لڑکی ہے جسے حیض کا خون آنا ابھی شروع ہی نہ ہوا ہو(یاد رہے کہ ایسا نادر ہی ہوتا ہےکہ لڑکی بالغ ہونے کے بعد بھی خون نہ آئے۔) اور" جس کا حیض منقطع ہو چکا ہو" سے مراد ایسی عمر رسیدہ عورت ہےجسے بڑھاپے کی وجہ سےخون آنا بند ہو چکا ہو۔ایسی عورت کو دی گئی طلاق ، طلاق سنی ہی ہےبشرطیکہ صرف ایک ہی طلاق دی جائے۔علاوہ ازیں حالت طہر میں جماع سے پہلےطلاق دینے والی شرط ایسی عورت میں نہیں لگائی جاسکتی۔کیونکہ حیض نہ آنے کی وجہ سے وہ ہر وقت حالت طہر ہی میں ہے۔

2۔ طلاق بدعی: گزشتہ صورت کے علاوہ کسی اور صورت میں طلاق دینا حرام ہے۔ اور اسی کو طلاق بدعی کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی حالت طہر میں نہیں بلکہ حالت حیض یاحالت نفاس میں طلاق دیتا ہےیا ہم بستری کے بغیر نہیں بلکہ حالت طہر میں ہم بستری کے بعد طلاق دیتا ہے یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیتا ہےمثلا یوں کہتا ہےکہ تمہیں میری طرف سے تین طلاقیں یا یوں کہ طلاق،طلاق،طلاق تو ایسی طلاق بدعی ہے۔کیونکہ یہ مسنون طریقہ طلاق کے خلاف ہے۔اور اللہ تعالیٰ مسنون طریقہ کے مطابق طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ﴾ (سورۃ الطلاق :1) یعنی "اے نبی! (اپنی امت سے کہدو کہ)جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو" ۔

اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو جبکہ وہ حائضہ تھیں طلاق دےدی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ اس پر بہت غصہ ہوئےاور فرمایا کہ وہ ان سے (یعنی اپنی بیوی سے) رجوع کر لیں اور اسے اپنے نکاح میں رکھیں حتی کہ جب وہ ایام ماہواری سے پاک ہوجائے،پھر ماہواری آئے اور پھر وہ اس سے پاک ہو، اب اگر وہ طلاق دینا مناسب سمجھیں تو اس کی پاکی (یعنی طہر) کے زمانہ میں ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے طلاق دےسکتے ہیں۔﴿ فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِى أَمَرَ اللَّهُ ﴾ "یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے" (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب الطلاق)۔

طلاق بدعی واقع ہو جائےگی:

دلیل نمبر1۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دےدی تو نبیﷺ نےانہیں رجوع کا حکم دیا۔لہٰذہ ثابت ہوا کہ دورانِ حیض دی گئی طلاق واقع ہوگی کیونکہ رجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے۔

دلیل نمبر2۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ﴿حُسِبَتْ عَلَيَّ بِتَطْلِيقَةٍ ﴾ یعنی "یہ طلاق جو میں نے حالتِ حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی" (صحیح بخاری کتاب الطلاق بابإِذَا طُلِّقَتْ الْحَائِضُ تَعْتَدُّ بِذَلِكَ الطَّلَاقِ)

دلیل نمبر 3۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نےفرمایا: ﴿ھی واحدۃ﴾ یعنی "یہ (جو تم نے طلاق دی ہے )ایک ہے" (صحیح :ارواء الغلیل 7/126، دارِقطنی 3/9، بھقی 7/ 326)

بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوگی:

مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت اکٹھی تین طلاقیں دے دیتا ہے تو وہ تینوں واقع نہیں ہوں گی بلکہ صرف ایک ہی شمار ہوگی۔ اس کے دلائل حسب ِ ذیل ہیں۔

دلیل نمبر1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ﴿الطلاق مرتان﴾(البقرہ 229) "طلاق (رجعی )دو مرتبہ ہے"۔ لفظ "مرتان" مرۃ کا تثنیہ ہے جس کے معنی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ یعنی وقفہ کے ساتھ۔ یہ معنی نہیں ہے کہ اکھٹی دو طلاقیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل آیت سے بھی ہم سمجھ سکتے ہیں:

﴿وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ﴾ (سورۃ النور آیت نمبر 58)

اس آیت میں لفظِ مرات مرۃ کی جمع ہے ، اس لفظ کے بعد تین اوقات بیان کئے گئے ہیں جن میں وقفہ ہےنہ کہ اکٹھے ہیں (یعنی ایک مرتبہ فجر سے پہلے ، دوسری مرتبہ دوپہر کو، تیسری مرتبہ نمازِ عشاء کے بعد) لہٰذا معلوم ہوا کہ پہلی آیت میں بھی وقفے کے ساتھ طلاق دینا مراد ہےنہ کہ اکھٹی۔

دلیل نمبر2۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں کہ:

﴿كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدْ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ

"عہدِ رسالت، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک (اکٹھی ) تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، لوگوں نے ایسے معاملے میں جلدی کی ہے جس میں ان کے لئے سہولت دی گئی تھی پس چاہئیے کہ ہم اسے نافذ کر دیں لہٰذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ان پر جاری کر دیا(یعنی تین طلاقوں کے بیک وقت واقع ہونے کا حکم دے دیا)"۔ (صحیح مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث)

دلیل نمبر 3۔ حضرت ابو رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں پھر اس پر نادم و پشیمان ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابورکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ﴿اِنھا وَاحِدۃ﴾ "وہ (تینوں طلاقیں) ایک ہی ہیں"

(حسن : مسند احمد 1/265 )

دلیل نمبر4۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ابو رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم اُم رکانہ سے رجوع کر لو ۔ انہوں نےعرض کیا میںنے اسے تین طلاقیں دےدی ہیں تو آپﷺ نے فرمایا: "مجھے معلوم ہے ،تم اس سے رجوع کرلو"

(حسن :سنن ابوداؤد کتاب الطلاق باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث)

دلیل نمبر 5۔ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ:

أخبر رسول الله صلى الله عليه و سلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا فقام غضبانا ثم قال أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم حتى قام رجل وقال يا رسول الله ألا أقتله

ترجمہ: " نبیﷺ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ آپ ﷺ غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جا رہا ہے۔جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں اسے قتل نہ کر ڈالوں۔

(صحیح : سنن نسائی کتاب الطلاق باب الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ)

ان تمام دلائل سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دے دیتا ہے تو وہ در حقیقت ایک ہی شمار ہوگی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، امام عکرمہؒ اور امام طاؤس وغیرہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔

(فتح الباری 10/456)

حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی حقیقت:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "جب لوگ لگاتار ایسی طلاقیں دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس قسم کی طلاق کو ان پر نافذ کر دیا"۔ (صحیح مسلم)

اس سلسلہ میں خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "جس چیز میں لوگوں کے لئے تاخیر رکھی گئی تھی اس کام میں وہ عجلت کرنے لگے ہیں(یعنی تین طلاق کے لئیے تین طہر کی تاخیر رکھی گئی تھی انہوں نے عجلت کی اور ایک طہر میں تین طلاق دینے لگے) تو کیوں نہ ہم ان کی اس طلاق کو ان پر نافذ کر دیں"۔ (صحیح مسلم)

لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طلاق کے سلسلہ میں جو خلاف ورزی ہو رہی تھی کہ مذاقاتین طلاق دیتے تھے اس کے سدِباب کے لئے بطور سزا اس طلاق کو ان پر نافذ کر دیا۔

بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کےتین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ کرنا باطل ہے۔

تین طلاقوں کےتین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے،لیکن اس کے بر عکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنابالکل برحق ہے،کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس  کی مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۵ ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابی بھی ایسے نہ تھے جنہوں نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو،تمام صحابہؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئیے طلاق ثلاثہ کو ایک قرار دینے والے اپنے اس موقف پر حق بجانب ہیں۔ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں: " طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنےکا حق رکھتے ہیں۔ اور ہمارے موقف پر اجماع کا پایاجانا زیادہ واضح ہے۔ جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ میں اختلاف چلا آرہا ہے۔ " (إغاثۃ اللھفان :1/289)

بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوگی بشرطیکہ نیت ایک ہی طلاق کی ہو: ائمہ اربعہ کا متفقہ موقف

چاروں فقہوں (حنفی ، مالکی، شافعی اور حنبلی) میں ایک اور نقطئہ نظر سے بھی تین دفعہ طلاق کا لفظ دہرانے کے باوجود ،اسے ایک طلاق شمار کرنے کی گنجائش موجود ہے۔وہ گنجائش کیا ہے اور کس طرح ہے؟ وہ اس طرح کہ کبھی محض تاکید کے لئے طلاق کا لفظ دہرایا جاتا ہے جیسے مرد کہتا ہے تجھے طلاق،طلاق،طلاق۔ لیکن اس طرح کہتے ہوئے اس کی نیت تین طلاق دینے کی نہیں ہوتی بلکہ صرف طلاق دینے کی ہوتی ہے۔اور وہ طلاق کا لفظ صرف تاکید کے طور پر دُہراتا ہے،ایسی صورت میں مذکورہ فقہاء بھی ایک ہی طلاق شمار کرنے کے قائل ہیں، دلائل حسب ذیل ہیں۔

1۔فقہ مالکی کا فتویٰ: کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ کے مؤلف فقہ مالکی کی صراحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

" اگر اس نے کہا تجھے طلاق،طلاق،طلاق بغیر عطف اور تعلیق کے تو اس صورت میں ایک ہی طلاق ہوگی،جب کہ اس کی نیت دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید ہو" (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ، کتاب الطلاق)

2۔فقہ حنبلی کا فتویٰ: حنبلی مسلک کی کتاب "لمغنی" میں علامہ ابن قدامہؒ لکھتے ہیں:

