• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بتا تو سہی کیا یہ کافری ہے؟ خوارج سے شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کا ایک سوال

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

ہم یہاں الشیخ صفی الرحمن مبارپوری رحمہ کا ایک انتہائی قابل غور اور توجہ طلب اقتباس پیش کرنے جارہے ہیں جس کے بعد بہت سے شبہات کا ازالہ ان شاء اللہ ہو جائے گا۔

شیخ صفی الرحمن مبارکپوری (رحمۃ اللہ علیہ) م ١٤٢٧ھ
(برصغیر کے مشہور اہل حدیث عالم دین اور سیرت نبوی پر لکھی گئی شہرۂ آفاق کتاب "الرحیق المختوم" کے مصنف)

"مودودی صاحب کا ایک نظریہ جس پر وہ بڑی پُختگی کے ساتھہ جمے اور حقیقت یہ ہے کے اسی نظریہ کی بنیاد پر انہوں نے اپنی ایک الگ جماعت کی بنیاد رکھی اور اس نظریہ کو اتنی قوت سے پیش کیا کے بڑے بڑے علماء ان سے متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی اسکو قبول کر لیا۔ اگرچہ ان کی جماعت میں داخل نہیں ہوئے مگر متاثر ہوئے اور اسکو قبول کیا۔ میرے سامنے وہ چیز آئی تو میں بھی کچھہ دنوں تک الجھا رہا لیکن اسکے بعد اللہ تعالٰی نے اس مسئلے کو ایسا صاف کھول دیا کہ کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہیں رہا اور ابھی میں آپ کے سامنے پیش کروں گا تو آپ کو بھی ان شاءاللہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہے گا، اتنا صاف اللہ تعالٰی نے اس کو کھول دیا۔

مولانا کا نظریہ یہ تھا کہ کسی کی مستقل اطاعت کی جائے تو یہی اس کی عبادت ہے۔ مسلمان اللہ تعالٰی کی مستقل اطاعت کرتا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اس لئے کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ گویا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت جو ہے وہ اللہ تعالٰی کی اطاعت کی ماتحتی میں ہے لہذا آپ کی جب اطاعت کی جائے گی تو اللہ تعالٰی کی اطاعت ہو گی اور یہ عبادت اللہ کی عبادت بنے گی۔ اب وہاں سے انہوں نے ایک دوسرا مسئلہ نکالا کہ اگر کوئی حکومت اللہ تعالٰی کے قانون کی بالا دستی کے بغیر حکومت کر رہی ہو تو اس حکومت کی اطاعت کرنا، یہ اس کی عبادت کرنا ہے اور یہ شرک ہے اور یہیں سے شرک فی الحاکمیت کا نظریہ انہوں نے لیا اور اس کو بڑی قوت کے ساتھہ پیش کیا اور آج تک اس میں بہت سارے لوگ مشغول ہیں۔
اب میں اس کی حقیقت آپ کے سامنے (پیش کرتا ہوں) یعنی سو، دو سو، چار سو، چھہ سو اور کہیں کہیں آٹھہ سو صفحات تک کی کتابیں جو ہیں اس مسئلہ پر لوگوں نے لکھہ ماری ہیں۔ مسئلہ اس قدر الجھا دیا ہے اور اتنی لمبی لمبی بحث کہ اندازہ کرنا مشکل ہو جائے گا، اس لئے میں آپ کے سامنے چند لفظوں مین بہت دو ٹوک طریقے سے اس معاملے کو پیش کرتا ہوں۔

اطاعت عبادت ہے؟ یا عبادت کچھہ اور چیز ہے اور اطاعت کچھہ اور چیز ہے؟ اسکو آپ سمجھئے!​

اسکو سمجھنے کے لئے میں آپ کے سامنے ایک یا دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔

میرے سامنے ایک نو جوان آیا جما عت اسلامی کا، باتیں کرنے لگا۔ میں بھی ان سے بات کر رہا تھا۔ اب وہ آیا اپنی دعوت کی طرف کہ صاحب ہماری یہ دعوت ہے، میں نے کہا ہاں میں جانتا ہوں۔ وہ چاہتا تھا کہ میں بھی اسکو قبول کر لوں۔ تو میں نے بولا دیکھو تمہاری یہ دعوت جو ہے صحیح نہیں ہے۔

