• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک چھوٹا سا سوال اہل حدیث بھائیوں سے۔

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
لغوی تقلید کی تعریف مندرجہ ذیل ہے۔
المعجم الوسیط میں لکھا ہے: فلاں کی تقلید کی: بغیر حجت اور دلیل کےاس کے قول یا فعل کی اتباع کی۔
القاموس الوحید میں لکھا ہے: تقلید کرنا، بلا دلیل پیروی کرنا، آنکھ بند کرکے کسی کے پیچھے چلنا۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی اوپر تقلید کی تعریف کے اندر ایک لفظ "حجت اور دلیل" آیا ہے آپ سے اس کی تھوڑی سی وضاحت چاہئے تاکہ پھر میں آپ کی اوپر پوری پوسٹ کا جواب دینے کے قابل بن سکوں اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین

ایک مسلمان کسی امام یا عالم کے بارے یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ مجھے قرآن و حدیث کے اختلافات میں صحیح تطبیق کے بعد حق نتیجہ ہی بتائے گا پس وہ کسی مسئلہ میں بغیر دلیل کے اس امام کی بات پر عمل کرتا ہے تو کیا اس قسم کے یقین و اعتبار کو آپ "حجت یا دلیل" مانیں گے
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی اوپر تقلید کی تعریف کے اندر ایک لفظ "حجت اور دلیل" آیا ہے آپ سے اس کی تھوڑی سی وضاحت چاہئے تاکہ پھر میں آپ کی اوپر پوری پوسٹ کا جواب دینے کے قابل بن سکوں اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
قرآن، حدیث اور اجماع ہی ہمارے نزدیک حجت اور دلیل کا نام ہے۔

ایک مسلمان کسی امام یا عالم کے بارے یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ مجھے قرآن و حدیث کے اختلافات میں صحیح تطبیق کے بعد حق نتیجہ ہی بتائے گا پس وہ کسی مسئلہ میں بغیر دلیل کے اس امام کی بات پر عمل کرتا ہے تو کیا اس قسم کے یقین و اعتبار کو آپ "حجت یا دلیل" مانیں گے
نہیں۔
اس لئے کہ اس یقین کے باوجود وہ عالم غلطی کرسکتا ہے اگر عامی دلیل جانے بغیر ہی اس عالم کے بتائے ہوئے نتیجہ پر عمل کرے گا تو گمراہ ہوجائے گا۔
ہمارے اس دعویٰ کی دلیل سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ : رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو اگر وہ سیدھے راستے پر بھی ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔(کتاب الزہد، جلد1، صفحہ 299)
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آپ تسلیم کرتے ہیں کہ لغوی تقلید سے کسی کو مفر نہیں۔ آپکے اسی موقف کی بنیاد پر ہم نے یہ پوچھا تھا کہ آپ کے نزدیک تو پھر تمام صحابہ بھی مقلد ہونگے جو اگرچہ اصطلاحی تقلید نہیں کرتے تھے لیکن لغوی تقلید تو کرتے ہی تھے بلکہ جیسا آپ نے موقف اپنایا ہے اسکے مطابق تو شروع سے لے کر آج تک پوری امت لغوی مقلد ہے۔
محترم بھائی ہاں واقعی تمام صحابہ اور پوری امت حتی کہ کافر بھی کہیں نہ کہیں لغوی تقلید کرتے ہیں
اس بات کو تسلیم کرنے سے ہمارے دالئل سلجھیں گے نہ کہ الجھیں گے مگر آپ کو اسکی شاہد سمجھ نہیں آئی
میں نے بدعت والی مثال ہی اسی لئے دی تھی کہ کہ اس سے آپ کو لنک مل جائے گا دوبارہ سمجھاتا ہوں
اگر کوئی یہ کہ دے کہ جی تمام بدعت گمراہی ہوتی ہے پس اصطلاحی بدعت اور لغوی بدعت ایک ہی چیز ہے دونوں ہی ممنوع ہیں تو بتائیں ہمایں دلائل دیتے ہوئے آسانی ہو گی یا مشکل ہو گی جب وہ جہاز پر چڑھنے کی بدعات ہمارے سامنے رکھیں گے تو کیا جواب دیں گے
پس لغوی تقلید تو ہر بچہ والدین کی کرتا ہے اور اہل حدیث کی اکثریت بھی اپنے علماء کی تقلید کرتے ہے مثلا رکوع کے بعد ہاتھ نہ باندھنے کے دلائل کا کتنے فی صد اہل حدیث کو پتا ہو گا وغیرہ وغیرہ