"اگر کہا جائے تجھے طلاق ہے،طلاق ہے،طلاق ہے،اور کہے کہ میں نے تاکید کی غرض سے کہا تھا تو اس کا یہ بیان قبول کر لیا جائے گا کیونکہ بات تاکیدًا دُہرائی جاتی ہے جس طرح نبیﷺ کا ارشاد ہے: اس کا نکاح باطل ہے،باطل ہے،باطل ہے (یعنی حدیث میں نکاح کے باطل ہونےکا لفظ تاکید کی غرض سے تین مرتبہ دُہرایا گیا ہے) لیکن اگر اس کی نیّت تین طلاقوں کے واقع کرنے کی تھی اور طلاقوں کو دُہرایا تھا تو پھر تین طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر کوئی نیّت نہیں تھی تو صرف ایک طلاق واقع ہوگی"۔ (المغنی 7/232)

3۔فقہ شافعی کا فتویٰ: شافعی مسلک کی کتاب "روضتہ الطالبین" میں امام نویؒ لکھتے ہیں:

"اگر اس نے طلاق کا لفظ تین مرتبہ دُہرایہ لیکن آخری دو مرتبہ سے اس کا مقصد پہلی طلاق کی تاکید تھا تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی"۔ (روضتہ الطالبین 8/78)

4۔فقہ حنفی کا فتویٰ: 1۔حنفی مسلک کی کتاب "بہشتی زیور" میں اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:

"کسی نے تین دفعہ کہا : تجھ کو طلاق،طلاق،طلاق۔ تینوں طلاقیں پڑگئیں یا گول الفاظ میں تین مرتبہ کہا تب بھی تین پڑ گئیں لیکن اگر نیّت ایک ہی طلاق کی ہے ، فقط مضبوطی کے لئے تین دفعہ کہا کہ بات خوب پکی ہو جائے تو ایک ہی طلاق ہوئی لیکن عورت کو اس کے دل کا حال تو معلوم نہیں،اس لئی یہی سمجھے کہ تین طلاقیں مل گئیں"۔ (بہشتی زیور 8/78)

2۔ مفتی مہدی حسن سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند اپنی کتاب "اقامۃالقیامۃ" میں تحریر کرتے ہیں:

"اگر عورت مدخول بہا ہے اور ایک ہی طلاق دینے کا ارادہ تھا لیکن بتکرار لفظ تین طلاق دی اور دوسری اور تیسری طلاق کو بطور تاکیدًا استعمال کیا ہو تو دیا نتاً قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہوگا اور ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اس میں اختلاف نہیں"۔ (إقامۃ القیامۃ ص75)

علماءمقلدین سے گذارش

آجکل جو لوگ ایک طہر میں تین طلاقیں دیتے ہیں وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی قصدًا اور مذاقاً نہیں کرتے۔ وہ تو لاعلمی میں ایسا کرتے ہیں تو آخر ان کو کس بات کی سزا دی جارہی ہےکہ ان کو بیویوں کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔حضرت عمرؓکی سزا تو اس صورت میں ہے جب مذاقاًاور کثرت سے ایسا ہونے لگے۔

مگر ہمارے زمانے میں جہالت اور نا واقفیت اور شرعی تعلیمات سے دوری کے باعث صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ طلاق واقع ہی اس وقت ہوتی ہے جب تین بار طلاق کا لفظ کہا جائے۔جس کی وجہ سے تین کے عدد کے ساتھ طلاق دیتے ہیں لیکن بعد میں جب اس کا علم ہوتو ہے تو کہتا ہے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ تین مرتبہ طلاق کے الفاظ استعمال کئے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ اس صورت حال میں ایسے شخص کی تین طلاقوں کو تاکید پر محمول کرکے ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگانا چائیے۔

اللہ تعالیٰ کا دین آسان ہے ۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی دی ہوئی آسانیوں سے عوام کو محروم نہ کریں۔ان کو مصیبت میں نہ ڈالیں۔صحیح مسلم کی حدیث کو نہ چھپائیں اور نہ اپنے مذہب کی خاطر اس کی تاویل کریں۔میدانِ محشر میں مسلک یامذہب کہ بارے میں سوال نہیں ہوگا بلکہ دینِ اسلام کے متعلق سوال ہوگا۔

تمام اچھائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تمام غلطیاں میری طرف سے۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے آمین۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
"عہدِ رسالت، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک (اکٹھی ) تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، لوگوں نے ایسے معاملے میں جلدی کی ہے جس میں ان کے لئے سہولت دی گئی تھی پس چاہئیے کہ ہم اسے نافذ کر دیں لہٰذا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ان پر جاری کر دیا(یعنی تین طلاقوں کے بیک وقت واقع ہونے کا حکم دے دیا)"۔ (صحیح مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث)
اگر اس حدیث سے وہی مفہوم ظاہر ہے جسے بیان کیا گیا توکیا یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں کہلائے گی۔ وضاحت فرمادیں کیوں کہ تمام امت مسلمہ کا ان کے خلیفہ راشد ہونے پر اتفاق ہے۔ شکریہ
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جو اختیار تھا وہ کتاب وسنت کے نفاذ کا تھا۔ اگر آپ کو اصول فقہ سے شغف ہے تو میری بات بہت ہی آسان ہو جائے گی کہ کتاب وسنت کے احکام کے نفاذ میں مصلحت، سد الذرائع، عرف وغیرہ جیسے قواعد عامہ کا لحاظ رکھنا شریعت سے ثابت ہے۔بلکہ اس سے بھی آسان بات کہوں کہ شرعی حکم کی اقسام میں سے ایک قسم ’مانع‘ کہلاتی ہے۔ ’مانع‘ کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ایک شرعی حکم کا اطلاق کسی ’مانع‘ کی وجہ سے نہیں کیا جاتا ہے جیسا کہ وراثت کا منتقل ہونا ایک شرعی حکم ہے لیکن ”قتل‘ اس میں مانع ہے اور اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کو قتل کر دے تو وہ اپنے باپ کا وارث نہیں بنے گا اگرچہ وہ اس کا وارث ہے۔ یہاں وراثت کے شرعی حکم کے اطلاق اور ایپلیکیشن میں ایک مانع کی وجہ سے اس حکم کا اطلاق نہ ہوا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں انہوں نے چوری کی حد ساقط کر دی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حد کے نفاذ میں ایک مانع موجود تھااور وہ مانع قحط سالی تھی جس کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قطع ید کے قرآنی حکم کی تطبیق نہ کی اور چور کے ہاتھ نہ کاٹے ۔ اور اس قسم کے مسائل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت ہیں کہ جن میں بظاہر نصوص کی خلاف ورزی ہے ۔ انہیں اہل علم ”اولیات عمر“ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔
پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کے دیے ہوئے رجوع کے حق کو ختم نہیں کیا ، اگر ختم کیا ہوتا تو ایک مجلس میں ایک طلاق دینے والے کو بھی رجوع کاحق نہ ہوتا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کی صورت میں یہ اجتہاد فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو رجوع کا حق دینے میں ایک مانع موجود ہے اور وہ مانع شریعت کا مذاق اڑانا ہے۔پس شریعت نے ایک طلاق کی صورت میں آسانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق دینے والے شخص کو رجوع کا جو حق دیا تھ، اسی حق رجوع میں اس شرعی حکم کا مذاق اڑانا ایک مانع بن گیا۔دوسرے الفاظ میں ایک رحمت یا آسانی والے قانون سے کیا اس شخص کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے جس نے اسی قانون کو کھیل تماشا بنا لیا ہو تو اس بارے صحابہ کرام اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ جاری ہوا کہ کسی شرعی حکم یا قانون کا مذاق اڑانا اس شرعی حکم یا قانون کی نرمیوں اور آسانیوں سے فائدہ اٹھانے میں ایک مانع ہے۔یہ حضرت عمر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس فیصلہ کی توجیہ ہے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اگر آپ کو اصول فقہ سے شغف ہے تو میری بات بہت ہی آسان ہو جائے گی کہ کتاب وسنت کے احکام کے نفاذ میں مصلحت، سد الذرائع، عرف وغیرہ جیسے قواعد عامہ کا لحاظ رکھنا شریعت سے ثابت ہے۔
یہ اصول فقہ کس نے دیئے؟
مصلحت، سدذرائع، عرف وغیرہ کے زور پر احکام سے روگردانی کی جاسکتی ہے؟
ان دونوں باتوں کا جواب قرآن و صحیح حدیث سے مرحمت فرماکر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2015
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
36
محمد رمضان سلفی
(2) طلاقِ ثلاثہ کو ’تین‘ ثابت کرنیوالوں کے دلائل کا جائزہ

حنفیہ کے ہاں طلاق کی اقسام : ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کے دلائل کا جائزہ لینے سے قبل حنفی مذہب میں طلاق کی اقسام کو سمجھ لینا مناسب ہے، تاکہ آنے والے دلائل کی مراد سمجھنے میں آسانی رہے۔ حنفیہ کے ہاں طلاق کی تین اقسام ہیں :
(1) احسن
(2) حسن
(3) بدعی

(1) احسن طلاق سے مراد یہ ہے کہ شوہر ایسے طہر میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے جس میں اس نے بیوی سے مقاربت نہ کی ہو۔ اور طلاق دینے کے بعد عدت ختم ہونے تک اس کو چھوڑے رکھے، طلاق کی یہ احسن صورت ہے۔
(2) حسن طلاق سے مراد یہ ہے کہ مدخول بہا عورت کو تین طہروں میں وقفے وقفے سے طلاق دے، یعنی ایک طہر میں پہلی طلاق دے، دوسرے طہر میں دوسری اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے۔یہ طلاق کی حسن صورت ہے۔
(3) طلاقِ بدعت یہ ہے کہ یکبار اسے تین طلاق دے دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے دے۔ طلاق کی یہ صورت بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے۔1