کہا کیسے صحیح نہیں ہے؟

میں نے کہا کہ اگر یہ بیان تمہارا صحیح ہے کہ کوئی شخص کسی حکومت کی اطاعت کرے اور وہ حکومت اللہ کے قانون کی بالا دستی کے تحت نہ چل رہی ہو تو یہ اطاعت عبادت ہو جائے گی، اگر یہ بات صحیح ہے تو مہر بانی کر کے باہر چلے جاؤ اور کسی مسلمان کو دیکھو کہ وہ سڑک پر با ئیں کنارے سے (ہندوستان میں ہر چیز بائیں کنارے سے چلتی ہے سڑک پر) تو اگر وہ سڑک پر بائیں کنارے سے سائیکل چلا رہا ہو تو اسے کہو کہ بھائی تم ادھر سائیکل مت چلاؤ، اس کنارے میں سائیکل چلانا شرک ہے۔

اب وہ بڑے زور سے بلبلایا کہا کہ مولانا یہ کیا کہہ رہے ہیں؟

میں نے کہا میں وہی بات کر رہا ہوں جو تم نے کہی ہے۔ جو بات تم نے کہی ہے میں اسکا نتیجہ بتا رہا ہوں۔

کہا کیسے؟

میں نے کہا یہ حکومت ہندوستان جو ہے اس کی جو حکومت ہے وہ اللہ کے قانون کی بالا دستی کے بغیر ہے یا اللہ کے قانون کی بالا دستی کے تحت ہے؟
کہا کہ نہیں، اللہ کہ قانون کو تسلیم کیے بغیر حکومت کر رہی ہے۔

تو میں نے کہا اس کے جو قوانین ہونگے ان کی اطاعت کرنا شرک ہوگا یا نہیں ہوگا؟
کہا ہوگا۔

تو میں نے کہا اسی کے قانون کا ایک حصہ ہے کہ سائیکل سڑک کے بائیں کنارے چلائی جائیں۔ لہذا اگر کوئی بائیں کنارے سے سائیکل چلاتا ہے اس حکومت کی اطاعت کرتا ہے اور اسی اطاعت کو آپ عبادت کہتے ہیں۔ اور غیر اللہ کی عبادت کو شرک مانتے ہیں لہذا یہ شرک ہوا۔

اب وہ ایک دم پریشان ہو گیا۔

اس نے کہا کہ صاحب آپ ہی بتائیے کے پھر صحیح کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ دیکھو اطاعت دوسری چیز ہے اور عبادت دوسری چیز ہے۔

ایسا ہو سکتا ہے کہ کبھی ایک ہی عمل اطاعت بھی ہو اور عبادت بھی ہو لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے ایک عمل اطاعت ہو عبادت نہ ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے ایک عمل عبادت ہو اور اطاعت نہ ہو، یہ سب کچھہ ممکن ہے۔ کہا کیسے ہے؟ میں نے کہا آپ سنیں میں بتاتا ہوں۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس آئے انہوں نے پوچھا کہ ﴿ مَا تَعْبُدُونَ ﴾، (تم لوگ کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟) قوم نے کہا ( قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ) (الشعراء: ٧٠-٧١)( کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور انکے لیے مجاور بن کر بیٹھہ جاتے ہیں)۔

اب یہ بتائیے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم جن بتوں کی عبادت کر رہی تھی کیا وہ ان بتوں کی اطاعت بھی کر رہی تھی؟ وہ بت تو اس لائق سرے سے تھے ہی نہیں کہ کسی بات کا حکم دے سکیں یا کسی بات سے روک سکیں۔ تو یہ قوم جو عبادت کر رہی تھی وہ عبادت تو ہوئی لیکن اطاعت نہیں ہوگی یہاں پر۔ ماننا پڑے گا کہ ہاں بات ٹھیک ہے کہ وہ لوگ اطاعت تو نہیں کر رہے تھے مگر عبادت کر رہے تھے۔ مانا کہ اچھا اور آگے آؤ ذرا سا۔

