• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاق کے بعد یہ نکاح رہا یا نہیں؟

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے مورخہ یکم اکتوبر کا لکھا ہوا طلاق نامہ جس میں تین طلاقیں تحریر تھیں۔ بکر کی معرفت اپنی منکوحہ بیوی کو بھیجا۔ اور بکر ساتھ یہ ہدایت لکھی یہ کہ طلاق نامہ جاکر میری بیوی کو دے دے مگر بکر نے کسی وجہ سے وہ طلاق نامہ اس کی بیوی کو نہیں دیا۔ بلکہ چند یوم کے بعد بکر نے اپنے ایک نزدیکی رشتہ دار سے زکر کیا اور اسی دوران لڑکی کوبھی اس کے طلاق نامے کا علم ہوگیا۔ طلاق نامہ کی تاریخ سے تقریبا ایک ماہ بعد زید کاایک خط بکر کو موصول ہوا۔ جس میں تحریر تھا۔ کہ ''اگر تم نے طلاق نامہ میری بیوی کو نہ دیا ہو تو وہ ابھی مت دینا میں کچھ روپیہ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں۔ وہ آپ میری بیوی کو دے دیں۔ میں نے اس وقت اشتعال میں وہ طلاق نامہ لکھ دیا تھا۔ جس سے میں خود نادم ہوں۔ اس دوران رشتہ داروں کی یہ کوشش رہی ہے کہ زید اپنی بیوی کو اپنے پاس بلالے مگر تیرہ سو میل کا فاصلہ تھا اس خیال سے کہ سفر خرچ بہت ہوگا زید بلاتا نہیں تھا۔ آخر خود رشتہ داروں نے بیوی کو زید کے پاس بھجوادیا۔ اب میاں بیوی راضی خوشی ہیں یہ نکاح رہا یا نہیں رہا۔ ؟
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64

طلاق پر حدیث مسلم کا حقیقی مفہوم

عن ابن عباس، قال: " كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم "۔ مسلم

اس حدیث میں تین باتیں سمجھنی اہم ہیں۔
۱۔ “کان الطلاق علی عہد ۔۔۔ طلاق الثلاث واحدہ”
دور عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے تین طلاق ایک ہوتی تھی (ایک سمجھی جاتی تھی، یا ایک شمار کی جاتی تھی)
کس کے نزدیک ایک ہوتی تھی؟ طلاق دینے والے کے نزدیک یا قانون شریعت میں؟ حدیث میں اس کی صراحت نہیں۔

اہلحدیث بھائی یہاں قانون شریعت مراد لیتے ہیں جبکہ امام نووی رحمة اللہ علیہ جو مشہور شارح مسلم ہیں وہ یہاں طلاق دینے والے کو مراد لیتے ہیں۔ کہ طلاق دینے والا تین دے کر ایک مراد لیتا تھا۔
جب کلام ذومعنی ہو یا اس میں ابہام ہو یعنی ایک سے زیادہ معنی کا احتمال ہو تو شارحین حدیث کو دیکھا جانا زیادہ معقول ہے بہ نسبت اپنی عقل لڑانے کے