اب ہم ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جو طلاقِ ثلاثہ کے واقع ہونے پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ ہماری رائے میں طلاقِ ثلاثہ کی روایات کو طلاقِ بدعت پر محمول کرنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے جسے خود حنفی مذہب میں بھی بدعت کہا گیا ہے۔ اس کے برعکس اگر ان روایات کو طلاق حسن پر محمول کیا جائے تو کوئی اختلاف باقی نہ رہے۔

ایک مجلس کیطلاقِ ثلاثہ کو تین قرار دینے والوں کے دلائل کی حقیقت
(1) سب سے پہلے قرآن کی یہ آیت پیش کی جاتی ہے:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥ...﴿٢٣٠﴾...سورۃ البقرۃ

اور اس سے استدلال یوں کیا جاتاہے کہ یہاں حرف 'فا' ہے جو اکثر تعقیب بلامہلت کے لئے آتا ہے۔ جس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ دو کے بعد اگر کسی نادان نے تیسری طلاق بھی فی الفور دے دی تو اب اس کی بیوی اس کے لئے حلال نہیں ہے جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ایک ہی مجلس اور ایک ہی جگہ میں تین طلاقیں دی جائیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آیت کی تفسیر میں دفعتہً تین طلاقیں دینا بھی داخل ہے۔ 2

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آیت سے قبل آنے والی آیت ِکریمہ {ٱلطَّلَـٰقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌۢ بِإِحْسَـٰنٍ...﴿٢٢٩﴾...سورۃ البقرۃ}میں دو طلاقوں سے مراد کون سی طلاق ہے؟ جب ان دو طلاقوں سے مراد رجعی طلاقیں ہیں جو وقفے وقفے سے دی جاتی ہیں ، یکبارگی نہیں تو اس پر مرتب ہونے والی تیسری طلاق جو اس آیت میں ذکر ہوئی ہے: {فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥ...﴿٢٣٠﴾...سورۃ البقرۃ}سے بھی وہ تیسری طلاق مراد ہوگی جو دوسری طلاق کے بعد فی الفور نہیں بلکہ وقفہ کے بعد تیسرے طہر میں دی گئی ہو۔ جب یہ آیاتِ کریمہ وقفے وقفے سے تین طہروں میں دی جانے والی طلاقوں کے حکم کو بیان کرنے کے لئے ہیں تو اس میں دفعتہً ؍ یکبار تین طلاقیں دینا داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک ہی آیت ِکریمہ دو متضاد مفاہیم کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ باقی رہا یہ کہنا کہ یہاں حرف 'فا' ہے جو تعقیب بلامہلت کے لئے آتا ہے تو اس کا جواب مضمون کے سابقہ حصہ میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے۔

(2) ایک مجلس میں طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کے قائلین دوسری دلیل کے طور پر حضرت عائشہؓ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں : ''حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، سو اس نے کسی اور مرد سے نکاح کیا اور اس نے ہم بستری سے پہلے اسے طلاق دے دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا: کیا وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہم بستری نہ کرلے اور لطف اندوز نہ ہوجائے۔'' 3

مضمون نگار لکھتے ہیں : ''اس حدیث میں ''طلَّق امرأته ثلاثًا'' کے جملہ کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ ظاہراً اسی کو چاہتا ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی اور دفعتہً دی گئی تھیں ۔'' 4
یہ حدیث دراصل رفاعہ قرظیؓ کی حدیث کا اختصار ہے۔ اسی لئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے رفاعہ قرظیؓ کی مفصل حدیث کے بعد ذکر کیاہے اور حضرت رفاعہؓ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی اور دفعتہً نہیں دی تھیں بلکہ متفرق طور پر وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں اور اسی کے لئے اس حدیث میں ثلاثًا کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب اللباس میں جب اس حدیث کو لائے ہیں تو وہاں وضاحت موجود ہے کہ حضرت رفاعہؓ نے یکے بعد دیگرے وقفہ کے ساتھ تین طلاقیں دی تھیں ، حدیث کے الفاظ یوں ہیں :
عن عائشة أن رفاعة القرظي طلَّق امرأته فبَتَّ طلاقھا فتزوجھا بعدہ عبدالرحمٰن بن الزبیر فجاء ت النبي ! فقالت: یا رسول اﷲ! إنھا کانت عند رفاعة فطلَّقھا آخرثلث تطلیقات۔۔۔ 5

یہاں ''فطلقھا آخر ثلث تطلیقات'' کے الفاظ واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رفاعہؓ نے تین طلاقیں وقفے وقفے سے دی تھیں ، پہلے دو طلاقیں دی جاچکی تھیں اور اب تیسری طلاق بھی دے دی جو آخری ہے اور اسی کو بتة طلاق کہا گیا ہے اور آخرثلث تطلیقات کے یہ الفاظ صحیح مسلم (حدیث 14،3513) اور سنن کبریٰ از بیہقی (جلد 7؍ ص 374) پربھی اس حدیث میں موجود ہیں جو تین طلاق کے متفرق طور پر دئیے جانے کی واضح دلیل ہیں اور اگر اس حدیث کو رفاعہؓ کی حدیث کا اختصار نہ بھی ماناجائے تب بھی اس میں آنے والے ثلاثًا کے لفظ کوطلاقِ بدعت پر نہیں بلکہ طلاقِ حسن پر محمول کرناچاہئے، کیونکہ جداجدا دی ہوئی تین طلاقوں کے لئے لفظ ثلاثا کا استعمال قرآن و سنت اور لغت و عرف ہر اعتبار سے درست ہے اور اس حدیث میں اکٹھی تین طلاقیں دینے کا کوئی قرینہ بھی نہیں ہے۔ امام ابن قیم جوزیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''لیس فیه أنه طلَّقھا ثلاثا بفم واحد فلا تدخلوا فیه ما لیس فیه''
'''حدیث ِعائشہؓ میں یہ ذکر نہیں ہے کہ اس نے یکبار اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں ، لہٰذا جس چیز کا حدیث میں ذکر نہیں ، اسے اس میں داخل نہیں کرنا چاہئے۔ '' 6

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کو باطل قرار دیا ہے۔ 7

(3) ان حضرات کی تیسری دلیل یہ حدیث ہے کہ ''حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور اس کے بعد اس کو تین طلاقیں دے دیتا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ عورت اس شخص کے لئے حلال نہیں ہے، جب تک کہ دوسراخاوند اس سے لطف اندوز نہ ہوجائے جس طرح کہ پہلا خاوند اس سے لطف اُٹھا چکا ہے۔ 8
اس حدیث میں بھی لفظ ثلاثا بظاہر اسی کا مقتضی ہے کہ تین طلاقیں اکٹھی دفعتہً دی گئی ہوں ۔'' 9

میں کہتا ہوں کہ اگر اس حدیث میں ثلاثًاکے لفظ سے تین طلاقیں اکٹھی دینامراد ہوتا تو حدیث ِمذکور میں اس کے ساتھ جمیعًا کا لفظ بھی ذکر ہوتا، جیساکہ محمود بن لبید کی حدیث میں جمیعًا کا لفظ ذکر کرکے تین طلاق کے اکٹھی اور دفعتہً ہونے کی صراحت کی گئی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
''عن محمود بن لبید قال: أخبر رسول اﷲ ﷺ عن رجل طلَّق امرأته ثلاث تطلیقات جمیعًا فقام غضبانًا،ثم قال أیُلعب بکتاب اﷲ وأنا بین أظھرکم حتی قام رجل وقال:یا رسول اﷲ،ألا أقتله10
''حضرت محمود بن لبید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپتہ چلا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں تو آپؐ غصہ کی حالت میں اُٹھے اور فرمایا: کیامیرے ہوتے ہوئے اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہاہے، یہ سن کر ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں ۔''

دیکھئے، جس آدمی نے تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں ، اسے ذکر کرتے ہوئے ثلاث کے لفظ کے ساتھ جمیعًا کا لفظ بھی ذکر ہوا ہے۔ جبکہ حضرت عائشہؓ کی حدیث ِمذکور میں ایسا کوئی لفظ نہیں ۔ لہٰذا اس میں لفظ ثلاثا کو دفعتہً اکٹھی تین طلاق پر محمول کرنا تحکم اور سینہ زوری کے سوا کچھ نہیں ۔ بنا بریں اس میں ثلاثا کے لفظ سے وہی طلاق مراد ہے جو مباح اور حسن ہے اور جو وقفے وقفے سے تین طہروں میں دی جاتی ہے۔

(4) تین طلاق کو تین قرار دینے والوں کی طرف سے محمود بن لبید کی وہی حدیث پیش کی جاتی ہے جس کے الفاظ بمع ترجمہ ابھی ذکر ہوئے ہیں اور اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
''اس صحیح روایت سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ دفعتاً تین طلاقیں دینا پسندیدہ امر نہیں ورنہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو اس پر سخت ناراض ہوتے اور نہ ہی یہ ارشاد فرماتے کہ میری موجودگی میں اللہ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔ البتہ آپؐ نے باوجود ناراضگی کے ان تینوں کو اس پر نافذ کردیا۔''11

یہ بالکل غلط بات ہے کہ ایک کام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوں حتیٰ کہ ایک آدمی ایسے طلاق دہندہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگے اور پھر وہ تین طلاقیں نافذ بھی کردی جائیں ، یہ نہیں ہوسکتا، ورنہ اس پر آپؐ کا ناراض ہونا بے معنی ہوکر رہ جاتاہے۔ یہ کبھی نہیں ہواکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام پر سخت ناراض ہوئے ہوں اور اسے کتاب اللہ کے ساتھ مذاق قرار دیا ہو اور پھر اسے نافذ بھی کردیا ہو، امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''وکیف یظن برسول اﷲ! أنه أجاز عمل من استھزأ بکتاب اﷲ وصححه و اعتبرہ في شرعه وحکمه ونفذہ وقد جعله مستھزء ا بکتاب اﷲ تعالیٰ'' 12
''رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا کہ آپؐ کتاب اللہ کا مذاق اُڑانے والے شخص کے کام کو جائز اور صحیح بنا دیں یا شریعت میں اس کا اعتبار کرتے ہوئے اسے نافذ کردیں جبکہ آپؐ نے اسے کتاب اللہ کا مذاق اُڑانے والا کہا ہے تو اب اس کی دی ہوئی طلاقوں کا اعتبار کیونکر ہوسکتاہے؟''

