• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم بادشاہوں اور اُمراء کے نام خطوط

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بادشاہوں اور اُمراء کے نام خطوط

۶ ھ کے اخیر میں جب رسول اللہﷺ حدیبیہ سے واپس تشریف لائے تو آپ نے مختلف بادشاہوں کے نام خطوط لکھ کر انہیں اسلام کی دعوت دی۔
آپ نے ان خطوط کے لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے کہا گیا کہ بادشاہ اسی صورت میں خطوط قبول کریں گے جب ان پر مہر لگی ہو۔ اس لیے نبیﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی ، جس پر محمد رسول اللہ نقش تھا۔ یہ نقش تین سطروں میں تھا۔ محمد ایک سطر میں،رسول ایک سطر میں ، اور اللہ ایک سطر میں ، شکل یہ تھی :
1پھر آپﷺ نے معلومات رکھنے والے تجربہ کار صحابہ کو بطور قاصد منتخب فرمایا۔ اور انہیں بادشاہوں کے پاس خطوط دے کر روانہ فرمایا۔علامہ منصور پوری نے جزم کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آپ نے یہ قاصد اپنی خیبر روانگی سے چند دن پہلے یکم محرم ۷ ھ کو روانہ فرمائے تھے۔ 2اگلی سطور میں وہ خطوط اور ان پر مرتّب ہونے والے کچھ اثرات پیش کیے جارہے ہیں۔
۱۔ نجاشی شاہ حبش کے نام خط:
اس نجاشی کا نام اَصْحَمہ بن اَبْجَر تھا۔ نبیﷺ نے اس کے نام جو خط لکھا اسے عَمرو بن امیہ ضمری کے بدست ۶ ھ کے اخیر یا ۷ ھ کے شروع میں روانہ فرمایا۔ طبری نے اس خط کی عبارت ذکر کی ہے ، لیکن اسے بنظر ِ غائر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وہ خط نہیں جسے رسول اللہﷺ نے صلح حدیبیہ کے بعد لکھا تھا بلکہ یہ غالباً اس خط کی عبارت ہے جسے آپ نے مکی دور میں حضرت جعفر کو ان کی ہجرت ِ حبشہ کے وقت دیا تھا۔ کیوں کہ خط کے اخیر میں ان مہاجرین کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے :
((وقد بعثت إلیکم ابن عمی جعفراً ومعہ نفر من المسلمین، فإذا جاء ک فاقرہم ودع التجبر ))
''میں نے تمہارے پاس اپنے چچیرے بھائی جعفر کو مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ کیاہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح بخاری ۲/۸۷۲، ۸۷۳
2 رحمۃ للعالمین ۱/۱۷۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جب وہ تمہارے پاس پہنچیں تو انہیں اپنے پا س ٹھہرانا اور جبر اختیار نہ کرنا۔''
بیہقی نے ابن عباسؓ سے ایک اور خط کی عبارت روایت کی ہے جسے نبیﷺ نے نجاشی کے پاس روانہ کیا تھا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے :
''یہ خط ہے محمد نبی کی طرف سے نجاشی اصحم شاہ ِ حبش کے نام ، اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اس نے نہ کوئی بیوی اختیار کی نہ لڑکا۔ اور ( میں اس کی بھی شہادت دیتاہوں کہ ) محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ اور میںتمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں کیوں کہ میں اس کا رسول ہوں۔ لہٰذا تم اسلام لاؤ سلامت رہوگے۔'' اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور عبادت نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے بعض بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائے۔ پس آگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں ۔'' اگر تم نے(یہ دعوت ) قبول نہ کی تو تم پر اپنی قوم کے نصاریٰ کا گناہ ہے۔''1
ڈاکڑ حمیداللہ صاحب (پاریس ) نے ایک اور خط کی عبارت درج فرمائی ہے۔ جو ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے اور صرف ایک لفظ کے اختلاف کے ساتھ یہی خط علامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں بھی موجود ہے۔ ڈاکٹرصاحب موصوف نے اس خط کی عبارت کی تحقیق میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ دَورِ جدید کے اکتشافات سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے اور اس خط کا فوٹو کتا ب کے اندر ثبت فرمایا ہے۔
اس کا ترجمہ یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی جانب سے نجاشی عظیم حبشہ کے نام !!