عیسائیوں کے متعلق اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی جگہ تبصرہ کیا ہے۔ قیامت کے روز پوچھے گا اللہ تعالٰی عیسٰی (علیہ السلام) سے کہ ﴿ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ ﴾ (المائدة: ١١٦) اے عیسٰی (کیا تم نے یہ کہا تھا کہ لوگوں مجھہ کو اور میری ماں کو معبود بنا لو؟) تو عیسٰی (علیہ السلام) فوراً اسکی نفی کریں گے۔ کہیں گے ہم نہیں جانتے۔ جب تک میں زندہ تھا میں انکی دیکھہ بھال کرتا رہا، جب تو نے مجھہ کو اٹھا لیا تو پھر تو انکا نگران تھا میں کچھہ نہیں جانتا کہ انہوں نے کیا کیا۔ اس طرح سے وہ اپنی براءت کریں گے۔ اچھا اسی قرآن میں یہ بتایا گیا ہے عیسائیوں کے تعلق سے اور عیسٰی (علیہ السلام) کی جوعبادت کرتے تھے کہ یہ لوگ ایسے شخص کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان دے سکتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ وہ عیسٰی (علیہ السلام) کی عبادت کرتے تھے اور عیسٰی (علیہ السلام) نفع نقصان نہیں دے سکتے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عیسٰی (علیہ السلام) کی عبادت جو وہ کر رہے تھے تو کیا انکی اطاعت بھی کر رہے تھے؟
میں نے ان سے پوچھا: عبادت تو ثابت ہوئی، قرآن نے بھی انکے اس عمل کو عبادت ہی کہا ہے، تو کیا عیسائی جو انکی عبادت کرتے ہیں یا کر رہے تھے تو انکی اطاعت بھی کر رہے تھے؟ اطاعت تو نہیں کر رہے تھے۔ عیسٰی (علیہ السلام) نے کبھی حکم نہیں دیا کے میری عبادت کرو، بلکہ اسے منع کیا ہے۔ تو وہ انکی معصیت کر رہے تھے۔ اطاعت کے بجائے نافرمانی کر رہے تھے اور وہ عبادت تھی۔ تو عبادت کے لئے ضروری نہیں ہے کے جسکی عبادت کی جائے اسکی اطاعت بھی کی جائے۔ بغیر اطاعت کے بھی عبادت ہو سکتی ہے اور نافرمانی کے صورت میں بھی عبادت ہو سکتی ہے۔ اسکو عبادت نہیں کہیں گے۔

یہ مسئلہ ہے، بالکل صاف ہو جاتاہے۔ اب صاف ہونے کے بعد آپکو کیا جاننا چاہئیے؟

کسی کے حکم کو ماننا اور بجا لانا یہ اسکی اطاعت ہے۔ اور کسی کے تقرب کے لئے یعنی اسکی رضا کے لئے اور اسباب سے بالاتر ہو کر کے اسکی رضا کی جو صورت ہوتی ہے اس رضا کے لئے کوئی کام کرنا یہ اسکی عبادت ہے۔ تو وہ لوگ عیسٰی (علیہ السلام) کی رضا کے لئے کام کرتے تھے لہذا یہ ان کے عبادت تھی، اور انکی فرمانبرداری نہیں کرتے تھے لہذا اطاعت نہیں تھی۔
ہم نماز پڑھتے ہیں تو اس سےاللہ تعالٰی کی رضا چاہتے ہیں اور اسکا تقرب چاہتے ہیں، اس معنی میں یہ نماز عبادت ہے۔ اور اللہ نے جو حکم دیا ہے اسکو بجا لا رہے ہیں، اس معنی میں یہ اسکی اطاعت ہے۔ اطاعت دوسرے معنی میں ہے عبادت دوسرے معنی میں ہے۔نماز ایک کام ہے مگر اس میں دونوں چیزیں جمع ہیں، اطاعت بھی ہے اور عبادت بھی ہے۔

