• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باب:21۔ جرح و زخم (ایکسیڈنٹ) کا قصاص۔۔ السیاسۃ الشرعیۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:21۔ جرح و زخم (ایکسیڈنٹ) کا قصاص
جرح و زخم (ایکسیڈنٹ) کا قصاص، ہاتھ پاؤںکاٹنے سے ہاتھ پاؤں کاٹا جائے گا۔ دانت توڑنے سے دانت توڑا جائے گا۔ کسی کا سر پھوڑا تو اس کا سر پھوڑا جائے گا۔

جرح و زخم میں قصاص واجب ہے، اور یہ کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے، بشرطیکہ مساوات ممکن ہو، اگر کسی نے کسی کا ہاتھ جوڑ سے توڑ دیا تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کا ہاتھ جوڑ سے توڑ دے۔ اگر کسی کا دانت توڑ دیا تو اس کے لیے جائز ہے کہ اس کا دانت توڑ دے۔ سر اور منہ زخمی کر دیا ہے ایسا کہ ہڈی نظر آنے لگ گئی تو اس کے لیے جائز ہے کہ اس کا سر اور منہ اسی طرح زخمی کر دے جس طرح اس نے زخمی کیا ہے۔

اگر ایسا اور اس طرح توڑ دیا یا زخمی کیا ہے کہ مساوات ممکن نہیں مثلاً اندر کی ہڈی توڑ دی ہے یا یہ کہ اس طرح زخمی کیا ہے کہ ہڈی نظر نہیں آتی تو اس میں قصاص نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تاوان اسے دینا پڑے گا۔

قصاص کی صورت یہ ہے کہ ہاتھ سے پیٹا جائے، یا لاٹھی یا کوڑے سے مارا جائے۔ مثلاً طمانچہ یا گھونسا لگائے، یا لاٹھی وغیرہ سے مارا جائے، علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اس میں قصاص نہیں ہے، بلکہ اس میں تعزیر ہے، کیونکہ اس میں مساوات اور برابری ممکن نہیں ہے۔ لیکن خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام y سے ماثور ہے کہ اس میں قصاص مشروع ہے۔ اور یہی امام احمد وغیرہ نے تصریح کی ہے۔ اور سنت نبوی ﷺ بھی یہی ہے۔ سیدنا ابو فراس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا، اس میں حدیث پیش کی، اس حدیث میں کہا:

اَلَا اِنِّیْ وَاللہِ مَا اُرْسِلُ عُمَّالِیْ اِلَیْکُمْ لِیَضْرِبُوْا اٰثَارَکُمْ وَلَا یَاْخُذُوْا اَمْوَالَکُمْ وَلٰکِنْ اُرْسِلْھُمْ اِلَیْکُمْ لِیُعَلِّمُوْکُمْ دِیْنَکُمْ وَ سُنَنَکُمْ فَمَنْ فَعَلَ بِہٖ سِویٰ ذَالِکَ فَلْیَرْفَعْہُ اِلَیَّ فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِذًا لَاُقْصِنَّہٗ
آگاہ رہو۔ قسم اللہ کی میں اپنے عمال (گورنر، وزیر اور افسر وغیرہ) تمہارے پاس اس لیے نہیںبھیجا کرتا کہ وہ تمہیں مار ماریں، نہ تمہارا مال لینے کو بھیجتا ہوں، بلکہ اس لیے بھیجتا ہوں کہ تم کو تمہارا دین اور سنتیں سکھائیں، پس جو اس کے سوا دوسرا کرے میرے پاس اس کی شکایت لائے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ان سے قصاص لوںگا۔

اس پر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے: امیر المؤمنین! اگر کوئی امیر مسلمانوں کی نگرانی کر رہا ہے، اور وہ اپنی رعایا کو ادب سکھاتا ہے، آپ اس سے بھی قصاص لیں گے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ہاں قسم اللہ کی میں اس سے بھی قصاص لوں گا۔ اور صرف میں ہی قصاص نہیںلیتا بلکہ رسول اللہ ﷺاپنی جان سے بھی قصاص لیتے تھے۔ خبردار تم مسلمانوں کو مت مارا کرو، ان کو ذلیل نہ کیا کرو، ان کے حقوق نہ روکا کرو، اس سے وہ لوگ کفر اختیار کر لیتے ہیں، یہ روایت مسند احمد وغیرہ میں موجود ہے۔

اس روایت کے معنی یہ ہیں کہ والی، حاکم ناجائز مار نہ مارا کریں، اگر مشروع مار ہو تو اجماع ہے، اس میں قصاص نہیں ہے، کیونکہ مشروع مار یا تو واجب ہو گی یا مستحب ہو گی، یا جائز ہو گی، اور ان تینوں میں قصاص نہیں ہے۔
 
Top