اسی طرح اکثر اوقات لاعلم اہل حدیث صرف ایک عالم سے مسئلہ پوچھنے پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ کئی علماء سے مسئلہ کا حل دریافت کرتا ہے اور انکی رائے اور دلائل دیکھتے ہوئے خود اجتہاد کرتا ہے اور کسی ایک عالم کے موقف کو اپنا لیتا ہے۔ یہ طرز عمل بھی لغوی تقلید کی بھرپور نفی کرتا ہے۔ یعنی ایک اہل حدیث کسی عالم کی بلادلیل پیروی یا اسکے پیچھے آنکھ بند کرکے چلنے کے بجائے اسکے بیان کردہ دلائل کی پیروی کرتا ہے اس لئے اسے لغوی طور پر بھی مقلد نہیں کہا جاسکتا۔
محترم بھائی میں ہزاروں لاعلم(عامی) اہل حدیث دکھا سکتا ہوں جو سارے نہیں تو کچھ مسائل میں بغیر دلیل دیکھے عمل کر رہے ہوتے ہیں پس آپ مطلقا تقلید کا انکار نہیں کر سکتے نہیں تو الٹا آپ بدعت والی مثال کی طرح اپنے آپ کو پھنسا ہی رہے ہوتے ہیں
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
محترم بھائی ہاں واقعی تمام صحابہ اور پوری امت حتی کہ کافر بھی کہیں نہ کہیں لغوی تقلید کرتے ہیں
غیرمتفق۔
میں دین میں ہر قسم کی تقلید کو گالی سمجھتا ہوں لہٰذا میرے نزدیک کسی کو کسی بھی معنوں میں مقلد کہنا اسے گالی دینا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مجھ سمیت ہرشخص دنیاوی معاملات میں اکثر جگہوں پر تقلید کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی اہل حدیث دین میں تقلید نہیں کرتا چاہے وہ لغوی تقلید ہو یا اصطلاحی۔ اسکا ثبوت یہ بھی ہے کہ آپ قرآن کی جس آیت پر عمل کو لغوی تقلید کہہ یا سمجھ رہے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے باوجود تقلید کے معنی و مفہوم جاننے کے اس آیت کو تقلید کے متعلق نہیں سمجھا۔

اس بات کو تسلیم کرنے سے ہمارے دلائل سلجھیں گے نہ کہ الجھیں گے مگر آپ کو اسکی شاید سمجھ نہیں آئی
میرے نزدیک آپ اس طرح کا نظریہ پیش کرکے اہل حدیث کی مشکلات میں اضافہ فرمارہے ہیں کیونکہ اس سے پڑھنے والوں کو یہی سمجھ میں آئے گا کہ اہل حدیث بھی بعض جگہوں پر تقلید کرتے ہیں اور ہر کم پڑھا لکھا اور مخالف اس سے لغوی نہیں بلکہ اصطلاحی تقلید مراد لے گا۔

نوٹ: آپ ہمیشہ شاید کو شاہد لکھتے ہیں شاید آپ کے کی بورڈ میں ’’ی‘‘ نہیں ہے۔ اس کے لئے محمد ارسلان بھائی سے رابطہ کریں۔

