• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

باجماعت نماز ادا کرنے کی فرضیت

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
667
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
باجماعت نماز ادا کرنے کی فرضیت

بہت سارے لوگ نماز باجماعت ادا کرنے سے کوتاہی اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں،اور اس پر بعض علماء کے فتاویٰ کو بطور حجت پیش کرتے ہیں۔معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر میں نے ضروری سمجھا کہ اس خطرناک نظریہ کی وضاحت کر دوں ۔
کسی مسلمان کے لئے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جیسے عظیم الشان اور اہم ترین فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ،اورسینکڑوں احادیث میں نبی کریم ﷺ نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔اورپابندی کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((حَافِظُوْا عَلٰی الصَّلَوٰاتِ وَالصَّلَاۃِالْوُسْطیٰ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ)) [البقرۃ:۲۳۸]
’’ نمازوں کی حفاظت کرو،بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑ ے رہا کرو۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَآتُوْا الزَّکوٰۃَوَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ)) [البقرۃ:۴۳]
’’اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دواور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
یہ آیات نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح اور صریح دلائل ہیں ۔اگر مقصود صرف نماز قائم کرناہی ہوتا تو آیت کے آخر میں
((وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ))
’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘کے الفاظ نہ ہوتے ،جو نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح نص ہیں۔جبکہ نماز قائم کرنے کا حکم تو آیت کے پہلے حصہ ((وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃ))’’اور نمازوں کو قائم کرو ‘‘ میں ہی موجود ہے۔اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے ،جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حالت امن میں بالاولیٰ نماز باجماعت فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((وَاِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَأَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلَاۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا أَسْلِحَتَھُمْ فَاِذَا سَجَد ُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَآئِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَأَسْلِحَتَھُمْ۔۔۔)) [النساء :۲ ۱۰ ]
’’جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چائییے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو ،پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آجائے اور تمہارے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہیں۔‘‘
اگرکسی کونماز بلاجماعت اداکرنے کی اجازت ہوتی تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کو اجازت دیتے جو میدان جنگ میں دشمن کے سامنے صفیں بنائے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
((لقد ھممت أن آمر بالصلاۃ فتقام ، ثم آمر رجلا أن یصلی بالناس،ثم أنطلق برجال معھم حزم من حطب الی قوم لا یشھدون الصلاۃ ،فأحرق علیھم بیوتھم۔۔۔۔))[بخاری، مسلم]
’’میرا ارادہ ہے کہ نماز کھڑی کر دی جائے ،پھر میں کسی شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں ،اور اپنے ساتھ چند لوگوں کو لے جاؤں جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں،اور نماز میں حاضر نہ ہونے والے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے فرماتے ہیں:
((لقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاۃ الا منافق علم نفاقہ ،أو مریض،وان کان المریض لیمشی بین الرجلین حتی یأتی الصلاۃ))[مسلم]
’’کہ ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے ،اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا ،یا پھر مریض،اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لئے آجاتا۔
دوسرے مقام پر حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
((ان رسول اللّٰہ ﷺ علمنا سنن الھدیٰ، وان من سنن الھدی الصلاۃ فی المسجد الذی یؤذن فیہ))
’’کہ نبی کریمﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھلائے،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس مسجد میں اذان ہو اس میں جا کر نمازباجماعت ادا کرنا۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ کل قیامت والے دن مسلمان ہو کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اسے چاہئیے کہ وہ نمازوں کی حفاظت کرے۔بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لئے ہدایت کے طریقے مشروع کئے ہیں ،جن میں سے نمازوں کی حفاظت بھی ہے ۔اور اگر تم نے گھروں میں ہی نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں تو تم نے اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا اور جب تم نے نبی کریم ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔جو شخص بھی گھر سے بہترین وضو کر کے مسجد کا رخ کرتا ہے ،تو اس کے ہر قدم کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے،ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے ،اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا ،یا پھر مریض،اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لئے آجاتا۔
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا!یا رسول اللہ !میرے پاس کوئی گائیڈ نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لے آیا کرے،کیا مجھے گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟نبی کریمﷺ نے پوچھا!
((ھل تسمع النداء بالصلاۃ؟))
’’کیا تو اذان کی آواز سنتا ہے؟
‘‘اس صحابی نے کہا !ہاں یا رسول اللہﷺ!تو اللہ کے نبی نے فرمایا:
((فأجب ))
’’اگر تو اذان کی آواز سنتا ہے تو پھر اس ندا پر لبیک کہہ (یعنی مسجد میں ہی آکر نماز ادا کر)‘‘
نماز باجماعت کی فرضیت ،اور مساجد میں قیام ِنماز کے وجوب پر دلالت کرنے والی أحادیث کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔لہذا ہر مسلمان پر نمازکا خیال رکھنا،اس کی طرف جلدی کرنا،اپنے اہل وعیال پڑوسی اور تمام مسلمانوں کو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔تا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اوامر پر عمل ہو اور نواہی سے بچا جاسکے،اور انسان منافقین کی صفات سے دور رہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی صفات بیان کرتے ہو ئے ان کی یہ صفت بھی بیان کی کہ وہ نمازوں میں سستی کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ وَاِذَا قَامُوْا اِلیٰ الصَّلَاۃقَامُوْا کُسَالیٰ یُرَآئُ ْونَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلاً٭مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لاَ اِلٰی ھٰؤٓلآئِ وَلاَ اِلٰی ھٰؤٓلآئِ وَمَنْ یُضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلاً))[النسائ:۱۴۳]
’’بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے،اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں۔وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں،نہ پورے ان کی طرف نہ صحیح ان کی طرف،اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے توتو اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا۔‘‘نماز باجماعت ادا کرنے سے پیچھے رہ جانا، نماز چھوڑنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔
جان بوجھ کربلا عذر نماز چھوڑنا کفر،گمراہی اور دائرہ اسلام سے خروج ہے،نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((بین الرجل وبین الکفر والشرک ترک الصّلاۃ))[مسلم]
’’مومن اور کافر ومشرک کے درمیان حدّ فاصل نماز ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((العھدالذی بیننا وبینھم الصّلاۃ فمن ترکھا فقد کفر)) [احمد]
’’ہمارے اورکافروں کے درمیان نماز کا عہد ہے،جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔‘‘
تیسری جگہ فرمایا:
((رأس الأمر الاسلام وعمودہ الصّلاۃ))[احمد]
’’معاملے کی چوٹی اسلام ہے اور اس کاستون نماز ہے۔‘‘
نماز باجماعت کی فرضیت ،اور مساجد میں قیام ِنماز کے وجوب پر دلالت کرنے والی أحادیث کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔لہذا ہر مسلمان پر نمازکا خیال رکھنا،اس کی طرف جلدی کرنا،اپنے اہل وعیال پڑوسی اور تمام مسلمانوں کو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔تا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اوامر پر عمل ہو اور نواہی سے بچا جاسکے،اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے حفاظت ہو سکے۔
مذکورہ قرآنی آیات اور أحادیث مبارکہ سے حق واضح ہو جانے کے بعد کسی مسلمان کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ نمازوں میں سستی کرے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات پر کسی عالم دین کے فتوے کو ترجیح دے اور کہے کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
((یَأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلٰی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ اْلآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً))[النسائ:۵۹]
’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اللہ ﷺ کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تواسے لوٹاؤ،اللہ کی طرف اور رسول کی طرف،اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ہے۔یہ بہت بہترہے اورباعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ ‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ)) [النور:۶۳]
’’سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئیے کہ کہیں ان پر کوئی زبر دست آفت نہ آن پڑے یا انہیں درد ناک عذاب (نہ ) پہنچے۔ ‘‘
بہرحال ولاۃ الامر(ذمہ داران قوم وملت) پرواجب ہے کہ تارک نماز سے توبہ کروائیں۔اگروہ توبہ کر لے تو درست، ورنہ ادلہ واردہ کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے۔ نماز باجماعت ادا کرنے میں بہت ساری مصلحتیں اور فوائد ہیں جو کسی سے مخفی نہیں۔اس سے نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہوتا ہے۔ایک دوسرے کی مشکلات کا علم ہوتا ہے جن کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔پیچھے رہ جانے والے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جاہل کو تعلیم ملتی ہے،اور شعائر اللہ کا اظہار ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نیک بنائے اور ہمارے نیک اعمال کو قبول فرمائے اور ہمیں وہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کو وہ پسند کرتا ہے۔آمین
ماخوذ از مقالات فضیلۃ الشیخ/ عبد العزیز بن عبد اللّٰہ بن باز
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ الصُّورِيُّ : كَانَ سَعِيدٌ إِذَا فَاتَتْهُ صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ بَكَى
ترجمہ: محمد بن مبارک الصوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: جب سعید بن عبد العزیز التنوخی رحمہ اللہ کی صلاۃ باجماعت فوت ہوجاتی تو وہ رونے لگتے.
(سیر اعلام النبیلاء, تذکرۃ الحفاظ)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
نماز با جماعت کی اہمیت بے نمازی کا شرعی حکم


نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اور سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کلمہ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے ۔اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے ۔ بے نماز ی کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔
فرد ومعاشرہ کی اصلاح کے لیے نماز ازحد ضروری ہے ۔ نماز فواحش ومنکرات سےانسان کو روکتی ہے ۔بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے ۔ قرآن وحدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیاد ہ تلقین کی گئی ہے ۔ اور نمازکی عدم ادائیگی پر وعید کی گئی ہے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قد ر اہم ہے کہ سفر وحضر اور میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔نماز کی اہمیت وفضیلت کے متعلق بے شمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں او ر بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس موضوع پر کتب تالیف کی ہیں ۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد وزن کےلیے ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہوگی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی ۔او ر ہمارے لیے نبی اکرم ﷺکی ذات گرامی ہی اسوۂ حسنہ ہے ۔انہیں کے طریقے کےمطابق نماز ادا کی جائے گئی تو اللہ کے ہاں مقبول ہے ۔
اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا صلو كما رأيتموني اصلي لہذا ہر مسلمان کےلیے رسول للہ ﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔
زیر تبصرہ کتابچہ ایک عربی رسالہ ’’ثلاث رسائل فی الصلاۃ ‘‘ کا ترجمہ ہے اس میں نماز باجماعت کی اہمیت پر شیخ ابن باز ،بے نمازی کا شرعی حکم کے متعلق شیخ صالح العثیمین اور دوران نماز چند غلطیوں کی نشاندہی از شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمٰن الجبرین کی عربی تحریروں کا ترجمہ شامل ہے ۔ ان تینوں عربی رسائل کو اردو قالب میں اسرار الحق عبید اللہ نے ڈھالا ہے ۔(م۔ا)
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
بِسْمِِ اﷲِ الرَّحِمٰنِ الرَّحِیمِْ

