• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک گھر کی مالکن نے اپنی ملازمہ کی خوبصورتی سے خوفزدہ ہوکر اسے ملازمت سے نکال دیا اور --------------

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
بھائ میرے بہت سی حقیقتیں غیر اخلاقی بھی تو ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایسی غیر اخلاقی حقیقتوں کی طنز و مزاح کی آڑ میں پروجیکشن قطعاً نامناسب ہے۔ ایسی حقیقتوں کو صرف اور صرف ”وقوعہ کی نیوز رپورٹنگ“ کے لئے ہی استعمال کرنا چاہئے اور وہ بھی ایسی صورت میں جب اس ”گندگی“ کا بیان کرنا ناگزیر ہوجائے۔ تاکہ میڈیا کے ذریعہ یہ گندگی پھیل کر صاف ستھرے ذہنوں کو آلودہ نہ کرسکے۔
کافی حد تک آپ کی بات درست ہے لیکن یہ بات جس کا ذکر اوپر کیا گیا میرے خیال میں تو اس میں گندگی نہیں جو کہ آپ نے کہی۔۔۔ کیونکہ اس بات کو اگر آپ مثبت انداز میں دیکھیں تو اس میں عبرت ہے اور بے احتیاطی اور بے پردگی کی سنگینی ہے۔۔ باقی واللہ اعلم بالصواب۔۔۔

دیکھیں بھاءی اگر تو یہ سچا واقعہ ہے تو کسی حد تک اس فورم پر قابل قبول ہے ،لیکن اگر دوسروں کو ہنسانے کی خاطر گھڑ لیا گیا ہے تو یاد رکھیں یہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔اور ایک مومن بندہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔دوسروں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولنے سے نبی کریم نے منع فرمایا ہے۔
شریعت میں اس عمل کی قباحت کی وجہ سے جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت وار د ہوئی ہے۔ جھوٹ بولنے والوں کو اللہ کی لعنت کا مستحق ٹھرایا گیا ہے۔ جھوٹ مطلقاََ بولنا حرام ہے اور وہ چاہے مذاقاََ ہو حقیقتاََ ہو۔
میرے خیال میں اس پوسٹ کے حوالے سے آپ کو اپنے ان الفاظ پر غور کرنا چاہیئے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
  1. دیکھیں بھاءی اگر تو یہ سچا واقعہ ہے تو کسی حد تک اس فورم پر قابل قبول ہے ،
  2. لیکن اگر دوسروں کو ہنسانے کی خاطر گھڑ لیا گیا ہے تو یاد رکھیں یہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔اور ایک مومن بندہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔دوسروں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولنے سے نبی کریم نے منع فرمایا ہے۔
  3. اب کچھ لوگ جھوٹ بولتے تو نہیں مگر دوسروں سے جھوٹے لطیفے ،قصے ،کہانیاں،اسٹیج ڈرامے،ناول وغیرہ پڑھ اور سن کر بہت محفوظ ہوتے ہیں۔بچوں کو نصیحت کرنے کے لیئے جھوٹی کہانیوں کاسہارا لیا جاتا ہے۔یا سب جہالت کی وجہ سے ہے۔
  4. تاریخ اِسلام حقیقی روشن کارناموںسے بھری پڑی ہے۔اس میں بہت ہی پندونصاح اوراسباق پوشیدہ ہیں ۔مگر دین سے دوری کی وجہ سے بچوں کو اسلامی واقعات سنانا تو درکنار بڑے بھی ان سے واقف تک نہیں ۔پھر بھی ہم اپنے بچوں کہ بگڑنے سے ناداں ہیں ۔اور انہیں ٹوکتے اور ڈانٹتے رہتے ہیں ۔حالانکہ ہم اس میں برابر کہ قصور وارہیں ۔اس لیئے ہم اپنے بچوں کومسلم حکمرانوںاور نوجوانوں کی بہادری کے حقیقی واقعات سنائیں تاکہ ان میں نصیحت کے حصول کے ساتھ ساتھ ایمان بھی پختہ ہو اور بہادری بھی آئے۔
السلام علیکم بھائی حافظ محمد مصطفیٰ
  1. ہر ”سچا واقعہ“ یا سچی بات (خواہ وہ سنجیدہ ہو یا مزاحیہ)، اسے ”بیان“ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ جیسے ”غیبت“ کرتے ہوئے بھی تو ہم ”سچی بات“ ہی بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہمارے علم میں کوئی ”فحش واقعہ“ آجائے تو اسے بیان کرنا یا تحریر کرنا، لطیفہ کی صورت میں بھی جائز نہیں۔
