علامہ عبدالسلام بستویؔؒ نے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ
’’شعبان کی پندرھویں شب کی فضیلت کے بارے میں بہت حدیثیں آئی ہیں لیکن وہ سب کمزور ہیں ۔ اسی طرح پندرھویں شعبان کو روزہ رکھنے کی فضیلت جن احادیث میں آئی وہ بھی کمزور بلکہ موضوع ہیں ۔
بعض علماء نے اس رات میں تنہاء عبادت کرنے نفل پڑھنے اور تلاوت کرنے کو جائز کہا ہے لیکن اجتماعی صورت میں عبادت کرنا بدعت بتایا ہے ۔ بعض مقامات پر پندرھویں شب میں نماز باجماعت یہ صلوٰۃ البرأت کے نام سے پڑھی جاتی ہے ا سکا وجود خیر القرون میں نہیں پایا جاتا ۔
صاحب مجالس الابرارؔ نے اس سلسلے میں تفصیل بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’صلوٰۃ البرأۃ کی ابتداء چوتھی صدی ہجری کے بعد بیت المقدس میں اس طرح ہوئی کہ ایک نابلسی آدمی بیت المقدس میں آیا اور شب برأت میں نفل نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا تو ایک شخص اس کی اقتداء میں کھڑا ہو گیا پھر دوسرا پھر تیسرا اورچوتھا اسی طرح نماز پوری کرنے سے پہلے ایک بڑی جماعت اسکی مقتدی بن گئی پھر وہ شخص اگلے سال آیا تو بہت سے لوگوں نے اس کے پیچھے نماز ادا کی اس طرح یہ رسم دوسری مسجدوں اور شہروں میں پھیل گئی اور لوگوں نے اس کو سنت سمجھ کر ادا کرنا شروع کر دیا (حالانکہ یہ بدعت ہے) علمائے متاخرین نے اس کی مذمت بیان کی ہے اور اس میں بڑی خرابیاں بتائیں ہیں (ترجمہ مجالس الابرار صفحہ ۱۷۵) بعض مقامات پر اس رات میں سو رکعتیں باجماعت پڑھی جاتی ہیں اس کو صلوٰۃ الرغائب کے ساتھ موسوم کیا جاتا ہے یہ بھی بدعت ہے اس سلسلہ میں نہ صحیح حدیث ہے اور نہ کوئی اثر‘‘ (اخبار ترجمان دہلی جلد ۱۰ شمارہ ۵ بحوالہ فتاویٰ علمائے اہل حدیث جلد ششم باب احکام شعبان صفحہ ۴۷۴)
امام مجدالدین فیروز آبادیؒ نے کہا کہ ماہِ رجبؔ وشعبان و رمضان کی ہر رات میں اور شب معراج میں کسی مخصوص نماز کی کوئی بات سرے سے ثابت ہی نہیں ہے۔ (بدعات او ران کا شرعی پوسٹمارٹم) شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ستائیسوں رجب کی رات اور اس جیسی دوسری راتوں کی بابت فرمایا کہ اس کے غیر مشروع ہونے پر تمام ائمہ کرام متفق ہیں ۔ معتبر علمائے کرام نے اس بات کو بیان کیاہے اس طرح کاکام صرف جاہل بدعتی ہی کر سکتا ہے (بدعات اور انکا شرعی پوسٹمارٹم صفحہ ۶۰)
علامہ شیخ احمد بن حجر قاضی محکمہ شرعیہ حکومتِ قطر نے لکھا ہے کہ ’’حاصل یہ کہ تمام علمائے محققین مثلاً امام نوویؔ، علامہ ابن حجر ہیثمیؒ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؔ، ابن الجوزیؔ، علامہ ابن حجر عسقلانیؒ، اور تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ رجب، شبِ معراج ، شعبان خصوصاً شعبان کی پندرھویں رات اور رمضان کے سلسلے میں لوگوں نے جو مخصوص نمازیں اور اذکار ایجادکر لئے ہیں وہ اختراعی بدعات ہیں ان کی دلیل نہ کسی صحیح حدیث سے ہے نہ صحابہ و تابعین کے عمل سے ۔ اگر کوئی جاہل اذکار و ادعیہ اور نمازوں کے متعلق وارد شدہ عمومی احکام سے استدلال کرے مثلاً اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل قول سے کہ :
یَآیُّہَا الَّذِیْن اٰمَنُوْا اذْکُرُوْا اﷲَ ذِکْرًا کَثِیْرًاوَّسَبِّحُوْہٗ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً
(الاحزاب ۴۲)
اِنَّ اﷲَ وَمَلاَئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب ۵۶)
وَاِذَا سَألَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِیْ
(غافر ۶۰)
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ
’’اَلصَّلاَۃُ خَیْرُ مَوْضُوْعٍ‘‘
مذکورہ بالاآیات و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوئی جاہل شخص یہ کہے کہ اندنوں اور راتوں میں یعنی پندرھویں شعبان ، ستائیسویں رجب وغیرہ کے دنوں اور راتوں میں ، میں مندرجہ بالا آیات و حدیث کے عموم پر عمل کرتے ہوئے ذکر و اذکار ، دعائیں اور نمازیں پڑھتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ ان پر اور ان کے صحابہؓ پر سال بہ سال کتنے رجب شعبان اور رمضان کے مہینے گزرے لیکن انہوں نے بدعات مذکورہ میں سے کوئی چیز نہیں کی نہ انہوں نے عید میلادالنبیؐ منائی اور نہ اس کے لئے محفل رچائی نہ معراج اور پندرھویں شعبان وغیرہ کے سلسلے میں اس طرح کے اوراد ، وظائف اور اذکار سے انہوں نے سروکار رکھا ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کے مہینے میں بکثرت روزے رکھتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہؓ ام المؤمنین سے مروی حدیث میں ہے ۔ (بحوالہ بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم صفحہ ۴۵۱،۴۵۲)