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الْعَاقِبَۃُ لِلِمُتَّقِیْنَ وَلاَ عُدْوَانَ اِالاَّعَلِی الظاَّلِمِیِنَ وَالسَّلاَمُ عَلٰی اشْرَفِ الاْنْبِیَأِٓ وَالْمَرْسَلِیْنَ وَعَلَیٰ اٰلِہٖ وَصَحَبِہٖ وَاَھَلِ طَاعَتِہِ اَجْمَعِیْنَ اِلٰی یَوْمِ الْدِّیْنِ وَبَعْدُ :



ایک ارجنٹ خط
مسجد کے پڑوسی اوراذان سننے والے ہر (بھائی)کے نام

اس رسالے میں قرآن وحدیث کے قطعی دلائل سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ اذان سننے والے ہرمسلمان پر نماز باجماعت ادا کرنا فرض اور متعین ہو جاتا ہے اور بلا عذر شرعی جماعت کے ترک سے وہ نماز عنداللہ مقبول نہیں ہوگی۔

رسو ل اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے لوگو ں کے گھر جلا کرخاکستر کر دینے پر تیار ہو گئے تھے،جو گھروں میں نماز پڑھتے ہیں اور باجماعت نماز اداکرنے کے لئے مسجدوں میں حاضرنہیں ہوتے ۔لیکن پھر بچوں،عورتوں اور شرعی عذر رکھنے والوں کی وجہ سے یہ ارادہ ترک فرمادیا۔ اذان سن کر جماعت چھوڑ دینے کی رخصت آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس نابینا صحابی کو بھی نہیں دی تھی جس نے کسی قائد نہ ہونے اور راستے میں مختلف درندوں اور موذی جانوروں کے خدشہ سے مسجدمیں حاضر نہ ہو سکنے اورگھرمیں نماز پڑھ لینے کی اجازت چاہی تھی۔
ترک جماعت کی اگر کچھ رخصت ہوتی تو محاذ جنگ پر ہوتی ،جہاں دشمنوں کی صفیں سامنے ہوتی ہیں ان کے حملہ آور ہونے کا خوف ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اس موقعہ پرشریعت نے تعداد رکعات اور نماز کے دیگر آداب میں تو ترمیم کردی، لیکن جماعت کی پابندی نہیں چھوڑی۔

برادران اسلام ! پھر اس حقیقت پر بھی غور کیجئے کہ باجماعت نماز ادا کرنے کی فضیلت کس قدر ہے؟ رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے باجماعت نماز ادا کرنے والے کی نماز کو منفرد کی نماز پر ستائیس گنا زیادہ اجر کا حامل قرار دیا ہے۔
رسو ل اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے قیامت کے دن میدان محشر میں جن سات افراد کو اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے سے فیضیاب ہونے کی بشارت سنائی ہے، ان میں سے ایک فرد کے بارے میں یوں فرمایا :
وَرَجَلُ‘ قَلْبُہ، مُعَلَّقُ‘ بِالْمَسْجِدِیعنی
وہ شخص ا للہ تعالیٰ کے سائے تلے ہوگا ،جس کا دل ہر لحظہ مسجد کے ساتھ معلق ومربوط ہو۔