  2. ”جھوٹ بولنا“ یقیناً اسلام میں منع ہے۔ لیکن طنز و مزاح یا لطیفہ کی صورت میں بیان کردہ ہر بات یا واقعہ میں ”واقعاتی رپورٹنگ والا سچ“ تلاش کرنا بھی درست عمل نہیں ہے۔ جیسے۔ ۔ ۔''ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اکٹھے بیٹھے کھجوریں کھا رہے تھے اور کھجوروں کی گٹھلیاں سب اپنے سامنے رکھتے جا رہے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی گھٹلیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گھٹلیوں میں رکھ رہے تھے۔ جب سب کھا چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ کھجوریں کس نے کھائیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بھی دیکھئے کہ گھٹلیوں سمیت کھجوریں کون کھا گیا ۔ ۔ ۔ اسی طرح ایک مرتبہ خلفاء راشدین میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کہیں اکٹھے تشریف لے جا رہے تھے۔ درمیان میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں بائیں دونوں اصحاب تھے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قد مبارک دونوں کی نسبت قدرے چھوٹا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مزاحاً ارشاد فرمایا : حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان ایسے معلوم ہو رہے ہیں جیسے لفظ لَناَ میں ن ہوتا ہے۔ اس پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے جواباً مزاح فرماتے ہوئے بڑا پیارا جواب ارشاد فرمایا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر درمیان سے ن کو نکال دیا جائے تو لا رہ جاتا ہے یعنی باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔
  3. جھوٹے لطیفے ،قصے ،کہانیاں،اسٹیج ڈرامے،ناول وغیرہ ۔۔۔ انہیں ”جھوٹا قصہ“ نہیں بلکہ ”تمثیل نگاری“ کہتے ہیں یا آپ انہیں آسان الفاظ میں ”فرضی قصے کہانیاں“ کہہ لیں۔ وعظ و نصیحت یا تفریح کے لئے بیان کردہ ”فرضی قصوں“ کو جھوٹے قصے نہیں کہا جاسکتا۔ ایسی تماثیل کا ذکر تو قرآن و حدیث میں بھی مل جائیں گے۔ اگر ان قصوں میں کوئی خلاف شرع بات موجودنہیں تو ان کے فرضی ہونے کی بنا پر انہیں ”رد“ نہیں کیا جاسکتا۔ ادب لٹریچر اور شاعری وغیرہ کی تو ”بنیاد“ ہی تمثیل پر ہوتی ہے۔
  4. یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ہمیں ایسے سچے اسلامی قصوں کو اولیت اور فروغ دینا چاہئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ادب میں موجود تماثیل ہی کو رد کردیا جائے۔ بچے خصوصاً سبق آموز چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو شوق سے پڑھتے اور سنتے ہیں۔ جنہیں بڑے بڑے ادیب اور دانشور لکھا کرتے ہیں۔
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
السلام علیکم بھائی حافظ محمد مصطفیٰ
  1. ہر ”سچا واقعہ“ یا سچی بات (خواہ وہ سنجیدہ ہو یا مزاحیہ)، اسے ”بیان“ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ جیسے ”غیبت“ کرتے ہوئے بھی تو ہم ”سچی بات“ ہی بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہمارے علم میں کوئی ”فحش واقعہ“ آجائے تو اسے بیان کرنا یا تحریر کرنا، لطیفہ کی صورت میں بھی جائز نہیں۔
  2. ”جھوٹ بولنا“ یقیناً اسلام میں منع ہے۔ لیکن طنز و مزاح یا لطیفہ کی صورت میں بیان کردہ ہر بات یا واقعہ میں ”واقعاتی رپورٹنگ والا سچ“ تلاش کرنا بھی درست عمل نہیں ہے۔ جیسے۔ ۔ ۔''ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اکٹھے بیٹھے کھجوریں کھا رہے تھے اور کھجوروں کی گٹھلیاں سب اپنے سامنے رکھتے جا رہے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی گھٹلیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گھٹلیوں میں رکھ رہے تھے۔ جب سب کھا چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ کھجوریں کس نے کھائیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بھی دیکھئے کہ گھٹلیوں سمیت کھجوریں کون کھا گیا ۔ ۔ ۔ اسی طرح ایک مرتبہ خلفاء راشدین میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کہیں اکٹھے تشریف لے جا رہے تھے۔ درمیان میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں بائیں دونوں اصحاب تھے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قد مبارک دونوں کی نسبت قدرے چھوٹا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مزاحاً ارشاد فرمایا : حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان ایسے معلوم ہو رہے ہیں جیسے لفظ لَناَ میں ن ہوتا ہے۔ اس پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے جواباً مزاح فرماتے ہوئے بڑا پیارا جواب ارشاد فرمایا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر درمیان سے ن کو نکال دیا جائے تو لا رہ جاتا ہے یعنی باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔
  3. جھوٹے لطیفے ،قصے ،کہانیاں،اسٹیج ڈرامے،ناول وغیرہ ۔۔۔ انہیں ”جھوٹا قصہ“ نہیں بلکہ ”تمثیل نگاری“ کہتے ہیں یا آپ انہیں آسان الفاظ میں ”فرضی قصے کہانیاں“ کہہ لیں۔ وعظ و نصیحت یا تفریح کے لئے بیان کردہ ”فرضی قصوں“ کو جھوٹے قصے نہیں کہا جاسکتا۔ ایسی تماثیل کا ذکر تو قرآن و حدیث میں بھی مل جائیں گے۔ اگر ان قصوں میں کوئی خلاف شرع بات موجودنہیں تو ان کے فرضی ہونے کی بنا پر انہیں ”رد“ نہیں کیا جاسکتا۔ ادب لٹریچر اور شاعری وغیرہ کی تو ”بنیاد“ ہی تمثیل پر ہوتی ہے۔
  4. یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ہمیں ایسے سچے اسلامی قصوں کو اولیت اور فروغ دینا چاہئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ادب میں موجود تماثیل ہی کو رد کردیا جائے۔ بچے خصوصاً سبق آموز چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو شوق سے پڑھتے اور سنتے ہیں۔ جنہیں بڑے بڑے ادیب اور دانشور لکھا کرتے ہیں۔
آپ کے بیان کردہ قصے پر لکھنے کا مقصد وہی تھا جو آپ نے سب سے آخر میں ۴ نمبر پر بیان کیا ہے
۱۔آپ کی اس بات سے تو ہم بھی متفق ہیں کہ ہر سچی بات بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتی،جیسا کہ آپ نے اوپر بتایا،مگر یہ ضرور ہے کہ انسان کو ہمیشہ (سنجیدہ یا مزاحیہ)سچی بات ہی کرنی چاہءے۔لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ بعض جھوٹی یا من گھڑت باتیں بیان کی جا سکتی ہیں۔
۲۔"جھوٹ بولنا" یقیناً اسلام میں منع ہے۔اور یقینا ایسا ہی ہے۔ایک مومن آدمی اپنی ہر کلام میں(سنجیدہ ہویا مزاحیہ) جھوٹ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے،اور وہ ہر واقعہ یا بات میں آپ کی اصطلاح کے مطابق "واقعاتی رپورٹنگ والا سچ" ہی تلاش کرتا ہے اور اسے ایسا ہی کرنا چاہءے۔مزاح اور چیز ہے اور جھوٹ اور چیز ہے۔نبی کریم بھی صحابہ کرام کے ساتھ مزاح فرما لیا کرتے تھے(جیسا کہ آپ نے اوپر نقل کیا ہے)،مگر ان مزاح بھی ہمیشہ حقاءق اور سچ پر مبنی ہوتا ہے۔آپ کے نقل کردہ واقعہ میں پیش کیا گیا مزاح بھی سچاءی پر مبنی ہے،چونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قد قدرے چھوٹا تھا ،لہذا نبی کریم نے اسی مناسبت سے ان کے ساتھ مزاح فرمایا،جو حقیقت اور سچ پر مبنی تھا۔
۳۔آپ کی تیسری بات سے ہم بالکل متفق نہیں ہیں،کسی واقعہ کے وقوع پذیر ہوجانے سے وہ جواز کی سند حاصل نہیں کر لیتا،جھوٹے لطیفے ،قصے ،کہانیاں،اسٹیج ڈرامے،ناول وغیرہ ۔۔۔ انہیں اگرآپ "جھوٹا قصہ" نہیں کہتے ،تو نہ کہیں ،من گھڑت اور موضوع ضرور کہیں گے،اور اسلامی ادب میں ایسے فضول قصے کہانیوں کے لءے کوءی گنجاءش نہیں ہے،محدثین کرام موضوع روایات کو یکسر مسترد کر دیتے ہیں۔لہذا ایسے فرضی اور من گھڑت قصوں کو بھی ایسے ہی رد کر دینا چاہءے۔نیز آپ سے ایک سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ سند جواز کسی شرعی دلیل کی بنیاد پر دی ہے یا بس ایسے ہی قلم کی روانی کا کمال ہے۔
