- شمولیت
- مارچ 07، 2012
- پیغامات
- 667
- ری ایکشن اسکور
- 742
- پوائنٹ
- 301
باجماعت نماز ادا کرنے کی فرضیت
بہت سارے لوگ نماز باجماعت ادا کرنے سے کوتاہی اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں،اور اس پر بعض علماء کے فتاویٰ کو بطور حجت پیش کرتے ہیں۔معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر میں نے ضروری سمجھا کہ اس خطرناک نظریہ کی وضاحت کر دوں ۔
کسی مسلمان کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جیسے عظیم الشان اور اہم ترین فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ،اورسینکڑوں احادیث میں نبی کریم ﷺ نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔اورپابندی کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((حَافِظُوْا عَلٰی الصَّلَوٰاتِ وَالصَّلَاۃِالْوُسْطیٰ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ)) [البقرۃ:۲۳۸]
دوسری جگہ فرمایا:’’ نمازوں کی حفاظت کرو،بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑ ے رہا کرو۔‘‘
((وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَآتُوْا الزَّکوٰۃَوَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ)) [البقرۃ:۴۳]
یہ آیات نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح اور صریح دلائل ہیں ۔اگر مقصود صرف نماز قائم کرناہی ہوتا تو آیت کے آخر میں’’اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دواور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘کے الفاظ نہ ہوتے ،جو نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح نص ہیں۔جبکہ نماز قائم کرنے کا حکم تو آیت کے پہلے حصہ ((وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃ))’’اور نمازوں کو قائم کرو ‘‘ میں ہی موجود ہے۔اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے ،جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حالت امن میں بالاولیٰ نماز باجماعت فرض ہے۔((وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ))
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((وَاِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَأَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلَاۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا أَسْلِحَتَھُمْ فَاِذَا سَجَد ُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَآئِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَأَسْلِحَتَھُمْ۔۔۔)) [النساء :۲ ۱۰ ]
اگرکسی کونماز بلاجماعت اداکرنے کی اجازت ہوتی تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو اجازت دیتے جو میدان جنگ میں دشمن کے سامنے صفیں بنائے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چائییے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو ،پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آجائے اور تمہارے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہیں۔‘‘
((لقد ھممت أن آمر بالصلاۃ فتقام ، ثم آمر رجلا أن یصلی بالناس،ثم أنطلق برجال معھم حزم من حطب الی قوم لا یشھدون الصلاۃ ،فأحرق علیھم بیوتھم۔۔۔۔))[بخاری، مسلم]
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے فرماتے ہیں:’’میرا ارادہ ہے کہ نماز کھڑی کر دی جائے ،پھر میں کسی شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں ،اور اپنے ساتھ چند لوگوں کو لے جاؤں جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں،اور نماز میں حاضر نہ ہونے والے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں۔‘‘
((لقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاۃ الا منافق علم نفاقہ ،أو مریض،وان کان المریض لیمشی بین الرجلین حتی یأتی الصلاۃ))[مسلم]
دوسرے مقام پر حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:’’کہ ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے ،اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا ،یا پھر مریض،اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لئے آجاتا۔
((ان رسول اللّٰہ ﷺ علمنا سنن الھدیٰ، وان من سنن الھدی الصلاۃ فی المسجد الذی یؤذن فیہ))
مزید فرماتے ہیں:’’کہ نبی کریمﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھلائے،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس مسجد میں اذان ہو اس میں جا کر نمازباجماعت ادا کرنا۔‘‘
جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ کل قیامت والے دن مسلمان ہو کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اسے چاہئیے کہ وہ نمازوں کی حفاظت کرے۔بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لئے ہدایت کے طریقے مشروع کئے ہیں ،جن میں سے نمازوں کی حفاظت بھی ہے ۔اور اگر تم نے گھروں میں ہی نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں تو تم نے اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا اور جب تم نے نبی کریم ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔جو شخص بھی گھر سے بہترین وضو کر کے مسجد کا رخ کرتا ہے ،تو اس کے ہر قدم کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے،ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے ،اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا ،یا پھر مریض،اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لئے آجاتا۔
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا!یا رسول اللہ !میرے پاس کوئی گائیڈ نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لے آیا کرے،کیا مجھے گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟نبی کریمﷺ نے پوچھا!