(5) ان کی پانچویں دلیل حضرت سہل بن سعدؓ کی یہ روایت ہے کہ حضرت عویمرؓ نے آپؐ کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور آپ ؐ نے ان کونافذ کردیا۔(سنن ابوداؤد) ''اگر دفعتہً تین طلاقیں حرام ہوتیں اور تین کا شرعاً اعتبار نہ ہوتا اور تین طلاقیں ایک تصور کی جاتیں تو آپؐ ضرور اس کا حکم ارشاد فرماتے اور کسی طرح خاموشی اختیار نہ فرماتے۔'' 13

حضرت عویمرؓ کا یہ واقعہ طلاق ثلاثہ کی بجائے دراصل لعان کا واقعہ ہے اورحدیث ِلعان سے طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر استدلال کرناانتہائی کمزور دلیل ہے کیونکہ لعان کرنے سے میاں اور بیوی کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی اور علیحدگی واقع ہوجاتی ہے کہ جس کے بعد وہ کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔ حدیث نبویؐ کے الفاظ: ثم لا یجتمعان أبدا (لعان کے بعد وہ کبھی بھی اکٹھے نہیں ہوسکتے) اسی کی تائید کرتے ہیں ، لہٰذا لعان کے بعد حضرت عویمرؓ کا اس عورت کو طلاق دینا ایسے ہی لغو (رائیگاں ) تھا جیسے راہ چلتی کسی اجنبی عورت کو تین طلاقیں دے دینا عبث ہے۔ کیونکہ لعان کے بعد وہ عورت طلاق کا محل ہی نہیں رہتی۔اور لعان سے ہونے والی جدائی ایک یا ایک سے زیادہ طلاقیں دینے کی قطعاً محتاج نہیں ہے۔

رہا یہ سوال کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عویمرؓ کے اس فعل پرخاموش رہے ہیں ، اگر دفعتہً تین طلاقیں دینا حرام ہوتا تو آپؐ کبھی خاموشی اختیار نہ کرتے۔ تو اس کا جواب حنفی مذہب کے ممتاز عالم شمس الائمہ سرخسی نے اپنی تالیف المبسوط میں دیا ہے کہ
''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہِ شفقت عویمر عجلانیؓ کی بات پر انکار نہ فرمایا، اس لئے کہ آپؐ کو معلوم تھا کہ وہ غصے میں ہے اور اگر غصہ کی بنا پر اس نے آپؐ کی بات نہ مانی تو کافر ہوجائے گا۔ لہٰذا آپؐ نے اس پر انکار کو مؤخر فرما دیا اور ''فلا سبیل لك علیها'' (تجھے اب اس پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا) کہہ کر اس فعل کی تردید کردی۔ نیز یہ کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا اس لئے ناجائز ہے کہ اس سے تلافی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور لعان کی صورت میں تو تلافی کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔''14

اوراگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کو یہاں رضا پر محمول کرلیاجائے، جیسا کہ مضمون نگار کا خیال ہے، پھر تو تین طلاقیں اکٹھی دینا بدعت بھی نہیں رہے گا۔ جبکہ حنفی مذہب میں بھی تین طلاقیں دفعتہً اکٹھی دینے کو بدعت کہا گیا ہے۔ حضرت عویمرؓ کے اس فعل پر آپؐ کی خاموشی رضا کے اظہار کے لئے نہیں تھی بلکہ اس لئے تھی کہ اس کا یہ فعل بے محل ہونے کی وجہ سے عبث تھا۔ اگر حضرت عویمرؓ کا لعان کے بعد اس عورت کو تین طلاقیں دینے کاعمل برمحل اور مؤثر ہوتا تو آپؐ اس پر اسی طرح ناراضگی اور غصے کا اظہار فرماتے جس طرح محمود بن لبید کی حدیث کے مطابق ایک آدمی کے تین طلاقیں دفعتہً اکٹھی دینے پر آپؐنے غصے کا اظہار فرمایاتھا۔ حتیٰ کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں ؟ لہٰذا لعان والی حدیث سے دفعتہً تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا انتہائی ضعیف موقف ہے۔

(6) ان حضرات کی چھٹی دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بحالت ِحیض اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی باقی دو حیض یاطہر کے وقت دے دیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپؐ نے حضرت ابن عمرؓ سے فرمایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم تو نہیں دیا، تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے۔ سنت تو یہ ہے کہ جب طہر کا زمانہ آئے تو ہر طہر کے وقت اس کو طلاق دے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے۔ چنانچہ میں نے رجوع کرلیا۔ پھر آپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور مرضی ہوئی تو بیوی بناکر رکھ لینا، اس پر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتلائیں ، اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں ؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور یہ کارروائی معصیت ہوتی۔ 15

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں دے چکنے کے بعد پھر رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔'' 16

اگر فقہی جمود کو چھوڑ کر طلاقِ ثلاثہ کے مسئلہ پر تحقیق کی جاتی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کے تین ہونے پر ہرگز استدلال نہ کیا جاتا، کیونکہ اکٹھی تین طلاقوں کے موقف کی تردید اسی حدیث میں موجود ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی تھی اور دیگر دو طلاقوں کو بھی وہ متفرق طور پر دو حیض یا دو طہر میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے، حدیث ِمذکور کے آغاز میں اس طریقہ طلاق کی صراحت موجودہے، جیسا کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
''حدثنا عبد اﷲ بن عمر أنه طلق امرأته تطلیقة وھي حائض ثم أراد أن یتبعھا تطلیقتین أخراوین عند القرئین الباقیین فبلغ ذلك رسول اﷲ ﷺ ۔۔۔ الخ'' 17
'' عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق حیض کی حالت میں دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی دو مختلف حیضوں یا طہروں میں دے دیں ۔۔۔ الخ۔''

جب عبداللہ بن عمرؓ خود باقی دو طلاقیں دو مختلف حیضوں یا دو مختلف طہروں میں دینے کا ارادہ رکھتے تھے تواسے دفعتہً اکٹھی تین طلاقوں پر محمول کیسے کیاجاسکتاہے؟ لہٰذا عبداللہ بن عمرؓ نے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اے اللہ کے رسولؐ! اگر میں اسے تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لئے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کرلوں ؟ اس سے متفرق طور پر دو مختلف حیضوں میں طلاق دینا ہی مراد تھا جس کا ارادہ حضرت ابن عمرؓ اس سے پہلے کرچکے تھے، اور اس سے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں مراد لے کر ایک ہی حدیث کے اوّل اور آخر حصے کو آپس میں ٹکرا دینا حدیث نافہمی کی دلیل ہے۔ باقی رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کام کو معصیت کہنا تو اس کا تعلق دراصل حالت ِحیض میں تین طلاقیں دینے سے ہے یا متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرنے کو معصیت کہا گیا ہے۔

اس حدیث کے ناقابل استدلال ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سنن بیہقی کی یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں شعیب بن رزیق راوی ہے جسے محدثین نے مجروح قرا ردیا ہے۔ دوسرا راوی عطاء خراسانی ہے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ضعیف ہے اور سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے اسے جھوٹا کہا ہے۔ 18

(7) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت نافع بن عجیر فرماتے ہیں کہ حضرت رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو بتہ (تعلق قطع کرنے والی) طلاق دی۔ اس کے بعد اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اور کہا: بخدا میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیاہے؟ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم! تو نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے؟ رکانہ نے کہا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نے صرف ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بی بی اسے واپس دلوا دی۔'' 19

اس پر صاحب ِمضمون کہتے ہیں :
''اگر لفظ بتہ سے دفعتہً تین طلاقیں پڑنے کا جواز ثابت نہ ہوتا تو جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رکانہؓ کو کیوں قسم دیتے؟ چونکہ کنایہ کی طلاق میں نیت کا دخل بھی ہوتا ہے اور لفظ بتہ تین کا احتمال بھی رکھتا ہے، اس لئے آپ نے ان کو قسم دی، اگر تین کے بعد رجوع کا حق ہوتا اور تین ایک سمجھی جاتی تو آپؐ ان کو قسم نہ دیتے۔'' 20

حنفیہ کا اس حدیث سے دفعتہً تین طلاقیں واقع ہونے پر استدلال کرنا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ روایت ہی ضعیف ہے دوسرا یہ روایت حنفیہ کے مذہب کے مطابق نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف ہے، حنفیہ کے مذہب کے مطابق بتہ کے لفظ سے جب ایک طلاق مراد لی جاتی ہے تو وہ ایک بائنہ ہوتی ہے جس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا اور بیوی واپس نہیں دلوائی جاسکتی، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ''طلاق البتة عند الشافعي واحدة رجعیة وعند أبي حنیفة واحدة بائنة'' 21
''یعنی طلاق بتہ سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایک طلاقِ بائنہ پڑے گی۔''

حضرت رکانہ رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ حدیث کے مطابق لفظ بتہ سے ایک طلاق کو رجعی بنایا گیا ہے اور بیوی اسے واپس دلوائی گئی ہے تو اس حدیث سے حنفی حضرات استدلال کیسے کرسکتے ہیں ؟

اور رکانہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت جو بتہ کے لفظ کے ساتھ آئی ہے اور جس سے حنفیہ تین طلاق کے واقع ہونے پر استدلال کرتے ہیں ، زبیر بن سعید کی وجہ سے ضعیف ہے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ''فیه زبیر بن سعید بن سلیمان نزیل المدائن لین الحدیث من السابعة'' 22

نیز اس میں عبداللہ بن علی بن یزید راوی بھی ضعیف (لین الحدیث) ہے اور نافع بن عجیر مجہول ہے۔ دیکھئے :زاد المعاد: ج4 ؍ص59

عون المعبود میں ہے: ''إن الحدیث ضعیف ومع ضعفه مضطرب ومع اضطرابه معارض بحدیث ابن عباس أن الطلاق کان علی عھد رسول اﷲ واحدة، فالإستدلال بھذا الحدیث لیس بصحیح'' 23
''حضرت رکانہؓ کی بتہ والی حدیث ضعیف ہے ، اور ضعیف ہونے کے ساتھ یہ مضطرب بھی ہے اور مضطرب ہونے کے باوجود یہ عبداللہ بن عباسؓ کی صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ تین طلاقیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور ابوبکر صدیقؓ کے دور اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے دو، تین سال تک ایک ہی شمار ہوتی تھیں ...