میں نے بدعت والی مثال ہی اسی لئے دی تھی کہ کہ اس سے آپ کو لنک مل جائے گا دوبارہ سمجھاتا ہوں
اگر کوئی یہ کہ دے کہ جی تمام بدعت گمراہی ہوتی ہے پس اصطلاحی بدعت اور لغوی بدعت ایک ہی چیز ہے دونوں ہی ممنوع ہیں تو بتائیں ہمایں دلائل دیتے ہوئے آسانی ہو گی یا مشکل ہو گی جب وہ جہاز پر چڑھنے کی بدعات ہمارے سامنے رکھیں گے تو کیا جواب دیں گے
یہاں آپ نے سمجھنے میں غلطی کردی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے‘‘ ہر قسم کی بدعت کی نفی کردی ہے۔ جس چیز کو آپ یعنی جہاز پر چڑھنے وغیرہ کو بدعت کہہ رہے ہیں وہ بدعت کی تعریف میں ہی نہیں آتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین میں ہر نیا کام بدعت ہے۔
پس اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ دین میں نیا کام بدعت ہے اور دنیا میں نیا کام بدعت نہیں ہے۔ یہ کتنا آسان طریقہ ہے کسی بریلوی کو سمجھانے کا۔ اگر وہ نہ سمجھنے والا ہو تو آپ کے طریقے سے بھی نہیں سمجھے گا۔

محترم بھائی میں ہزاروں لاعلم(عامی) اہل حدیث دکھا سکتا ہوں جو سارے نہیں تو کچھ مسائل میں بغیر دلیل دیکھے عمل کر رہے ہوتے ہیں پس آپ مطلقا تقلید کا انکار نہیں کر سکتے نہیں تو الٹا آپ بدعت والی مثال کی طرح اپنے آپ کو پھنسا ہی رہے ہوتے ہیں
کچھ اہل حدیث کا عمل پیش کرنا درست نہیں ہے اگر وہ غلطی پر ہیں تو ہم اسکے ذمہ دار نہیں ہیں میں آپ سے منہج اہل حدیث کی بات کررہا ہوں کہ منہج اہل حدیث میں تقلید کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا: اور تقلید حرام ہے۔ مزید فرمایا: اور عامی و عالم اس (حرمت تقلید) میں برابر ہیں، ہر ایک اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق اجتہاد کرے گا۔(النبذۃالکافیۃ،صفحہ 71)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
نوٹ: آپ ہمیشہ شاید کو شاہد لکھتے ہیں شاید آپ کے کی بورڈ میں ''ی'' نہیں ہے۔ اس کے لئے محمد ارسلان بھائی سے رابطہ کریں۔
عبدہ
اردو کی تصحیح کے لیے یہ تھریڈ پڑھیں۔
اردو یونی کوڈ کی بورڈ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
سوال: تقلید کسے کہتے ہیں؟
جواب: قرآن و حدیث کے خلاف کسی اور کی بات تسلیم کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔
ایسی تقلید کی ممانعت پر محترم برادران خضر حیات، عبدہ، شاہد نذیر اور میں یعنی محمد ارسلان متفق ہیں۔ ہم یہ تقلید کر کے اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن نہیں بنانا چاہتے۔ اللھم اجرنا من النار
کیا یہی وہ تعریف ہے، جس پر عبدہ بھائی مجھ سے غیر متفق ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
سوال: تقلید کسے کہتے ہیں؟
جواب: قرآن و حدیث کے خلاف کسی اور کی بات تسلیم کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔
ایسی تقلید کی ممانعت پر محترم برادران خضر حیات، عبدہ، شاہد نذیر اور میں یعنی محمد ارسلان متفق ہیں۔ ہم یہ تقلید کر کے اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن نہیں بنانا چاہتے۔ اللھم اجرنا من النار
کیا یہی وہ تعریف ہے، جس پر عبدہ بھائی مجھ سے غیر متفق ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
محترم بھائی اللہ آپ کو میری اصلاح کی حرص پر اجر عظیم عطا فرمائے امین
البتہ یہ کہنا ہے کہ آپ کی تعریف چونکہ جامع مانع نہیں تھی پس اس کا جواب یا اس سے غیر اتفاق کہیں نہیں کیا
میں نے جو غیر متفق کیا ہے وہ اشماریہ بھائی کی مندرجہ ذیل پوسٹ میں آپ کی مندرجہ ذیل بات کو کیا ہے
خلاصہ یہ کہ آپ اور ارسلان بھائی کسی قسم کی تقلید کو نہیں مانتے۔
عبدہ بھائی اور خضر حیات بھائی کیا آپ ان سے متفق ہیں؟
پس محترم بھائی میں نے آپ لوگوں کی اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ اہل حدیث کسی بھی قسم کی تقلید کو نہیں مانتے
جہاں تک آپ کی بیان کردہ اوپر تعریف کا تعلق ہے یا کسی قسم کی تقلید کو نہ ماننے کا معاملہ ہے جس پر آپ نے کہا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تو اس پر بعد میں فرصت سے لکھوں گا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
كيا تقليد كا فتوى دينا جائز ہے ؟


