• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:18۔سزا کی دو قسمیں ہیں۔ ۔ السیاسۃ الشرعیۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تو اگر وہ جیش اور لشکر جن تک رسول اللہ ﷺکا یہ فیصلہ پہنچے کہ رسول اللہ کی زبان اقدس نے یہ فیصلہ کیا ہے، تو یقینا اس پر عمل کریں گے۔

اور سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے اوپر والی حدیث میں یہ جملے بھی روایت کئے ہیں:

یَقْتُلُوْنَ اَھْلَ الْاِیْمَانِ وَیَدْعُوْنَ اَھْلَ الْاَوْثَانِ لَئِنْ اَدْرَکْتُھُمْ لَاَقْتَلَنَّھُمْ قَتْلَ عَادٍ (بخاری و مسلم) ۔
وہ اہل ایمان والوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو دعوت دیں گے۔ اگر میں (ﷺ) ان کو پاؤں گا تو قوم عاد کی طرح انہیں قتل کروں گا۔

اور صحیح مسلم کی ایک روایت ہے:

تَکُوْنُ اُمَّتِیْ فِرْقَتَیْنِ فَتَخْرُجُ مِنْ بَیْنِھِمَا مَارِقَۃٌ بَلٰی قَتْلَھُمْ اَوْلَی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ
میری اُمت دو فرقوں میں بٹ جائے گی، ان دونوں میں سے بے دین لوگ کھڑے ہو جائیں گے تو جو لوگ حق پر ہوں گے وہ ان کو قتل کریں گے۔

یہ وہی لوگ تھے جن سے امیر المؤمین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تھی جبکہ عراقی لوگوں میں اور شام کے لوگوں میں تفرقہ بازی ہوئی تھی۔ اور صحابہ کرام y نے ان کا نام حروریہ رکھا تھا۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دونوں گروہ آپ کی اُمت سے علیحدہ ہیں اور اصحابِ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں۔ آپ ﷺنے ان مارقین، بے دینوں کے سوا کسی سے جنگ کرنے کی تحریص و تحریک نہیں فرمائی بلکہ انہی لوگوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال کا حکم فرمایا جو اسلام سے خارج ہو گئے تھے، اور جماعت اسلام کو ترک کر دیا تھا۔ اور مسلمانوں کا خون اور مال اپنے لیے حلال و مباح کر لیا تھا۔

پس کتاب و سنت اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہو گیا کہ اس جماعت سے قتال و جنگ کی جائے جو شریعت اسلام سے خارج ہوں۔ اگرچہ وہ کلمہء شہادت یعنی لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کا زبان سے اقرار کریں۔

فقہاء کہتے ہیں اگر کوئی زبردست گروہ سنت کی مزاحمت کرے اور اسے ترک کرنے پر کمر بستہ ہوجائے مثلاً فجر کی دو سنتوں کاانکار کرے تو دونوں قول کے مطابق ان سے قتال و جنگ کی جائے۔ اور اگر واجبات اور محرمات ظاہرہ و ثابۃ و مشہورہ سے انکار کرے تو بالاتفاق ان سے جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزوں اور حج بیت اللہ کا التزام کر لیں اور محرمات مثلاً بہنوں وغیرہ سے نکاح کرنے، خبیث چیزوں کے کھانے اور مسلمانوں پر حکومت کرنے سے باز آجائیں، ایسے لوگوں سے قتال و جنگ واجب ہے۔اور قتال و جنگ اس وقت واجب ہے جبکہ دعوتِ نبوی ﷺان تک پہنچ جائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
لیکن جب مسلمانوں کے مقابلہ میں یہ لوگ جنگ کرنے کی ابتداء کریں تو اس وقت ان کا مقابلہ کرنا اور ان سے قتال و جنگ ضروری ہوجاتی ہے۔ عام فرض ہے کہ لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں اور اس طرح مقابلہ کریں جس طرح کہ مسلمانوں پر زیادتی کرنے والوں کا مقابلہ کیاجاتا ہے مثلاً قطاع الطریق {ڈاکو، راہزن، دہشتگرد} وغیرہ۔ اور ان سے بھی زیادہ ضروری اور واجب ہے کہ کفار اور ایسی جماعت جن سے لڑائی نہ کی جائے جو بعض شرائع الٰہیہ ـ{شرعی قوانین} سے مزاحمت کریں؛ جنگ و قتال واجب ہے مثلاً زکوۃ نہ دینا اور خوارج کا فتنہ وغیرہ؛ تو ان سے مقابلہ اور قتال و جنگ کرنا واجب ہے۔