اس کے برعکس حضرت رکانہؓ کی وہ حدیث جس میں ثلاثا کالفظ وارد ہے اور وہ تین طلاق کے ایک ہونے کی دلالت کرتی ہے، سند کے اعتبار سے صحیح ثابت ہے جیساکہ مسند احمد میں ہے
''عن ابن عباس قال طلّق رکانة بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا۔قال: فسأله رسول اﷲ ﷺ )کیف طلقتھا؟( قال:طلقتھا ثلاثا،قال: فقال: )في مجلس واحد؟( قال: نعم۔قال )فإنما تلك واحدة، فارجعھا إن شئت( قال: فرجعھا فکان ابن عباس یریٰ أنما الطلاق عند کل طھر'' 24
'' رکانہ بن عبد ِیزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں اور پھر اسے اس پر سخت پریشانی ہوئی۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے کیسے طلاق دی ہے؟ کہا:تین طلاقیں دے بیٹھاہوں ۔ فرمایا: کیا ایک ہی مجلس میں ؟ کہا: ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تو ایک ہی طلاق ہوئی۔ اگر چاہے تو اس سے رجوع کرلے تو رکانہؓ نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی رائے میں طلاق ہر طہر میں دینی چاہئے۔''

اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دیا ہے اور اس کے خلاف جوروایات پیش کی جاتی ہیں وہ یا تو ضعیف اور مجروح ہیں اور اگر صحیح ہیں تو ان سے تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

(8) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بحالت ِحیض اپنی بیوی کو بتہ طلاق دے دی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ تو نے پروردگار کی نافرمانی کی ہے اور تیری بیوی تجھ سے بالکل الگ ہوگئی۔ اس شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمرؓ کے ساتھ بھی تو ایسا ہی معاملہ پیش آیاتھا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو رجوع کا حق دیاتھا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اسے فرمایا کہ ''بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کرلے مگر اس لئے کہ اس کی طلاق باقی تھی اور تیرے لئے اپنی بیوی کی طرف رجوع کا حق نہیں ۔''25

کسی حدیث میں ثلاثا یعنی تین کالفظ آجائے تو علماے حنفیہ جھٹ اسے دفعتہً اکٹھی تین طلاقوں پر محمول کرکے میاں ، بیوی میں جدائی ڈالنے کا فتویٰ دے دیتے ہیں ۔ اور پھر پریشان حال طلاق دہندہ کو حلالہ کے نام پر بدکاری اور بے غیرتی کا راستہ دکھاتے ہیں ، حالانکہ احناف کے حلالہ اور روافض کے متعہ میں صرف نام کا فرق ہے، درحقیقت دونوں ہی اسلام کی پیشانی پر بدنما دھبہ ہیں ، بلکہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف إغاثة اللھفان میں بارہ وجوہات سے ثابت کیا ہے کہ حلالہ رافضیوں کے متعہ سے بھی زیادہ قبیح اور بُرا ہے۔

اگر احادیث میں وارد ثلاثا(تین) کے لفظ کو طلاقِ حسن یعنی متفرق طور پر طلاق دینے پر محمول کیا جائے اور اسے طلاقِ حسن بنایا جائے تو حلالہ جیسی لعنت سے بچا جا سکتا ہے۔ بنا بریں حدیث ِمذکور میں بھی بتہ کے لفظ سے متفرق طور پر تین طلاقیں دینا مراد ہے کیونکہ اس طرح تیسری طلاق اَزدواجی تعلق کو قطع کردیتی ہے۔ حدیث ِمذکور میں سائل کی اپنی بیوی کو دی ہوئی طلاق کو عبداللہ بن عمرؓ کی طلاق کے ساتھ تشبیہ دینے سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس نے تین طلاقیں متفرق طور پر دی تھیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے بھی باقی دو طلاقیں باقی دو حیض میں دینے کا ارادہ کیاتھا، جیسا کہ حدیث نمبر6 کے تحت ذکر ہوچکا ہے اور حدیث میں آنے والے لفظ معصیت اور نافرمانی کا تعلق حیض کی حالت میں طلاق دینے سے ہے، اس حدیث سے تین طلاقیں واقع کرنے والوں کا موقف ثابت نہیں ہوتا۔ اُنہیں چاہئے کہ اس موقف پر کوئی صحیح اور صریح دلیل پیش کریں ۔

(9) ان حضرات کی نویں دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے جب اسی قسم کے مسئلہ کے بارہ میں سوال کیا جاتا تو وہ فرماتے تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یقینا وہ تم پر حرام ہوگئی ہے جب تک کہ وہ تیرے بغیر کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور اس طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی کی ہے۔'' 26

اَحناف کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک لفظ سے ہوں جیسے ''تجھ کو تین طلاق ہے۔'' یا متعدد الفاظ سے ہوں ، جیسے ''تجھ کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے۔''یہ دونوں صورتیں تین طلاق کے حکم میں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا مذکورہ فیصلہ ان کے دعویٰ کی حمایت نہیں کرتا، بلکہ ان کا یہ جملہ کہ ''تم نے ایک بار یا دو بار طلاق دی ہوتی'' اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ اکٹھی تین طلاقوں کے بارے میں نہیں بلکہ متفرق طور پر طلاقیں دینے کے بارے میں ہے۔ یہ قرینہ بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: ''فإن النبي! أمرني بھذا'' کہ'' رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم دیاتھا۔'' ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفعتہً اکٹھی تین طلاقیں دینے کا حکم نہیں دیا تھاجو کہ بدعت ہے بلکہ متفرق طور پر طلاق دینے کا حکم دیاتھا۔ (جو کہ جائز بلکہ حسن طلاق ہے)27

(10) ان کی ایک دلیل حضرت زید بن وہب کی یہ روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک مسخرہ مزاج آدمی تھا، اس نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں ۔ جب ان کا یہ معاملہ حضرت عمرؓ کے ہاں پیش کیا گیا اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے تو محض دل لگی اور خوش طبعی کے طور پر یہ طلاقیں دی ہیں ، یعنی میرا قصد و اِرادہ نہ تھا تو حضرت عمرؓ نے دُرّہ سے اس کی مرمت کی اور فرمایا کہ ''تجھے تو تین طلاقیں ہی کافی تھیں ۔'' 28

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ بھی ایک کلمہ یا ایک ہی مجلس میں دی گئی طلاقوں کا اعتبار کرتے تھے۔ 29

سوچنے کا مقام ہے کہ مدینہ طیبہ کے مسخرہ مزاج آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق مسلسل دے کر اسلام کا تمسخر اُڑایا جو درست نہ تھا۔ لیکن تین طلاقوں کو تین بنانے والے حضرات دفعتہً تین طلاقوں کو تین ہی بنا کر کیوں اسلام کا مذاق اُڑا رہے ہیں ۔ اگر مدینہ طیبہ کے مسخرہ مزاج آدمی کافعل اسلام کا مذاق اُڑانے کے مترادف تھا تو آج بھی دفعتہً دی ہوئی تین طلاقوں کو تین قرار دینا طلاق کے مشروع طریقے کا مذاق اُڑانے سے کم نہیں ہے، اور اس کے بعد حلالہ نکالنے کا حکم دینے سے تو اس مذاق کی شدت اور بڑھ جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کے اس فرمان میں کہ ''تجھے تین ہی کافی تھیں ۔'' تین طلاقیں متفرق طور پر دینے کا احتمال بھی موجود ہے اور اگر حضرت عمرؓ نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین قرار دیا بھی ہے جیسا کہ مضمون نگار کی رائے ہے، تو یہ آپ کا ذاتی فیصلہ تھا جو اُنہوں نے اپنی خلافت کے دو تین سال بعد غیر محتاط لوگوں کی سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔آخر زندگی میں آپؓ نے ندامت کے ساتھ اس سے رجوع کرلیا تھا۔

(11) ان کی ایک دلیل حضرت انسؓ بن مالک کی یہ روایت ہے کہ'' حضرت عمرؓ نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دیں ، فرمایا کہ تین ہی طلاقیں متصور ہوں گی اور وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں تاوقتیکہ وہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے اور حضرت عمرؓ کے پاس جب ایساشخص لایاجاتا تو آپؐ اس کو سزا دیا کرتے تھے۔ ''30

اس حدیث سے علماے احناف کا تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنا کئی طرح سے درست نہیں ہے۔ ایک تو اس لئے کہ غیرمدخول بہا عورت کو تین طلاقیں دے دی جائیں تو احناف کے نزدیک بھی وہ پہلی طلاق سے جدا ہو جائے گی، دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہدایہ میں ہے:
''فإن فرق الطلاق بانت بالأولی ولم تقع الثانیة والثالثة '' 31

اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ِانسؓ سے غیر مدخول بہا کے لئے تین طلاقوں سے تین ہی واقع ہونے پر استدلال کرنا فقہ حنفی کے ہی خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ حدیث ِانسؓ میں تین طلاق کے دفعتہً دینے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ اس میں متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کا احتمال بھی موجود ہے۔ رہا حضرت عمرؓ کا ایسے شخص کوسزا دینا تو یہ سزا غیر مدخولہ کو تین طلاقیں دینے پر دی جاتی تھی کیونکہ غیر مدخولہ جب ایک طلاق سے جدا ہوجاتی ہے تو اسے تین طلاقیں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین شمار کیا بھی ہے تو یہ ان کی خلافت کے دو، تین سال گزرنے کے بعد ان کے طلاقِ ثلاثہ کے وقوع سے متعلق مشہور فیصلے کی وجہ سے تھا جس کے ذریعے وہ اکٹھی تین طلاقیں دینے والوں کو اس کارِ معصیت سے روکنا چاہتے تھے۔

(12) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کو ہم بستری سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو وہ عورت اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔'' 32

اس حدیث سے استدلال بھی حنفی مذہب کے خلاف ہے جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے، اور یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ تین طلاقوں سے متفرق طور پر طلاق دینا مراد ہو۔

(13) ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ''ایک روایت میں یوں آیاہے کہ ایک شخص حضرت علیؓ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دی ہیں ، اُنہوں نے فرمایاکہ تین طلاقیں تو اس کو تجھ پر حرام کردیتی ہیں اور باقی ماندہ طلاقیں اپنی دوسری بیویوں پرتقسیم کردے۔ 33

معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ بھی ایک کلمہ اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیتے ہیں ۔ ''34

اس اثر کی سند میں حبیب بن ابی ثابت اور حضرت علیؓ کے درمیان ''بعض أصحابہ'' یعنی اس کے بعض ساتھیوں کا واسطہ ہے۔ جس کاپتہ ہی نہیں کہ یہ کون شخص ہے اور کیسا ہے؟ لہٰذا اس مجہول راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔35

اور ایسے ضعیف آثار سے استدلال کرنا اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔

(14) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اب اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے۔ اور اب اس کی کوئی صورت نہیں بن سکتی۔ وہ شخص بولاکہ کیا حلالہ کی صورت مںح بھی جواز کی شکل نہیں پیدا ہوسکتی؟ اس پرابن عباسؓ نے فرمایا: جوشخص اللہ تعالیٰ سے دھوکہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کواس کا بدلہ دے گا۔ '' 36

صحیح مسلم کی وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ عہد ِرسالتؐ، خلافت ِصدیقیؓ، اور دوسال خلافت ِفاروقی ؓتک ایک مجلس کی تین طلاق ایک شمار ہوتی رہی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے ایسے موقع پر عجلت سے کام لیا ہے جس میں ان کے لئے تاخیر چاہئے تھی۔ کاش! ہم اس امر کو ان پر جاری کردیں ۔لہٰذا اُنہوں نے اس امر (تین طلاق...) کو جاری کردیا۔

یہ حدیث حضرت ابن عباسؓ کی روایت کردہ ہے۔ اس کی روشنی میں تین طلاق کو تین قرار دینا ان کی طرف سے بطورِ تعزیر تھا جیسے حضرت عمرؓ نے کیا تھا جوطلاق دہندہ کی سزا کے طور پر اُنہوں نے صادر کیا تھا۔ لیکن یہ فیصلہ عارضی اور وقتی تھا جس سے خود حضرت عمرؓ نے رجوع کرلیاتھا۔ لہٰذا اسے طلاقِ ثلاثہ کے لئے اُصول نہیں بنایا جاسکتا۔نیز اس حدیث میں 'حلالہ' کے متعلق خداع کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقوں کو محرّم بنانے کے بعد طلاق دہندہ کوحلالہ کے نام سے بدکاری کا راستہ دکھانا، حلالہ کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے جس کا اللہ تعالیٰ عذاب اور سزا کی صورت میں بدلہ دے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {يُخَـٰدِعُونَ ٱللَّـهَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾...سورۃ البقرۃ}

(15) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ''ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیارکیا، ہم نے خیال کیا کہ شاید وہ اس عورت کو اسے واپس دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو: ''اے ابن عباسؓ! اے ابن عباسؓ بات یہ ہے کہ جوشخص خدا تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اس کے لئے کوئی راہ نہیں نکل سکتی۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں ۔ تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علیحدہ ہوچکی ہے۔''37

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا ایک فتویٰ تو وہ ہے جو سنن ابوداؤد میں منقول ہے اور جو تین طلاق کے ایک ہونے کا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں :''إذا قال أنت طالق ثلاثا بفم واحد فھي واحدة'' 38

اور یہی فتویٰ حضرت طاؤس کے واسطے سے بھی عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے اور یہ اس حدیث کے مطابق بھی ہے جو صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور دوسرا فتویٰ ان کا تین طلاقوں کے تین ہونے کا ہے جسے اُنہوں نے حضرت عمرؓ کی طرف سے بطورِ تعزیر کے اختیار کیا تھا یہاں یہی مراد ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے الفاظ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ یہ فتویٰ اُنہوں نے طلاق دہندہ کی سزا کے طور پر نافذ کیا تھا جو عارضی اوروقتی تھا اور اسے اُصول نہیں بنایا جاسکتا۔

(16) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت معاویہ بن ابی عیاش انصاری فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر اور عاصم بن عمرو کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں حضرت محمد بن ایاس بن بکیر تشریف لائے اورپوچھنے لگے کہ ایک دیہاتی گنوار آدمی نے اپنی غیر مدخول بہا عورت کو دخول سے قبل تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ کہا: جا کر ابن عباسؓ اور ابوہریرہؓ سے پوچھو۔ جب سائل ان کے پاس حاضر ہوا اور دریافت کیا تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: اے ابوہریرہ! فتویٰ دیجئے لیکن سوچ سمجھ کربتانا کہ مسئلہ پیچیدہ ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس سے علیحدگی کے لئے کافی تھی۔ اور تین طلاقوں سے وہ اس پر حرام ہوگئی ہے۔ الا یہ کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے اور حضرت ابن عباسؓ نے بھی یہی فتویٰ دیا۔ 39

یہ حدیث بھی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کے لئے کئی طرح سے مفید نہیں :

ایک تو اس لئے کہ اس حدیث میں غیر مدخول بہا کوتین طلاق دینے کاذکر ہے اور غیرمدخول بہا کو تین طلاقیں دی جائیں تو احناف کے نزدیک وہ ایک طلاق سے جدا ہوجاتی ہے۔ باقی دو طلاقیں واقع ہی نہیں ہوتیں تو علماے حنفیہ اس حدیث سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال کیسے کرسکتے ہیں جبکہ یہ ان کے مذہب کے ہی خلاف ہے۔

دوسرا اس لئے کہ اس حدیث میں صراحت نہیں ہے کہ یہ تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی گئی تھیں ۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے تین طلاقیں مختلف مجالس میں دی ہوں : إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال !

تیسرا یہ کہ ایسے موقعے پر ایک اُصولی بات کو عام طور پر نظر انداز کردیا جاتاہے وہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت مرفوع حدیث اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت شدہ آثار میں تضاد اور اختلاف پایا جائے تو اس وقت نبی علیہ السلام سے ثابت مرفوع حدیث مقدم ہوتی ہے۔ اور آثار صحابہؓ کو چھوڑ دیا جاتا ہے، کیونکہ مرفوع حدیث کی نسبت اس مقدس ہستی کی طرف ہوتی ہے جو معصوم ہے جس پر ہر وقت وحی الٰہی کا پہرہ موجود رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شخص بھی خطا و نسیان سے پاک نہیں ہے۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور کے شروع میں جب کوئی آدمی اکٹھی تین طلاق دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک بنایا جاتا تھا تو اس مرفوع حدیث پر عمل ہونا چاہئے۔ اس کے مقابلے میں موقوف کو نظر انداز کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم کی رو سے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع اور پیروی کا حکم ہے۔

(17) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ''ایک شخص نے حضرت ابن مسعودؓ سے سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو دو سو طلاق دے دی ہیں ، اب کیا حکم ہے؟ اُنہوں نے فرمایا تجھے کیا فتویٰ دیا گیا ہے؟ اُس نے کہا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ عورت اب مجھ سے بالکل الگ اور جدا ہوگئی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ لوگوں نے سچ کہا ہے۔''40

ایسی روایات جن میں بیوی کو دو سو یا ہزار طلاقیں دے ڈالنے کا ذکر آتا ہے اُنہیں پڑھنے والا حیران ہوتا ہے کہ آج کے گئے گزرے دور میں بھی کوئی شخص اتنی کثرت سے طلاقیں نہیں دیتا کہ وہ دو سو یا ہزار تک پہنچا کر ہی دم لے، لیکن اُس دور میں اتنی کثرت سے طلاقیں کیوں دی جاتی تھیں ؟ درحقیقت وہ لوگ زمانۂ جاہلیت سے ہی کثرت سے طلاقیں دینے کے عادی تھے، ان میں سے کوئی شخص اگر بیوی کو تنگ کرنا چاہتا تو وہ اسے طلاق دے دیتا، اور جب اس کی مطلقہ کی عدت ختم ہونے کے قریب آتی تو پھر اس سے رجوع کرلیتا، اس کے بعد پھر طلاق دے دیتا، اور اس طرح بار بار طلاق دینے اور اس کے بعد رجوع کرلینے سے ان کی تعداد سو تک یا ہزار طلاقوں تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ جیسا کہ حضرت عروہ سے مروی ہے :
''کان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعھا قبل أن تنقضي عدتھا کان ذلك له وإن طلقھا ألف مرة فعمد رجل إلی امرأته فطلقھا حتی إذا ما دنا وقت انقضاء عدتھا ارتجعھا ثم طلقھا ثم قال: واﷲ لا آویك إلي ولا، تحلین أبدا'' أخرجه مالك والشافعي والترمذي والبیهقي في سننه 41
''جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور اس کی عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تو رجوع کرلیتا اور یہ اس کے لئے جائز سمجھا جاتا تھا، اگرچہ نوبت ہزار طلاقوں تک پہنچ جائے۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، جب اس کی عدت ختم ہونے کے قریب آئی تو اس نے رجوع کرلیا۔ اس کے بعد پھر طلاق دے دی اور مطلقہ عورت سے کہا: اللہ کی قسم! نہ تو میں تجھے بساؤں گا اور نہ ہی تجھے چھوڑوں گا کہ توآگے کسی سے نکاح کرسکے۔''