اب مولانا مودودی نے چونکہ یہ نقطہ نکالا تھا کہ کسی کی مستقل اطاعت کرنا ہی عبادت ہے لہذا وہ کہتے تھے کہ بندہ اگر اللہ تعالٰی کی اطاعت میں زندگی گزارتا ہے تو ساری زندگی اسکی عبادت ہو جائےگی۔ تو انکے نقطہ نظر سے تو ظاہری بات ہے یہ عبادت ہو جائے گی۔ لیکن ظاہر بات ہے یہ قرآن کا جو نقطہ نظر ہے اسکے اعتبار سے یہ ساری زندگی یہ عبادت نہیں ہو گی۔ اطاعت البتہ ہو گی، اگر اللہ تعالٰی کا حکم وہ بجا لایا ہے تو ساری زندگی اس نے اطاعت کی ہے، اور یہ کار ثواب ہے اور اسکا اسکو ثواب ملے گا۔ لیکن اسکو عبادت نہیں کہیں گے۔ صحیح معنی یہی ہے
شیخ کی اردو تقریر کے آخر میں موجود سوال وجواب کی نشست سے لیا گیا​
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس آیت سے کچھ لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جس ذبیحہ پر اللہ کانام نہ لیا جائے وہ حلال نہیں ہے اگرچہ ذبح کرنے والامسلمان ہی کیوں نہ ہو۔طبرانی میں سنداً ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو فارس نے قریش کے پا س پیغام بھیجا کہ محمدﷺسے کہو(کہ یہ کیا بات ہوئی کہ)جو تم اپنے ہاتھ سے ذبح کرو وہ حلال ہے اور جسے اللہ سونے کی تلوار سے ذبح کرے وہ حرام ہے ؟یعنی مردار تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ :اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ۔یعنی فارس کے شیاطین اپنے دوستوں قریش کو کہتے ہیں ۔دوسری جگہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ان الفاظ سے مروی ہے جسے تم قتل کردو اس پر اللہ کانام لیا گیا ہے اور جو خود مرجائے اس پر اللہ کانام نہیں لیا گیا ؟اس آیت کی تفسیر میں سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں مشرکین مسلمانوں کوکہتے تھے تم کس طرح اللہ کی رضاکی پیروی کرتے ہو جسے اللہ ماردیتا ہے تم اسے نہیں کھاتے اورجسے تم ذبح کرلیتے ہواسے کھاتے ہو؟اللہ نے فرمایا:وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ۔اگر تم نے مردار کھانے میں ان کی پیروی کی توتم مشرک ہوگے ۔مجاہداور ضحاک وغیرہ رحمہم اللہ نے بھی یہی کہا ہے ۔وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ۔کامطلب ہے کہ اگر تم نے اللہ کے فرمان اور شریعت کو چھوڑ کر کسی اور کے قول کی طرف گئے اور اسے اللہ کی شریعت پر مقدم کرلیا تو یہ شرک ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ ۔ترمذی نے اس کی تفسیر میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا اللہ کے رسول ﷺانہوں نے عبادت تونہیں کی تھی ؟آپ ﷺنے فرمایا:یہ صحیح ہے مگر انہوں نے احبار ورھبان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام مان لیا تھا یہی ان کی عبادت تھی (ابن کثیر:۲/۲۷۵،حدیث ابن ماجہ ،ابن ابی حاتم اور حاکم میں صحیح سندوں سے مروی ہے)۔
اسے بھی پڑھ لیا جائے تو بہتر ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احبار و رہبان کی اطاعت کو عبادت ہی قرار دیا ہے۔لہٰذا یہی تفسیر صحیح ترجمانی کرتی ہے۔کیونکہ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
سمیر خان نے کہا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احبار و رہبان کی اطاعت کو عبادت ہی قرار دیا ہے۔لہٰذا یہی تفسیر صحیح ترجمانی کرتی ہے۔کیونکہ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
عرض ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احبار و رہبان کی اطاعت کو نہیں بلکہ ان کے قرار دیے کو حرام اور ان کے قرار دیے کو حلال جاننے کو عبادت قرار دیا ہے۔ اطاعت تو معروف میں بھی ہوتی ہے تو کیا وہ بھی عبادت ہوتی ہے؟
ثابت ہوا کہ اخبار و رہبان کو حلال و حرام کا مختار سمجھنے والے ان کی عبادت کرنے والے قرار پائے نہ کہ صرف اطاعت کرنے والے۔ طاعت کرنے والے تو بہت سے وہ بھی ہوتے ہین جنہیں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ حلال و حرام کا یہ فیصلہ اخبار و رہبان کا اپنا ہے یا یہ شریعت کا فیصلہ ہی بتا رہے ہیں۔شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کے بیان کردہ اطاعت و عبادت کے اس فرق کو یوں بھی سمجھیں کہ ہم برملا کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں تو کیا یہ کہنا بھی جائز ہے کہ ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی عبادت کرتے ہیں؟ معلوم ہوا کہ اطاعت و عبادت میں فرق ہے۔ ہر عبادت اطاعت کے تحت ہے لیکن ہر اطاعت عبادت کے تحت نہیں۔ لہٰذا شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کا نقطہ نظر بالکل صحیح ہے۔ اللہ سمجھنے کی توفیق دے، آمین
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
اول تومولانا مبارکپوری مرحوم سے منسوب یہ تحریر کہاں پائی جاتی ہے ؟؟ کہاں طبع ہوئی؟؟اس بات کی تحقیق فرمائی جائے، مولانا سے اس کی نسبت ہی مشکوک امر معلوم ہوتا ہے ۔

دوسرا یہ کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کا نظریہ خود ان کے الفاظ میں کسی نے زحمت کی ہے پڑھنے کی؟؟