ابتداء جنگ میں مدافعانہ جنگ کی جائے اور یہ فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض مسلمان جنگ و قتال میں حصہ لیں گے تو باقی مسلمانوں سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا، اگرچہ فضیلت اسی میں ہے کہ اس جنگ میں شرکت کی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرِ اُولِی الضَّرَرِ (نساء ع 13)
جن مسلمانوں کو کسی طرح کی معذوری نہیں اور وہ جہاد سے بیٹھ رہے، ان کی شرکت کی چنداں ضرورت بھی نہ تھی، یہ لوگ درجے میں برابر نہیں ہو سکتے۔

لیکن اگر دشمن کا ارادہ مسلمانوں کے خلاف جنگ و قتال کا ہے، اور ہجوم کر کے چڑھ دوڑے ہیں تو عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کی مدافعت کریں۔ مدافعت ان پر فرض ہو جاتی ہے جن پر حملہ کیا گیا ہے، ان پر فرض اس لیے ہے کہ ان پر حملہ ہوا ہے۔ اور دوسرے مسلمانوں پر اس لیے کہ اہل اسلام کی اعانت و امداد فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِیْثَاقٌ (الانفال:72)۔
ہاں اگر دین کے بارے میں تم سے مدد کے طالب ہوں تو تمہیں ان کی مدد کرنا لازم ہے، مگر اس کے مقابلے میں نہیں کہ تم میں اور ان میں صلح کا معاہدہ ہو۔

اور نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:

اَلْمُسْلِمُ یَنْصُرُ الْمُسْلِمَ
مسلمان، مسلمان کی امداد کریں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مسلمانوں کی امداد ضروری ہے، اس میں ان کو روزینہ ملے یا نہ ملے، اگرچہ روزینہ دینا بہتر ہے۔ تمام مسلمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جان و مال سے اعانت و امداد کریں۔ اور یہ اعانت و امداد ان پر فرض ہے؛ جس قسم کی سہولت ہو، قلیل یا کثیر، پیادہ جائے یا سواری پر۔ بہرحال اعانت و امداد فرض ہے، جیسے کہ غزوئہ خندق کے وقت کہ جب کفار نے حملہ کیا تو سب مسلمانوں پر حسب ِ امکان جہاد فرض ہو گیا تھا۔ کسی ایک کو بھی اس جہاد کے ترک کرنے کی اجازت نہیں تھی جیسی کہ ترکِ جہاد کی اجازت ابتداء میں تھی کہ دشمنوں کی طلب میں نکلیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک گھروں میں رہنے والے اور دوسرے اللہ کی راہ میں لڑائی کے لیے نکلنے والے۔ نہ لڑنے والے اور لڑنے والے، بلکہ اس وقت بھی جن لوگوں نے عذر پیش کر کے رسول اللہ ﷺسے نہ جانے کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی۔
یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَمَا ھِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا
پیغمبر (ﷺ) سے گھر لوٹ جانے کی اجازت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں بلکہ ان کا ارادہ تو صرف بھاگنے ہی کا ہے۔ (احزاب ع:13)