اس شخص پرسلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ امابعد!میں تمہاری طرف اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں،جو قدوس اور سلام ہے۔ امن دینے والا محافظ ونگراں ہے۔ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ اللہ نے انہیں پاکیزہ اور پاکدامن مریم بتول کی طرف ڈال دیا۔ اور اس کی روح اور پھونک سے مریم عیسیٰ کے لیے حاملہ ہوئیں۔ جیسے اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ میں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی جانب اور اس کی اطاعت پر ایک دوسرے کی مددکی جانب دعوت دیتا ہوں۔ اور اس بات کی طرف (بلاتا ہوں ) کہ تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میرے پاس آیا ہے اس پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ میں اللہ کا رسول (ﷺ ) ہوں۔ اور میں تمہیں اور تمہارے لشکر کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہوں۔ اورمیں نے تبلیغ ونصیحت کردی۔ لہٰذا میری نصیحت قبول
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دلائل النبوۃ ، بیہقی ۲/۳۰۸ ، مستدر ک حاکم ۲/۶۲۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کرو۔ اور اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔''1
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے بڑے یقینی انداز میں کہا ہے کہ یہی وہ خط ہے جسے رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے بعد نجاشی کے پاس روانہ فرمایا تھا۔ جہاں تک اس خط کی استنادی حیثیت کا تعلق ہے تو دلائل پر نظر ڈالنے کے بعد اس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں رہتا ، لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ نبیﷺ نے حدیبیہ کے بعد یہی خط روانہ فرمایاتھا۔ بلکہ بیہقی نے جو خط ابن عباس ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے اس کا انداز ان خطوط سے زیادہ ملتا جُلتا ہے جنہیں نبیﷺ نے حدیبیہ کے بعد عیسائی بادشاہوں اور اُمراء کے پاس روانہ فرمایا تھا کیونکہ جس طرح آپ نے ان خطوط میں آیت کریمہ قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِ‌كَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْ‌بَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (۳: ۶۴) درج فرمائی تھی ، اسی طرح بیہقی کے روایت کردہ خط میں بھی یہ آیت درج ہے۔ علاوہ ازیں اس خط میں صراحتاً اصحمہ کا نام بھی موجود ہے۔ جبکہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے نقل کردہ خط میں کسی کانام نہیں ہے۔ اس لیے میرا گمان غالب یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا نقل کردہ خط درحقیقت وہ خط ہے جسے رسول اللہﷺ نے اصحمہ کی وفات کے بعد اس کے جانشین کے نام لکھا تھا اورغالباً یہی سبب ہے کہ اس میں کوئی نام درج نہیں۔
اس ترتیب کی میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ اس کی بنیاد صرف وہ اندرونی شہادتیں ہیں جو ان خطوط کی عبارتوں سے حاصل ہوتی ہیں۔ البتہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب پر تعجب ہے کہ موصوف نے ادھر ابن ِ عباسؓ کی روایت سے بیہقی کے نقل کردہ خط کو پورے یقین کے ساتھ نبیﷺ کا وہ خط قرار دیا ہے جو آپ نے اصحمہ کی وفات کے بعد اس کے جانشین کے نام لکھا تھا۔ حالانکہ اس خط میں صراحت کے ساتھ اصحمہ کا نام موجود ہے۔ والعلم عند اللّٰہ۔ 2
بہرحال جب عَمرو بن امیہ ضمریؓ نے نبیﷺ کا خط نجاشی کے حوالے کیا تو نجاشی نے اسے لے کر آنکھ پر رکھا اور تخت سے زمین پر اتر آیا۔ اور حضرت جعفر بن ابی طالب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اور نبیﷺ کے پاس اس بارے میں خط لکھا جو یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی خدمت میں نجاشی اصحمہ کی طرف سے !!
اے اللہ کے نبی! آپ پر اللہ کی طرف سے سلام اور اس کی رحمت اور برکت ہو۔ وہ اللہ جس کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں۔ اما بعد!
