السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم جہاں آپ کو مطلب پڑے گا وہاں اسی ’ابن حبان‘ رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف توصیف کرتے نہ تھکو گے۔
جناب من! ہم بالکل ابن حبان رحمہ اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہیں!
در اصل آپ بوجہ تقلید امام ابو حنیفہ علم الحدیث میں یتیم و مسکین ہو!
اسی وجہ سے آپ کو اب تک جراح و تعدیل کی بنیادی باتیں بھی نہیں معلوم! کہ کسی کی شاذ توثیق جمہور کی جراح کے مقابلے میں مقبول نہیں ہوتی!
ویسے ایک بات بتلاؤ! کی اآپ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی تمام جراح و تعدیل کو قبول کرو گے؟
اگر ہاں تو جواب لکھئے! پھر میں آپ کو امام ابن حبان رحمہ اللہ کی ایک جراح پیش کروں گا، دیکھتے ہیں کہ آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہو!
اب ذرا بتلاؤ ، کیا آپ کو امام ابن حبان رحمہ اللہ کی تمام جراح و تعدیل قبول ہیں؟
خیر اس میں یہ بھی تھا کہ ’ إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے‘۔
بھٹی صاحب! یہ ترجمہ یا تو آپ نے غلط کیا ہے یا بھی پھر آپ کو کسی نے غلط پٹی پڑھائی ہے، مگر اس ترجمہ کی بحث سے بھی قطع نظر!
بھٹی صاحب! جس کتاب سے آپ نے یہ حوالہ نقل کیا ہے اور آپ نے کود وہ کلام بھی پیش کی اہے، ہم آپ کا اقتباس پیس کرتے ہیں، وہاں ملون الفاظ دیکھیں:
قال الحافظ في تهذيب التهذيب 2 / 152 :
لفظ البخارى : روى عنه أبو عون ، و لا يصح ، و لا يعرف إلا بهذا ، مرسل .
هكذا قال فى " التاريخ الكبير " ، و قال فى " الأوسط " فى فصل من مات بين المئة إلى عشر و مئة : لا يعرف إلا بهذا ، و لا يصح .
و ذكره العقيلى ، و ابن الجارود ، و أبو العرب فى " الضعفاء " .
و قال ابن عدى : هو معروف بهذا الحديث .
و ذكره ابن حبان فى " الثقات " .
و ذكر إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى : أن هذا الحديث مخرج فى " الصحيح " و وهم فى ذلك ، و الله المستعان . اهـ
.
بھٹی صاحب، اسی کتاب میں اسی جملہ کے فوراً بعد امام ابن حجر العسقلانی نے اسے امام الحرمین ابو المعالی الجوینی کا وہم قرار دیا ہے، امام ابن حجر العسقلانی کے الفاظ دیکھیں:
''و وهم فى ذلك ، و الله المستعان''
اس کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں فرمایا؛
بھٹی صاحب! اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام کہ تمام عادل ہیں، اہل الحدیث کے نزدیک! لہٰذا اتنا معلوم ہو جائے کہ یہ صحابی ہیں، ان کا نام معلوم ہو یا نہ ہو، کافی ہے!
جبکہ اصحاب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ میں یہ خصوصیت نہیں کہ تمام کہ تمام عادل ہوں! لہٰذا راوی کا تعین ضروری ہے!
بھٹی صاحب! اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھئے، آپ کی فقہائے احناف اور اور آپ کے عقیدہ کے امام سعد الدین التفتازانی کیا فرماتے ہیں:
شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني (المتوفى: 793هـ)
(قَوْلُهُ: وَأَمَّا الْمَجْهُولُ) ذَهَبَ بَعْضُهُمْ إلَى أَنَّ هَذَا كِنَايَةٌ عَنْ كَوْنِهِ مَجْهُولَ الْعَدَالَةِ، وَالضَّبْطِ إذْ مَعْلُومُ الْعَدَالَةِ، وَالضَّبْطِ لَا بَأْسَ بِكَوْنِهِ مُنْفَرِدًا بِحَدِيثٍ أَوْ حَدِيثَيْنِ، فَإِنْ قِيلَ عَدَالَةُ جَمِيعِ الصَّحَابَةِ ثَابِتَةٌ بِالْآيَاتِ، وَالْأَحَادِيثِ الْوَارِدَةِ فِي فَضَائِلِهِمْ قُلْنَا ذَكَرَ بَعْضُهُمْ أَنَّ الصَّحَابِيَّ اسْمٌ لِمَنْ اُشْتُهِرَ بِطُولِ صُحْبَةِ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - عَلَى طَرِيقِ التَّتَبُّعِ لَهُ، وَالْأَخْذِ مِنْهُ وَبَعْضُهُمْ أَنَّهُ اسْمٌ لِمُؤْمِنٍ رَأَى النَّبِيَّ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - سَوَاءٌ طَالَتْ صُحْبَتُهُ أَمْ لَا إلَّا أَنَّ الْجَزْمَ بِالْعَدَالَةِ مُخْتَصٌّ بِمَنْ اُشْتُهِرَ بِذَلِكَ، وَالْبَاقُونَ كَسَائِرِ النَّاسِ فِيهِمْ عُدُولٌ وَغَيْرُ عُدُولٍ.
(قَوْلُهُ: وَأَمَّا الْمَجْهُولُ) بعض اس طرف گئے ہیں کہ کہ یہ کنایہ ہے کہ وہ مجہول العدالت ،اور مجہول الضبط ہیں ۔کیونکہ جب کسی عدالت ،اور ضبط معلوم ہو، تواس کے ایک ،دو حدیثوں میں منفرد ہونے میں کوئی حرج نہیں ۔،
اور اگر یہ کہا جائے کہ جمیع صحابہ کی عدالت آیات، اور ان احادیث سے ثابت ہے، جو ان کے فضائل میں آئیں ہیں،
تو ہم کہتے ہیں : کہ (یہ قاعدہ علی الاطلاق صحیح نہیں ،کیونکہ )بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ صحابی اس کو کہا جاتا ہے جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طویل صحبت مشہور ہو، اوریہ بات اس صحابی کے حالات کے تتبع سے معلوم کی گئی ہو ،
اور بعض اہل علم کے نزدیک ’’ صحابی ‘‘ ہر اس مومن کو کہا جاتا ہے، جس نے نبی صلی اللہ علیہ کو (حالت ایمان میں ) دیکھا ہے ، خواہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت پائی ہو ،یا مختصر ،
اس کو صحابی تو مانا جائے گا ۔
مگر یقینی طور پر عدالت اسی کی تسلیم کی جائے گی۔جو ’’صفت عدالت کے ساتھ مشہور ہو ۔
اور دیگر صحابہ کو عام مومنین کی طرح سمجھا جائے گا ۔جن میں عادل بھی ہیں ۔اور غیر عادل بھی ‘‘
ملاحضہ فرمائیں:صفحه 10 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - دار الكتب العلمية بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 06 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح – سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - طبع قديم دار الكتب العلمية بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 10 جلد 02 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - قديمي كتب خانة كراتشي
ان حنفیوں میں تو رفض کے جراثیم بھی موجود ہیں!