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ سو یا ہزار طلاقیں کیسے دیتے تھے اور تین طلاقوں کو تین ہی قرار دینے والے حضرات جو ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن میں کسی شخص کے اپنی بیوی کو سو یا ہزار طلاقیں دینے کاذکر آتا ہے تو اس سے دفعتہً اکٹھی طلاقیں دینا مراد نہیں ، جیسا کہ عام طور پرسمجھا جاتا ہے۔ بلکہ حضرت عروہ کی حدیث ِمذکور کے مطابق ہر مہینے بعد وقفے سے طلاقیں دینا مراد ہے اور ایسا وہ عورتوں کو ستانے کے لئے کرتے تھے۔ اسلام نے بے شمار طلاقیں دینے کا خاتمہ کردیا، اور تیسری طلاق کو مرد و عورت میں جدائی ڈالنے والی طلاق بنا دیا جس کے بعد رجوع کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ اس بنا پر حضرت ابن مسعودؓ کی حدیث سے یہی طریقہ طلاق مراد ہے جو حدیث ِعروہ میں ذکر ہوا ہے کہ متفرق طور پر دی ہوئی طلاقوں سے تیسری طلاق سے عورت اس سے جدا ہوجائے گی اور باقی طلاقیں لغو قرار پائیں گی۔

(18) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''حضرت عمران بن حصینؓ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اب وہ کیا کرے؟ حضرت عمران ؓ نے فرمایا کہ اس نے ربّ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی ہے۔'' 42

پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عمران بن حصینؓ بصرہ میں حضرت عمر ؓ کی طرف سے لوگوں کو شریعت کی تعلیم دینے کے لیے مامور تھے۔43

اور اُنہوں نے یہ فتویٰ حضرت عمر ؓ کی طرف سے بطورِ تعزیر اختیار کیا تھا۔دوسرا یہاں بھی ہمیں شریعت کے اس اُصول کو پیش نگاہ رکھنا چاہیے کہ ایسی صورت میں جب کہ کسی مسئلہ میں نزاع اور اختلاف ظاہر ہوجائے تو قرآنِ کریم نے ہمیں اسے حل کرنے کے لئے ایک اُصول دیا ہے، تاکہ اس پر عمل کرکے اس نزاع کو حل کرلیا جائے، ارشادِباری تعالیٰ ہے: {إِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّـهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّـهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ...﴿٥٩﴾...سورۃ النساء} ''یعنی جب تمہارا کسی چیز میں نزاع اور اختلاف ہوجائے، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخر ت کے دن پرایمان رکھتے ہو تو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ۔''اوریہاں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے سے مراد قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا ہے، اور حدیث ِنبویؐ میں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک طلاق شمار کیاجاتاتھا، جیساکہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے جبکہ حضرت عمران بن حصینؓ کا فتویٰ حدیث ِمرفوع کے خلاف ہے۔ تو ایسے موقع پر ایک سچے مسلمان کا ضمیر اس بات کو گوارا نہیں کرتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو چھوڑ کر اُمتیوں کی آرا کے پیچھے چلے کیونکہ کوئی بھی اُمتی معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس لئے آثارِ صحابہؓ کے مقابلہ میں مرفوع حدیث پر عمل کرنا ہی قرآنی اُصول کے مطابق ہے جو اوپر بیان کردیا گیا ہے۔

(19) ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دینے والوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال کیا کہ ایک شخص نے ہم بستری سے قبل اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ، وہ کیاکرے؟ اس پر حضرت عطا بن یسار نے فرمایا کہ کنواری کی طلاق تو ایک ہی ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ''تم قصہ گو ہو۔ ایک طلاق ایسی عورت کو جدا کردیتی ہے اور تین اس کو حرام کردیتی ہیں ۔'' 44

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کا یہ فتویٰ حنفیہ کے خلاف ہے کیونکہ ان کا قول تو یہ ہے کہ باکرہ عورت کو خلوت سے پہلے ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دی جائیں تو ایک طلاق واقع ہوگی جس سے وہ عورت بائنہ ہوجائے گی۔ باقی دو طلاقیں لغو اور بے کار ہوجائیں گی، لہٰذا اَحناف کا اس اثر سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کا یہ فتویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حدیث ِمرفوع پر عمل کرنا چاہئے۔

(20) ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ ''ایک شخص نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، پھر اس کا خیال ہوا کہ وہ اس سے نکاح کرلے، اس نے حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے فتویٰ طلب کیا۔ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ تم اس سے نکاح نہیں کرسکتے، تاوقتیکہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے، اس نے کہا کہ اس کے لئے میری طرف سے ایک ہی طلاق ہے تو اُنہوں نے فرمایا کہ تم نے اپنا اختیار کھو دیا ہے جو تمہارے ہاتھ میں تھا۔'' 45

اس کا جواب بھی وہی ہے جو اس سے قبل ذکر ہوچکا ہے کہ احناف کا اس اثر سے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک غیر مدخول بہا کو دی گئی تین طلاقوں میں سے ایک طلاق واقع ہوتی ہے، باقی دو لغو اور بے کار جاتی ہیں ۔ ویسے بھی یہ اثر مرفوع حدیث کے خلاف ہے،لہٰذا قابل عمل نہیں ہے۔ قابل عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی ہے۔

(21) ان حضرات کی ایک دلیل یہ ہے کہ '' حضرت عطا فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ اب کیا صورت ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ تو نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی ہے اور تجھ پر تمہاری بیوی حرام ہوگئی ہے حتیٰ کہ وہ تمہارے بغیر کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ '' 46

حضرت ابن عباسؓ سے دو فتوے مروی ہیں ، ان میں سے ان کا وہی فتویٰ قبول کیا جائے گا جو انہی سے مروی حدیث کے موافق ہے کہ عہد ِرسالتؐ سے لے کر خلافت عمرؓ کے ابتدائی دوسال تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھی۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب کسی صحابی کا قول و فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت حدیث کے مخالف ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو عمل کے اعتبار سے صحابی کے قول و فعل پر مقدم کیاجاتا ہے اور صحابی کے قول و فعل کی وجہ سے حدیث ِنبوی کومجروح بناکر چھوڑ نہیں دیا جائے گا۔ مولانا عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ حنفی فرماتے ہیں :
''والحق في ھذاالمقام أن قول النبي ! وفعله أحق بالاتباع وقول غیرہ أو فعله لایساویه في الاتباع فإذا وجد من الصحابي ما یخالف الحدیث النبوي یؤخذ بخبر الرسول ﷺ '' 47
یعنی ''ایسے مقام میں حق اور سچ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اور آپ کا فعل ہی اتباع اور پیروی کے لائق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کاقول و فعل اتباع اور پیروی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے مساوی اور برابر نہیں ہوسکتا۔لہٰذا جب صحابیؓ کاقول وفعل حدیث ِنبویؐ کے خلاف آجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ہی قبول کیاجائے گا۔''

طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں بحث کا خلاصہ اوراُصولی موقف
طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک اُصولی بات پیش نظر رکھی جائے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دے دیتا تھا تو اُنہیں ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا، جیسا کہ حضرت رکانہ بن عبد ِیزیدؓ نے جب اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ایک طلاقِ رجعی قرار دیا تھا۔ یہ بات طے شدہ ہے اور جو دلائل اس کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں ، اُنہیں بنظر غائر دیکھا جائے تو ان کی دو صورتیں ہیں یا تو وہ دلائل صحیح ثابت ہوں گے اور صحت کے معیار پر پورے اُترتے ہوں گے یا پھر وہ دلائل ضعیف اور غیر ثابت ہوں گے۔ اگر وہ دلائل جو طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر پیش کئے جاتے ہیں ، پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتے بلکہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں تو اُنہیں دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ حضرت علیؓ سے مروی آثار کاحال ہے۔

لیکن اگر وہ دلائل صحیح ثابت ہیں تو دو حال سے خالی نہیں ہیں ۔ یا وہ دلیل مرفوع حدیث ہوگی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے یا پھر اس کا تعلق آثارِ صحابہؓ سے ہوگا۔ اگر وہ دلیل جو طلاقِ ثلاثہ کے وقوع کے متعلق پیش کی جاتی ہے، مرفوع حدیث ہے تو اس سے اس موقف پر استدلال کرنا ہی صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دیا جاتا تھا، تو اس کے خلاف تین طلاقوں کو تین ہی بنانے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کلام نبوت میں تضاد کا پایا جانا ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت عویمرؓ کی حدیث ِلعان سے تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کیا جاتا ہے، جبکہ اُنہوں نے لعان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ملاعنہ عورت کو از خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر تین طلاقیں دے دی تھیں ، حالانکہ لعان کے بعد ان کا یہ طلاقیں دینا بے فائدہ اور بے محل تھا۔ اس لئے کہ لعان کی صورت میں عورت، مرد سے نفس لعان سے ہی جدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ایک یا تین طلاقیں دینا غیر مؤثر اور بے فائدہ ہے، اسی لئے حضرت ہلال بن اُمیہ نے جب اپنی بیوی سے لعان کیا تھا تو اس کے بعد طلاقیں دینے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور یہاں صرف لعان کو ہی جدائی کے لئے کافی سمجھا گیاہے۔ 48

