• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بابری مسجد کی شہادت کے بائیس سال(22)

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
تر پردیش: بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو 22 برس بیت چکے ہیں لیکن مسلمان آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں۔

ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے آر ایس ایس اور شیوسینا جیسی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر 16ویں صدی عیسوی سے قائم مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی ایک تحریک چلائی اور پھر 6 دسمبر 1992 کو ہندو انتہاپسند تنظیموں نے نیم فوجی دستوں کی مدد سے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے نتیجے میں گجرات میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جس میں حکومت کی سرپرستی میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کیاگیا۔

بابری مسجد کی شہادت کے خلاف اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ اور شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور ایل کے ایڈوانی سمیت 49 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے جو 2 دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود قانونی دائو پیچ اور عدالتوں کی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے ہیں، اس دوران 10 ملزمان اور 50 گواہ مر چکے ہیں لیکن مقدمے کا فیصلہ آج تک نہیں آ سکا ہے۔

واضح رہے کہ بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے 16 صدی عیسوی میں تعمیر کروائی تھی جو اسلامی اور مغل فن تعمیر کا ایک شاہکار تھی جب کہ ہندو انتہاپسندوں کا دعویٰ تھا کہ ظہیر الدین بابر نے ہندو دیواتا رام کی جائے پیدائش پر بنے رام مندر کو مسمار کر کے بابری مسجد تعمیر کی تاہم ہندو اس حوالے سے مستند تاریخی ثبوت دینے میں ناکام رہے ہیں۔
Chat
بشکریہ ایکسپریس​
 
Last edited by a moderator:

فہد ظفر

رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
193
ری ایکشن اسکور
243
پوائنٹ
95
بابر ایک ملحد شخص تھا اسکے شعر ملاحظہ کریں -

نو روز و نو بہار و مے و دلبرے خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست​
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
بابری مسجد سانحہ سے متعلق یہ چند مضامین مطالعہ کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں :

بابری مسجد -- تعمیر سے شہادت تک - رشید انصاری
شہنشاہ بابر کے ایک سپہ سالار میر باقی نے 1528ء میں ایودھیا (ضلع فیض آباد) میں بابری مسجد تعمیر کروائی تھی۔ 1528ء سے لے کر 1850ء کے بعد تک بھی یہ بات کسی نے نہیں کہی تھی کہ بابری مسجد کسی مندر (خاص طور پر رام چندر جی کے مقام پیدائش ) رام جنم بھومی کی جگہ بنے مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی ویسے رام چندر جی کا مقام پیدائش ایودھیا ہونا نیز رام چندر جی کی حقیقی تاریخی حیثیت ہی مشتبہ باتیں ہیں حد تو یہ کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام چندر جی کے مقام پیدائش کا ہونا گذشتہ سال الٰہ آباد ہائی کورٹ نے دلیل و ثبوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ "عقیدے " کی بنیاد پرتسلیم کرکے نہ صرف خود کو مذاق کا موضوع بنالیا بلکہ ملک کی عدالت عظمیٰ نے بھی عدالت عالیہ الٰہ آباد کے اس فیصلے کو " عجیب و غریب" قرار دے کر عدالتی فیصلہ پر اعتراض کرنے کا جواز پیدا کردیا ہے ۔
بابری مسجد رام جنم بھومی مسئلہ انگریزوں نے ہی پیدا کیا تھا۔ اس کے ساتھ ان ہی بیکر صاحب نے کئی ایسے فتنہ انگیز نکات پیش کئے جنہوں نے ایک غیر متنازع بات کو متنازع بنانے میں اہم حصہ لیا ہے ۔ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ہنس بیکر نے ہی 1008ء میں " جنم بھومی مندر" کی تعمیر کی بات لکھی تھی۔
بابری مسجد زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نہیں ہے - مشرف عالم ذوقی
یہ مت بھولیے کہ چھ دسمبر محض ایک تاریخ نہیں ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ 67 برسوں سے اس ملک کا کوئی بھی فیصلہ ہمارے نام نہیں ہوا۔ بھیونڈی، ملیانہ، بھاگلپور، بہار شریف، مظفر نگر، شاملی کے فسادات کو یاد کیجئے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ چھ دسمبر کا دن سال میں کئی بار رنگ بدل بدل کر آتا ہے۔ اس فریم میں بھاجپا اور مودی کو فٹ کرکے دیکھیے تو تصویر اور بھی خوفناک ہوجاتی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے ملک کے 30 کروڑ مسلمانوں کی خاموشی جو بٹلہ ہاؤس فرضی انکاؤنٹر سے لے کر بابری مسجد فیصلہ تک ہونٹ سی کر رہ جاتے ہیں اور حکومتیں اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو سیاسی، سماجی، اقتصادی ہر سطح پر کمزور اور توڑنے میں لگ جاتی ہیں۔
بابری مسجد سانحہ - ایک نہ بھرنے والا زخم - عمران عاکف خان
آج سے 21/ سال قبل 6/ دسمبر 1992 کو آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی روحوں تک کو لرزادیااس کے ساتھ ساتھ اتنے گہرے زخم دے دیے جن کا آج تک مداوا نہیں ہوسکا ہے ۔ کڑی پابندی کے حصار میں 500سالہ قدیم اور آباد مسجد ایک سازش کے تحت دےکھتے ہی دیکھتے شہید کردی گئی اور یہ کارنامہ ایک ایسی حکومت کے زیرسایہ رونما ہوا جو خود کو سیکولر کہتے نہیں تھکتی ۔ جو خو د کو مسلمانوں کا سب سے بڑا ہمدرد اور دوست کہتی ہے اور انھیں اپنا حلیف مانتی ہے۔ وہ اگر چاہتی تو ہندوستان کی دامن پر یہ بدنما داغ کسی صورت نہیں لگتا۔
دراصل بابری مسجد کی شہادت ایک گہری سازش کا نتیجہ تھی یا اسے مسلمانوں کے تشخص پر راست حملہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ رام مندر تو ایک بہانہ تھا ۔ایک دھوکہ تھا جس کی آڑ میں اسلام کے شعائر یعنی مسجد کو مٹانا تھا ۔ورنہ ایودھیا میں رام کے مندروں کی کمی نہیں ہے ۔وہاں گھر گھر رام مندر ہیں اور آج بھی سینکڑوں پجاری اس بات کے دعویدار ہیں کہ رام میرے مندر میں پیدا ہو ئے ۔رام وہاں نہیں یہاں پیدا ہوئے۔اس حقیقت کے باوجود بھی کانگریس اور بی جے پی کے فرقہ پرستوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا اور ہندوستانی مسلمانوں کے سینوں میں ایسے زخم دے دیے جن سے آج بھی خون رس رہا ہے اور ہر سال 6دسمبر آتے آتے اس کی تکلیف ،شدت اور ٹیس مزید تیز ہوجاتی ہے۔
6 دسمبر - یوم سیاہ کے ساتھ اپنے اعمال کا محاسبہ بھی کریں - غفران ساجد قاسمی
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ بابری مسجدکاتنازعہ آزادی سے تقریبا100/سال قبل 1857ء میں شروع ہواتھاجب انتہاپسندہندؤں نے یہ شوشہ چھوڑاکہ جس جگہ بابری مسجد کی تعمیرکی گئی ہے وہ دراصل رام کی جنم بھومی ہے ،لیکن اس وقت اس معاملہ نے زیادہ طول نہیں پکڑا۔بابری مسجدکومغل بادشاہ ظہیرالدین محمدبابرکے ایک خاص مصاحب میرباقی کے حکم سے 1528ء میں اجودھیامیں تعمیرکی گئی تھی اورظہیرالدین محمدبابرکے نام سے اس کومنسوب کیا گیا۔تاریخ نگاروں کے مطابق بابری مسجدکی تعمیرسے لے کرآزادی کے بعد1949ء تک باضابطہ طورپرمسجدمیں پنج وقتہ نمازکے علاوہ جمعہ کی نمازبھی ہوتی تھی،لیکن 1949ء کے دسمبر کی 22۔23 کی درمیانی شب میں کچھ شرپسندوں کے ذریعہ مسجدمیں مورتی رکھ دیے جانے کے بعدسے پھرنمازوں کاسلسلہ بندہوا۔مؤرخین کے مطابق اجودھیامیں سب سے پہلے1855ء میں ہنومان گڑھی سے متعلق تنازعہ کھڑا ہوا،ہنومان گڑھی میں ہندو بیراگیوں نے ڈیراڈال رکھاتھا،مسلمانوں نے شاہ غلام حسین کی قیادت میں ان بیراگیوں کووہاں سے نکالناچاہالیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکے،یہ تھااجودھیامیں ہندومسلم کے درمیان پہلاتنازعہ،لیکن پھربھی یہ تنازعہ بابری مسجدکے لیے نہیں ہوا تھا۔ اس واقعہ کے ٹھیک دوسال بعد1857ء میں ہنومان گڑھی کے مہنت نے مسجدکی کچھ زمین پرقبضہ کرکے ایک چبوترہ بنالیاجس کے خلاف مولوی محمداصغرنے ایک مقدمہ دائرکیاجس کافیصلہ برٹش جج نے اس طرح کیاکہ درمیان میں ایک دیوارکھڑی کردی اور دونوں کواس جگہ عبادت کرنے کی اجازت دی اورکہاکہ مشرقی دروازہ سے ہندو داخل ہوں گے اورشمالی دروازہ سے مسلمان داخل ہوں گے،اس فیصلہ سے بہت حدتک بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ برٹش گورنمنٹ کایہی وہ متنازعہ فیصلہ تھاجس نے ہندوؤں کواتناجری کردیا کہ ان لوگوں نے بالآخر6/دسمبر1992ء کواس تاریخی اہمیت کی حامل بابری مسجدکوشہید کردیا۔ اگر اسی وقت برٹش حکومت اس مسئلہ کوحل کردیتی تو شایدہندوستانی تاریخ میں اس سیاہ باب کااضافہ نہ ہوا ہوتا،اس فیصلہ کے مضمرات کودیکھنے سے بہت حدتک یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ برٹش حکومت کی منشاء ہی یہی تھی کہ انہیں مذہبی جذبات کے نام پراس طرح بھڑکادیاجائے کہ انہیںآپس میں لڑنے سے فرصت ہی نہ ملے کہ وہ ہماری طرف متوجہ ہوں اورہم "لڑاؤ اور حکومت کرو"والی پالیسی کے تحت حکومت کرتے رہیں،ظاہرسی بات ہے کہ انگریز یہ جانتے تھے کہ اگرانہیں ہندوستان سے کوئی بھگاسکتاہے تووہ صرف اورصرف مسلم قوم ہے،اسی وجہ سے انہوں نے "لڑاؤ اور حکومت کرو"کی پالیسی بناکرہندوستانی مسلمانوں کوکہیںآپسی فرقہ بندی کے فروعی مسائل میں الجھاکر، کہیں ہندو مسلم مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرکے آپس میں لڑاتے رہے اوروہ چین سے حکومت کرتے رہے،اس وقت بہت سارے فرقے ایسے ہیں جن کی بنیاداسی برٹش دورحکومت میں پڑی جس کی طویل داستان ہے۔یہ تنازع چلتارہایہاں تک کہ ملک آزادہوگیا،انگریزچلے گئے لیکن اپنے پیچھے ایسی بیج بوگئے جس کا پھل بعدمیں ہندوستان کے ہرباشندہ کو چکھنا پڑا،بابری مسجد میں نمازکاسلسلہ اسی طرح چل رہاتھاکہ 1949ء میں 22 ۔23دسمبرکی درمیانی شب میں کچھ شرپسندہندوؤں نے مسجدکے بیچ میں محراب کے پاس مورتی رکھ دی، یہی وہ وقت تھا جب حکومت کوایک موقع ہاتھ آیااوراس نے اسے متنازع مقام قراردے کرتالاڈلوادیااوراس طرح ایک آبادوشادمسجدکچھ شرپسندعناصرکی شرپسندی کی وجہ سے ہمیشہ ہمیش کے لیے بندکردی گئی۔