شیخ نے آگے چل کر
’’ماہِ شعبان کی بدعات‘‘ کے عنوان کے تحت اس شب کی عبادتوں اور جھوٹی روایتوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’پندرھویں شعبان کی رات کا نام لوگ ’’شبِ برأت‘‘رکھے ہوئے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ اس رات میں گناہ بحشے جاتے ہیں ، عمریں بڑھائی جاتی ہیں روزیوں میں اضافہ کیاجاتاہے ۔ بنا بریں لوگ رات بھر جاگ کر زور زور سے دعائیں کرتے ہیں ان دعاؤں کو لوگوں نے ازخود گھڑ لیا ہے جن میں عمر اور روزی میں اضافہ کی درخواست کی جاتی ہے ۔ پھر لوگ قبروں کی زیارت کرتے ہیں ، چراغ جلاتے ہیں ، قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں، گذشتہ شعبان سے موجودہ شعبان تک جو لوگ مرے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نام رجسٹر میں درج کرتے ہیں، حلوہ بناتے ہیں، بیوہ عورت یہ سمجھتی ہے کہ اس کے شوہر کی روح پندرھویں شعبن کی رات میں آئے گی، اس لئے اس کے واسطے کھانا پکاتی ہے اور اس کے انتظار میں بیٹھتی ہے۔
علمائے سوء اس رت کے لئے شب قدر جیسی فضیلتیں بیان کرتے ہیں اور لوگوں کے ذہن میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شب قدر میں جس روح کے نزول کا ذکر قرآن مجید میں ہے اس سے مراد مردوںکی ارواح ہیں‘‘ ۔ (بحوالہ بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم صفحہ ۶۸۵)
فضیلۃ الشیخ علامہ عبداللہ بن زید المحمود رئیس المحاکم الشرعیہ والشؤن الدینیۃ دولۃ قطر نے لکھا ہے ’’اسی طرح پندرھویں شعبان کی فضیلت اور اس قسم کی باتیں کہ اسی موقع پر عمروں کا اندراج کیا جاتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر گناہوں کی مغفرت ہو جاتی ہے یہ اور اس قسم کی روایتیں باطل بھی ہیں اور ہر گز صحیح نہیں ہیں یوں ہی اس رات کی فضیلت کا تصور کر کے اکٹھا ہونا بدعت ہے اور اللہ نے اس کا کوئی ثبوت نہیں فرمایا ہے‘‘۔(بحوالہ اردو ترجمہ الحکم الجامعۃ لِشَتَّی العلوم النّافعہ صفحہ ۴۷۷)
امام محمد بن وَضَّاح القرطبیؔ اپنی تالیف ’’الابداع والنھی عنہا‘‘ میں عبدالرحمن بن زیدبن اسلم سے روایت نقل کرتے ہیںکہ ہمارے مشائخ وفقہاء نصف شعبان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیا کرتے تھے اور نہ ہی ایسی باتوں (نمازوں) کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔ دوسری روایت ابن ابی ملیکہ سے بیان کرتے ہیں کہ زیاد نمیری کہتا ہے کہ نصف شعبان کی رات کا ثواب رمضان کی لیلۃ القدر جتنا ہے تو ابن ابی ملیکہؔ نے کہا کہ اگر میں اس سے یہ بات سنتا اور اس وقت میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا تو میںاسے اس سے مارتا (جبکہ یہ زیاد اس وقت قاضی کے عہدے پر فائز تھا)۔ (البدع والنھی عنہا صفحہ ۴۶ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)
امام شوکانیؒ نے نصف شعبان کی رات پڑھی جانے والی سو رکعت کی نماز کو اپنی تحقیق کی روشنی میں جعلی او رمن گھڑت قرار دیا ہے ۔ (الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ صفحہ ۵۰،۵۱)
امام جلال الدین سیوطیؔ نے من گھڑت روایات کے مجموعے پر مشتمل کتاب ’’اللائی المضوعۃ فی الاحادیث الموضوعہ‘‘ میں نصف شعبان کی رات میں پڑھی جانے والی سو رکعتوں اورہر رکعت میں دس مرتبہ قُلْ ہُوَ اﷲُ اَحَدٌ والی مسند الفردوس دیلمیؔ کی روایت کو موضوع کہاہے اور ذکر کیاہے کہ اس کی سند کے تمام راوی مجہول ہیں اور ساتھ ہی بارہرکعتوں اور چودہ رکعتوں والی نماز پر مشتمل روایات کو بھی موضوع و من گھڑت قرار دیا ہے ۔ (بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط از محمد منیر قمرؔ)
صاحب الابداعؔ تحریر فرماتے ہیں ’’المختصر شعبان کی پندرھویں رات میں پڑھی جانے والی مخصوص عدد کی رکعات اور مخصوص عدد کی سورئہ اخلاص والی نمازیں کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں نہ باجماعت نہ بلا جماعت ، نہ سراً نہ جہراً اور اس رات بعض مخصوص دعائیں
یَاذلمنّ…الٰہی بِالتجلی الاعظم… کی جاتی ہیں جو کہ خود ساختہ ہیں ۔ صفحہ ۲۶۷ (بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط ص۳۴۰)
امام طرطوسی فرماتے ہیں کہ میں نے امام مقدسّی سے پوچھا کیا آپ نے لوگوں کو یہ نماز (شب نصف شعبان کی نماز) باجماعت ادا کرتے ہوئے خود دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ہاں ۔ اور اس پر اللہ سے مغفرت کی دعاء بھی فرمائی اور استغفر اللہ کہا ۔ (الابداع للشیخ علی المحفوظ ص۲۸۸ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)
امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ صلاۃ الرغائب کے نام سے معروف نماز جو ماہ رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو مغرب اور عشاء کے مابین پڑھی جاتی ہے جس کی بارہ رکعتیں ہوتی ہیں اور پندرہ شعبان کی رات کو ایک نماز سو رکعتوں پر مشتمل پڑھی جاتی ہے ، یہ دونوں نمازیں بدترین بدعت ہیں او رکتاب قوت القلوب اور احیاء علوم الدین میں ان نمازوں کے مذکور ہونے سے دھوکہ نہ کھایاجائے اور ان نمازوں کے بارے میں بیان کی جانے والی روایت سے بھی دھوکہ میں نہیں آنا چاہئیے کیونکہ یہ سب باطل ہیں اور اہل علم میں سے ایک صاحب پر ان نمازوں کی حقیقت و شرعی حیثیت مشتبہ ہو گئی اور انہوں نے چند اوراق پر مشتمل ایک رسالہ بھی لکھ مارا جس میں ان نمازوں کا استحباب ذکر کر دیا ، اس رسالے کے فریب میں نہ آئیں ( کیونکہ وہ ذلات العلماء کی قبیل سے ہے) اس میں انہوں نے مغالطہ سے کام لیا ہے اور امام ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المقدسی نے ان کی رد میں ایک نفیس کتاب لکھی ہے جس میں بڑے عمدہ پیرایہ میں ان کا بطلان ثابت کیا ہے ‘‘۔ (الابداع للشیخ علی المحفوظؔ)
امام ابو بکر طرطوشی نے اپنی کتاب الحوادث والبدع میں امام ابو محمد عبدالرحمن مقدسّی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے ’’بیت المقدس میںیہ نماز صلاۃ الرغائب نہیں پڑھی جاتی تھی جوکہ رجب میں پڑھی جاتی ہے اور نہ ہی پندرہ شعبان کی رات والی نماز کا رواج تھا اور ہمارے ہاں شعبان والی نماز تو ۴۴۸ھ میں ایجاد کی گئی ۔ (بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط صفحہ ۲۳۵)
امام شہاب الدین المعروف ابو شامہ نے اپنی کتاب ’’الباعث علی انکار البدع والحوادث‘‘ میں ما ہ رجب والی صلاۃ الرغائب او راس شعبان والی نماز جسے انہوں نے صلاۃ الالفیہ کہا ہے ، ان دونوں کی پرزور تردید کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ بدعت ہیں ۔ اور ان کے بارے میںپائی جانے والی اور بیان کی جانے والی روایات ضعیف ہیں اور موضوع و من گھڑت ہیں ۔ (صفحہ ۳۳۶ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں ’’جامع مسجد یا محلون ، راستوں اور بازاروں کی دیگر مساجد میں یہ جو الصلاۃ الالفیہ کے لئے اکٹھا ہوا جاتا ہے یہ مُحَدث ہے اور یہ اجتماع جو ایک مقررہ وقت ، مقررہ رکعت اور مقررہ قرأت والی نفلی نماز کے لئے ہے ، یہ غیر مشروع اور بدعت ہے ۔ اور الصلاۃ الالفیہ والی روایت اہل علم حدیث کے اتفاق کے ساتھ من گھڑت ہے (الاقتضاء جلد ۲ صفحہ ۶۲۸،۶۳۵ بحوالہ قبولیت عمل کی شرائط)
مولانا شمس الحق عظیم آبادی اپنے فتاویٰ میں تحریر فرماتے ہیں :۔
’’الحاصل ماہِ شعبان کا تمام مہینہ بزرگ ہے او ر اس میں روزے رکھنا مسنون ہے مگر روزے رکھنے کے لئے کوئی تاریخ معین و مقرر کرنااور بالتخصیص صرف پندرھویں تاریخ میںروزہ رکھنا احادیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ تیرہ چودہ پندرہ تاریخوں میں جن کو ایام بیض کہتے ہیں ان میں روزے رکھے اور چاہے تو اس پر بھی زیادتی کرے کیونکہ اس مہینہ میں کثرتِ صیام ثابت ہے‘‘۔ (فتاویٰ شمس الحق عظیم آبادی صفحہ ۱۸۲)
مولانا محمد سعید بنارسیؔ مرحوم فرماتے ہیں :۔
میں نے رسالہ مولوی عبدالفغور صاحب کو دیکھا اور اس کی صحت کی ، فضائل شعبان وغیرہ میں مولوی صاحب نے خوب لکھا ہے ۔واقعی فضائل شعبان میں بہت احادیث صحیحہ آئی ہیں ۔ صوم نصف شعبان میں کوئی حدیث صحیح نہیں ۔ تخصیص اس کی ٹھیک نہیں جیسا کہ مولانا شمس الحق صاحب نے لکھا ہے میں بھی ان کا ہم قال ہوں ‘‘۔ (فتاویٰ شمس الحق عظیم آبادی صفحہ ۱۸۳)
الامام الاکبر علامہ محمود شلتوتؒ تحریر فرماتے ہیں :۔
اور جودرست اس بارے میں نبیﷺ سے اور آپ کے صحابہ سے جن کی روایات محفوظ ہیں اور جنہیں اہل علم نے قبول کیا ہے وہ یہ ہے کہ شعبان تو سارا ہی مہینہ فضیلت والا ہے اس کی کسی رات کو کسی رات سے فضیلت حاصل نہیں ہے اس میں خاص وجوہ سے روزہ مطلوب ہے ۔ نفس کی تدریب کے لئے اور رمضان کے استقبال کی تیاری کے لئے یہاں تک کہ لوگوں پر یہ بھای نہ ہوجائے اور یہ ان پر دشوار نہ ہو جائے ۔ بے شک رسول اللہ ﷺ سے یہ پوچھا گیا تھا کہ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں تو آپ نے فرمایا ’’شعبان کے تعظیم رمضان کے لئے‘‘ اور تعظیم رمضان صرف یہ ہے کہ اس کا حسنِ استقبال ہو اس کی طرف تدرب کے ذریعے اطمینان ہو اور اس سے بیزاری نہ ہو البتہ عبادت کے لئے نص شعبان کو مخصوص کرنا ، اس رات کو زندہ کرنے کے لئے جمع ہونا ، اس میں نماز پڑھنا اور اس کی دعائیں وغیرہ تواس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے صحیح روایات میں کچھ ثبوت نہیں اور صدر اول میں ایسے کسی کو ہم جانتے نہیں (جو ان مذکورہ کا حامل و عامل رہاہو) مترجم حوالہ (الفتاویٰ محمدو شلتوت صفحہ ۱۹۱ مطبوعہ داراشروق قاہرہ)