مولانا فرماتے ہیں::
""ان آیات میں الٰہ کا ایک اور مفہوم ملتا ہے جو پہلے مفہومات سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں فوق الطبعی اقتدار کا کوئی تصور نہیں ہے جسے الٰہ بنایا گیا ہے وہ یا تو کوئی انسان ہے یا انسان کا اپنا نفس ہے۔ اور الٰہ اسے اس معنی میں نہیں بنایا گیا ہے کہ اس سے دعا مانگی جاتی ہو یا اسے نفع و نقصان کا مالک سمجھا جاتا ہو، اور اس سے پناہ ڈھونڈی جاتی ہو۔

بلکہ وہ اس معنی میں الٰہ بنایا گیا ہے کہ اس کے حکم کو قانون تسلیم کیا گیا ، اس کے امرونہی کی اطاعت کی گئی ، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مان لیا گیا، اور یہ خیال کر لیا گیا کہ اسے بجائے خود حکم دینے کا اور منع کرنے کا اختیار حاصل ہے، کوئی اور اقتدار اس سے بالاتر نہیں ہے جس سے سند لینے اور جس سے رجوع کرنے کی ضرورت ہو۔

پہلی آیت(( اتخذوا احبارھم۔۔۔الخ)) میں علماء اور راہبوں کو الٰہ بنانے کا ذکر ہے۔ اس کی واضح تشریح ہمیں حدیث میں ملتی ہے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے جب اس آیت کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس چیز کو تمہارے علماء اور راہبوں نے حلال کیا اسے تم لوگ حلال مان لیتے تھے، اور جسے حرام قرار دیا اسے تم حرام تسلیم کر لیتے تھے اور اس بات کی کچھ پروا نہ کرتے تھے کہ اللہ کا اس بارے میں کیا حکم ہے۔""
(قرآن کی ٤ بنیادی اصطلاحیں : 22صفحہ))

اب دیکھیں ذرا اوپر کی عبارت اور اس میں کوئی فرق ہے جو؟؟ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احبار و رہبان کی اطاعت کو نہیں بلکہ ان کے قرار دیے کو حرام اور ان کے قرار دیے کو حلال جاننے کو عبادت قرار دیا ہے۔ اطاعت تو معروف میں بھی ہوتی ہے تو کیا وہ بھی عبادت ہوتی ہے؟
ثابت ہوا کہ اخبار و رہبان کو حلال و حرام کا مختار سمجھنے والے ان کی عبادت کرنے والے قرار پائے نہ کہ صرف اطاعت کرنے والے۔
سید رحمہ اللہ کا اس بابت کوئی اور موقف کسی اہل علم کی نظر سے گزرا ہو تو میں منتظر رہوں گا۔


قریب دو سالوں سے یہی مکھی پر مکھی مارتے ہوئے مختلف سوشل نیٹ ورکس پر کاپی پیسٹ صآحبان کو دیکھ رہا ہوں۔ لیکن کیا مجال ہے جو کسی اللہ کے نیک بندے نے اس پورے مقدمہ کے ملزم کا موقف خود اس کے الفاظ میں پڑھنے کی کوشش بھی کی ہو!!

وہی اہلحدیثوں کا موقف دیوبندیوں کی کتابوں اور دیوبند کا موقف بریلویوں کی کتب سے سمجھنے کی روش ۔۔۔۔۔۔۔!!

اب کسی کو عینک کا نمبر بدلنا ہو تو بدل سکتا ہے۔

والسلام
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
حقيقة توحيد الحاكمية​
ما رأيكم في إنكار توحيد الحاكمية، وهل إفراده بقسم مستقل خروج عن مذهب السلف، وفي أي أنواع التوحيد يدخل هذا القسم ؟.

الحمد لله
توحيد الحاكمية ، لا يجوز إنكاره ، فهو نوع من أنواع التوحيد ، ولكنه داخل في توحيد العبادة بالنسبة للحاكم نفسه كشخص ، أما بالنسبة له فهو يعني : التوحيد، فهو داخل في توحيد الربوبية، لأن الحاكم هو الله تعالى .

فيجب أن يكون الرب المتصرف هو الذي له الحكم فهو يكون داخلاً في توحيد الربوبية من حيث الحكم والأمر والنهي والتصرف ، أما من حيث التطبيق والعمل فالعبد مكلف باتباع حكم الله فهو من توحيد العبادة من هذه الجهة .