دوسرے فریق کی طرف سے جن آثارِ صحابہؓ کو طلاقِ ثلاثہ کے و قوع پر دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کی بھی دو صورتیں ہیں ۔بعض آثار تو وہ ہیں جو دونوں معنوں کااحتمال رکھتے ہیں ، ان میں جہاں اکٹھی تین طلاق دینے کا احتمال پایا جاتا ہے، وہاں متفرق طور پر وقفے وقفے سے تین طلاقیں دینے کا احتمال بھی موجود ہے تو کیوں نہ ایسے آثار کو متفرق طور پر تین طلاق دینے پر محمول کیا جائے۔ جو طلاق دینے کا حسن طریقہ بھی ہے اور اس طرح احادیث اور آثار کے درمیان تطبیق بھی ہو جائے گی اور تین طلاقیں اکٹھی دینے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوسکے گی اور دفعتہً تین طلاقیں دینے کی بدعت سے بھی بچا جاسکے گا۔

اور اگر وہ آثار متفرق طور پر تین طلاقیں دینے کا احتمال نہیں رکھتے بلکہ اکٹھی تین طلاقیں دینے پر ہی دلالت کرتے ہیں تو ان میں ذکر ہونے والی اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع کو اس تعزیر پر محمول کیا جائے گا جو حضرت عمر ؓ کی طرف سے غیر محتاط لوگوں کی سزا کے طور پر نافذ کی گئی تھی جیسا کہ یہ بات حضرت عمرفاروقؓ کے عمل سے بھی ظاہر ہے۔ لیکن اسے طلاقِ ثلاثہ کے لئے اُصول نہیں بنایا جائے گا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ طریقہ طلاق سے اس عمل کا تعارض لازم نہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ طریقۂ طلاق کو اختیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق اتباع کو بھی ادا کیا جائے۔ وما علینا إلا البلاغ
حوالہ جات
1. الھدایة: ص373
2. ماہنامہ 'الشریعہ' جولائی 2006ئ، ص28
3. بخاری :2؍791، مسلم:1؍463، السنن الکبریٰ:7؍334
4. ماہنامہ الشریعہ، جولائی 2006ئ، ص 28
5. صحیح بخاری: جلد2؍ ص899
6. إغاثة اللھفان: 1؍313
7. فتح الباری: 9؍468
8. مسلم:1؍463
9. 'الشریعہ' جولائی 2006ء : ص28
10. سنن نسائی:ج2؍ ص468
11. ماہنامہ الشریعہ: جولائی 2006ئ
12. إغاثة اللھفان : 1؍315
13. ماہنامہ 'الشریعہ': جولائی 2006ئ
14. بحوالہ 'تین طلاقیں ' از مولانا محمد قاسم خواجہ: ص116
15. السنن الکبریٰ:7؍334، سنن دارقطنی :2؍438
16. ماہنامہ الشریعہ :2006ء ، ص29
17. سنن کبریٰ بیہقی :7؍334
18. بحوالہ 'تین طلاقیں ' ص 122
19. سنن ابوداؤد، سنن دارقطنی وغیرہ
20. ماہنامہ 'الشریعہ' جولائی 2006ئ،ص 29
21. عون المعبود: ج6؍ ص208
22. تقریب التهذیب: ج1؍ ص258
23. ج6؍ ص208
24. مسند احمد:3؍91، بہ تحقیق احمد شاکر
25. السنن الکبریٰ:7؍334) (ماہنامہ الشریعہ: جولائی 2006ئ
26. بخاری ،مسلم بحوالہ ماہنامہ الشریعہ:جولائی 2006ء ، ص30
27. الطلاق الثلث في مجلس واحد از ابوالسلام مولانا محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ : ص54
28. السنن الکبریٰ:7؍334
29. ماہنامہ 'الشریعہ'، جولائی 2006ء ، ص30
30. السنن الکبریٰ:7؍334) (ماہنامہ الشریعہ، جولائی 2006ئ
31. ہدایہ،ص388
32. السنن الکبریٰ:7؍334
33. السنن الکبریٰ:7؍335
34. ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ئ، ص30
35. الطلاق الثلث في مجلس واحد ص53
36. السنن الکبریٰ :7؍337) (ماہنامہ 'الشریعہ': ص30
37. السنن الکبریٰ: ج7؍ص 331) (ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ء، ص30
38. ابوداؤد مع عون المعبود: ج6؍ ص194
39. موطأ امام مالک: ص208، الطحاوی، السنن الکبریٰ:7؍335) (ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ء
40. موطا امام مالک:199) (ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ء
41. بحوالہ تفسیر فتح القدیر للشوکاني: ج1؍ ص239
42. السنن الکبریٰ:7؍732
43. الاصابہ:4؍585
44. ماہنامہ 'الشریعہ':جولائی 2006ء،ص 32
45. ماہنامہ الشریعہ:جولائی 2006ء ، ص32
46. ماہنامہ الشریعہ :جولائی 2006ء ،ص32
47. الأجوبة الفاضلة: ص225
48. صحیح بخاری ، کتاب الطّلاق
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
أنه كان في الصدر الأول إذا أرسل الثلاث جملة لم يحكم إلا بوقوع واحدة إلی زمن عمر، ثم حكم بوقوع الثلاث سياسة لكثرته من الناس
پہلے زمانہ میں تا خلافت عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو ایک ہی قرار دی جاتی، پھر جب لوگ بکثرت ایسا کرنے لگے تو آپ رضی اللہ عنہ نے سیاستاً تین طلاقوں کے تین ہی واقع ہونے کا حکم نافظ کر دیا۔

ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 105 جلد 02 حاشية الطهطاوي على الدر المختار - أحمد بن محمد بن إسماعيل الطهطاوي (الطحطاوي)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ اصول فقہ کس نے دیئے؟
مصلحت، سدذرائع، عرف وغیرہ کے زور پر احکام سے روگردانی کی جاسکتی ہے؟
ان دونوں باتوں کا جواب قرآن و صحیح حدیث سے مرحمت فرماکر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔
آپ شکریہ ادا نہ ہی کریں!
یہ اصول فقہ، اسلامی میں قرآن و حدیث سے ہی ماخوذ ہیں!
اہل الرائے کی اٹکل کے قرآن و حدیث کو رد کرنے والے اصول کا ذکر نہیں کیا گیا ہے یہاں!
کسی حکم کے اطلاق کے کچھ موانع بھی ہوتے ہیں، اگر وہ نہ ہوتے تو یقیناً آپ کو ''قرآن و حدیث کا دشمن'' ہونے کا حکم صادر کیا جاتا، کیوں کہ ایک مانع جو آپ میں پایا جاتا ہے وہ ہے ''جہالت'' اس مانع کی وجہ سے آپ اس حکم معین سے بچ جاتے ہو!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
زیر بحث مسئلہ ، مشہور اختلافی مسائل میں سے ہے ، لہذا مواد کی دستیابی کی پریشانی نہیں ، اگر بحث کرنی ہے تو علمی انداز میں کی جائے ، تاکہ کسی دوسرے کو بھی فائدہ ہو ۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
صحیح مسلم کی اس روایت سے تین طلاق کے تین ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے اس پر روشنی ڈال دیں

Sahih Muslim Hadees # 3555:
"و حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْجِعَهَا ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّی تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَی ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّی تَطْهُرَ ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا فَتِلْکَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَائُ قَالَ فَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَنْ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ يَقُولُ أَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوْ اثْنَتَيْنِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَرْجِعَهَا ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّی تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَی ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّی تَطْهُرَ ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا وَأَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ عَصَيْتَ رَبَّکَ فِيمَا أَمَرَکَ بِهِ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِکَ وَبَانَتْ مِنْکَ"
زہیر بن حرب، اسماعیل، ایوب، حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کرلے۔ پھر اسے چھوڑے رکھے۔ یہاں تک کہ اسے دوسرا حیض آئے۔ پھر بھی اسے چھونے سے پہلے طلاق دیدے۔ پس یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ عزوجل نے ان عورتوں کو حکم دیا ہے جنہیں طلاق دی گئی ہو ۔ نافع کہتے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب اس آدمی کے بارے میں پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی ہوتی تو وہ فرماتے تو نے ایک طلاق دی یا دو؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اسے حکم دیارجوع کرنے کا پھر اسے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ اسے دوسرا حیض آئے۔ پھر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ پاک ہوجائے۔ پھر اسے چھونے سے پہلے طلاق دے اور اگر تو نے اسے تین طلاقیں دے دیں تو تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اس حکم میں جو اس نے تجھے تیری بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں دیا اور وہ تجھ سے بائنہ (جدا) ہوجائے گی۔

جزاک اللہ خیراً
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
صحیح مسلم کی اس حدیث کی ﷺضاحت فرما دیں؛
صحيح مسلم - (ج 7 / ص 450)
2712 - و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ أَخْبَرَتْهُ
أَنَّ أَبَا حَفْصِ بْنَ الْمُغِيرَةِ الْمَخْزُومِيَّ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ لَهَا أَهْلُهُ لَيْسَ لَكِ عَلَيْنَا نَفَقَةٌ فَانْطَلَقَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فِي نَفَرٍ فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ فَقَالُوا إِنَّ أَبَا حَفْصٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَهَلْ لَهَا مِنْ نَفَقَةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَتْ لَهَا نَفَقَةٌ وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ وَأَرْسَلَ إِلَيْهَا أَنْ لَا تَسْبِقِينِي بِنَفْسِكِ وَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهَا أَنَّ أُمَّ شَرِيكٍ يَأْتِيهَا الْمُهَاجِرُونَ الْأَوَّلُونَ فَانْطَلِقِي إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى فَإِنَّكِ إِذَا وَضَعْتِ خِمَارَكِ لَمْ يَرَكِ فَانْطَلَقَتْ إِلَيْهِ فَلَمَّا مَضَتْ عِدَّتُهَا أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ
 
Top