۴۔آپ کی چوتھی بات اس حد تک تو درست ہے کہ ہمیں ایسے سچے اسلامی قصوں کو اولیت اور فروغ دینا چاہئے۔لیکن اس کا دوسرا حصہ ناقابل قبول ہے،کیونکہ ہمیں ہر حال میں سچ کو ہی فروغ دینا ہے ،جیسا کہ آج کل بعض جماعتوں نے اس سلسلے میں کوششیں شروع کی ہوءی ہیں۔یہ تماثیل لکھنے والے بڑے بڑے ادیب اور دانشور عموما علم دین سے کورے ہی ہوتے ہیں۔لہذا ان کے ادب کو بنیاد بنا کر ہم جھوٹ بولنے ،جھوٹ لکھنے اور جھوٹ کو عام کرنے کے ہر گز قاءل نہیں ہے۔اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ جھوٹ کو ادب اور فن کے نام پر پھیلایا جا رہا ہے۔
ارشاد نبوی ہے :
"ویل للذی یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم، ویل لہ ویل لہ" (أبوداود: 4990، وحسنہ الألبانی)
" اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں سے کوئی بات بیان کرتا ہے پس جھوٹ بولتا ہے تا کہ وہ انہیں ہنسائے۔ اس کے لیے ہلاکت ہے اس کے لیے ہلاکت ہے ۔"
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ۔
"أنا زعیم بیت فی ربض الجنۃ لمن ترک المراء وان کان محقا ویبیت فی وسط الجنۃ لمن ترک الکذب و إن کان مازحا" (أبوداؤد: 4800، وحسنہ الألبانی)
"میں اس شخص کو جنت کے ادنیٰ درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑنے سے اجتناب کرے اور اس شخص کو جنت کے درمیا نے درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو جھوٹ چھوڑ دیتا ہے اگرچہ وہ مذاق کیوں نہ کر رہا ہو۔"
حضرات!جس طرح جھوٹ کے مختلف درجات اور اس کی مختلف قسمیں ہیں اسی طرح جھوٹ کی مختلف نوعیتیں بھی ہیں۔ اہل علم نے اس کو تین نوعیتیوں میں تقسیم کیا ہے۔
۱۔ "الکذب فی القول"
"بات چیت اور گفتگو میں جھوٹ بولنا ۔"
۲۔ "الکذب فی العمل"
"اپنے افعال واعمال اور کردار میں جھوٹ استعمال کرنا۔"
۳۔ "الکذب فی الأحوال"
" اعمال قلب وجوارح میں جھوٹ شامل کرنا۔ یعنی فقدان خلوص۔"
جس طرح جھوٹ کی تین نوعیتیں ہیں اسی طرح سچ کی بھی تین نوعیتیں ہیں۔ زبان میں سچائی،عمل میں سچائی،اور نیت کی سچائی،ایک انسان اگر ان تینوں نوعیتیوں پر کنٹرول کرلے ۔ اور سچائی تینوں خانوں میں داخل کر لے تو یقیناً وہ انسان دونوں جہاں میں سرخ رو اور کامیاب ہوکر رہےگا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"إضمنوا لی ستا من أنفسکم أضمن لکم الجنۃ، أصدقوا إذا حدثتم و أوفوا إذا وعدتم، و أدوا إذا أوتمنتم و أحفظوا فروجکم، و غضوا أبصارکم و کفوا أیدکم" (232/5)
" تم مجھے اپنی طرف سے چھ باتوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ بات کرو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو ، تمہیں امانت سونپی جائے تو اسے ادا کرو، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ نگاہیں نیچی رکھو، اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔"
اب اخیر میں صحابی رسول حضرت کعب بن مالک کے اس جملہ کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ یا رسول اللہ ۔
"إنما أنجانی بالصدق و أن توبتی إن لا أحدث إلا صدقا ما بقیت" (2769)
"اے اللہ کے رسول! مجھے اللہ تعالیٰ نے سچ بو لنے کی وجہ سے ہی نجات دی ہے۔ اس لیے میں اپنی توبہ کی قبولیت کے شکرانے کے طور پر جب تک زندہ رہوں گا جھوٹ نہیں بو لوں گا۔ "
اللہ تعالیٰ ہم سب کو جھوٹ سے بچائے اور سچائی کی راہ پر چلائے آمین ۔
 
Top