یہ جہاد، قتال و جنگ! دین اور حرمت و عزت اور جانوں کی مدافعت کے لیے ہے۔ اور یہ اضطراری اور مجبوری کے سبب سے لڑنا پڑتی ہے۔ اور وہ قتال و جنگ اختیاری ہے۔ دین و ملت کی زیادتی اور اضافہ اور اعلاء کلمہء دین اور دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھنا مقصود ہے کہ دشمن کسی وقت بھی سر اونچا نہ کریں جیسے غزوئہ تبوک وغیرہ۔
تو یہ عقوبت و سزا اس جماعت سے جن سے لڑائی نہ کی جائے اور طاقتور گروہ کے مقابلہ کے لیے ہے لیکن اگر اس جماعت جس سے لڑائی نہ کی جائے اور طاقتور نہیں ہے، اِکّا دُکّا واقعہ ہے تو اس کے لیے یہ عقوبت و سزا نہیں ہے، جیسے کہ اسلامی آبادیوں میں ہوتا رہتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے امیر و حاکم کا فرض ہے کہ انہیں فرائض، واجبات، سنن و مستحبات کا پابند بنائے، اور اسلامی کی بنیادی تعلیمات، ضروریاتِ دین، اصولِ اسلام پر عمل کرائے۔ اور اس کے لیے مجبور کیا جائے۔ اور معاملات کے بارے میں ادائے امانت، وفاء عہد، ایفاء وعدہ پر مجبور کیا جائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پس جو لوگ نماز ترک کر دیں اور عورتیں عموماً بے نمازی ہوں تو انہیں حکم دیا جائے کہ وہ نماز پڑھیں۔ جو نماز نہ پڑھے اُسے عقوبت و سزا دی جائے یہاں تک کہ وہ نماز پڑھنے لگ جائیں اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اور اکثر علماء کہتے ہیں کہ ایسے بے نمازی کو قتل کر دیا جائے۔ پہلے ایسے بے نمازیوں کو توبہ کرنے کا حکم دیا جائے۔ اور حکم دے کہ نماز پڑھا کریں۔ اگر توبہ کر لیں اور نماز پڑھنے لگ جائیں تو بہتر ورنہ قتل کر دیئے جائیں۔
اب انہیں قتل کیا جائے تو کس گناہ کی بنا پر؟ آیا وہ نماز نہ پڑھنے سے کافر ہو جاتے ہیں اس لئے؟ یا مرتد یا فاسق ہو جاتے ہیں اس لئے؟ تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کے مذہب کی رو سے دو قول مشہور ہیں۔ ایک قول کی رو سے وہ کافر ہو جاتے ہیں اس لیے قتل کئے جائیں۔ دوسرے قول کے مطابق وہ فاسق ہیں اس لئے۔ اور اکثر سلف سے جو منقول ہے وہ اسی کے حامی ہیں کہ وہ کافر ہو جاتے ہیں، اس لیے ان کا قتل کرنا واجب ہے۔ اور یہ اس وقت ہے جبکہ وہ فرض و وجوب کا اقرار کریں اور نماز نہ پڑھیں۔ لیکن ایسا شخص کہ نماز کے فرض و وجوب کا انکار کرتا ہے تو وہ بالاتفاق کافر ہے بلکہ چھوٹے بچوں کے والیوں پر واجب ہے کہ اپنے چھوٹے بچوں کو جبکہ وہ سات سال کے ہو جائیں نماز پڑھنے کا حکم کریں۔ جب دس سال کے ہو جائیں تو مار مار کر نماز پڑھائیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکا حکم ہے:

مُرُوْھُمْ بِالصَّلٰوۃِ بِسَبْعٍ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا بِعَشْرٍ وَ فَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ
بچے جب سات برس کے ہوں تو ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو۔ اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر مارا کرو۔ اور ان کو علیحدہ سلاؤ۔

اسی طرح بچوں کو ضروریاتِ نماز، طہارتِ واجبہ سکھانا بھی ضروری ہے اور ضروریاتِ نماز میں یہ چیزیں بھی شامل ہیں۔ مسلمانوں کی مسجدیں آباد کریں۔ ان کے امام وغیرہ مقرر کریں اور انہیں حکم کریں کہ رسول اللہ ﷺجیسی نماز پڑھا کریں۔ اور ایسی نماز پڑھائیں کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے:

صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ (رواہ البخاری)
تم ایسی نماز پڑھو جیسی میں پڑھا کرتا ہوں۔

ایک مرتبہ آپ ﷺنے صحابہ y کو لے کر منبر کی ایک جانب نماز پڑھائی اور پھر فرمایا:

اِنَّمَا فَعَلْتُ ھٰذَا لِتَأتَمُوْا بِیْ وَلِتَعْلَمُوْا صَلَاتِیْ
میں نے یہ اس لیے کیا کہ تم میری اِقتدا ء کرو اور تم میری نماز سیکھ لو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور حکمران پر فرض ہے کہ نماز وغیرہ پر پوری نظر رکھے کہ ان کی نماز میں کسی قسم کا نقصان مقصود نہ ہو بلکہ حکمران پر لازم ہے کہ نماز کامل طور پر پڑھائے، جیسے منفرد پڑھتا ہے؛ اس طرح نہ پڑھائے کہ منفرد بوجہ عذر اقتصار بھی کر سکتا ہے۔ امام کا فرض ہے کہ وہ نمازیوں کی تمام ضروریات پر نگاہ رکھے۔
یہی حکم امام حج کا ہے کہ تمام حاجیوں کی ضروریات پر نظر رکھے اور انہیں حج کی ضروریات سکھائے۔ سپہ سالارِ لشکر کے لیے ضروری ہے کہ وہ لشکریوں پر پوری پوری نگاہ رکھے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وکیل اور ولی {یعنی مختارِ} بیع و شراء (خرید و فروخت) پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے مؤکل اور ولی بنانے والے {یعنی چیز کے مالک} کے مال کی نگرانی اور اس میں تصرف کس طرح کرتا ہے۔ اور جو اصلح {و احسن} طریقہ ہوتا ہے وہ اختیار کرتا ہے؛ یہاں تک کہ اپنا مال {اور کمیشن وغیرہ} بھی کچھ ضائع ہو جائے تو پرواہ نہیں کرتا لیکن اس {مالک} کے مال کی حفاظت کرتا ہے۔ تو یہ دین کا معاملہ ہے جو نہایت اہم ہے۔ اور اس معنی کی وضاحت فقہاء نے کی ہے۔ جب والیان امر {مثلاً: وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، چیف جسٹس، آئی جی پولیس، چیف آف آرمی، نیوی اور ائیر اسٹاف، صوبائی گورنرز، گورنر بینک دولت، وزراء اعلیٰ اور محکمہ جاتی وزراء، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس، ماتحت عدالتوں کے جج اور جج ریڈرز، ڈی،سی۔ اے،سی، مجسٹریٹ، کمشنر، کسٹم حکام اور ٹیکس افسران، ناظمین اور ناظمین اعلیٰ، کونسلرز وغیرہ وغیرہ}، والیان ملک {حاکمِ وقت} لوگوں کے دین کی اصلاح کریں گے تو دونوں گروہ کا دین اور دنیا درست ہو جائے گا۔ امیر و والی اور رعایا دونوں فلاح و بہبود کو پہنچیں گے۔ ورنہ معاملہ گڑبڑ ہو جائے گا، اور ان کو حکومت کرنا دشوار ہو جائے گی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور ان تمام باتوں کا ماحصل اور خلاصہ یہ ہے کہ رعیت کے لیے حسن نیت اور دین کے لیے اخلاص درکار ہے کہ اللہ کا دین ترقی کرے۔ اور وہ اللہ پر توکل و بھروسہ رکھے کیونکہ اخلاص و توکل ہی دو چیزیں ایسی ہیں جن پر خواص و عوام کی صلاح و بہبود موقوف ہے جیسا کہ ہمیں حکم ہوا ہے کہ ہم اپنی نماز میں یہ پڑھا کریں:

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ:4)
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

ان کلموں کے متعلق کہا گیا ہے کہ تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ اور نچوڑ اِن جملوں میں ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے:

مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ O اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ3۔4)
روز جزا کا حاکم ہے۔ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
''پڑھتے ہیں تو لوگوں کے سر اپنے کندھوں پر ہل جاتے ہیں''۔

اور اللہ نے قرآن میں بہت سی جگہ اس معنی کو ادا کیا ہے۔ مثلاً فرمایا:

فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ (ہود :123)
آپﷺ اسی کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ رکھیں۔

اور فرمایا:

عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ
میں تو اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

جب نبی کریم ﷺاپنے اضحیہ {یعنی قربانی کے جانور} کو ذبح کرتے تو فرماتے:

اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَ اِلَیْکَ
اے اللہ! یہ تیری جانب سے اور تیرے ہی لیے ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سب سے زیادہ، سب سے بڑی اعانت و امداد، جو ولی الامر اور حاکم {وقت} اور رعایا کو ملتی ہے وہ ان تین اُمور سے ملتی ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص، اسی رب پر توکل اور اُسی احکم الحاکمین سے دعا۔ اور اس کی محافظت نماز میں قلب و جسم کی محافظت سے ہوتی ہے۔