وجعله قسماً رابعاً ليس له وجه ، لأنه داخل في الأقسام الثلاثة ، والتقسيم بلا مقتضى يكون زيادة كلام لا داعي له ، والأمر سهل فيه على كل حال ، إذا جعل قسماً مستقلاً فهو مرادف ، ولا محذور فيه.


الشيخ عبد الله الغنيمان
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
The meaning of the unity of judicature
|
What is your view of the denial of the unity of judicature (Tawheed al-Haakimiyyah)? Is counting it as a separate category (of Tawheed) contrary to the teachings of the Salaf? Under what types of Tawheed is this matter counted?

Praise be to Allaah.

It is not permissible to deny the unity of judicature, because it is one of the types of Tawheed, but it comes under the heading of unity of worship (Tawheed al-‘Ibaadah) with regard to the ruler when he rules according to sharee’ah. But with regard to this concept (Tawheed), it comes under the heading of the unity of Lordship (Tawheed al-Ruboobiyyah), because the Ruler is Allaah, may He be exalted.

The Lord Who is in control of all things has to be the Ruler, so it comes under the heading of Tawheed al-Ruboobiyyah as far as rulings, commands, prohibitions and control are concerned. But with regard to implementation and acting upon it, a person is obliged to follow the rulings of Allaah, thus it comes under the heading of Tawheed al-‘Ibaadah in this regard.

There is no reason to make it a fourth category of Tawheed, because it is included in the three existing categories. There is no need to add further categories. The matter is easy to understand anyway, but if a person wishes to study the issue of judicature (al-haakimiyyah) separately, he will find that it is synonymous with other concepts, but that is fine.


Shaykh ‘Abd-Allaah ibn al-Ghunaymaan
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
باربروسا بھائی دیکھئے تو سہی کہ مین نے رد کس پر کیا ہے۔ مین نے تو کہیً مولانا مودودی کا نام استعمال ہی نہیں کیا۔ میرے الفاظ سمیر خان کی پوسٹ کے متعلق ہیں۔ بہرحال اللہ آپ کو جزا دے، آمین۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
باربروسا بھائی دیکھئے تو سہی کہ مین نے رد کس پر کیا ہے۔ مین نے تو کہیً مولانا مودودی کا نام استعمال ہی نہیں کیا۔ میرے الفاظ سمیر خان کی پوسٹ کے متعلق ہیں۔ بہرحال اللہ آپ کو جزا دے، آمین۔
بھائی جان میں نے بھی ذکر خیر ان "مکھی در مکھی" مارنے والے کاپی پیسٹ کرنے والے "نان سٹیٹ ایکٹرز" کا کیا ہے۔ (ابتسامہ)

خان سمیر خان کے پڑھنے کا اقتباس بھی ایک بار پھر یہی ہے:

""ان آیات میں الٰہ کا ایک اور مفہوم ملتا ہے جو پہلے مفہومات سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں فوق الطبعی اقتدار کا کوئی تصور نہیں ہے جسے الٰہ بنایا گیا ہے وہ یا تو کوئی انسان ہے یا انسان کا اپنا نفس ہے۔ اور الٰہ اسے اس معنی میں نہیں بنایا گیا ہے کہ اس سے دعا مانگی جاتی ہو یا اسے نفع و نقصان کا مالک سمجھا جاتا ہو، اور اس سے پناہ ڈھونڈی جاتی ہو۔

بلکہ وہ اس معنی میں الٰہ بنایا گیا ہے کہ اس کے حکم کو قانون تسلیم کیا گیا ، اس کے امرونہی کی اطاعت کی گئی ، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مان لیا گیا، اور یہ خیال کر لیا گیا کہ اسے بجائے خود حکم دینے کا اور منع کرنے کا اختیار حاصل ہے، کوئی اور اقتدار اس سے بالاتر نہیں ہے جس سے سند لینے اور جس سے رجوع کرنے کی ضرورت ہو۔

پہلی آیت(( اتخذوا احبارھم۔۔۔الخ)) میں علماء اور راہبوں کو الٰہ بنانے کا ذکر ہے۔ اس کی واضح تشریح ہمیں حدیث میں ملتی ہے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے جب اس آیت کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس چیز کو تمہارے علماء اور راہبوں نے حلال کیا اسے تم لوگ حلال مان لیتے تھے، اور جسے حرام قرار دیا اسے تم حرام تسلیم کر لیتے تھے اور اس بات کی کچھ پروا نہ کرتے تھے کہ اللہ کا اس بارے میں کیا حکم ہے۔""
 
Top