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: رسول اکرم کی سیاسی زندگی ، مولفہ ڈاکٹر حمید اللہ ص ۱۰۸ ، ۱۰۹ ، ۱۲۲، ۱۲۳ ، ۱۲۴، ۱۲۵، زاد المعاد میں آخری فقرہ والسلام علی من اتبع الہدی کے بجا ئے أسلم أنت ہے۔ دیکھئے: زاد المعاد ۳/۶۰
2 دیکھئے: ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی کتاب ''حضور اکرم کی سیاسی زندگی از ص ۱۰۸ تا ۱۱۴ واز ص ۱۲۱ تا ۱۳۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ کا گرامی نامہ ملا۔ جس میں آپ نے عیسیٰ ؑ کا معاملہ ذکر کیا ہے۔ رب آسمان وزمین کی قسم! آپ نے جو کچھ فرمایا ہے حضرت عیسیٰ اس سے ایک تنکہ بڑھ کر نہ تھے۔ وہ ویسے ہی ہیں جیسے آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ 1پھر آپ نے جو کچھ ہمارے پاس بھیجا ہے ہم نے اسے جانا اور آپ کے چچیرے بھائی اور آپ کے صحابہ کی مہمان نوازی کی۔ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے اور پکے رسول ہیں۔ اور میں نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے چچیرے بھائی سے بیعت کی۔ اور ان کے ہاتھ پر اللہ رب العالمین کے لیے اسلام قبول کیا۔2
نبیﷺ نے نجاشی سے یہ بھی طلب کیا تھا کہ وہ حضرت جعفر اور دوسرے مہاجرین ِ حبشہ کو روانہ کردے۔ چنانچہ اس نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری کے ساتھ دوکشتیوں میں ان کی روانگی کا انتظام کردیا۔ ایک کشتی کے سوار جس میں حضرت جعفر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور کچھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ، براہ راست خیبر پہنچ کر خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے۔ اور دوسری کشتی کے سوار جن میں زیادہ تر بال بچے تھے سیدھے مدینہ پہنچے۔3
مذکورہ نجاشی نے غزوہ تبوک کے بعد رجب ۹ ھ میں وفات پائی۔ نبیﷺ نے اس کی وفات ہی کے دن صحابہ کرام کو اس کی موت کی اطلاع دی۔ اور اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ اس کی وفات کے بعد دوسرا بادشاہ اس کا جانشین ہوکر سریرآرائے سلطنت ہوا تو نبیﷺ نے اس کے پاس بھی ایک خط روانہ فرمایا لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ اس نے اسلام قبول کیا یا نہیں۔4
۲۔ مقوقس شاہ ِ مصر کے نام خط:
نبیﷺ نے ایک گرامی نامہ جریج بن متی 5کے نام روانہ فرمایا جس کا لقب مقوقس تھا۔ اور جو مصر واسکندریہ کا بادشاہ تھا۔ نامۂ گرامی یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی طرف سے مقوقس عظیم ِ قِبط کی جانب !!
اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد :
میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام لاؤ سلامت رہوگے۔ اور اسلام لاؤ اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 حضرت عیسیٰ کے متعلق یہ فقرے ڈاکٹر حمید اللہ کی اس رائے کی تائید کرتے ہیں کہ ان کا ذکرکردہ خط اصحمہ کے نام تھا۔ واللہ اعلم
2 زادا لمعاد ۳/۶۱
3 ابن ہشام ۲/۳۵۹ وغیرہ ۔
4 یہ بات کسی قدر صحیح مسلم کی روایت سے اخذ کی جاسکتی ہے جو حضرت انس سے مروی ہے۔ ۲/۹۹
5 یہ نام علامہ منصورپوری نے رحمۃ للعالمین ۱/۱۷۸ میں ذکر فرمایا ہے۔ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا نام بنیامین بتلایا ہے۔ دیکھئے رسول اکرم کی سیا سی زندگی ، ص ۱۴۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لیکن اگر تم نے منہ موڑا تو تم پراہل ِ قبط کا بھی گناہ ہوگا۔ ''اے اہل ِ قبط ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے بعض ، بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائیں۔ پس اگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔''1
اس خط کو پہنچانے کے لیے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کا انتخاب فرمایا گیا۔ وہ مقوقس کے دربار میں پہنچے تو فرمایا کہ (اس زمین پر ) تم سے پہلے ایک شخص گزرا ہے جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ نے اسے آخر واوّل کے لیے عبرت بنادیا۔ پہلے تو اس کے ذریعے لوگوں سے انتقام لیا۔ پھر خود اس کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ لہٰذا دوسرے سے عبرت پکڑو۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے تم سے عبرت پکڑیں۔