عالم جلیل الشیخ محمد عبدہؒ ’’اللیلۃ المبارکۃ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔
البتہ بہت سے لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ لیلہ مبارکہ جس امرحکیم فرق ہوتا ہے وہ نصف شعبان کی رات ہے اور وہ امور جو کہ تفیق ہوتے ہیں وہ رزق اور عمر کے یصلے ہیں اور اسی طرح یہ لوگ لیلۃ القدر کے بارے میں بھی کہتے ہیں یہ ان کی جرأت ہے اللہ کے کلام پر بغیر کسی حجتِ قاطعہ کے اور ہمارے لئے جائز نہیں ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں جب تک کہ رسول معصوم ﷺ سے کوئی حدیث متواتر نہ مل جائے اور اس رات کے لئے کوئی م تواتر حدیث وارد نہیں ہوئی ہے سوائے مضطرب اور ضعیف روایات کے جن کو عقائد کے باب میں اخذ کرنادرست نہیں (الفتاویٰ شلتوت ص۱۹۲)
(21) علاوہ ازیں ہم نے اس شب کے بارے میں قدرے اختصار سے تنقیداً چار صفحات لکھے تھے جوکہ بہت سے لوگوں کی طبع نازک پر گراں گزرے یہ چال صفحات ’’بدعات اور ان کا تعارف‘‘ میں شامل ہیں حالانکہ ہم نے اسوقت ان روایات کی حقیقت کشائی نہیں کی جن شبراتی حضرات کے مذہب کا دارومدار ہے اور ابھی بھی ہم نے اس شاخ کو قطع نہیںکیا ہے جس پر اہل بدعت نے آشیانہ بنایاہے ابھی تک تو سارے دلائل جو ہم نے پیش کئے ہیں وہ سب علماء کے اقوال ہں جو اس امر کی وضاحت کر رہے ہیں کہ اس شب کا قیام احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں ہے ۔ ابھی تک ہم نے ان روایات کی روشنی میں اس بدعت اور اس کے عاملوں کا پوسٹ مارٹم نیہں کیا تھا لیکن یہ مرحلہ اب آگیا ہے چنانچہ وہ روایات ملاحظہ فرمائیں جن میں بقول ان حضرات کے اس شب کے نام نہاد فضائل وارد ہوئے ہیں پہلی روایت ترمذیؔ کی ہے ام المؤمنین عائشہؓ فرماتی ہیں :۔
فقدت رسول اﷲﷺ لیلۃ فخرجت فاذا ہو بالبقیع فقال ! اکنت تخافین ان یحیف اﷲ علیکِ ورسولہ؟ قلت یا رسول اﷲ ظننت انک اتَیتَ بعض نساء ک ، فقالؐ ان اﷲ تبارک وتعالیٰ ینزل لیلۃ النصف من شعبان الیٰ السماء الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب (ترمذی جلد۱)
ترجمہ: میں نے ایک رات رسول اللہﷺ کو گم پایا ، پس میں آپ کی تلاش میں نکلی پس دیکھا کہ آپؐ بقیع قبرستان میں ہیں ، پس مجھ سے آپ نے فرمایا کہ کیا تو اس بات کا خوف رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ تیرے ساتھ زیادتی کریں گے، پھر فرمایا کہ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نصف شعبان کی شب نزول فرماتا ہے آسمان دنیا کی طرف پس مغفرت فرماتا ہے اتنی بڑی تعداد کی جو بنو کلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ ہیں ۔ پھر اس حدیث پر جرح کرتے ہوئے امام ترمذیؒ نے لکھا ہے کہ
’’حدیث عائشہ لا نعرفہ الا من ہٰذا الوجہ من حدیث الحجاج وسمعت محمداؒ یقول یضعف ہذا الحدیث‘‘
وَیَحْیٰ بن ابی کثیر لم یسمع من عروۃ قال محمد والحجاج لم یسمع من یحیٰ بن ابی کثیر‘‘ (ترمذی جلد اوّل)
ترجمہ :۔ ہم حدیث عائشہؓ کو اس سند کے علاوہ کسی اور سند سے نہیں پہچانتے ۔ البتہ حجاج کی سند سے اور میں نے محمد یعنی امام بخاریؒ کو فرماتے سنا وہ اس کو ضعیف بتلاتے تھے اور آپ نے فرمایا کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے سماعت نہیں کی نیز محمد نے فرمایا کہ حجاج نے یحییٰ بن ابی کثیر سے سماعت نہیں کی ۔ امام ترمذیؒ کی اس جرح سے ثابت ہواکہ وہ خود اس حدیث کو حجت تسلیم نہیں کرتے وگرنہ وہ اس کی سند پر جرح نہ کرتے پھر اوروں کے لئے اس حدیث سے حجت پکڑنا کہاں سے ثابت ہو گیا ۔ دوسری بات یہ کہ ام المؤمنین عائشہؓ نے کتنی بار رسول اللہ ﷺ کو اپنے بستر سے گم پایا ؟ اگر یہ پہلی ہی بار تھی تو یہ وسوسہ ان کے دل میں کیوں گزرا کہ آپؐ انکی باری میں انہیں سوتا چھوڑ کر اپنی کسی دوسری زوجہ کے پاس چلے گئے ہوں گے ۔ جبکہ آپؐ نعوذ باللہ خائن نہ تھے آپﷺ کی امانت اور صداقت کی گواہی تو آپ کے جانی دشمن بھی دیا کرتے تھے؟ ایسا وسوسہ اور خیال تو اسی صورت میں آسکتا تھا جب آپ کی امانت، آپ کا صدق اور آپکا کردار لائق اعتماد نہ ہوتا ، لیکن حاشا وکلاّ آ پ کا کردار ایسا ہر گز نہیں تھا ۔ تیسری بات یہ کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ام المؤمنین نے آپﷺ کو بستر پر گم اور قبرستان میں موجود پایا تو سوال یہ ہے کہ آپﷺ قبرستان میں کیا کررہے تھے؟ ترمذی کی اس روایت میں اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ہے البتہ ابن ماجہؔ کی روایت میں ہے کہ