۲۔ ان الناس قداستعجلوہ
یہ تعجیل یعنی جلدی کیا تھی؟
جب بقول آپکے قانون میں لکھا ہے کہ آپ یک مشت تین طلاق دو یا سو ایک ہی مانی جائیگی اور اس میں طلاق دینے والے کا کوئی اختیار نہیں تو لوگوں نے کیا جلدی کی اور اس جلدی سے کیا فرق پڑا؟ زیادہ سے زیادہ ایک مہمل کام ہوا جس سے نا کوئی فائدہ ہوا نا نقصان۔
امام نووی کہتے ہیں کہ اصل میں قانون میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی بلکہ لوگوں کی نیت کا اعتبار تھا۔ جب تین ایک کی نیت سے دیتے تو ایک مانی گئی اور جب لوگوں نے جلدی کر کے تین کو تین کی نیت سے دینا شروع کردیا تو قانون شریعت کے تحت بکراہت ان کی تین کو تین ہی مانا گیا۔ امام نووی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ “اس حدیث میں لوگوں کی عادت بدلنے کی خبر ہے نا کہ مسئلہ بدلنے کی”
۳۔ “فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم”
عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر تین ہی نافذ کر دیں- کیوں؟
اہلحدیث بھائی کہتے ہیں کہ اس کا مقصد تعزیر یعنی انہیں سزا دینا تھا۔ لیکن یہ معنی غیر منطقی اور خلاف عقل و خلاف شرح شارحین حدیث ہیں۔
اگر آپ کی شرح مان لی جائے تو اس کی مثال یوں بنے گی۔
“کوئی حکومت ایک قانون بناتی ہے کہ تیسرے یعنی سرخ اشارے کو کراس نہیں کرنا۔ پہلے اکا دکا لوگ کراس کرتے تو اسے پہلا اشارہ ہی سمجھا جاتا کوئی گرفت نا کی جاتی۔ لیکن جب لوگوں نے کثرت سے ایسا کرنا شروع کردیا تو حکومت نے تیسرے اشارہ کراس کرنے کو ہی قانون بنا دیا تاکہ جب لوگوں کا خوب جانی و مالی نقصان ہو تو وہ تجربے سے سیکھیں اور ایسا کرنے سے باز آجائیں”
کوئی بھی ذی شعور معاشرہ ایسا قانون نہیں بنا سکتا۔ اگر تیسرے یعنی سرخ اشارے کو کاٹنا منع تھا اور لوگوں نے کثرت سے کاتنا شروع کر دیا تو ایسے لوگوں کو سخت سزا دی جائیگی ناکہ تیسرے اشارہ کاٹنے کو ہی قانونی شکل دے دی جائے۔
اصل بات یہ ہے کہ ایسا کوئی قانون تھا ہی نہیں۔ بلکہ قانون میں یہ تھا کہ تین طہر میں طلاق دینی ہے لیکن اگر ایسا نہیں کرو گے اور احمق، عاجز یعنی بیوقوف و ناقص العلم ہو جاو گے تو تین اکٹھی بھی قبول کر لی جائیںگی۔اور خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے بنو گے۔ اسی مطلب کو امام نووی رحمة اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے۔
اس حدیث کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک اور مثال عرض ہے۔
دو آدمیوں نے دو علیحدہ جگہ یا مواقع پر سانپ دیکھے۔ ایک آدمی نے ایک سانپ دیکھا مگر خوف کی کیفیت کی بنا پر اس نے زور سے پکارا “سانپ، سانپ، سانپ” تو کیا یہ تین سانپ ہیں یا ایک سانپ؟
دوسرے شخص نے تین سانپ دیکھے اور اس نے کہا تین سانپ۔ یا جیسے جیسے اسے سانپ دکھتے گئے اس نے سانپ سانپ سانپ کے الفاظ بولے تو اب ان کو کتنے سانپ سمجھا جائیگا؟
ظاہر ہے کہ پہلے والے شخص کے معاملے میں ایک ہی سمجھا جائیگا اگرچہ اس نے تین دفعہ سانپ کا لفظ بولا۔
اور دوسرے کیس میں تین ہی سمجھے جائینگے کیونکہ اس نے تین کا لفظ بولا یا تین دفعہ سانپ کا لفظ بولنے میں تین سانپ ہی مراد لئے۔
یہی حقیقت امام نووی رحمة اللہ علیہ سمجھانا چاہ رہے ہیں۔ کہ دور عمر سے پہلے اگرچہ بعض لوگ طلاق طلاق طلاق کہتے تھے لیکن وہ اس سے تاکید مراد لیتے تھے ناکہ استیناف یعنی قطعیت۔ اور دور عمر رضی اللہ عنہ میں جب کہتے کہ تین طلاق یا طلاق طلاق طلاق قطعیت کی نیت سے تو ان پر ویسے ہی نافذ کیا گیا جیسا ان کی نیت تھی۔
امام نووی رحمة اللہ علیہ کے موقف کی تائید اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے۔
‏‏‏”۔۔ وَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً ؟ فَقَالَ رُكَانَةُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏”
ترجمہ:
(۲۲۰۶) رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ ( قطعی طلاق ) دے دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی؟ رکانہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی، پھر انہوں نے اسے دوسری طلاق عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں۔ابوداود۔

متن و ترجمہ شرح امام نووی رحمة اللہ علیہ
فالأصح أن معناه أنه كان في أول الأمر اذا قال لها أنت طالق أنت طالق أنت طالق ولم ينو تأكيدا ولا استئنافا يحكم بوقوع طلقة لقلة ارادتهم الاستئناف بذلك فحمل على الغالب الذي هو ارادة التأكيد فلما كان في زمن عمر رضي الله عنه وكثر استعمال الناس بهذه الصيغة وغلب منهم ارادة الاستئناف بها حملت عند الاطلاق على الثلاث عملا بالغالب السابق إلى الفهم منها في ذلك العصر.
( شرح مسلم للنووی: ج۱ص۴۷۸)
کہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہہ کر طلاق دیتا تو دوسری اور تیسری طلاق سے اس کی نیت تاکید کی ہوتی نہ کہ استیناف (قطعیت) کی، تو چونکہ لوگ استیناف کا ارادہ کم کرتے تھے اس لیے غالب عادت کا اعتبار کرتے ہوئے محض تاکید مراد لی جاتی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کے دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو اس دور کے عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم لگایا جاتا تھا۔

مزید فرماتے ہیں۔
المراد أن المعتاد في الزمن الأُوَل كان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر يوقعون الثلاث دفعة فنفذه عمر فعلى هذا يكون اخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغير حكم في مسألة واحدة قال المازري وقد زعم من لا خبرة له بالحقائق أن ذلك كان ثم نسخ قال وهذا غلط فاحش لأن عمر رضي الله عنه لا ينسخ ولو نسخ وحاشاه لبادرت الصحابة إلى انكاره
( شرح مسلم للنووی: ج۱ص۴۷۸)
ترجمہ: مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا (تین بول کر بھی ایک ہی کی نیت ہوتی تھی) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں (تین ہی کی نیت سے) بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (ویسے ہی) انہیں نافذ فرما دیا۔ اس طرح یہ حدیث لوگوں کی عادت کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ کے حکم کے بدلنے کی اطلاع ہے۔
امام مازری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حقائق سے بے خبر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ”تین طلاقیں پہلے ایک تھیں، پھر منسوخ ہو گئیں“یہ کہنا بڑی فحش غلطی ہے، اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے فیصلہ کو منسوخ نہیں کیا، -حاشا-اگر آپ منسوخ کرتے تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس کے انکار کے در پے ضرور ہو جاتے
وما علینا الالبلاغ
- ابوحنظلہ
 
Top