مقوقس نے کہا : ہمارا ایک دین ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے بہتر دین نہ مل جائے۔
حضرت حاطب نے فرمایا: ہم تمہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے تمام ماسوا (ادیان) کے بدلے کافی بنادیا ہے۔ دیکھو ! اس نبی نے لوگوں کو (اسلام کی ) دعوت دی تو اس کیخلاف قریش سب سے زیادہ سخت ثابت ہوئے۔ یہودنے سب سے بڑھ کر دشمنی کی۔ اور نصاریٰ سب سے زیادہ قریب رہے۔ میری عمر کی قسم ! جس طرح حضرت موسیٰ ؑنے حضرت عیسیٰ ؑکے لیے بشارت دی تھی۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ نے محمدﷺ کے لیے بشارت دی ہے۔ اور ہم تمہیں قرآن مجید کی دعوت اسی طرح دیتے ہیں جیسے تم اہلِ تورات کو انجیل کی دعوت دیتے ہو۔ جو نبی جس قوم کو پاجاتا ہے وہ قوم اس کی امت ہوجاتی ہے۔ اور اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نبی کی اطاعت کرے اور تم نے اس نبی کا عہد پالیا ہے۔ اور پھر ہم تمہیں دین ِ مسیح سے روکتے نہیں ہیں بلکہ ہم تو اسی کا حکم دیتے ہیں۔
مقوقس نے کہا : میں نے اس نبی کے معاملے پر غور کیا تو میں نے پایا کہ وہ کسی ناپسندیدہ بات کا حکم نہیں دیتے۔ اور کسی پسندیدہ بات سے منع نہیں کرتے۔ وہ نہ گمراہ جادوگر ہیں نہ جھوٹے کاہن۔ بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ ان کے ساتھ نبوت کی یہ نشانی ہے کہ وہ پوشیدہ کو نکالتے اور سرگوشی کی خبر دیتے ہیں میں مزید غور کروں گا۔
مقوقس نے نبیﷺ کا خط لے کر (احترام کے ساتھ ) ہاتھی دانت کی ایک ڈبیہ میں رکھ دیا اور مہرلگا کر اپنی ایک لونڈی کے حوالے کردیا۔ پھر عربی لکھنے والے ایک کاتب کو بلا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھوایا :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد لابن قیم ۳/۶۱ ماضی قریب میں یہ خط دستیاب ہوا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اس کا جو فوٹو شائع کیا ہے اس میں اور زاد المعاد کی عبارت میں صرف دو حرف کا فرق ہے۔ زاد المعاد میں ہے اسلم تسلم۔ اسلم یوتک اللہ...الخ اور خط میں ہے فاسلم تسلم یوتک اللّٰہ ، اسی طرح زاد المعاد میں ہے اثم اہل القبط اور خط میں ہے اثم القبط۔ دیکھئے: رسول اکرم کی سیاسی زندگی ص ۱۳۶، ۱۳۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد بن عبد اللہ کے لیے مقوقس عظیم قبط کی طرف سے۔
آپ پر سلام ! اما بعد میں نے آپ کا خط پڑھا۔ اورا س میں آپ کی ذکر کی ہوئی بات اور دعوت کو سمجھا۔ مجھے معلوم ہے کہ ابھی ایک نبی کی آمد باقی ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ شام سے نمودار ہوگا۔ میں نے آپ کے قاصد کا اعزاز واکرام کیا۔ اور آپ کی خدمت میں دولونڈیاں بھیج رہاہوں جنہیں قبطیوں میں بڑا مرتبہ حاصل ہے۔ اور کپڑے بھیج رہا ہوں۔ اور آپ کی سواری کے لیے ایک خچر بھی ہدیہ کررہا ہوں ، اور آپ پرسلام۔''
مقوقس نے اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا اور اسلام نہیں لایا۔ دونوں لونڈیاں ماریہ اور سیرین تھیں۔ خچر کا نام دُلدل تھا۔ جو حضرت معاویہؓ کے زمانے تک باقی رہا۔ 1نبیﷺ نے ماریہ کو اپنے پاس رکھا۔ اور انہی کے بطن سے نبیﷺ کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے۔ اور سیرین کو حضرت حسان بن ثابت انصاری کے حوالے کردیا۔
۳۔ شاہ فارس خسرو پرویز کے نام خط :
نبیﷺ نے ایک خط بادشاہِ فارس کسریٰ (خسرو ) کے پاس روانہ کیا جو یہ تھا :
''بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے کِسریٰ عظیم فارس کی جانب !!
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا فرستادہ ہوں تاکہ جو شخص زندہ ہے اسے انجام ِ بد سے ڈرایا جائے۔ اور کافرین پر حق بات ثابت ہوجائے۔( یعنی حجت تمام ہو جائے ) پس تم اسلام لاؤ، سالم رہوگے۔ اور اگر اس سے انکارکیا توتم پر مجوس کا بھی بارِ گناہ ہوگا۔''
