محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
تو اگر وہ جیش اور لشکر جن تک رسول اللہ ﷺکا یہ فیصلہ پہنچے کہ رسول اللہ کی زبان اقدس نے یہ فیصلہ کیا ہے، تو یقینا اس پر عمل کریں گے۔
اور سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے اوپر والی حدیث میں یہ جملے بھی روایت کئے ہیں:
یَقْتُلُوْنَ اَھْلَ الْاِیْمَانِ وَیَدْعُوْنَ اَھْلَ الْاَوْثَانِ لَئِنْ اَدْرَکْتُھُمْ لَاَقْتَلَنَّھُمْ قَتْلَ عَادٍ (بخاری و مسلم) ۔
وہ اہل ایمان والوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو دعوت دیں گے۔ اگر میں (ﷺ) ان کو پاؤں گا تو قوم عاد کی طرح انہیں قتل کروں گا۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت ہے:
تَکُوْنُ اُمَّتِیْ فِرْقَتَیْنِ فَتَخْرُجُ مِنْ بَیْنِھِمَا مَارِقَۃٌ بَلٰی قَتْلَھُمْ اَوْلَی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ
میری اُمت دو فرقوں میں بٹ جائے گی، ان دونوں میں سے بے دین لوگ کھڑے ہو جائیں گے تو جو لوگ حق پر ہوں گے وہ ان کو قتل کریں گے۔
یہ وہی لوگ تھے جن سے امیر المؤمین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تھی جبکہ عراقی لوگوں میں اور شام کے لوگوں میں تفرقہ بازی ہوئی تھی۔ اور صحابہ کرام y نے ان کا نام حروریہ رکھا تھا۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دونوں گروہ آپ کی اُمت سے علیحدہ ہیں اور اصحابِ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں۔ آپ ﷺنے ان مارقین، بے دینوں کے سوا کسی سے جنگ کرنے کی تحریص و تحریک نہیں فرمائی بلکہ انہی لوگوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال کا حکم فرمایا جو اسلام سے خارج ہو گئے تھے، اور جماعت اسلام کو ترک کر دیا تھا۔ اور مسلمانوں کا خون اور مال اپنے لیے حلال و مباح کر لیا تھا۔
پس کتاب و سنت اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہو گیا کہ اس جماعت سے قتال و جنگ کی جائے جو شریعت اسلام سے خارج ہوں۔ اگرچہ وہ کلمہء شہادت یعنی لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کا زبان سے اقرار کریں۔
فقہاء کہتے ہیں اگر کوئی زبردست گروہ سنت کی مزاحمت کرے اور اسے ترک کرنے پر کمر بستہ ہوجائے مثلاً فجر کی دو سنتوں کاانکار کرے تو دونوں قول کے مطابق ان سے قتال و جنگ کی جائے۔ اور اگر واجبات اور محرمات ظاہرہ و ثابۃ و مشہورہ سے انکار کرے تو بالاتفاق ان سے جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزوں اور حج بیت اللہ کا التزام کر لیں اور محرمات مثلاً بہنوں وغیرہ سے نکاح کرنے، خبیث چیزوں کے کھانے اور مسلمانوں پر حکومت کرنے سے باز آجائیں، ایسے لوگوں سے قتال و جنگ واجب ہے۔اور قتال و جنگ اس وقت واجب ہے جبکہ دعوتِ نبوی ﷺان تک پہنچ جائے۔
اور سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے اوپر والی حدیث میں یہ جملے بھی روایت کئے ہیں:
یَقْتُلُوْنَ اَھْلَ الْاِیْمَانِ وَیَدْعُوْنَ اَھْلَ الْاَوْثَانِ لَئِنْ اَدْرَکْتُھُمْ لَاَقْتَلَنَّھُمْ قَتْلَ عَادٍ (بخاری و مسلم) ۔
وہ اہل ایمان والوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو دعوت دیں گے۔ اگر میں (ﷺ) ان کو پاؤں گا تو قوم عاد کی طرح انہیں قتل کروں گا۔
اور صحیح مسلم کی ایک روایت ہے:
تَکُوْنُ اُمَّتِیْ فِرْقَتَیْنِ فَتَخْرُجُ مِنْ بَیْنِھِمَا مَارِقَۃٌ بَلٰی قَتْلَھُمْ اَوْلَی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ
میری اُمت دو فرقوں میں بٹ جائے گی، ان دونوں میں سے بے دین لوگ کھڑے ہو جائیں گے تو جو لوگ حق پر ہوں گے وہ ان کو قتل کریں گے۔
یہ وہی لوگ تھے جن سے امیر المؤمین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تھی جبکہ عراقی لوگوں میں اور شام کے لوگوں میں تفرقہ بازی ہوئی تھی۔ اور صحابہ کرام y نے ان کا نام حروریہ رکھا تھا۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دونوں گروہ آپ کی اُمت سے علیحدہ ہیں اور اصحابِ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں۔ آپ ﷺنے ان مارقین، بے دینوں کے سوا کسی سے جنگ کرنے کی تحریص و تحریک نہیں فرمائی بلکہ انہی لوگوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال کا حکم فرمایا جو اسلام سے خارج ہو گئے تھے، اور جماعت اسلام کو ترک کر دیا تھا۔ اور مسلمانوں کا خون اور مال اپنے لیے حلال و مباح کر لیا تھا۔
پس کتاب و سنت اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہو گیا کہ اس جماعت سے قتال و جنگ کی جائے جو شریعت اسلام سے خارج ہوں۔ اگرچہ وہ کلمہء شہادت یعنی لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کا زبان سے اقرار کریں۔
فقہاء کہتے ہیں اگر کوئی زبردست گروہ سنت کی مزاحمت کرے اور اسے ترک کرنے پر کمر بستہ ہوجائے مثلاً فجر کی دو سنتوں کاانکار کرے تو دونوں قول کے مطابق ان سے قتال و جنگ کی جائے۔ اور اگر واجبات اور محرمات ظاہرہ و ثابۃ و مشہورہ سے انکار کرے تو بالاتفاق ان سے جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزوں اور حج بیت اللہ کا التزام کر لیں اور محرمات مثلاً بہنوں وغیرہ سے نکاح کرنے، خبیث چیزوں کے کھانے اور مسلمانوں پر حکومت کرنے سے باز آجائیں، ایسے لوگوں سے قتال و جنگ واجب ہے۔اور قتال و جنگ اس وقت واجب ہے جبکہ دعوتِ نبوی ﷺان تک پہنچ جائے۔