جناب والا! اسی مکمل دین والے قرآن مجید میں ہی یہ آیت موجود ہے کہ:وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔اور جس سے رسول تم کوروکے تواُس سے رُک جاو۔(سورۃ الحشر:7)۔
اب فرمائیں کہ جس جس بات کوتم لوگ ممنوع سمجھتے ہو ،تو اُس اُس بات کے متعلق ہم تم سے یہ کیوں نہ پوچھیں کہ اللہ ورسول نے اِس اِس بات سے کہاں منع کیاہے؟ اور جب اللہ ورسول نے منع نہ کیاہو توتم منع کرکے اللہ ورسول سے آگے بڑھنے والے کون ہو؟
فخذوہ کے الفاظ سے یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ آپ لوگوں کواللہ ورسول کی غیرممنوع باتوں سے منع کرنے اور اللہ ورسول سے آگے بڑھنے کا حق حاصل ہوگیا ہے؟
درج بالا اقتباسات ، ایک بنیادی غلط فہمی کے حامل ہیں۔ اور انکا جواب اس سوال پر منحصر ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے یا حرمت؟
جو حضرات اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ چیزوں میں اصل اباحت اور جواز ہے ان کے کلام میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قاعدہ عبادات میں جاری نہیں ہوتا، یہ قاعدہ اموال ، امور عادیہ ، دنیاوی امور اور کھانے پینے کی چیزوں کے متعلق ہے ۔
عبادات کے متعلق اصل قاعدہ یہ ہے کہ جو عبادات جس طریقے سے ثابت ہو وہ جائز ہوگی اور جو چیز بطور عبادت رسول ﷺ ، صحابہ وتابعین سے ثابت نہ ہو وہ عبادت نہیں ہوگی اور اس کا بطور عبادت بھی انجام دینا جائز نہ ہوگا ۔
اور اگر یہ بات ( کہ افعال و عبادات میں اصل جواز ہے اور کسی بھی فعل کے جواز کیلئے یہ کافی ہے کہ اس سے منع ثابت نہ ہو ) اگر بالفرض مان بھی لی جائے تب بھی آج کل مروج عید میلاد النبی کو جائز نہیں کہا جا سکتا ، کیونکہ شریعت کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ وہ مباح بلکہ مستحب چیز جس کو لوگ لازم سمجھنے لگیں وہ ناجائز و حرام بن جاتی ہے ۔ کیونکہ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں طرف گھومنے کو اپنے اوپر لازم سمجھ کر شیطان کو نماز میں حصہ نہ دے ، کیونکہ ( دائیں طرف گھومنا اگرچہ افضل ہے لیکن ) نبی کریم ﷺ سے بائیں طرف گھومنا بھی ثابت ہے ۔
اوریہ بات کس سے ڈھکی چھپی ہے کہ عید میلاد کو نہ صرف باقی دونوں عیدوں سے بہتر سمجھا جاتا ہے ، بلکہ نہ منانے والوں کو گمراہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا عید میلاد اور اس قبیل کی دیگر بدعات پر اصرار ہی انہیں ناجائز قرار دینے کے لئے کافی ہے۔