بابری مسجد کی شہادت - منصوبہ بند سبوتاج - کوبرا پوسٹ کا انکشاف - پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک خبر
ایڈیٹر انیرودھ بہل نے ریکارڈ کردہ انٹرویوز اسکرین پر دکھائے جس میں بی جے پی وی ایچ پی اور شیوسینا کے بعض ثانوی درجہ کے قائدین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہدام (شہادت) کی کارروائی ان کے والینٹرس نے ٹھیک طورپر انجام دی۔ اس سے قبل ان والینٹرس نے زبردست تربیت حاصل کی تھی اور فرضی (ڈرلس) مشقیں انجام دی تھیں۔ پورٹل نے جس نے بی جے پی قائدین سے انٹرویو لیا، ان میں اوما بھارتی، کلیان سنگھ اور ونئے کٹیار شامل تھے، جنہوں نے مسجد کی شہادت کی تیاری کے دوران ہوئلے واقعات کا تذکرہ کیا۔ بہل نے بی جے پی کے اس الزام کی تردید کردی کہ اس اسٹنگ آپریشن کو کانگریس کی ایما پر منظر عام پر لایا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن سے بی جے پی کے اس الزام کی تردید کردی کہ اس اسٹنگ آپریشن کو کانگریس کی ایما پر منظر عام پر لایاجارہا ہے۔ الیکشن کمیشن سے بی جے پی کے اس مطالبہ پر کہ اس اسٹنگ آپریشن کی ٹیلی کاسٹ کو روک دیاجائے، ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بہل نے کہاکہ "اس سلسلہ یں ہمیں الیکشن کمیشن سے کوئی اطلاع نہیں ملی ہے"۔ "ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ ہم انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ ہمارا مقصد سچائی کو سامنے لانا ہے اور یہی ہم نے دکھلایا ہے"۔ "بعض لوگوں کے لئے سچائی بڑی کوی ہوتی ہے۔ جو کوئی اتھاریٹی ہم سے ٹیپس طلب کرے گی ہم اس کو (ٹیپس) فراہم کردیں گے"۔ اسٹنگ آپریشن کا ضابطہ بند نام "آپریشن جنم بھومی" رکھا گیا ہے۔ یہ آپریشن اُن 23لیڈروں کے انرویوز پر مبنی ہے جو (مسجدکے) انہدام میں مبینہ طورپر پیش پیش تھے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اسلامیان ہند نے بابری مسجد کی سوداگری کی قانونی کاروائی بھی مکمل کرلی۔
یوٹیوب پر بابری مسجد کے حوالے سے موجود کچھ نظموں سے منتخب اشعار:
اے میری مسجد بابری
پرسوز ہے تیرا بیان
دل کے افق پر چھا رہا ہے
تیری آھوں کا دھواں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری بے بسی سے قصہ غم عام ہے میرا
میں ہوں بابر کی مسجد، بابری نام ہے میرا
مینارہ ہے نہ گنبد ہے نہ کوئی بام ہے میرا
میں ہوں بابر کی مسجد، بابری نام ہے میرا
میری عصمت کی خاطر اٹھو اب شمشیر اٹھالو تم
مسلمانو ! تمہارے نام یہ پیغام ہے میرا
میں ہوں بابر کی مسجد، بابری نام ہے میرا
بہت مظلوم ہوں اور فسانہ عام ہے میرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد بابری ہم خطا کار ہیں
تیری بے حرمتی پر شرمسار ہیں
پہلے غیرت کو تیری ابھارا گیا
پھر نشاں بابری کا مٹایا گیا
مسجد بابری بت کدہ بن گئی
تیری غیرت مسلمان کہاں کھو گئی
اے مساجد ہم ہی دغا باز ہیں
مسجد بابری ہم خطا کار ہیں
کون کہتا ہے مسلمان بیدار ہے
مسجد بابری ہم خطا کار ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کو کرنی تھی حفاظت لیکن میں نے
کرلیا فیصلہ خود مٹ کے بچاؤں تم کو
ہائے افسوس مگر اب بھی نہیں جاگے تم
میں نے چاہا تھا کہ میں گر کے اٹھاؤں تم کو
(بابری مسجد)
 
Top