القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم یہاں الشیخ صفی الرحمن مبارپوری رحمہ کا ایک انتہائی قابل غور اور توجہ طلب اقتباس پیش کرنے جارہے ہیں جس کے بعد بہت سے شبہات کا ازالہ ان شاء اللہ ہو جائے گا۔
شیخ صفی الرحمن مبارکپوری (رحمۃ اللہ علیہ) م ١٤٢٧ھ
(برصغیر کے مشہور اہل حدیث عالم دین اور سیرت نبوی پر لکھی گئی شہرۂ آفاق کتاب "الرحیق المختوم" کے مصنف)
(برصغیر کے مشہور اہل حدیث عالم دین اور سیرت نبوی پر لکھی گئی شہرۂ آفاق کتاب "الرحیق المختوم" کے مصنف)
"مودودی صاحب کا ایک نظریہ جس پر وہ بڑی پُختگی کے ساتھہ جمے اور حقیقت یہ ہے کے اسی نظریہ کی بنیاد پر انہوں نے اپنی ایک الگ جماعت کی بنیاد رکھی اور اس نظریہ کو اتنی قوت سے پیش کیا کے بڑے بڑے علماء ان سے متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی اسکو قبول کر لیا۔ اگرچہ ان کی جماعت میں داخل نہیں ہوئے مگر متاثر ہوئے اور اسکو قبول کیا۔ میرے سامنے وہ چیز آئی تو میں بھی کچھہ دنوں تک الجھا رہا لیکن اسکے بعد اللہ تعالٰی نے اس مسئلے کو ایسا صاف کھول دیا کہ کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہیں رہا اور ابھی میں آپ کے سامنے پیش کروں گا تو آپ کو بھی ان شاءاللہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہے گا، اتنا صاف اللہ تعالٰی نے اس کو کھول دیا۔
مولانا کا نظریہ یہ تھا کہ کسی کی مستقل اطاعت کی جائے تو یہی اس کی عبادت ہے۔ مسلمان اللہ تعالٰی کی مستقل اطاعت کرتا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اس لئے کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ گویا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت جو ہے وہ اللہ تعالٰی کی اطاعت کی ماتحتی میں ہے لہذا آپ کی جب اطاعت کی جائے گی تو اللہ تعالٰی کی اطاعت ہو گی اور یہ عبادت اللہ کی عبادت بنے گی۔ اب وہاں سے انہوں نے ایک دوسرا مسئلہ نکالا کہ اگر کوئی حکومت اللہ تعالٰی کے قانون کی بالا دستی کے بغیر حکومت کر رہی ہو تو اس حکومت کی اطاعت کرنا، یہ اس کی عبادت کرنا ہے اور یہ شرک ہے اور یہیں سے شرک فی الحاکمیت کا نظریہ انہوں نے لیا اور اس کو بڑی قوت کے ساتھہ پیش کیا اور آج تک اس میں بہت سارے لوگ مشغول ہیں۔
اب میں اس کی حقیقت آپ کے سامنے (پیش کرتا ہوں) یعنی سو، دو سو، چار سو، چھہ سو اور کہیں کہیں آٹھہ سو صفحات تک کی کتابیں جو ہیں اس مسئلہ پر لوگوں نے لکھہ ماری ہیں۔ مسئلہ اس قدر الجھا دیا ہے اور اتنی لمبی لمبی بحث کہ اندازہ کرنا مشکل ہو جائے گا، اس لئے میں آپ کے سامنے چند لفظوں مین بہت دو ٹوک طریقے سے اس معاملے کو پیش کرتا ہوں۔
اطاعت عبادت ہے؟ یا عبادت کچھہ اور چیز ہے اور اطاعت کچھہ اور چیز ہے؟ اسکو آپ سمجھئے!
اسکو سمجھنے کے لئے میں آپ کے سامنے ایک یا دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔
میرے سامنے ایک نو جوان آیا جما عت اسلامی کا، باتیں کرنے لگا۔ میں بھی ان سے بات کر رہا تھا۔ اب وہ آیا اپنی دعوت کی طرف کہ صاحب ہماری یہ دعوت ہے، میں نے کہا ہاں میں جانتا ہوں۔ وہ چاہتا تھا کہ میں بھی اسکو قبول کر لوں۔ تو میں نے بولا دیکھو تمہاری یہ دعوت جو ہے صحیح نہیں ہے۔
کہا کیسے صحیح نہیں ہے؟
میں نے کہا کہ اگر یہ بیان تمہارا صحیح ہے کہ کوئی شخص کسی حکومت کی اطاعت کرے اور وہ حکومت اللہ کے قانون کی بالا دستی کے تحت نہ چل رہی ہو تو یہ اطاعت عبادت ہو جائے گی، اگر یہ بات صحیح ہے تو مہر بانی کر کے باہر چلے جاؤ اور کسی مسلمان کو دیکھو کہ وہ سڑک پر با ئیں کنارے سے (ہندوستان میں ہر چیز بائیں کنارے سے چلتی ہے سڑک پر) تو اگر وہ سڑک پر بائیں کنارے سے سائیکل چلا رہا ہو تو اسے کہو کہ بھائی تم ادھر سائیکل مت چلاؤ، اس کنارے میں سائیکل چلانا شرک ہے۔
اب وہ بڑے زور سے بلبلایا کہا کہ مولانا یہ کیا کہہ رہے ہیں؟
میں نے کہا میں وہی بات کر رہا ہوں جو تم نے کہی ہے۔ جو بات تم نے کہی ہے میں اسکا نتیجہ بتا رہا ہوں۔
کہا کیسے؟
میں نے کہا یہ حکومت ہندوستان جو ہے اس کی جو حکومت ہے وہ اللہ کے قانون کی بالا دستی کے بغیر ہے یا اللہ کے قانون کی بالا دستی کے تحت ہے؟
کہا کہ نہیں، اللہ کہ قانون کو تسلیم کیے بغیر حکومت کر رہی ہے۔
تو میں نے کہا اس کے جو قوانین ہونگے ان کی اطاعت کرنا شرک ہوگا یا نہیں ہوگا؟
کہا ہوگا۔
تو میں نے کہا اسی کے قانون کا ایک حصہ ہے کہ سائیکل سڑک کے بائیں کنارے چلائی جائیں۔ لہذا اگر کوئی بائیں کنارے سے سائیکل چلاتا ہے اس حکومت کی اطاعت کرتا ہے اور اسی اطاعت کو آپ عبادت کہتے ہیں۔ اور غیر اللہ کی عبادت کو شرک مانتے ہیں لہذا یہ شرک ہوا۔
اب وہ ایک دم پریشان ہو گیا۔
اس نے کہا کہ صاحب آپ ہی بتائیے کے پھر صحیح کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ دیکھو اطاعت دوسری چیز ہے اور عبادت دوسری چیز ہے۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ کبھی ایک ہی عمل اطاعت بھی ہو اور عبادت بھی ہو لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے ایک عمل اطاعت ہو عبادت نہ ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے ایک عمل عبادت ہو اور اطاعت نہ ہو، یہ سب کچھہ ممکن ہے۔ کہا کیسے ہے؟ میں نے کہا آپ سنیں میں بتاتا ہوں۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس آئے انہوں نے پوچھا کہ ﴿ مَا تَعْبُدُونَ ﴾، (تم لوگ کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟) قوم نے کہا ( قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ) (الشعراء: ٧٠-٧١)( کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور انکے لیے مجاور بن کر بیٹھہ جاتے ہیں)۔
اب یہ بتائیے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم جن بتوں کی عبادت کر رہی تھی کیا وہ ان بتوں کی اطاعت بھی کر رہی تھی؟ وہ بت تو اس لائق سرے سے تھے ہی نہیں کہ کسی بات کا حکم دے سکیں یا کسی بات سے روک سکیں۔ تو یہ قوم جو عبادت کر رہی تھی وہ عبادت تو ہوئی لیکن اطاعت نہیں ہوگی یہاں پر۔ ماننا پڑے گا کہ ہاں بات ٹھیک ہے کہ وہ لوگ اطاعت تو نہیں کر رہے تھے مگر عبادت کر رہے تھے۔ مانا کہ اچھا اور آگے آؤ ذرا سا۔