كيا تقليد كرنے كا فتوى دينا جائز ہے ؟

الحمد للہ:

اس ميں كئى اقوال ہيں:

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

پہلا:

تقليد كرنے كا فتوى دينا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ علم كے ساتھ نہيں، اور بغير علم كے فتوى دينا حرام ہے، لوگوں كے اس ميں كوئى اختلاف نہيں پايا جاتا كہ تقليد علم نہيں، اور يہ كہ مقلد پر عالم كے نام كا اطلاق نہيں ہوتا، اكثر اصحاب اور جمہور شافعيہ كا قول يہى ہے.

دوسرا:

اس كى اپنى ذات كے ليے يہ جائز ہے، اس كے ليے كسى دوسرے علماء كى تقليد كرنا جائز ہے، جب يہ فتوى اس كے اپنے ليے ہو، جو فتوى كسى دوسرے كے ليے دے اس ميں اسے عالم كى تقليد كرنى جائز نہيں، ہمارے اصحاب ميں سے ابن بطہ وغيرہ كا قول يہى ہے.

اور قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابن بطہ نے برمكى كى جانب لكھے ہوئے مكتوبات ميں ذكر كيا ہے:

مفتى سے جو سنا ہے اس كا فتوى دينا اس كے ليے جائز نہيں، بلكہ اس كے خود اس كى تقليد كرنا جائز ہے، ليكن وہ كسى دوسرے كو تقليد كا فتوى دے تو يہ جائز نہيں.

تيسرا قول:

ضرورت اور كسى مجتھد عالم دين كى عدم موجودگى كے وقت جائز ہے، يہ صحيح ترين قول ہے، اور عمل بھى اسى پر ہے، قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابو حفص نے اپنى تعليقات ميں ذكركيا ہے كہ:

" ميں نے ابو على حسن بن عبد اللہ النجاد كو كہتے ہوئے سنا:

ميں نے ابو الحسين بن بشران سے سنا وہ كہہ رہے تھے: ميں اس شخص پر عيب جوئى نہيں كرتا جو امام احمد سے پانچ مسائل ياد كرے اور مسجد كے كسى ستون كے پاس بيٹھ كر فتوى دے " .

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 37 - 38 ).

http://islamqa.info/ur/14076
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
الحمد للہ:

كبار آئمہ كرام كى وصيت ہے كہ طالب علم كو بھى وہيں سے لينا اور اخذ كرنا چاہيے جہاں سے انہوں نے خود اخذ كيا اور ليا ہے، اور جب ان كا قول نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے خلاف ہو تو اسے ديوار پر پٹخ ديں.

ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ ميرى رائے ہے، اور جو كوئى بھى ميرى رائے سے اچھى اور بہتر رائے لائے ہم اسے قبول كرينگے "

اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميں تو ايك بشر ہوں غلطى بھى كرتا ہوں اور صحيح بھى اس ليے ميرا قول كتاب و سنت پر پيش كرو "

اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب حديث صحيح ہو تو ميرا قول ديوار پر پٹخ دو، اور دليل راہ ميں پڑى ہوئى ديكھو تو ميرا قول وہى ہے "

اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك كى تقليد كرو، اور نہ شافعى اور ثورى كى، اور اس طرح تعليم حاصل كرو جس طرح ہم نے تعليم حاصل كى ہے "

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" اپنے دين ميں تم آدميوں كى تقليد مت كرو، كيونكہ ان سے غلطى ہو سكتى ہے "

اس ليے كسى كے ليے بھى كسى معين امام كى تقليد كرنا صحيح نہيں جو اپنے اقوال سے باہر نہ جاتا ہو، بلكہ اس پر واجب ہے كہ اسے لے جو حق كے موافق ہو چاہے وہ اس كے امام سے ہو يا كسى اور سے ملے "

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" لوگوں ميں سے كسى شخص پر كسى ايك شخص كى بعينہ تقليد كرنا صحيح نہيں كہ جو وہ حكم دے اور جس سے منع كرے اور جسے مستحب كہے اس كى مانى جائے، يہ حق صرف رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ہے، اب تك مسلمان علماء كرام سے دريافت كرتے رہتے ہيں، كبھى اس كى اور كبھى اس كى بات مان ليتے اور تقليد كرتے ہيں.

جب مقلد كسى مسئلہ ميں تقليد كر رہا ہے اور وہ اسے اپنے دين ميں زيادہ صحيح ديكھتا، يا قول كو زيادہ راجح سمجھتا ہے تو يہ جمہور علماء كے اتفاق سے جائز ہے، اسے كسى نے بھى حرام نہيں كہا، نہ تو امام ابو حنيفہ، اور نہ ہى مالك اور شافعى اور احمد رحمہم اللہ نے"

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 382 ).

اور شيخ علامہ سليمان بن عبد اللہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بلكہ مومن پر حتماً فرض ہے كہ جب اسے كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم پہنچے اور اس كے معنى كا علم ہو جائے چاہے وہ كسى بھى چيز ميں ہو اس پر عمل كرے، چاہے وہ كسى كے بھى مخالف ہو، ہمارے پروردگا تبارك و تعالى اور ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہى حكم ديا ہے، اور سب علاقوں كے علماء اس پر متفق ہيں، صرف وہ جاہل قسم كے مقلدين اور خشك لوگ، اور اس طرح كے لوگ اہل علم ميں شامل نہيں ہوتے "

جيسا كہ اس پر ابو عمر بن عبد البر وغيرہ نے اجماع نقل كيا ہے كہ يہ اہل علم ميں سے نہيں "

ديكھيں: تيسير العزيز الحميد ( 546 ).
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
كيا تقليد كا فتوى دينا جائز ہے ؟
اس ميں كئى اقوال ہيں:
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
پہلا:
دوسرا:
تيسرا قول:
ضرورت اور كسى مجتھد عالم دين كى عدم موجودگى كے وقت جائز ہے، يہ صحيح ترين قول ہے، اور عمل بھى اسى پر ہے، قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ابو حفص نے اپنى تعليقات ميں ذكركيا ہے كہ:
" ميں نے ابو على حسن بن عبد اللہ النجاد كو كہتے ہوئے سنا:
ميں نے ابو الحسين بن بشران سے سنا وہ كہہ رہے تھے: ميں اس شخص پر عيب جوئى نہيں كرتا جو امام احمد سے پانچ مسائل ياد كرے اور مسجد كے كسى ستون كے پاس بيٹھ كر فتوى دے " .
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 37 - 38 ).
http://islamqa.info/ur/14076
محترم بھائی اور ہائیلائٹ کی گئی بات سے شاید اشکالات اٹھیں گے اصل عبارت کیا ہے
 
Top