اس خط کو لے جانے کے لیے آپﷺ نے حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمیؓ کو منتخب فرمایا۔ انہوں نے یہ خط سربراہ بحرین کے حوالے کیا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ سربراہ بحرین نے یہ خط اپنے کسی آدمی کے ذریعہ کسریٰ کے پاس بھیجا یا خود حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی کو روانہ کیا۔ بہرحال جب یہ خط کسریٰ کو پڑھ کرسنا یا گیا تو اس نے چاک کردیا۔ اور نہایت متکبرانہ اندازمیں بولا : میری رعایا میں سے ایک حقیر غلام اپنانام مجھ سے پہلے لکھتا ہے۔ رسول اللہﷺ کو اس واقعے کی جب خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا : اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے۔ اور پھر وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد کسریٰ نے اپنے یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ یہ شخص جو حجاز میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۳/۶۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ہے اس کے یہاں اپنے دو توانا اور مضبوط آدمی بھیج دو کہ وہ اسے میرے پاس حاضر کریں۔ باذان نے اس کی تعمیل کرتے ہوئے دو آدمی منتخب کیے۔ ایک اسکا قہرمان بانویہ جو حساب داں تھا اور فارسی میں لکھتا تھا۔ دوسرا خرخسرو۔ یہ بھی فارسی تھا۔1 اور انھیں ایک خط دے کر رسول اللہﷺ کے پاس روانہ کیا جس میں آپ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ کسریٰ کے پاس حاضر ہوجائیں۔ جب وہ مدینہ پہنچے اور نبیﷺ کے روبرو حاضر ہوئے تو ایک نے کہا : شہنشاہ کسریٰ نے شاہ باذان کو ایک مکتوب کے ذریعہ حکم دیا ہے کہ وہ آپ کے پا س ایک آدمی بھیج کر آپ کو کسریٰ کے روبروحاضر کرے اور باذان نے اس کام کے لیے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔ ساتھ ہی دونوں نے دھمکی آمیز باتیں بھی کہیں۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ کل ملاقات کریں۔
ادھر عین اسی وقت جبکہ مدینہ میں یہ دلچسپ ''مہم '' درپیش تھی۔ خود خسروپرویز کے گھرانے کے اندر اس کے خلاف ایک زبردست بغاوت کا شعلہ بھڑ ک رہا تھا جس کے نتیجے میں قیصر کی فوج کے ہاتھوں فارسی فوجوں کی پے در پے شکست کے بعد اب خسرو کا بیٹا شیرویہ اپنے باپ کو قتل کر کے خود بادشاہ بن بیٹھا تھا۔ یہ منگل کی رات ۱۰ جمادی الاولیٰ ۷ھ کا واقعہ ہے۔ 2رسول اللہﷺ کو اس واقعہ کا علم وحی کے ذریعہ ہوا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی اور دونوں فارسی نمائندے حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں اس واقعے کی خبردی۔ ان دونوں نے کہا : کچھ ہوش ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ہم نے اس سے بہت معمولی بات بھی آپ کے جرائم میں شمار کی ہے۔ تو کیا آپ کی یہ بات ہم بادشاہ کو لکھ بھیجیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اسے میری اس بات کی خبر کردو۔ اور اس سے یہ بھی کہہ دو کہ میرا دین اور میری حکومت وہاں تک پہنچ کررہے گی جہاں تک کسریٰ پہنچ چکا ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اس جگہ جاکر رُکے گی جس سے آگے اونٹ اور گھوڑے کے قدم جاہی نہیں سکتے۔ تم دونوں اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو جو کچھ تمہارے زیراقتدار ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم ابناء کا بادشاہ بنادوں گا۔ اس کے بعد وہ دونوں مدینہ سے روانہ ہوکر باذان کے پاس پہنچے اور اسے ساری تفصیلات سے آگاہ کیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ایک خط آیا کہ شیرویہ نے اپنے باپ کو قتل کردیا ہے۔ شیرویہ نے اپنے اس خط میں یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس شخص کے بارے میں میرے والد نے تمہیں لکھا تھا اسے تا حکم ثانی برانگیختہ نہ کرنا۔
اس واقعہ کی وجہ سے باذان اور اس کے فارسی رفقاء (جو یمن میں موجود تھے) مسلمان ہوگئے۔3
۴۔ قیصر شاہ روم کے نام خط:
صحیح بخاری میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں اس گرامی نامہ کی نص مروی ہے، جسے رسول اللہﷺ نے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تاریخ ابن خلدون ۲/۳۷
2 فتح الباری ۸/۱۲۷ تاریخ ابن خلدون ۲/۳۷
3 محاضرات خضری ۱/۱۴۷ فتح الباری ۸/۱۲۷ ، ۱۲۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ہِرَقْل شاہ روم کے پاس روانہ فرمایا تھا۔ وہ مکتوب یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی جانب سے ہرقْل عظیم روم کی طرف !