حضرات! ان عظیم سعادتوں کو سمیٹنے کے لئے اگر کچھ چل کرجانا پڑے تو جانا چاہیے ۔اس کا رسو ل اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیث میں الگ اجر مذکور ہے:۔
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایاکہ کیا میں تم کو نہ بتلاؤں وہ باتیں جن سے گناہ مٹ جائیں اور درجے بلند ہوں؟ (پھر فرمایا) پورا کرنا وضو کا سختی اورتکلیف میں اورمساجد کی طرف زیادہ سے زیادہ قدموں کا اٹھانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کاانتظار کرنا۔یہی تمہارا رباط (راہ خدا میں اسلامی سرحدوں کے لئے پہرہ دینا) ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ(صلی اللہ علیہ وسلم) قَالَ اَلاَ اخْبِِرُوْکُمْ بِمَا یَمْحُوا اﷲُ بِہِ الَخَطَایَا وَیَرْفَعُ بِہِ الدَّرَجَاتِ اسِبَاغُ الْوُ ضُؤِ عَلَی الممَکَارِہِ وَکَثَرَۃُ الْخُطَا اِلَی الُمسَاجِدِ وَ وَاِنْتِظَاَرُ الصَّلاَۃِ بَعَد َ الصَّلاَۃِ وَذلِکُمُ الرَّبَاطُ
(صحیح مسلم)

تو غور کیجئے ! ان اعمال کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے درجات کی بلندی ،گناہوں کی مغفرت اور اسلامی سرحد پر دشمنوں کے بالمقابل کھڑے ہوکر رات بھر پہرہ دینے کے مترادف قراردیا ہے۔ مساجد کی طرف جانے کا وہ ثواب ہے جو با جماعت نماز پڑھنے کے علاوہ مستزاد ہے۔

ایک حدیث میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے نماز باجماعت کی ادائیگی کے لئے تاریکیوں اور اندھیروں میں چل کر جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی بشارت سنائی ہے۔

قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اس رسالے کا بغور مطالعہ کریں۔ رسالے کی افادیت بڑھانے کے لئے سعودی عرب کی ممتاز علمی شخصیات کا فتویٰ نیز سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز اورفضیلۃ الشیخ صالح بن عثیمین کے چند فتاوٰے شامل کئے گئے ہیں۔

یہ دونوں شیوخ دین اسلام کے زبردست ستون ہیں،ان کا عصر حاضر کے نامور محدثین میں شمار ہوتا ہے اور عالم اسلام میں ان کی کتابوں اورفتاویٰ کوخصوصی اہمیت اورقدر کی نگاہوںسے دیکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالی ان کی ذات کو اسلام اور مسلمانوں کے لئے مزید نفع کا باعث بنائے۔

مسجد میں نماز با جماعت کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن امام کا صحیح العقیدہ ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بد عقیدہ کا کوئی عمل مقبول نہیں،چہ جائیکہ اس کی اقتدا میں لوگوں کی نماز مقبول ہو۔ اس مسئلہ کی تفصیل کے لئے ہمارے شیخ علامہ ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ امیر جمعیت اہل حدیث سندھ کے رسالہ بنام "امام صحیح العقیدہ ہونا چاہیے" کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
زیر نظر کتاب کے ترجمہ کی سعادت مولانا عبدالغفار جونیجو کومیسر آئی ہے، جن کا امتیاز یہ ہے کہ وہ علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ کے کاتب اوران کے سفر وحضر کے ساتھی ہیں۔ اس سے قبل وہ اس رسالہ کوسندھی کے قالب میں ڈھال کرشائع کراچکے ہیں ۔ فجزاہ اللہ فی الدارین خیراً الجزاء

آخر میں مؤلف محترم الشیخ محمد بن عبدالعزیز المسند کے لئے اخلاص اوراجر جزیل کی دعاکرتا ہوں اللہ تعالیٰ ان کے علم وفضل کا نفع عام کرے وفّقہ اللہ المزید ما یحبہ ویرضاہ

اس کتاب کے ترجمعہ ،اشاعت وطباعت میں جس کا جو بھی مقصد ہو، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اورہم سب کو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے طریقہ مبارک کے مطابق نماز باجماعت اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کتبہ : عبداللہ ناصر رحمانی
امیرجمعیت اہل حدیث سندھ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟» قَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ»
(صحیح مسلم،کتاب الطہارۃ)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم کو نہ بتاؤں وہ باتیں جن سے گناہ مٹ جائیں (یعنی معاف ہو جائیں یا لکھنے والوں کے دفتر مٹ جائیں) اور درجے بلند ہوں۔“ (جنت میں) لوگوں نے کہا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا کرنا وضو کا سختی اور تکلیف میں (جیسے جاڑے کی شدت میں یا بیماری میں) اور بہت ہونا قدموں کا مسجد تک۔ (اس طرح کہ مسجد گھر سے دور ہو اور بار بار جائے) اور انتظار کرنا دوسری نماز کا ایک نماز کے بعد یہی «رباط» ہے۔“ (یعنی نفس کا روکنا عبادات کیلئے یا وہ «رباط» ہے جو جہاد میں ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے «ورابطوا»)۔
 
Top