’’فَاِذَا ہُوَ بِالْبَقِیْعِ رافع راسہٖ اِلٰی السمائ‘‘ یعنی آپ کی طرف اپنا سر اٹھائے کھڑے تھے ۔ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اس شب کوئی عبادت نہیں فرمائی سوائے آسمان کی طرف سر اٹھانے کے ، لہٰذا وہ لوگ جو ان ضعیف احادیث سے عبادت کی دلیل پکڑتے ہیں انہیں چاہئیے کہ ہر پندرھویں شعبان کو قبرستانوں میں بیویوں کو سوتا چھوڑ کر جایا کریں اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کھڑے ہو جایا کریں ۔ اس لئے کہ ان ضعیف روایات سے یہی ثابت ہو رہاہے چوتھی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ اس رات بنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ افراد کی مغفرت فرماتا ہے ان بالوں سے متعلق عرض ہے کہ بنو کلب کی بھیڑیں بہت زیادہ بالوں والی تھیں ۔ ایک بھیڑ کے بدن پر کروڑوں بلکہ اربوں بال ہوتے ہیں جو کہ شمار بھی نہیں کئے جا سکتے ہیں ۔ روایت کے مطابق جب اللہ کے رسولؐ نے یہ کلام فرمایا اس وقت مسلمان مدینہ اور اس کے مضافات میں آباد تھے ایک معمولی سی تعداد مکے میں اور دیگر علاقوں میں آباد تھی ۔ اگر حساب لگایا جائے تو اس وقت مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے بڑھ کر نہیں تھی بلکہ آپﷺ کی وفات کے وقت تک کل مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ اور دو لاکھ کے درمیان تھی ۔ لہٰذا یہ بات عقل سلیم کیونکر تسلیم کر سکتی ہے کہ مجموعی تعداد مسلمانوں کی اس وقت لاکۃ بھی نہیں تھی اور بخشش اربوں کھربوں بلکہ ان سے بھی زیادہ تعدادکی ہو رہی تھی ۔ کیا اللہ کے رسولؐ کو اتنابھی علم نہیں تھا کہ جتنے لوگوں کی مغفرت کی خبر وہ اس شب میں دے رہے ہیں اتنی بڑی تعداد میں مسلمان تو مسلمان مشرک اور کافر اقوام کے لوگ بھی اس وقت روئے زمین پر آباد نہیں تھے ۔ لاریب یہ حدیث صرف ضعیف ہی نہیں بلکہ اللہ کے رسولﷺ پر افتراء ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ روئے زمین پر آج بھی اتنی بڑی تعداد میں مسلمان آباد نہیں ہیں جن کا بنی کلب کی بھیڑوں کے ساتھ باعتبار تعداد موازنہ کیاجائے پھر دوسری بات یہ کہ اگر اتنی بڑی تعداد ہر پندرھویں شعبان کو بخشی جاتی ہے تو پھر قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں شبراتی کیا کہتے ہیں
’’لأَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘‘ (الم سجدہ) میں ضرورجہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھروں گا۔ اور یہ آیت
’’یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ مْتَلأْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِّنْ مَّزِیْدٍ‘‘ (ق) جس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے کہ کیا تو بھر گئی؟ وہ کہے گی کہ کیا اور ہیں؟ اور بخاریؔ میں تو ہے کہ جہنم کا پیٹ اس وقت تک نہیں بھرے گا جب تک کہ حق تعالیٰ اپنی بائیں ٹانگ اس میں داخل نہیں فرمائے گا ۔ علاوہ ازیں حدیث صحیح میں یہ بھی ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ آدم سے کہے گا کہ اے آدم! وہ کہیں گے میں حاضر ہوں اورتیری خدمت کے لئے مستعد ہوں او رتمام بھلائیاں تیرے دونوں ہاتھوں میں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرما ئے گا آگ میں جانے والوں کا لشکر نکال ۔ آدم کہیں گے کہ آگ کے لشکر کی مقدار کیاہے ؟ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ‘‘ (بخاری ومسلم بحوالہ مشکوٰۃ جلد سوم مترجم باب الحشر صفحہ ۵۳)
اب بتائیے کہ اگر بنی کلب کی بھیڑوں کے بالوں سے زیادہ افراد اس شبِ نام نہاد میں بخشے جاتے ہیں تو پھر یہ ہزار میں سے نو سوننانوے جہنم میں جانے والے کونسی دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں اور اس شب کی مغفرتوں سے یہ لوگ کیونکر محروم کئے جا رہے ہیں ؟ حقیقت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے ۔
پھر ذرا غور فرمائیے ! کیا یہ بات عقلِ سلیم باور کر سکتی ہے کہ شبِ نصف شعبان کو محض قبرستان میں جا کر صرف اونچا سر کر کے کھڑے ہوجانے سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے؟ کیا یہ تمام امور اس امر کی نشاندہی نہیں کر رہے کہ حدیث عائشہؓ جو کہ ترمذی شریف میں وارد ہوئی ہے وہ روایت اور درایت کے اعتبار سے محض افتراء اور جھوٹ کاپلندہ ہے ۔ جو حضرات اس کے ضعف سے چشم پوشی کر رہے اور اسے محاسنِ و فضائلِ نصف شعبان میں شمار کررہے ہیں وہ اتنا یاد رکھیں کہ وہ اسطرح دین کی کوئی خدمت نہیںکر رہے ہیں ۔ کیا اس ضعیف حدیث سے یہ ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شب کے فضائل صحابہ کرامؓ کو نہیں بتائے نہ ہی اپنی ازواج مطہرات کو اس شب کی فضیلت سے آگاہ فرمایا بلکہ چپکے سے بستر پر سے اٹھ کر بقیع کے قبرستان جلے گئے وہ تو اگر (روایت کے مطابق) ام المؤمنینؓ آپ کی تلاش میں نہ نکلتیں اور آپ کو قبرستان میں نہ پا لیتیں تو آج ساری امت اس شب کے فضائل سے بے خبر ہوتی ملاحظہ فرمائیں کہ نبی اکرمﷺ پر کتنا بڑا بہتان لگایا جا رہا ہے یہ شب روایت مذکورہ بالا کے مطابق اگر ایسی برگزیدہ تھی تو آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو اس حقیقت سے اس شب کی فضیلت سے آگاہ کیوں نہیں فرمایا؟ انہیں آپﷺ اپنے ساتھ لے کر بقیع کے قبرستان یا اپنی مسجد کی طرف کیوں نہیں نکلے؟ کیا کوئی شبراتی ان سوالات کے جوابات احادیث سے دے سکتا ہے؟ کیاکوئی شبراتی کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت کر سکتا ہے کہ اس شب کی فضیلت جان لینے کے بعد ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ نے اس شب کو اہتمام عبادت فرمایا تھا؟ میں کہتا ہوں کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل سکتا ہے لیکن کوئی شبراتی ایک بھی حدیث اپنے اس قول کی تائید میں پیش نہیں کر سکتا کہ ام المؤمنینؓ نے اس شب میں کبھی اہتمام نوافل وغیرہ فرمایا ہو اور نہ ہی کسی صحابئ رسولﷺ سے احادیث میں ایسا ثبوت ملتا ہے ۔ لہٰذا میں بغیر کسی قسم کی لاگ ولپیٹ کے حقائق کی روشنی میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ اس ضعیف روایت کو حجت تسلیم کرنے والے پھر اس کا بیان کرنے والے مفتری ہیں خواہ وہ کسی بھی مکتب فکر سے متعلق ہوں ان کا افتراء بہت عظیم ہے ۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اور ام المؤمنین عائشہؓ کو اپنے افتراء کا نشانہ بنایا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ بروز محشر یہ اس افتریٰ پردازی کے حق میں کیا عذر لائیں گے ۔ بہر حال میں ان کے لئے حق تعالیٰ کے حضور ہدایت کا دعاء گو ہوں ۔
اس موضوع پر دوسری روایت ابن ماجہؔ کی ہے یہ بھی ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے ۔ فرماتی ہیں :۔
’’فقدت النبی ﷺ ذات لیلۃ فخرجت اطلبہ فاذا ہو بالبقیع رافع راسہٖ الی السماء فقال یا عائشہ اکنت تخافین ان یحیف اللہ علیک ورسولہ ، قالت، قلبت وما بی ذالک ولکن ظننت انک اتیت بعض نسائک ،فقال ان اﷲ تعالیٰ ینزل لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لاکثر من عدد شع غنم کلب‘‘ (ابن ماجہ مصر جلد اوّل)
چند الفاظ کے اضافے کے علاوہ اس روایت کے تقریباًوہی الفاظ ہیں جو کہ ترمذیؔ کی مذکورہ بالا روایت کے ہیں اور راوی بھی وہی ہیں جو کہ ترمذیؔ کی سند میں ہیں ۔ ان روات پر محدثین کی جرح کے سبب یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور ان ہی اسقام سے بھرپور ہے جو کہ ترمذیؔ کی سند میں پائے جاتے ہیں ۔
علاوہ ازیں غنیہ الطالبین مترجم میں صفحہ ۶۹۲ پر ایک اور طویل ترین روایت محاسنِ شب برأت پر ام المؤمنینؓ سے مروی ہے جسے میں نہایت اختصار کے ساتھ لکھتا ہوں ۔ ’’جب نصف شعبان کی شب تھی تو رسول اللہ ﷺ میرے بستر سے چپ چاپ نکل گئے ، میں نے دل میں یہ خیال کیا کہ اپنی بعض ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں ۔ پس میں اٹھی اور گھر میں (اندھیرے میں) آپ کو ٹٹولنے لگی ، پس میرے ہاتھ آ پ کے قدموں تک بڑھے اس حال میں کہ آپﷺ سجدے میں تھے اور وہ دعا جو آپ سجدے میں پڑھ رہے تھے میں نے یاد کر لی ۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح تک مسلسل کھڑے ہوتے اور بیٹھتے رہے یہاں تک کہ آپﷺ کے قدم متورّم ہو کئے ۔ میں آپ کے بدن کو دباتی تھی او رکہتی تھی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کیا اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف نہیں فرمائے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ ایسے ایسے (انعامات و کرامات) نہیں فرمائے؟ آپﷺ نے فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اے عائشہ کیا تجھے علم ہے کہ اس رات میں کیا کچھ ہوتا ہے ؟ میں نے پوچھا کیا ہوتا ہے؟ اس رات میں؟ آپﷺنے فرمایا کہ اس شب میں اس سال پیداہونے والوں اور مرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں ۔ اسی شب میں رزق نازل ہوتا ہے اور ا عمال و افعال اٹھائے جاتے ہیں ۔ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول کیا کوئی بھی شخص اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو گا ؟ فرمایا ہاں ۔ میں نے کہا اور آپﷺ؟ فرمایا میں بھی نہیں جب تک اللہ اپنی رحمت میں مجھے ڈھانپ نہ لے‘‘۔
اس روایت کا موازنہ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت سے جب کیا جاتا ہے تو ایک اور شگوفہ کھلتا ہے کہ رسول اللہﷺ گھر سے غائب ہی نہیں ہوئے تھے ۔ لہٰذا اس روایت کی بنیاد پر قبرستان جانے والی روایت جھوٹ قرار پاتی ہے اور قبرستان جانے والی روایت کی بنیاد پر یہ روایت جھوٹ قرار پاتی ہے کیا شبراتیوں کے پاس اس حیص بیص سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟
اس روایت سے چند اور امور بھی ثابت ہوتے ہیں جو اہل بدعت کے ہاں خاصے مشہور ہیں مثلاً اس شب میں پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کے نام لکھے جانا، رزق نازل ہونا، اعمال وافعال کا اٹھایا جانا وغیرہ ان امور پرہم آگے چل کربحث کریں گے فی الوقت فضائل شب برأت کی ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں یہ روایت بھی غنیہ الطالبین سے لی گئی ہے لیکن اختصار کے ساتھ ۔ ’’ام المؤمنین عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ان سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ، اے عائشہؓ جانتی ہے یہ کونسی رات ہے؟ انہوں نے کہاکہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ۔ آپنے فرمایا کہ یہ نصف شعبان کی ر ات ہے اس رات میں دنیا اور بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اس رات میں بنو کلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگ اللہ کی طرف سے جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں ۔ پھر آپؐ نے فرمایا کیا تو مجھے آج رات رخصت دے گی؟ میںنے کہا ہاں ، پھرآپؐ نے نماز پڑھی اور بہت مختصر قیام کیا ۔ سورۃ الفاتحہ پڑھی اور چھوٹی سورہ پڑھی پھر آدھی رات تک سجدہ کیاپھر دوسری رکعت کے لئے اٹھے اور مث پہلی رکعت کے قرأت کی پھر سجدہ کیا اور یہ سجدہ صبح صادق تک رہا ۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ میں دیکھتی رہی یہاں تک کہ مجھے خیال آیا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی روح قبض فرما لی ہے میں آپ کے قریب گئی آپؐ کے قدموںکو چھوا تو میں نے آپ کو سجدے میں یہ فرماتے سنا ……‘‘ (غنیہ الطالبین مترجم صفحہ ۶۸۸)
غنیہ الطالبین کی یہ روایت جہاں دیگر روایات سے متصادم ہے وہاں خود غنیہ الطالبین کی اس روایت سے متصادم ہے جو اس سے پہلے ہم نے درج کی ہے ۔ ملاحظہ ہو کہ پہلی روایت میں ہے کہ میرے بستر سے چپ چاپ نکل گئے اور اس دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے مجھ سے عبات کرنے کے لئے رخصت طلب کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ہیں ۔ جھوٹ بولنے والے کو یہ یاد رہنا بڑا مشکل ہے کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا اور اب کیاکہہ رہا ہے ۔ غنیہ الطالبین کی اس روایت سے ایک اور امر ثابت ہو رہا ہے کہ یہ نماز جو آپ نے اس شب کو پڑھی وہ جہری تھی سرّی نہیں تھی جبکہ شبراتی اس نماز کو سرّاً پڑھتے ہیں نیز آپؐ نے اس نماز میں رکوع بھی نہیں فرمایا جبکہ تمام ہی شبراتئے نصف شعبان کی نماز میں رکوع کرتے ہیں علاوہ ازیں آپؐ نے پوری شب میں دو رکعات ادا کیں حالانکہ شبراتئے اس شب کو سورکعات پڑھتے ہیں ۔
غنیہ الطالبین کی اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ عبادت صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے لئے مخصوص تھی وگرنہ آپؐ ام المؤمنین کو بھی تلقین فرماتے کہ تم بھی اٹھ کر نماز پڑھو لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ آپؐ نے ان سے عبادت کرنے کے لئے رخصت طب کی ۔ اسی طرح غنیہ الطالبین کی سابقہ روایت سے ثابت ہو رہا ہے کہ آپؐ اندھیرے میں صبح تک نماز پڑھتے رہے لیکن ام المؤمنین کو آپؐ نے نہ حکم دیا اور نہ ہی ان کو یہ نماز پڑھنے کی تلقین فرمائی اور نہ ہی ام المؤمنین نے بھی یہ نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت محسوس فرمائی ۔ حالانکہ آپؓ عبادت کی حریص تھیں اور خود بھی بکثرت نوافل پڑھا کرتی تھیں ۔
یہ وہ روایات ہیں جن پر بدعتی حضرات نے اپنی اس عبادت کو سنت قرار دیتے ہوئے فروغ دیا ہے حالانکہ ان میں ایک بھی روایت صحیح نہیں ہے ۔
شیح عبدالعزیز بن بازؔ مفتی اعظیم سعودی عرب کا فتویٰ سابقہ سطور میں گزر چکاہے کہ یہ روایات تمام کی تمام موضوع او رمن گھڑت ہیں لیکن مقام حیرت و افسوس ہے کہ ایک نہیں بلکہ بہت سے مؤحد ومحقق باوجود دعوائے اتباعِ سنت و احادیث کے، ان موضوع روایات پر نہ صرف عمل پیرا ہیں بلکہ اس بدعت کوسنت قرار دینے پر مصر ہیں ۔ چنانچہ نصف شعبان کی فضیلت میں شائع ہونے والے اخباروں اور رسالوں میں ہر سال شعبان کے موقع پر اس شب کے موضوع اور من گھڑت فضائل درج کئے جاتے ہیں اور بندگان الٰہی کو قرآن و سنت کی آڑ میں اس بدعت پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیںکئی جماعتوں اور ایک شبراتی مولوی کی طرف سے اس بدعت کی تائید میں پمفلٹ بھی سال بہ سال تکرار سے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔
میں اپنے مسلمان بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ للہ اپنی توحید اور دعوائے توحید کا بھرم رکھئے اس بدعت پر صرف اس لئے عمل نہ کریں کہ بہت سے علماء اس کو سنت قرار دیتے ہیں اگر آپ بغیر تحقیق کے اسی طرح علماء کی اتباع کرتے رہے تو پھر آپ میں اور دیگر مقلدوںمیں کیا فرق رہ جائے گا؟۔
ذرا ان روایات کی گہرائی میں جائیے تو آپ کو معلوم ہوکہ اس شب کی حقیقت کیا ہے اس شب کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ اس شب اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتاہے ، اس کا نزول تو ہر شب آسمان دنیا پر ہوتا ہے ۔ (مشکوٰۃ) اس شب کی فضیلت یہ نہیں ہے کہ وہ اس شب گنہگاروں کی مغفرت فرماتا ہے وہ تو ہر شب استغفار کرنے والوںکی مغفرت فرماتا ہے (مشکوٰۃ) اس شب کی فضیلت و حقیقت یہ نہیں ہے کہ اس شب کو موت و زندگی کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے ایکبارگی میں ہی ہو چکے ہیں اور اب یہ عالم ہے کہ
رُفِعَتِ الاَقْلاَمُ وَجُفّتِ الصُّحُفُ () قلم اٹھائے جا چکے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں ۔ اس شب کی حقیقت یہہے کہ اس شب میں رافضیوں کے بارھویں امام مہدیؔ نے شیعہ روایات کے مطابق جنم لیا ۔ اس مزعومہ امام غائب کی پیدائش کی خوشی میں رافضی اس دن حلوہ پکاتے ہیں رات کو اپنے گھروں پر دئیے جلا کر چراغاں کرتے ہیں اور ہمارے شہر کراچی میں رات کے پچھلے پہر نیٹی جیٹی پل پر جمع ہو کر امام غائب کے نام آٹے کی گولیوں میں لپٹی ہوئی عرضیاں ڈالتے ہیں ۔ درحقیقت شب برأت کا تعلق ہی روافض سے ہے اس کی فضیلت میں انہوں نے اس قدر روایات گھڑی ہیں کہ انہیں لکھنے کے لئے ایک وسیع دفتر درکار ہے ۔ میں انشاء اگلے صفحات میں ان میں سے چند روایات نقل کروں گا ۔
اس شب کا نام لیلۃ البرأۃ بھی اس سلسلے میں ایک عمدہ دلیل ہے ۔ لیلۃ البرأۃ کے معنی ہیں تبرّے والی رات ۔ اس رات رافضی قرآن مجید پر تبرّا بھیجتے ہیں جسے اس بات کی دلیل درکار ہو وہ اس شب نیٹی جیٹی پر اس امرکا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لے جیسے رواض ۲۲رجب کو جعفر صادق کے نام کے کونڈے بھرتے اور خوشیاں مناتے ہیں ظاہراً انکی خوشی جعفر صادق کی نذرونیاز کی ہوتی ہے لیکن یہ دل خراش حقیقت لاکھ پردوں میں بھی چھپائے نہیں چھپتی کہ وہ اس دن سیدنا امیر معاویہؓ کی وفات کی خوشیاں مناتے ہیں ۔ بعینہٖ یہ معاملہ شب برأتکا ہے روافض اور نام نہاد سنی اس دن حلوے پر سیدالشہداء حمزہؓ کی فاتحہ دلاتے ہیں حالانکہ یہ دن نہ ان کی پیدائش کاہے اور نہ ہی ان کی شہادت کا ہے۔ ان کی شہادت تو غزوئہ احد میں ہوئی تھی جو کہ شوال کے مہینے میں واقع ہوا تھا ۔ حقیقت اس حلوے کی وہی ہے جومیں نے پہلے درج کی کہ یہ ان کے امام غائب کی پیدائش کی خوشی میں پکتاہے ۔ مجھے سخت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سنی بھائی بغیر کسی تحقیق کے اس دن روافض کی پھیلائی ہوئی جھوٹی روایات کے شکار ہو کر اپنے اپنے گھروں میں حلوہ پکاتے اور جا بجا کھاتے پھرتے ہیں ۔ ہمارا روافض کے امام سے کیا تعلق ہے جوہم ان کے نام کی نذر و نیاز کریں؟ نذرو نیاز اورفاتحہ کے کھانے جو غیر اللہ سے منسوب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کھانوں کو قرآن مجید میں یہ فرماتے ہوئے حرام قرار دے دیا ہے ’
’وَمَا اُہِلَّ بِہِٖ لِغَیْرِ اﷲِ‘‘۔
اس شب کے فضائل و محاسن میں جتنی بھی روایات وارد ہوئی ہیں ان سب میں غالی قسم کے رافضی راوی پائے جاتے ہیں مثلاً ابن ماجہؔ، ترمذیؔ اور غنیہ الطالبین کی روایات میں اکثر راوی رافضی ہیں ۔ ان رافضی راویوں نے اپنی موضوع اور من گھڑت روایات کو ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ سے زیادہ تر اس لئے منسوب کیا ہے کہ اس طرح انکی کردار کشی کی جائے یعنی جب بھی ان روایات کو پڑھا جائے گااور سنایا جائے گا یہی تاثر ابھرے گا کہ ام المؤمنینؓ نبی اکرمﷺ کی امانت داری پر شک کیا کرتی تھیں ، آپﷺ کا تعاقب کیا کرتی تھیں اور آپ پر اعتماد نہیں کرتی تھیں ۔ (نعوذ باللہ ) اس طرح ان لوگوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے ۔ جھوٹی ، ضعیف اور موضوع روایات کو پھیلایا اور ام المؤمنین کے پاکیزہ کردار کو اپنے زعم باطل میں داغدار کیا ۔ پھر انہیں اس سلسلے میں دشواری بھی پیش نہیں آئی کہ بہت سے روایت پسند اور لکڑ پتھر ہضم کرنے والے نادان مولویوںنے اپنے اپنے کاروبار لات و منات کو فروغ دینے کے لئے ان روایات کو ہاتھوں ہاتھ لیا پھر ان روایات پر عمل ہی نہیں بلکہ اپنے ایمان کی بنیادیں بھی قائم کر دیں ۔