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ تم اسلام لاؤ سالم رہو گے۔ اسلام لاؤ اللہ تمہیں تمہارا اجر دوبار دے گا۔ اور اگر تم نے روگردانی کی تو تم پر اَرِیْسییوں (رعایا ) کا (بھی )گناہ ہوگا۔ اے اہل ِ کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پوجیں۔ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ اور اللہ کے بجائے ہمارا بعض بعض کو رب نہ بنائے۔ پس اگر لوگ رخ پھیریں تو کہہ دو کہ تم لوگ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں۔1
اس گرامی نامہ کو پہنچانے کے لیے دِحْیَہ بن خلیفہ کلبی کا انتخاب ہوا۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط سربراہ بصری کے حوالے کردیں۔ اور وہ اسے قیصر کے پا س پہنچادے گا۔ اس کے بعد جوکچھ پیش آیا ا س کی تفصیل صحیح بخاری میں ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ ا ن کا ارشاد ہے کہ ابو سفیان بن حرب نے ان سے بیان کیا کہ ہِرَقل نے اس کو قریش کی ایک جماعت سمیت بلوایا۔ یہ جماعت صلح حدیبیہ کے تحت رسول اللہﷺ اور کفار قریش کے درمیان طے شدہ عرصہ امن میں ملک شام کی تجارت کے لیے گئی ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایلیاء (بیت المقدس ) میں اس کے پاس حاضر ہوئے۔ 2ہرقل نے انھیں اپنے دربار میں بلایا۔ اس وقت اس کے گرداگرد روم کے بڑے بڑے لوگ تھے۔ پھر اس نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلا کر کہا کہ یہ شخص جو اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے اس سے تمہارا کونسا آدمی سب سے زیادہ قریبی نسبی تعلق رکھتا ہے؟ ابو سفیان کا بیان ہے کہ میں نے کہا : میں اس کا سب سے زیادہ قریب النسب ہوں۔ ہرقل نے کہا : اسے میرے قریب کردو۔ اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کرکے اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھادو۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ میں اس شخص سے اس آدمی (نبیﷺ ) کے متعلق سوالات کروں گا۔ اگر یہ جھوٹ بولے توتم لوگ اسے جھٹلادینا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر جھوٹ بولنے کی بدنامی کا خوف نہ ہوتا تو میں آپ کے متعلق یقینا جھوٹ بولتا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۴، ۵
2 اس وقت قیصر اس بات پر اللہ کا شکر بجالانے کے لیے حمص سے ایلیاء (بیت المقدس) گیا ہوا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھو ں اہل ِ فارس کو شکست فاش دی۔ (دیکھئے صحیح مسلم ۲/۹۹) اس کی تفصیل یہ ہے کہ فارسیوں نے خسرو پرویز کو قتل کرنے کے بعد رومیوں سے ان کے مقبوضہ علاقوں کی واپسی کی شرط پر صلح کرلی۔ اور وہ صلیب بھی واپس کردی جس کے متعلق نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ اسی پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دی گئی تھی۔ قیصر اس صلح کے بعد صلیب کو اصل جگہ نصب کرنے اور اس فتح مبین پر اللہ کا شکر بجالانے کے لیے ۶۲۹ء یعنی۷ ھ میں ایلیاء (بیت المقدس ) گیا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس کے بعد پہلا سوال جو ہرقل نے مجھ سے آپ کے بارے میں کیا وہ یہ تھا کہ تم لوگوں میں اس کا نسب کیسا ہے ؟
میں نے کہا : وہ اونچے نسب والا ہے۔
ہرقل نے کہا : تو کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا اس کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : اچھا تو بڑے لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا کمزوروں نے؟
میں نے کہا : بلکہ کمزوروں نے۔
ہرقل نے کہا : یہ لوگ بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں ؟
میں نے کہا : بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص اس دین سے برگشتہ ہوکر مرتد بھی ہوتا ہے ؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : اس نے جو بات کہی ہے کیا اسے کہنے سے پہلے تم لو گ اس کو جھوٹ سے متہم کرتے تھے؟
میں نے کہا : نہیں۔
ہرقل نے کہا : کیا وہ بد عہدی بھی کرتا ہے ؟
میں نے کہا: نہیں۔ البتہ ہم لوگ اس وقت اس کے ساتھ صلح کی ایک مدت گزار رہے ہیں معلوم نہیں اس
میں وہ کیا کرے گا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس فقرے کے سوامجھے اور کہیں کچھ گھُسیڑ نے کا موقع نہ ملا۔
ہرقل نے کہا : کیاتم لوگوں نے اس سے جنگ کی ہے ؟
میں نے کہا: جی ہاں۔
ہرقل نے کہا : تو تمہاری اور اس کی جنگ کیسی رہی ؟