((ھل تسمع النداء بالصلاۃ؟))
‘‘اس صحابی نے کہا !ہاں یا رسول اللہﷺ!تو اللہ کے نبی نے فرمایا:’’کیا تو اذان کی آواز سنتا ہے؟
((فأجب ))
نماز باجماعت کی فرضیت ،اور مساجد میں قیام ِنماز کے وجوب پر دلالت کرنے والی أحادیث کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔لہذا ہر مسلمان پر نمازکا خیال رکھنا،اس کی طرف جلدی کرنا،اپنے اہل وعیال پڑوسی اور تمام مسلمانوں کو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔تا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اوامر پر عمل ہو اور نواہی سے بچا جاسکے،اور انسان منافقین کی صفات سے دور رہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی صفات بیان کرتے ہو ئے ان کی یہ صفت بھی بیان کی کہ وہ نمازوں میں سستی کرتے ہیں ۔’’اگر تو اذان کی آواز سنتا ہے تو پھر اس ندا پر لبیک کہہ (یعنی مسجد میں ہی آکر نماز ادا کر)‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ وَاِذَا قَامُوْا اِلیٰ الصَّلَاۃقَامُوْا کُسَالیٰ یُرَآئُ ْونَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلاً٭مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لاَ اِلٰی ھٰؤٓلآئِ وَلاَ اِلٰی ھٰؤٓلآئِ وَمَنْ یُضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلاً))[النسائ:۱۴۳]
جان بوجھ کربلا عذر نماز چھوڑنا کفر،گمراہی اور دائرہ اسلام سے خروج ہے،نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے،اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں۔وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں،نہ پورے ان کی طرف نہ صحیح ان کی طرف،اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے توتو اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا۔‘‘نماز باجماعت ادا کرنے سے پیچھے رہ جانا، نماز چھوڑنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
((بین الرجل وبین الکفر والشرک ترک الصّلاۃ))[مسلم]
دوسری جگہ فرمایا:’’مومن اور کافر ومشرک کے درمیان حدّ فاصل نماز ہے۔‘‘
((العھدالذی بیننا وبینھم الصّلاۃ فمن ترکھا فقد کفر)) [احمد]
تیسری جگہ فرمایا:’’ہمارے اورکافروں کے درمیان نماز کا عہد ہے،جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔‘‘
((رأس الأمر الاسلام وعمودہ الصّلاۃ))[احمد]
نماز باجماعت کی فرضیت ،اور مساجد میں قیام ِنماز کے وجوب پر دلالت کرنے والی أحادیث کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔لہذا ہر مسلمان پر نمازکا خیال رکھنا،اس کی طرف جلدی کرنا،اپنے اہل وعیال پڑوسی اور تمام مسلمانوں کو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔تا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اوامر پر عمل ہو اور نواہی سے بچا جاسکے،اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے حفاظت ہو سکے۔’’معاملے کی چوٹی اسلام ہے اور اس کاستون نماز ہے۔‘‘
مذکورہ قرآنی آیات اور أحادیث مبارکہ سے حق واضح ہو جانے کے بعد کسی مسلمان کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ نمازوں میں سستی کرے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات پر کسی عالم دین کے فتوے کو ترجیح دے اور کہے کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((یَأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ اْلآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً))[النسائ:۵۹]
دوسری جگہ فرمایا:’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہ ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تواسے لوٹاؤ،اللہ کی طرف اور رسول کی طرف،اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ہے۔یہ بہت بہترہے اورباعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ ‘‘
((فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ)) [النور:۶۳]
بہرحال ولاۃ الامر(ذمہ داران قوم وملت) پرواجب ہے کہ تارک نماز سے توبہ کروائیں۔اگروہ توبہ کر لے تو درست، ورنہ ادلہ واردہ کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے۔ نماز باجماعت ادا کرنے میں بہت ساری مصلحتیں اور فوائد ہیں جو کسی سے مخفی نہیں۔اس سے نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہوتا ہے۔ایک دوسرے کی مشکلات کا علم ہوتا ہے جن کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔پیچھے رہ جانے والے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جاہل کو تعلیم ملتی ہے،اور شعائر اللہ کا اظہار ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔’’سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئیے کہ کہیں ان پر کوئی زبر دست آفت نہ آن پڑے یا انہیں درد ناک عذاب (نہ ) پہنچے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نیک بنائے اور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے اور ہمیں وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کو وہ پسند کرتا ہے۔آمین
ماخوذ از مقالات فضیلۃ الشیخ/ عبد العزیز بن عبد اللّٰہ بن باز