• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم بادشاہوں اور اُمراء کے نام خطوط

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس خط کو پہنچانے کے لیے بحیثیت قاصد سلیط بن عمرو عامری کا انتخاب فرمایا گیا۔ حضرت سلیط اس مہر لگے ہوئے خط کو لے کر ہوذہ کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے آپ کو مہمان بنایا۔ اور مبارکباد دی۔ حضرت سلیط نے اسے خط پڑھ کر سنایا تو اس نے درمیانی قسم کا جواب دیا۔ اور نبیﷺ کی خدمت میں یہ لکھا :آپ جس چیز کی دعوت دیتے ہیں اس کی بہتری اور عمدگی کا کیا پوچھنا۔ اور عرب پر میری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لیے کچھ کار پردازی میرے ذمہ کردیں۔ میں آپ کی پیروی کروں گا۔ اس نے حضرت سلیط کو تحائف بھی دیے۔ انہیں ہجر کا بناہوا کپڑا دیا۔ حضرت سلیط یہ تحائف لے کر خدمت نبوی میں واپس آئے اور ساری تفصیلات گوش گزار کیں۔ نبیﷺ نے اس کا خط پڑھ کر فرمایا : اگر وہ زمین کا ایک ٹکڑا بھی مجھ سے طلب کرے گا تو میں اسے نہ دوں گا۔ وہ خود بھی تباہ ہوگا ، اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے وہ بھی تباہ ہوگا۔ پھر جب رسول اللہﷺ فتح مکہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ خبر دی کہ ہوذہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا : سنو ! یمامہ میں ایک کذاب نمودار ہونے والا ہے جو میرے بعد قتل کیا جائے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا : یارسول اللہ ! اسے کون قتل کرے گا ؟ آپ نے فرمایا : تم اور تمہارے ساتھی ، اور واقعۃً ایسا ہی ہوا۔1
۷۔ حارث بن ابی شمر غسانی حاکم دمشق کے نام خط:
نبیﷺ نے اس کے پاس ذیل کا خط رقم فرمایا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی طرف سے حارث بن ابی شمر کی طرف !!
اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اور ایمان لائے اور تصدیق کرے۔ اور میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ پر ایمان لاؤ جو تنہا ہے ، اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور تمہارے لیے تمہاری بادشاہت باقی رہے گی۔''
یہ خط قبیلہ اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی حضرت شجاع بن وہب کے بدست روانہ کیا گیا۔ جب انہوں نے یہ خط حارث کے حوالے کیا تو اس نے کہا :''مجھ سے میری بادشاہت کون چھین سکتا ہے ؟میں اس پر یلغار کرنے ہی والاہوں۔'' اور اسلام نہ لایا۔2بلکہ قیصر سے رسول اللہﷺ کے خلاف جنگ کی اجازت چاہی۔ مگر اس نے اس کو اس کے ارادے سے باز رکھا۔ پھر حارث نے شجاع بن وہب کو پارچہ جات اور اخراجات کا تحفہ دے کر اچھائی کے ساتھ واپس کردیا۔
۸۔ شاہ ِ عمان کے نام خط:
نبیﷺ نے ایک خط شاہ ِ عمان جیفر اور اس کے بھائی عبد کے نام لکھا۔ ان دونوں کے والد کا نام جلندی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زادالمعاد ۳/۶۳
2 زاد المعاد ۳/۶۳ محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ ، خضیری ۱/۱۴۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد بن عبداللہ کی جانب سے جلندی کے دونوں صاحبزادوں جیفر اور عبد کے نام !!