دوسرا یہ کہ مخلوق پر احسان کہ وہ (یعنی ولی الامر /حاکم یا قائد) اپنے مال سے لوگوں کو نفع پہنچائے، اور وہ زکوٰۃ و صدقات اور خیرات ہے جس سے نفع پہنچایا جا سکتا ہے۔

تیسرا امر یہ ہے کہ مخلوق کی ایذاء اور تکلیف پر صبر کرے۔ صبر سے کام لے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نماز اور صبر کو جمع کر دیا ہے، فرماتا ہے:

وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اور صبر اور نماز کا سہارا پکڑو۔(البقرۃ:45)

اور فرماتا ہے:

وَاَقِمِ الصَّلٰوۃِ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ اللَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذھِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذَالِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاکِرِیْنَ o وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ o

اور دن کے دونوں سرے صبح و شام اور اوائل شب نماز پڑھا کرو، کیونکہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ جو لوگ ذکر کرنے والے ہیں، ان کے حق میں یہ یاد دہانی ہے۔ اور عبادت کی تکلیف برداشت کرو کیونکہ اللہ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔

اور فرماتا ہے:

فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غَرُوْبَھَا
تو جیسی باتیں یہ کرتے ہیں، ان پر صبر کرو اور آفتاب نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کرو۔ (طہ:130)۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور فرماتا ہے:

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ o فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السَّاجِدِیْنَ o (حجر:98-97)
اور ہم کو معلوم ہے کہ یہ کافر کس کس طرح کی باتیں کہتے ہیں، ان کی وجہ سے تم تنگ ہوتے ہو۔ تو تم اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اور اس کی جناب میں سجدے کرو۔

اور نماز اور زکوٰۃ کو ایک ساتھ قرآن مجید میں بہت سی جگہ بیان کیا گیاہے۔ نماز، زکوٰۃ اور صبر سے حکمران اور رعایا، امیر و غریب دونوں کی اصلاح ہوتی ہے؛ جب ایک انسان اس معنی کو سمجھ لے، اور سمجھ کر نماز پڑھے اور ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو جائے، دعا کرے، اللہ کے قرآن کی تلاوت کرے اور اخلاصِ دین اور توکل علی اللہ کے ساتھ نماز پڑے اور زکوٰۃ و صدقات کے ذریعہ اللہ کی مخلوق پر احسان کرے، مظلوم کی نصرت و امداد کرے، غریب مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت کرے، اور محتاجوں کی حاجتیں پوری کرے۔ صحیحین میں رسول اللہ ﷺسے مروی ہے:
کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ
ہر اچھی بات صدقہ ہے۔

معروف میں ہر قسم کا احسان داخل ہے۔ خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ کلمہ طیبہ، اچھی بات کہنا ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ صحیحین میں سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا:

مَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اِلَّا سَیُکَلِّمُہ' رَبُّہٗ لَیْسَ بَیْنَ وَبَیْنَہٗ حَاجِبٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ فَیَنْظُرَ اَیْمَنَ مِنْہُ فَلَا یَرٰی اِلَّا شَیْئًا قَدَّمَہٗ وَ یَنْظُرَ اَشْاَمَ مِنْہُ فَلَا یَرٰی اِلَّا شَیْئًا قَدَّمَہٗ فَیَنْظُرُ اَمَامَہٗ فَتَسْتَقْبِلُہٗ النَّارُ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّتقِّیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ فَلْیَفْعَلْ فَاِنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ
تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے بات چیت کرے گا اور اللہ تعالیٰ اور اس (بندے) کے درمیان نہ کوئی پردہ ہو گا نہ ترجمان۔ یہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے وہی عمل نظر آئے گا جو اس نے پہلے بھیجا ہے اور بائیں جانب دیکھے گا تو وہ عمل نظر آئے گی جو اس نے پہلے بھیجا ہے۔ آگے دیکھے گا تو اسے آگ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ پس جو شخص تم میں سے چاہے کہ آگ سے بچ جائے تو صدقہ و خیرات کرے، اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی یہ بھی نہ پائے تو اچھی بات کرے اور جہنم کی آگ اپنے اوپر ٹھنڈی کروا لے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور سنن کے اندر سول اللہ ﷺسے مروی ہے، آپ نے فرمایا:

لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا وَلَوْ اَنْ تَلْقٰی اَخَاکَ وَ وَجْھُکَ اِلَیْہِ مُنْبَسِطٌ وَلَوْ اَنْ تَفْرَغَ مِنْ دَلُوِکَ فِیْ اِنَاء الْمُسْتَسْقِیْ
تم چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر مت سمجھو۔ اگرچہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملاقات کرو، اور اگرچہ تم اپنے ڈول سے پانی پینے والے کے برتن میں پانی ڈال دو(تو ضرور کرو)۔

اور سنن کے اندر رسول اللہ ﷺسے مروی ہے:

اِنَّ اَثْقَلَ مَا یُوْضَعُ فِی الْمِیْزَانِ اَلْخُلْقُ الْحَسَنُ
بھاری سے بھاری، وزنی چیز جو میزان میں رکھی جائے گی، اچھے اخلاق ہوں گے۔

اور نبی کریم ﷺسے مروی ہے، آپ نے اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

یَا اُمَّ سَلَمَۃَ ذَھَبَ حُسْنُ الْخُلْقِ بِخَیْرِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ

اے اُمّ سلمہ: حسن خلق دنیا اور آخرت کی بھلائی ساتھ لے گیا۔

صبر میں لوگوں کی تکالیف و ایذا برداشت کرنا، غصہ کو پی جانا، لوگوں کو معاف کر دینا، اور خواہشاتِ نفس کی مخالفت کرنا، شر اور فخر و غرور ترک کرنا وغیرہ داخل ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنَاھَا مِنْہُ اِنَّہٗ لَیَئُوسٌ کَفُوْرٌo وَلَئِنْ اَذْقْنَاہُ نَعْمَآئَ بَعْدَ ضَرَّائَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ذَھَبَ السَّیِّئَاتُ عَنِّیْ اِنَّہٗ لَفِرَحٌ فَخُوْرٌ o اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اُوْلٰئِٓکَ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ کَبِیْرٌ (ھود:10-9)
اور اگر ہم انسان کو اپنی مہربانی سے نوازیں پھر اس کو اس سے چھین لیں تو وہ نااُمید ہو جانے والا ناشکرا ہے۔ اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہو، اور اس کے بعد ہم اس کو آرام چکھائیں تو کہنے لگتا ہے کہ مجھ سے سب سختیاں دور ہو گئیں کیونکہ وہ بہت ہی خوش ہو جانے والا شیخی خور ہے۔ مگر جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں، یہی ہیں جن کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور اپنے پیغمبر ﷺسے خطاب کر کے فرمایا:

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَانَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o وَمَا یُلَقَّاھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقَّاھَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ o وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْعٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، برائی کو اچھے طریقے سے دُور کرو کہ وہ بہت ہی اچھا ہو، تو تم میں اور کسی شخص میں عداوت تھی تو اب ایک دم سے گویا وہ گرمجوش دوست ہو جائے گا۔ اور حسن معاملات کی توفیق ان ہی کو دی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ ان ہی کو دی جاتی ہے جن کے بڑے نصیب ہیں اور اگر تم کو کسی طرح کا شیطانی وسوسہ گدگدائے تو اللہ سے پناہ مانگ لیا کرو کہ وہی سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ (حم سجدہ:36-34)

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَۃٍ سَيِّئَۃٌ مِّثْلُہَا۝۰ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَي اللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِـمِيْنَ۝۴۰
اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، اس پر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ:40)۔

حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

اذا کان یوم القیامۃ نادٰی مناد من بطنان العرش الا لیقم من وجب اجرہ علی اللہ فلا یقوم الا من عفا و اصلح
قیامت کے دن عرش کے نیچے سے فرشتے پکاریں گے کہ وہ لوگ کھڑے ہو جائیں جن کا اجرو ثواب واجب ہوگیا ہے تو کوئی کھڑا نہ ہوگا سوائے اس کے کہ جس نے (دنیا میں) معاف کیا اور اصلاح کی۔
 
Top