عقیق۔۔۔ایک درویش پتھرسائنس اور عقائد کی روشنی میں
عقیق ایک نظر نواز اور مشہور جواہر ہے۔
اسے فارسی اور عربی میں عقیق یمنی، سنسکرت میں ہلیک اور انگریزی میں(Agate) اگیٹ اورکا رنیلین (Cornelian) کہتے ہیں۔
یہ نگینہ ہر بلا سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی متعدد اقسام ہیں۔ اس کا شمار ایک طرح سے
مذہبی پتھروں میں ہوتا ہے۔ ۔ اس کو بزرگانِ دین نے زیادہ اپنایا ہے۔
صوفیاءِ کرام، درویش، جوگی اور ملنگ اس کا استعمال بہ کثرت کرتے ہیں۔ یہ انتہائی قدیم پتھر ہے اور تقریباً چار ہزار سال سے زیر استعمال ہے۔
دنیا کے ہر مذہب میں اس کو مقدس مانا جاتا ہے۔ کہتے ہیں
اس کی انگوٹھی طہارت وعبادت کی طرف طبیعت کو مائل کرتی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ تارک الدنیا لوگوں نے اس کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔
....... یہ مزاج میں نرمی اور
امور میں توکل پیدا کرتا ہے۔ ...... ۔
عقیق پر سائنس کی نظر: مغرب کے ممتاز ڈاکٹر اسمتھ نے پتھروں کو توڑنے اور ان پر بیس برس تحقیقات کرنے کے بعد ایک کتاب لکھی جس کا نامThe Precious Stons ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب کسی چٹان پر ایک ہزار برس متواتر سورج اورچاند چمکتے رہتے ہیں تو اس کے اندر ایک مادہ پیدا ہوتا جو بہ منزلہ نقطہ کے ہوتا ہے۔ یہ مادہ سورج اور چاند سے رنگ، چمک اور تاثیر لیتا ہے۔ عقیق کی تاثیر یہ ہے کہ اس کی شعاعیں قلب انسانی کے مسامات کو کھولتی ہیں۔ جب کوئی عقیق کو ایسی انگوٹھی میں پہنتا ہے جس کے نیچے کا حصہ کھلا ہوا ہو اور یہ پتھر اس کی چھوٹی انگلی سے مس ہو تو .........
نہ صرف یہ بل کہ اس کے رزق میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور فقر دور ہوتا ہے۔
عقیق کی شناخت:
آج کل بازار میں بے شمار قسم کے عقیق دست یاب ہیں جو کہ ہر رنگ اور حجم میں ہیں لیکن ان میں 95 فی صد جعلی ہوتے ہیں۔ ....... اور نقلی عقیق سائز میں بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں جب کہ اصل عقیق ایک سائز میں کبھی نہیں آتے۔ ایران، عراق، سعودی عرب جانے والے زائرین کو اکثر دکان دار یہ ہی چین کے نقلی عقیق دے کر لوٹ لیتے ہیں۔ یاد رکھیں عقیق لیتے وقت یہ دو نشانیاں ہمیشہ مدنظر رکھیں۔
عقیق کے بارے میں احادیث:
جنا ب رسول خدا ﷺ سے کسی نے شکایت کی کہ میرا مال راستے میں لٹ گیا، فرمایا کہ تو عقیق کی انگوٹھی کیوں نہیں پہنتا کہ وہ ہر بلا سے آدمی کو محفوظ رکھتی ہے اور فرمایا کہ عقیق کی انگوٹھی اندوہ اور غم سے بھی غنی کرتی ہے۔
(بہتان عظیم)
ایک اور حدیث میں حضرتﷺ سے منقول ہے کہ جو شخص عقیق کی انگوٹھی پہنے گا جب تک وہ ہاتھ میں رہے گی کوئی غم اس کو نہ ہوگا۔(بہتان عظیم)
ایک حدیث ہے کہ عقیق کی انگوٹھی پہنو کہ پتھروں میں یہ پہلا ہے، جس نے خدا کی وحدانیت اور میری نبوت کا اقرار کیا ہے۔
(بہتان عظیم)
ایک اور حدیث میں وار د ہے کہ ایک حاکم نے کسی کی گرفتاری کے لیے سپاہی بھیجے، آںحضرتﷺ نے اس کے عزیز و اقارب کو بلا کر فرمادیا کہ عقیق کی انگوٹھی اس کے پاس پہنچا دو، چناں چہ حکم کی تعمیل کی گئی اور وہ صاف بری ہوگیا۔(بہتان عظیم)
منقول ہے کہ سلیمان اعمش ایک روز منصور عباسی کے گھر بہ غرض خدمت حاضر تھا،انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص کو تازیانہ مار کر باہر لایا گیا۔ انہوں نے یہ واقعہ حضرت امام جعفر صادقؓ سے بیان کیا۔ آپؓ نے دریافت کیا کہ اس کے ہاتھ میں انگوٹھی کس نگینہ کی تھی۔ سلیمان اعمش نے عرض کیا یا ابن رسول ؐ اللہ عقیق نہیں تھا۔ آپؑ نے فرمایا کہ اے سلیمان اعمش اگر عقیق کی انگوٹی اس کے ہاتھ میں ہوتی تو یہ شخص ہرگزتازیانے نہ کھاتا۔
کہا جاتا ہے کہ جن کنکریوں نے رسول خداؐ کے دستِ مبارک پر آ کر آپ کی رسالت کی گواہی دی تھی، پتھر کی وہ کنکریاں عقیق بن گئیں۔ یہ معجزہ رسالت مآبﷺ کا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلے عقیق کی انگوٹھی حضرت آدم علیہ السلام کے ہاتھ میں تھی یہ عقیق سرخ رنگ کا تھا۔
(بلا تبصرہ)
عقیق کے خواص:
جو شخص عقیق پہنے اس کا غصہ جاتا رہتا ہے
اور دشمنوں کے دلوں پر اس کا رعب جم جاتا ہے۔ اس کی تمام حاجات جلد پوری ہو جاتی ہیں، اس کے سینے میں کبھی درد نہیں اٹھتا، جس شخص نے عقیق پہنا ہو زہریلے کیڑے اس کے نزدیک نہیں آتے، یہ دل کو تقویت پہنچاتا ہے، جس شخص نے عقیق پہنا ہوا ہو تو یہ پتھر شعاعیں اپنے اندر جذب کرکے اس شخص کے جسم میں منتقل کرتا ہے، اس سے جسم پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور صحت وتن درستی برقرار رہتی ہے۔
اس پتھر کا پہننا مزاج میں چڑچڑے پن کی کیفیت کو دور کرتا ہے، دل کی دھڑکن کو اعتدال پر رکھتا ہے اور اختلاج قلب کی شکایت کو رفع کرتا ہے، عقیق کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ یہ پتھر دل سے
کینے اور نفاق کو دوکرکے بھائی چارے کی فضا پیدا کرتا ہے۔ یہ پتھر ہر انسان کے لیے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ حکیم افلاطون کا کہنا ہے کہ سفید عقیق یادداشتت کو تیز کرتا ہے، سرخ عقیق کا پہننا عزت و مرتبہ میں اضافہ کرتا ہے، جب کہ زرد عقیق پہننے سے مراد جلد پوری ہوتی ہے۔
اس پتھر کا پہننا سفر میں آفات اور مصیبتوں سے بچاتا ہے اور انسان کی حفاظت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو شخص کافور، عنبر اور عقیق کو رگڑ کر ماتھے پر لگائے اور پھر حاکم کے پاس جائے تو حاکم اس پر مہربان ہوگا۔
حتیٰ کہ اس سے قبروں کی آرائش بھی کی جاتی ہے۔ خیبرپختون خوا میں رحمٰن بابا کی قبر، جو افغانستان کے سابق شاہ ظاہر شاہ نے بنوا کر بھیجی تھی، بعض لوگوں کے مطابق، عقیق ہی کی تھی۔
سید خرم عباس نقوی
تفصیل کے لیے حوالہ
انا للہ وانا الیہ راجعون
تبصرہ
عنوان "ایک پتھر درویش بھی اور معبود بھی" بطور تبصرہ ہے۔ اسی سے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ جزاک اللہ خیرا۔