اس شخص پر سلا م جو ہدایت کی پیروی کرے۔میںتم دونوں کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں ، اسلام لاؤ ، سلامت رہوگے۔ کیونکہ میں تمام انسانوں کی جانب اللہ کا رسول ہوں ، تاکہ جو زندہ ہے اسے انجام کے خطرہ سے آگاہ کردوں۔ اور کافرین پر قول برحق ہوجائے۔ اگر تم دونوں اسلام کا اقرار کر لوگے تو تم ہی دونوں کو والی اور حاکم بناؤں گا۔ اور اگرتم دونوں نے اسلام کا اقرار کرنے سے گریز کیا تو تمہاری بادشاہت ختم ہوجائے گی۔ تمہاری زمین پر گھوڑوں کی یلغار ہوگی۔ اور تمہاری بادشاہت پر میری نبوت غالب آجائے گی۔
اس خط کو لے جانے کے لیے ایلچی کی حیثیت سے حضرت عمرو بن العاصؓ کا انتخاب عمل میں آیا۔ ان کا بیان ہے کہ میں روانہ ہوکر عمان پہنچا۔ اور عبد سے ملاقات کی۔ دونوں بھائیوں میں یہ زیادہ دور اندیش اور نرم خوتھا۔ میں نے کہا : میں تمہارے پاس اور تمہارے بھائی کے پاس رسول اللہﷺ کا ایلچی بن کر آیا ہوں۔ اس نے کہا : میرا بھائی عمر اور بادشاہت دونوں میں مجھ سے بڑا اور مجھ پر مقدم ہے۔ اس لیے میں تم کو اس کے پاس پہنچا دیتا ہوں کہ وہ تمہارا خط پڑھ لے۔ اس کے بعد اس نے کہا: اچھا ! تم دعوت کس بات کی دیتے ہو ؟
میں نے کہا : ہم ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں ، جو تنہا ہے ، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور ہم کہتے ہیں کہ
اس کے علاوہ جس کی پوجا کی جاتی ہے اسے چھوڑدو اور یہ گواہی دوکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور
رسول ہیں۔
عبد نے کہا : اے عمرو! تم اپنی قوم کے سردار کے صاحبزادے ہو ، بتاؤ تمہارے والد نے کیا کیا؟ کیونکہ ہمارے لیے اس کا طرز عمل لائق ِاتباع ہوگا۔
میں نے کہا: وہ تو محمدﷺ پر ایمان لائے بغیر وفات پاگئے ، لیکن مجھے حسرت ہے کہ کاش! انہوں نے
اسلام قبول کیا ہوتا اور آپ کی تصدیق کی ہوتی۔ میں خود بھی انہیں کی رائے پر تھا لیکن اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی۔
عبد نے کہا : تم نے کب ان کی پیروی کی ؟
میں نے کہا : ابھی جلد ہی۔
اس نے دریافت کیا : تم کس جگہ اسلام لائے ؟
میں نے کہا : نجاشی کے پاس اور بتلایا کہ نجاشی بھی مسلمان ہوچکا ہے۔
عبد نے کہا : اس کی قوم نے اس کی بادشاہت کا کیا کیا ؟
میں نے کہا : اسے برقرار رکھا ، اوراس کی پیروی کی۔
اس نے کہا : اسقفوں اور راہبوں نے بھی اس کی پیروی کی ؟
میں نے کہا : ہاں!
عبد نے کہا : اے عمرو ! دیکھو کیا کہہ رہے ہو کیونکہ آدمی کی کوئی بھی خصلت جھوٹ سے زیادہ رسواکن نہیں۔
میں نے کہا : میں جھوٹ نہیں کہہ رہاہوں ،اور نہ ہم اسے حلال سمجھتے ہیں۔
عبد نے کہا : میں سمجھتا ہوں ، ہرقل کو نجاشی کے اسلام لانے کا علم نہیں۔
میں نے کہا : کیوں نہیں۔
عبدنے کہا : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ؟
میں نے کہا : نجاشی ہرقل کو خراج ادا کیا کرتا تھا لیکن جب اس نے اسلام قبول کیا ، اور محمدﷺ کی تصدیق کی تو بولا : اللہ کی قسم! اب اگر وہ مجھ سے ایک درہم بھی مانگے تو میں نہ دوںگا۔ اور جب اس کی اطلاع ہرقل کو ہوئی تو اس کے بھائی یناق نے کہا : کیا تم اپنے غلام کو چھوڑ دوگے کہ وہ تمہیں خراج نہ دے ؟ اور تمہارے بجائے ایک دوسرے شخص کا نیا دین اختیار
کرلے ؟ ہرقل نے کہا : یہ ایک آدمی ہے جس نے ایک دین کو پسند کیا۔ اور اسے اپنے لیے اختیار کرلیا۔ اب میں اس کا کیا کرسکتا ہوں ؟ اللہ کی قسم ! اگر مجھے اپنی بادشاہت کی حرص نہ
ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو اس نے کیا ہے۔
عبد نے کہا : عمرو! دیکھو کیا کہہ رہے ہو ؟
میں نے کہا : واللہ ! میں تم سے سچ کہہ رہا ہوں۔
عبد نے کہا: اچھا مجھے بتاؤوہ کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟اور کس چیز سے منع کرتے ہیں ؟
میں نے کہا : اللہ عزوجل کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں اور اس کی نافرمانی سے منع کرتے ہیں۔ نیکی وصِلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اور ظلم وزیادتی ، زنا کاری ، شراب نوشی اور پتھر ، بت اور صلیب کی عبادت سے منع کرتے ہیں۔
عبد نے کہا: یہ کتنی اچھی بات ہے جس کی طرف بلاتے ہیں۔ اگر میرا بھائی بھی اس بات پر میری متابعت کرتا تو ہم لوگ سوار ہوکر (چل پڑتے )یہاں تک کہ محمدﷺ پر ایمان لاتے اور ان کی تصدیق کرتے لیکن میرابھائی اپنی بادشاہت کااس سے کہیں زیادہ حریص ہے کہ اسے چھوڑ کر کسی کا تابع فرمان بن جائے۔
میں نے کہا: اگر وہ اسلام قبول کرلے تو رسول اللہﷺ اس کی قوم پر اس کی بادشاہت برقرار رکھیں گے۔ البتہ ان کے مالداروں سے صدقہ لے کر فقیروں پر تقسیم کردیں۔
عبد نے کہا: یہ بڑی اچھی بات ہے ، اچھا بتاؤ صدقہ کیا ہے ؟
جواب میں میں نے مختلف اموال کے اندر رسول اللہﷺ کے مقرر کیے ہوئے صدقات کی تفصیل بتائی۔ جب اونٹ کی باری آئی تو وہ بولا : اے عمرو ! ہمارے ان مویشیوں میں سے بھی صدقہ لیا جائے گا ، جو خود ہی درخت پر چر لیتے ہیں۔
میں نے کہا: ہاں !
عبد نے کہا : واللہ !میں نہیں سمجھتا تھا کہ میری قوم اپنے ملک کی وسعت اور تعداد کی کثرت کے باوجود اس کو مان لے گی۔
حضرت عمرو بن عاص کا بیان ہے کہ میں اس کی ڈیوڑھی میں چند دن ٹھہرارہا۔ وہ اپنے بھائی کے پاس جاکر میری ساری باتیں بتاتا رہتا تھا۔ پھر ایک دن اس نے مجھے بلایا۔اور میں اندر داخل ہوا۔ چوبداروں نے میرے بازو پکڑ لیے۔ اس نے کہا :چھوڑ دو اور مجھے چھوڑ دیا گیا۔ میں نے بیٹھنا چاہا تو چوبداروں نے مجھے بیٹھنے نہ دیا۔ میں نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا : اپنی بات کہو۔ میں نے سر بمہر خط اس کے حوالے کردیا۔ اس نے مہر توڑ کر خط پڑھا۔ اور پورا خط پڑھ چکا تو اپنے بھائی کے حوالہ کردیا۔ بھائی نے بھی اسی طرح پڑھا مگر میں نے دیکھا کہ اس کا بھائی اس سے زیادہ نرم دل ہے۔