عیسائیوں کے متعلق اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی جگہ تبصرہ کیا ہے۔ قیامت کے روز پوچھے گا اللہ تعالٰی عیسٰی (علیہ السلام) سے کہ ﴿ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـهَيْنِ ﴾ (المائدة: ١١٦) اے عیسٰی (کیا تم نے یہ کہا تھا کہ لوگوں مجھہ کو اور میری ماں کو معبود بنا لو؟) تو عیسٰی (علیہ السلام) فوراً اسکی نفی کریں گے۔ کہیں گے ہم نہیں جانتے۔ جب تک میں زندہ تھا میں انکی دیکھہ بھال کرتا رہا، جب تو نے مجھہ کو اٹھا لیا تو پھر تو انکا نگران تھا میں کچھہ نہیں جانتا کہ انہوں نے کیا کیا۔ اس طرح سے وہ اپنی براءت کریں گے۔ اچھا اسی قرآن میں یہ بتایا گیا ہے عیسائیوں کے تعلق سے اور عیسٰی (علیہ السلام) کی جوعبادت کرتے تھے کہ یہ لوگ ایسے شخص کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان دے سکتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ وہ عیسٰی (علیہ السلام) کی عبادت کرتے تھے اور عیسٰی (علیہ السلام) نفع نقصان نہیں دے سکتے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عیسٰی (علیہ السلام) کی عبادت جو وہ کر رہے تھے تو کیا انکی اطاعت بھی کر رہے تھے؟
میں نے ان سے پوچھا: عبادت تو ثابت ہوئی، قرآن نے بھی انکے اس عمل کو عبادت ہی کہا ہے، تو کیا عیسائی جو انکی عبادت کرتے ہیں یا کر رہے تھے تو انکی اطاعت بھی کر رہے تھے؟ اطاعت تو نہیں کر رہے تھے۔ عیسٰی (علیہ السلام) نے کبھی حکم نہیں دیا کے میری عبادت کرو، بلکہ اسے منع کیا ہے۔ تو وہ انکی معصیت کر رہے تھے۔ اطاعت کے بجائے نافرمانی کر رہے تھے اور وہ عبادت تھی۔ تو عبادت کے لئے ضروری نہیں ہے کے جسکی عبادت کی جائے اسکی اطاعت بھی کی جائے۔ بغیر اطاعت کے بھی عبادت ہو سکتی ہے اور نافرمانی کے صورت میں بھی عبادت ہو سکتی ہے۔ اسکو عبادت نہیں کہیں گے۔
یہ مسئلہ ہے، بالکل صاف ہو جاتاہے۔ اب صاف ہونے کے بعد آپکو کیا جاننا چاہئیے؟
کسی کے حکم کو ماننا اور بجا لانا یہ اسکی اطاعت ہے۔ اور کسی کے تقرب کے لئے یعنی اسکی رضا کے لئے اور اسباب سے بالاتر ہو کر کے اسکی رضا کی جو صورت ہوتی ہے اس رضا کے لئے کوئی کام کرنا یہ اسکی عبادت ہے۔ تو وہ لوگ عیسٰی (علیہ السلام) کی رضا کے لئے کام کرتے تھے لہذا یہ ان کے عبادت تھی، اور انکی فرمانبرداری نہیں کرتے تھے لہذا اطاعت نہیں تھی۔
ہم نماز پڑھتے ہیں تو اس سےاللہ تعالٰی کی رضا چاہتے ہیں اور اسکا تقرب چاہتے ہیں، اس معنی میں یہ نماز عبادت ہے۔ اور اللہ نے جو حکم دیا ہے اسکو بجا لا رہے ہیں، اس معنی میں یہ اسکی اطاعت ہے۔ اطاعت دوسرے معنی میں ہے عبادت دوسرے معنی میں ہے۔نماز ایک کام ہے مگر اس میں دونوں چیزیں جمع ہیں، اطاعت بھی ہے اور عبادت بھی ہے۔
اب مولانا مودودی نے چونکہ یہ نقطہ نکالا تھا کہ کسی کی مستقل اطاعت کرنا ہی عبادت ہے لہذا وہ کہتے تھے کہ بندہ اگر اللہ تعالٰی کی اطاعت میں زندگی گزارتا ہے تو ساری زندگی اسکی عبادت ہو جائےگی۔ تو انکے نقطہ نظر سے تو ظاہری بات ہے یہ عبادت ہو جائے گی۔ لیکن ظاہر بات ہے یہ قرآن کا جو نقطہ نظر ہے اسکے اعتبار سے یہ ساری زندگی یہ عبادت نہیں ہو گی۔ اطاعت البتہ ہو گی، اگر اللہ تعالٰی کا حکم وہ بجا لایا ہے تو ساری زندگی اس نے اطاعت کی ہے، اور یہ کار ثواب ہے اور اسکا اسکو ثواب ملے گا۔ لیکن اسکو عبادت نہیں کہیں گے۔ صحیح معنی یہی ہے
شیخ کی اردو تقریر کے آخر میں موجود سوال وجواب کی نشست سے لیا گیا