میں نے کہا : جنگ ہمارے اور اس کے درمیان ڈول ہے۔ وہ ہمیں زک پہنچالیتا ہے اور ہم اسے زک پہنچالیتے ہیں۔
ہرقل نے کہا : تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟
میں نے کہا : وہ کہتا ہے : صرف اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کرو۔ تمہارے باپ
دادا جو کچھ کہتے تھے اسے چھوڑ دو۔ اور وہ ہمیں نماز ، سچائی ، پرہیز ، پاک دامنی اور قرابت داروں کے ساتھ حسن ِ سلوک کا حکم دیتا ہے۔
اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: تم اس شخص (ابو سفیان) سے کہو کہ میں نے تم سے اس شخص (نبیﷺ ) کا نسب پوچھا تو تم نے بتا یا کہ وہ اونچے نسب کا ہے۔اور دستور یہی ہے کہ پیغمبر اپنی قوم کے اونچے نسب میں بھیجے جاتے ہیں۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ بات اس سے پہلے بھی تم میں سے کسی نے کہی تھی ؟ تم نے بتلایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی اور نے کہی ہوتی تو میں یہ کہتا کہ یہ شخص ایک ایسی بات کی نقالی کر رہاہے جواس سے پہلے کہی جاچکی ہے۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟ تم نے بتلایا کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزراہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنے باپ کی بادشاہت کا طالب ہے۔
اور میں نے یہ دریافت کیا کہ کیا جو بات اس نے کہی ہے اسے کہنے سے پہلے تم لوگ اسے جھوٹ سے مُتّہم کرتے تھے ؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں۔ اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں پرتوجھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولے۔
میںنے یہ بھی دریافت کیا کہ بڑے لوگ اس کی پیروی کررہے ہیں یا کمزور ؟ تو تم نے بتایا کہ کمزورں نے اس کی پیروی کی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہی لوگ پیغمبر وں کے پیروکار ہوتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ کیا اس دین میں داخل ہونے کے بعد کوئی شخص برگشتہ ہوکرمرتد بھی ہوتا ہے ؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی بشاشت جب دلوں میں گھس جاتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
اور میں نے دریافت کیا کہ کیا وہ بدعہدی بھی کرتا ہے ؟ تو تم نے بتلایا کہ نہیں۔ اور پیغمبر ایسے ہی ہوتے ہیں۔وہ بدعہدی نہیں کرتے۔
میں نے یہ بھی پوچھا کہ وہ کن باتوں کا حکم دیتا ہے ؟ تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے کا حکم دیتا ہے۔ بت پرستی سے منع کرتا ہے۔ اور نماز ، سچائی اور پرہیزگاری وپاکدامنی کا حکم دیتا ہے۔
تو جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تویہ شخص بہت جلد میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کا مالک ہوجائے گا۔ میں جانتا تھا کہ یہ نبی آنے والا ہے ، لیکن میرا یہ گمان نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ سکوں گا تو اس سے ملاقات کی زحمت اٹھاتا۔ اور اگر اس کے پاس ہوتا تو اس کے دونوں پاؤں دھوتا۔
اس کے بعد ہرقل نے رسول اللہﷺ کا خط منگا کر پڑھا۔ جب خط پڑھ کر فارغ ہوا تو وہاں آوازیں بلند ہوئیں اور بڑا شور مچا۔ ہرقل نے ہمارے بارے میں حکم دیا اور ہم باہر کردیے گئے۔ جب ہم لوگ باہر لائے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابو کبشہ1 کے بیٹے کا معاملہ بڑا زور پکڑگیا۔ اس سے تو بنو اَصْفَرْ (رومیوں)2 کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ اس کے بعد مجھے برابر یقین رہا کہ رسول اللہﷺ کا دین غالب آکر رہے گا۔ یہاں تک کہ اللہ نے میرے اندر اسلام کو جاگزیں کردیا۔3
یہ قیصر پر نبیﷺ کے نامہ ٔ مبارک کا وہ اثر تھا جس کا مشاہدہ ابو سفیان نے کیا۔ اس نامۂ مبارک کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ قیصر نے رسول اللہﷺ کے اس نامہ ٔ مبارک کو پہنچانے والے، یعنی دِحْیہ کلبیؓ کو مال اور پارچہ جات سے نوازا ، لیکن حضر ت دِحیہؓ یہ تحائف لے کر واپس ہوئے تو حُسْمیٰ میں قبیلہ جذام کے کچھ لوگو ں نے ان پر ڈاکہ ڈال کر سب کچھ لوٹ لیا۔ حضرت دِحیہ مدینہ پہنچے تو اپنے گھر کے بجائے سیدھے خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ تفصیل سن کر رسول اللہﷺ نے حضرت زید بن حارثہ کی سرکردگی میں پانچ سو صحابہ کرام کی ایک جماعت حُسمیٰ روانہ فرمائی۔ حضرت زید نے قبیلہ جذام پر شبخون مارکر ان کی خاصی تعداد کو قتل کردیا۔ اور اس کے چوپایوں اور عورتوں کو ہانک لائے۔ چوپایوں میں ایک ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں تھیں۔ اور قیدیوں میں ایک سو عورتیں اور بچے تھے۔
چونکہ نبیﷺ اور قبیلہ جذام میں پہلے سے مصالحت کا عہد چلا آرہا تھا ، اس لیے اس قبیلہ کے ایک سردار زیدبن رفاعہ جذامی نے جھٹ نبیﷺ کی خدمت میں احتجاج وفریاد کی۔ زید بن رفاعہ اس قبیلے کے کچھ مزید افراد سمیت پہلے ہی مسلمان ہوچکے تھے۔ اورجب حضرت دِحیہ پر ڈاکہ پڑا تھاتو ان کی مدد بھی کی تھی ، اس لیے نبیﷺ نے ان کا احتجاج قبول کرتے ہوئے مالِ غنیمت اور قیدی واپس کردیے۔
عام اہل مغازی نے اس واقعہ کو صلح حدیبیہ سے پہلے بتلایا ہے۔ مگر یہ فاش غلطی ہے۔ کیونکہ قیصر کے پاس نامۂ مبارک کی روانگی صلح حدیبیہ کے بعد عمل میں آئی تھی۔ اسی لیے علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ بِلا شُبہہ حدیبیہ کے بعد کا ہے۔4
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابو کبشہ کے بیٹے سے مراد نبیﷺ کی ذات گرامی ہے۔ ابو کبشہ رجزبن غالب خزاعی کی کنیت ہے۔ یہ وہب بن عبد مناف کا نانا تھا۔ اور وہب نبیﷺ کے نانا تھے۔ ابو کبشہ مشرک تھا۔ شام گیا تو نصرانی ہو گیا۔ جب نبیﷺ نے قریش کے دین کی مخالف کی ، اور حنیفیہ لے کر آئے تو آپ کی تنقیص کے لیے اس کے ساتھ تشبیہ دی۔ اور اس کی طرف منسوب کیا۔ (دلائل النبوۃ بیہقی ۱/۸۲، ۸۳، سیرت نبویہ لابی حاتم ص ۴۴) بہرحال ابو کبشہ غیر معروف شخص ہے۔ اور عرب کا دستور تھا کہ جب کسی کی تنقیص کرنی ہوتی تو اسے اس کے آباء واجداد میں سے کسی غیر معروف شخص کی طرف منسوب کردیتے۔
2 بنوالاصفر (اصفر کی اولاد۔ اوراصفر کے معنی زرد ، یعنی پیلا ) رومیوں کو بنوالاصفر کہا جاتا ہے۔ کیونکہ روم کے جس بیٹے سے رومیوں کی نسل تھی وہ کسی وجہ سے اصفر (پیلے ) کے لقب سے مشہور ہوگیا تھا۔
3 صحیح بخاری ۱/۴ ، صحیح مسلم ۲/۹۷- ۹۹
4 دیکھئے: زاد المعاد ۲/۱۲۲ حاشیہ تلقیح الفہوم ص ۲۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۵۔ منذر بن ساوی کے نام خط:
نبیﷺ نے ایک خط منذر بن ساوی حاکم بحرین کے پاس لکھ کر اسے بھی اسلام کی دعوت دی، اور اس خط کو حضرت علاء بن الحضرمیؓ کے ہاتھوں روانہ فرمایا۔ جواب میں منذر نے رسول اللہﷺ کو لکھا۔ امابعد : اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کا خط اہل بحرین کو پڑھ کر سنادیا۔ بعض لوگوں نے اسلام کو محبت اور پاکیزگی کی نظر سے دیکھا اور اس کے حلقہ بگوش ہوئے۔ اور بعض نے پسند نہیں کیا۔ اور میری زمین میں یہود اور مجوس بھی ہیں۔ لہٰذا آپ اس بارے میں اپنا حکم صادر فرمایئے۔اس کے جواب میں رسول اللہﷺ نے یہ خط لکھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی جانب سے منذر بن ساوی کی طرف !!
تم پر سلام ہو۔ میں تمہاری طرف اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سواکوئی لائق عبادت نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔''
امابعد: میں تمہیں اللہ عزوجل کو یاد دلاتا ہوں۔ یاد رہے کہ جو شخص بھلائی اور خیر خواہی کرے گا وہ اپنے ہی لیے بھلائی کرے گا۔ اور جو شخص میرے قاصدوں کی اطاعت اور ان کے حکم کی پیروی کرے اس نے میری اطاعت کی اور جو ان کے ساتھ خیرخواہی کرے اس نے میرے ساتھ خیرخواہی کی اور میرے قاصدوں نے تمہاری اچھی تعریف کی ہے اور میں نے تمہاری قوم کے بارے میں تمہاری سفارش قبول کرلی ہے۔ لہٰذا مسلمان جس حال پر ایمان لائے ہیں انھیں اس پر چھوڑ دو۔ اور میں نے خطا کاروں کو معاف کردیا ہے، لہٰذا ان سے قبول کرلو۔ اور جب تک تم اصلاح کی راہ اختیار کیے رہو گے ہم تمہیں تمہارے عمل سے معزول نہ کریں گے اور جو یہودیت یا مجوسیت پر قائم رہے اس پر جزیہ ہے۔''1
۶۔ ہوذہ بن علی صاحبِ یمامہ کے نام خط:
نبیﷺ نے ہوذہ بن علی حاکم ِ یمامہ کے نام حسب ذیل خط لکھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے ہوذہ بن علی کی جانب !!
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا دین اونٹوں اور گھوڑوں کی رسائی کی آخری حد تک غالب آکر رہے گا۔ لہٰذااسلا م لاؤ سالم رہو گے اور تمہارے ماتحت جو کچھ ہے اسے تمہارے لیے برقرار رکھوں گا۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زادالمعاد ۳/۶۱، ۶۲یہ خط ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے۔ اور ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے اس کا فوٹو شائع کیا ہے زادالمعاد کی عبارت اور اس فوٹو والی عبارت میں صرف ایک لفظ کا فرق (یعنی فوٹو میں) ہے لاالہ الا ھو کے بجائے لاالہ غیرہ ہے۔
 
Top