بادشاہ نے پوچھا : مجھے بتاؤ قریش نے کیا روش اختیار کی ہے ؟
میں نے کہا : سب ان کے اطاعت گزار ہوگئے ہیں۔ کسی نے دین کی رغبت کی بنا پر اور کسی نے تلوار سے مقہور ہوکر۔
بادشاہ نے پوچھا: ان کے ساتھ کون لوگ ہیں ؟
میں نے کہا: سارے لوگ ہیں۔ انہو ں نے اسلام کو برضاورغبت قبول کرلیا ہے۔ اور اسے تمام دوسری چیزوں پر ترجیح دی ہے۔ انہیں اللہ کی ہدایت اور اپنی عقل کی رہنمائی سے یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ وہ گمراہ تھے۔ اب اس علاقہ میں میں نہیں جانتا کہ تمہارے سوا کوئی اور باقی رہ گیا ہے۔ اور اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا اور محمدﷺ کی پیروی نہ کی تو تمہیں سوار روند ڈالیں گے۔ اور تمہاری ہریالی کا صفایا کردیں گے۔ اس لیے اسلام قبول کرلو۔ سلامت رہوگے۔اور رسول اللہﷺ تم کو تمہاری قوم کا حکمراں بنادیں گے۔ تم پر نہ سوار داخل ہوں گے نہ
پیادے۔
بادشاہ نے کہا : مجھے آج چھوڑ دو اور کل پھر آؤ۔
اس کے بعد میں اس کے بھائی کے واپس آگیا۔
اس نے کہا: عمرو ! مجھے امید ہے کہ اگر بادشاہت کی حرص غالب نہ آئی تو وہ اسلام قبول کرلے گا۔ دوسرے دن پھر بادشاہ کے پاس گیا لیکن اس نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس لیے میں اس کے بھائی کے پاس واپس آگیا اور بتلایا کہ بادشاہ تک میری رسائی نہ ہوسکی۔ بھائی نے مجھے اس کے یہاں پہنچا دیا۔ ا س نے کہا : میں نے تمہاری دعوت پر غور کیا۔ اگر میں
بادشاہت ایک ایسے آدمی کے حوالے کردوں جس کے شہسوار یہاں پہنچے بھی نہیں تو میں عرب میں سب سے کمزور سمجھا جاؤں گا۔ اور اگر شہسوار یہاں پہنچ آئے تو ایسا رن پڑے گا کہ انہیں کبھی اس سے سابقہ نہ پڑا ہوگا۔
میں نے کہا: اچھا تو میں کل واپس جارہا ہوں۔
جب اسے میری واپسی کا یقین ہوگیا تو اس نے بھائی سے خلوت میں بات کی۔ اور بو لا : یہ پیغمبر جن پر غالب آچکا ہے ان کے مقابل ہماری کوئی حیثیت نہیں۔ اور اس نے جس کسی کے پاس پیغام بھیجا ہے اس نے دعوت قبول کرلی ہے۔ لہٰذا دوسرے دن صبح ہی مجھے بلوایا گیا۔ اور بادشاہ اور اس کے بھائی دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور نبیﷺ کی تصدیق کی۔ اور صدقہ وصول کرنے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے مجھے آزاد چھوڑ دیا۔ اور جس کسی نے میری مخالفت کی اس کے خلاف میرے مدد گار ثابت ہوئے۔1
اس واقعے کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیہ بادشاہوں کی بہ نسبت ان دونوں کے پاس خط کی روانگی خاصی تاخیر سے عمل میں آئی تھی غالبا ً یہ فتح مکہ کے بعد کا واقعہ ہے۔
---------------​
ان خطوط کے ذریعے نبیﷺ نے اپنی دعوت روئے زمین کے بیشتر بادشاہوں تک پہنچا دی۔ اور اس کے جواب میں کوئی ایمان لایا تو کسی نے کفر کیا ، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ کفر کرنے والوں کی توجہ بھی اس جانب مبذول ہوگئی۔ اور ان کے نزدیک آپﷺ کا دین اور آپ کا نام ایک جانی پہچانی چیز بن گیا۔
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۳/۶۲، ۶۳
 
Top