- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
پہلی عرض تو یہ کہ آپ نے ۔۔سلام۔۔پھر غلط لکھا ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ علیہ
محترم (و ذكر إمام الحرمين أبو المعالى الجوينى : أن هذا الحديث مخرج فى " الصحيح ") امام الحرمین ابو المعالی الجوینی اس کو صحیح کہتے ہیں۔ اب اگر کوئی دوسرا کہتا ہے کہ یہ ان کا وہم ہے تو اس سے ترجمہ کیسے غلط ہو گیا؟ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے؛
کسی نے کہا کہ یہ امام الحرمین ابو المعالی الجوینی کا وہم ہے اس سے ترجمہ میں کیا نقص واقع ہؤا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری بات یہ کہ ’’امام الحرمین ‘‘ والے کلام کا ترجمہ یقیناً غلط لکھا ہے ۔(صحیح ترجمہ میں بتاتا ہوں ،پہلے درج ذیل امور دیکھ لیں)
اور تیسری بات یہ ۔۔جس نے یہ کہا کہ ’’ امام الحرمین ‘‘ کو وہم ہوا ،جانتے ہو وہ کون ہے ؟
وہ ہیں صحیح بخاری کے مشہور و معروف شارح اور بے مثال قیمتی کتب کے مصنف جناب حافظ أبو الفضل أحمد بن علي العسقلاني ۔
اور ملحوظ رہے :
امام الحرمین ؒ۔۔کو حدیث کے حوالے میں وہم نہیں بلکہ ۔۔اوہام۔۔ہوئے ہیں ،یہ بات ۔۔جرح و تعدیل کے امام الذہبی ؒ نے واشگاف بیان
فرمائی ہے ،لکھتے ہیں :
شهادة الإمام الحافظ الذهبي –إمام أهل الجرح والتعديل في عصره– حيث قال في السير (18|471):
«كان هذا الإمام مع فرط ذكائه وإمامته في الفروع وأصول المذهب وقوة مناظرته، لا يدري الحديث كما يليق به لا متناً ولا سنداً»
یعنی ۔۔امام الحرمین ابو المعالی۔انتہائی ذکی اور فقہ اور اصول مذہب میں امامت کا درجہ پانے ،اور مناظرہ کی اہلیت کے باوجود ’’ حدیث کو نہیں جانتے تھے۔نہ سند حدیث کا علم تھا ۔اور نہ ہی متن حدیث کی معرفت حاصل تھی ۔انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جو عالم ۔۔علم حدیث نہ سنداً جانتا ہے ،اور نہ ہی متناً حدیث کا عارف ہے اسے یقیناً ۔۔تخریج ۔۔میں اوہام ہی ہونگے ۔
Last edited: