عبداللہ حیدر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 316
- ری ایکشن اسکور
- 1,018
- پوائنٹ
- 120
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے احناف اور دوسرے مسالک کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
نَعَمْ تَجُوزُ صَلَاةُ بَعْضِهِمْ خَلْفَ بَعْضٍ كَمَا كَانَ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ لَهُمْ بِإِحْسَانِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ يُصَلِّي بَعْضُهُمْ خَلْفَ بَعْضٍ مَعَ تَنَازُعِهِمْ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ الْمَذْكُورَةِ وَغَيْرِهَا . وَلَمْ يَقُلْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ إنَّهُ لَا يُصَلِّي بَعْضُهُمْ خَلْفَ بَعْضٍ وَمَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ فَهُوَ مُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُخَالِفٌ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا . وَقَدْ كَانَ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ : مِنْهُمْ مَنْ يَقْرَأُ الْبَسْمَلَةَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَقْرَؤُهَا وَمِنْهُمْ مَنْ يَجْهَرُ بِهَا وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَجْهَرُ بِهَا وَكَانَ مِنْهُمْ مَنْ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَقْنُتُ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَوَضَّأُ مِنْ أَكْلِ لَحْمِ الْإِبِلِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَتَوَضَّأُ مِنْ ذَلِكَ وَمَعَ هَذَا فَكَانَ بَعْضُهُمْ يُصَلِّي خَلْفَ بَعْضٍ : مِثْلَ مَا كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَالشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُمْ يُصَلُّونَ خَلْفَ أَئِمَّةِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ الْمَالِكِيَّةِ وَإِنْ كَانُوا لَا يَقْرَءُونَ الْبَسْمَلَةَ لَا سِرًّا وَلَا جَهْرًا وَصَلَّى أَبُو يُوسُفَ خَلْفَ الرَّشِيدِ وَقَدْ احْتَجَمَ وَأَفْتَاهُ مَالِكٌ بِأَنَّهُ لَا يَتَوَضَّأُ فَصَلَّى خَلْفَهُ أَبُو يُوسُفَ وَلَمْ يُعِدْ . وَكَانَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ يَرَى الْوُضُوءَ مِنْ الْحِجَامَةِ وَالرُّعَافِ فَقِيلَ لَهُ : فَإِنْ كَانَ الْإِمَامُ قَدْ خَرَجَ مِنْهُ الدَّمُ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . تُصَلِّي خَلْفَهُ ؟ فَقَالَ : كَيْفَ لَا أُصَلِّي خَلْفَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَمَالِكٍ
“جی ہاں، ان کا ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، صحابہ، تابعین اور ان کے بعد آنے والے ائمہ اربعہ کے درمیان ان (فقہی) مسائل وغیرہ میں اختلاف پایا جاتا تھا لیکن وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ سلف میں سے کسی نے دوسرے کی اقتداء میں نماز ادا کرنے سے ادا کرنے انکار نہیں کیا۔ جو شخص اس سے انکار کرتا ہے وہ بدعتی اور گمراہ ہے اور کتاب و سنت، سلف اور ائمہ کے اجماع کی مخالفت کرنے والا ہے۔
صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد آنے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو (نماز میں سورت فاتحہ) سے قبل بسم اللہ پڑھتے تھے اور ایسے بھی تھے جو نہیں پڑھتے تھے، بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے والے بھی تھے اور آہستہ آواز میں پڑھنے والے بھی۔ فجر کی نماز میں (ہمیشہ) قنوت کرنے والے بھی تھے اور نہ کرنے والے بھی تھے۔۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ بھی تھے جو اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے اور وہ بھی تھے جو اونٹ کا گوشت کھا کر وضو نہیں دہراتے تھے۔ یہ ساری باتیں ہوتی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ مثلاامام ابوحنیفہ، ان کے ساتھی اور امام شافعی وغیرہ اہل مدینہ کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے جو مالکی مسلک کے پیروکار تھے اور (سورت فاتحہ سے قبل) بسم اللہ بالکل بھی نہیں پڑھتے تھے (جبکہ ان کے پیچھےنماز پڑھنے والےائمہ کے نزدیک پڑھنی چاہیے)۔ایک دفعہ امام ابو یوسف نے ہارون الرشید کے پیچھے اس حال میں نماز پڑھی کہ اس نے پچھنے لگوائے تھے اور امام مالک کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے نیا وضو نہیں کیا، (امام ابو یوسف اس عمل سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے لیکن انہوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی اور) بعد میں بھی نہیں دہرائی۔امام احمد بھی پچھنے لگوانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے، ان سے کسی نے پوچھا "اگر (مالکی) امام خون نکلنے کے بعد نیا وضو کیے بغیر نماز پڑھائے تو کیا آپ اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے (کیونکہ آپ کا کہنا ہے کہ اسے دوبارہ وضو کرنا ہو گا جبکہ امام مالک آپ کی بات تسلیم نہیں کرتے)؟ تو جواب میں انہوں نے کہا "(اختلاف اپنی جگہ لیکن ) یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں سعید بن المسیب اور مالک بن انس جیسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھوں"؟
شیخ الاسلام نے اس کے بعد مفصل بحث کی ہےکہ اگرکسی فقہی مسئلے میں امام اور مقتدی کا مسلک مختلف ہو تو دونوں کی نماز درست ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام اپنے علم کے مطابق اجتہاد کر کے یا کسی دوسرے مجتہد کے اجتہاد پر عمل کر کے سنت کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کوشش کے دوران کبھی تو وہ صحیح قول کو پا لیتا ہے اور کبھی درست فیصلہ نہیں کر پاتا۔ بالفرض وہ غلطی کر رہا ہو تب بھی اس کی نماز کا مقتدیوں کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
يُصَلُّونَ لَكُمْ فَإِنْ أَصَابُوا فَلَكُمْ وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ
“صحیح البخاری کتاب الاذان باب اذا لم یتم الامام و اثم من خلفہ
“وہ (یعنی امام) تمہیں نماز پڑھاتے ہیں، پھر اگر وہ درست (طریقے پر عمل پیرا) رہیں تو تمہارے لیے (اجر) ہے، اور اگر وہ خطا کریں تو تمہارے لیے (اجر) ہے اور (خطا کا وبال) ان پر ہے"۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے احناف اور دوسرے مسالک کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
نَعَمْ تَجُوزُ صَلَاةُ بَعْضِهِمْ خَلْفَ بَعْضٍ كَمَا كَانَ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ لَهُمْ بِإِحْسَانِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ يُصَلِّي بَعْضُهُمْ خَلْفَ بَعْضٍ مَعَ تَنَازُعِهِمْ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ الْمَذْكُورَةِ وَغَيْرِهَا . وَلَمْ يَقُلْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ إنَّهُ لَا يُصَلِّي بَعْضُهُمْ خَلْفَ بَعْضٍ وَمَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ فَهُوَ مُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُخَالِفٌ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا . وَقَدْ كَانَ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ : مِنْهُمْ مَنْ يَقْرَأُ الْبَسْمَلَةَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَقْرَؤُهَا وَمِنْهُمْ مَنْ يَجْهَرُ بِهَا وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَجْهَرُ بِهَا وَكَانَ مِنْهُمْ مَنْ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَقْنُتُ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَوَضَّأُ مِنْ أَكْلِ لَحْمِ الْإِبِلِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَتَوَضَّأُ مِنْ ذَلِكَ وَمَعَ هَذَا فَكَانَ بَعْضُهُمْ يُصَلِّي خَلْفَ بَعْضٍ : مِثْلَ مَا كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَالشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُمْ يُصَلُّونَ خَلْفَ أَئِمَّةِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ الْمَالِكِيَّةِ وَإِنْ كَانُوا لَا يَقْرَءُونَ الْبَسْمَلَةَ لَا سِرًّا وَلَا جَهْرًا وَصَلَّى أَبُو يُوسُفَ خَلْفَ الرَّشِيدِ وَقَدْ احْتَجَمَ وَأَفْتَاهُ مَالِكٌ بِأَنَّهُ لَا يَتَوَضَّأُ فَصَلَّى خَلْفَهُ أَبُو يُوسُفَ وَلَمْ يُعِدْ . وَكَانَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ يَرَى الْوُضُوءَ مِنْ الْحِجَامَةِ وَالرُّعَافِ فَقِيلَ لَهُ : فَإِنْ كَانَ الْإِمَامُ قَدْ خَرَجَ مِنْهُ الدَّمُ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . تُصَلِّي خَلْفَهُ ؟ فَقَالَ : كَيْفَ لَا أُصَلِّي خَلْفَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَمَالِكٍ
“جی ہاں، ان کا ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، صحابہ، تابعین اور ان کے بعد آنے والے ائمہ اربعہ کے درمیان ان (فقہی) مسائل وغیرہ میں اختلاف پایا جاتا تھا لیکن وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ سلف میں سے کسی نے دوسرے کی اقتداء میں نماز ادا کرنے سے ادا کرنے انکار نہیں کیا۔ جو شخص اس سے انکار کرتا ہے وہ بدعتی اور گمراہ ہے اور کتاب و سنت، سلف اور ائمہ کے اجماع کی مخالفت کرنے والا ہے۔
صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد آنے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو (نماز میں سورت فاتحہ) سے قبل بسم اللہ پڑھتے تھے اور ایسے بھی تھے جو نہیں پڑھتے تھے، بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے والے بھی تھے اور آہستہ آواز میں پڑھنے والے بھی۔ فجر کی نماز میں (ہمیشہ) قنوت کرنے والے بھی تھے اور نہ کرنے والے بھی تھے۔۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ بھی تھے جو اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے اور وہ بھی تھے جو اونٹ کا گوشت کھا کر وضو نہیں دہراتے تھے۔ یہ ساری باتیں ہوتی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ مثلاامام ابوحنیفہ، ان کے ساتھی اور امام شافعی وغیرہ اہل مدینہ کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے جو مالکی مسلک کے پیروکار تھے اور (سورت فاتحہ سے قبل) بسم اللہ بالکل بھی نہیں پڑھتے تھے (جبکہ ان کے پیچھےنماز پڑھنے والےائمہ کے نزدیک پڑھنی چاہیے)۔ایک دفعہ امام ابو یوسف نے ہارون الرشید کے پیچھے اس حال میں نماز پڑھی کہ اس نے پچھنے لگوائے تھے اور امام مالک کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے نیا وضو نہیں کیا، (امام ابو یوسف اس عمل سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے لیکن انہوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی اور) بعد میں بھی نہیں دہرائی۔امام احمد بھی پچھنے لگوانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے، ان سے کسی نے پوچھا "اگر (مالکی) امام خون نکلنے کے بعد نیا وضو کیے بغیر نماز پڑھائے تو کیا آپ اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے (کیونکہ آپ کا کہنا ہے کہ اسے دوبارہ وضو کرنا ہو گا جبکہ امام مالک آپ کی بات تسلیم نہیں کرتے)؟ تو جواب میں انہوں نے کہا "(اختلاف اپنی جگہ لیکن ) یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں سعید بن المسیب اور مالک بن انس جیسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھوں"؟
شیخ الاسلام نے اس کے بعد مفصل بحث کی ہےکہ اگرکسی فقہی مسئلے میں امام اور مقتدی کا مسلک مختلف ہو تو دونوں کی نماز درست ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام اپنے علم کے مطابق اجتہاد کر کے یا کسی دوسرے مجتہد کے اجتہاد پر عمل کر کے سنت کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کوشش کے دوران کبھی تو وہ صحیح قول کو پا لیتا ہے اور کبھی درست فیصلہ نہیں کر پاتا۔ بالفرض وہ غلطی کر رہا ہو تب بھی اس کی نماز کا مقتدیوں کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
يُصَلُّونَ لَكُمْ فَإِنْ أَصَابُوا فَلَكُمْ وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ
“صحیح البخاری کتاب الاذان باب اذا لم یتم الامام و اثم من خلفہ
“وہ (یعنی امام) تمہیں نماز پڑھاتے ہیں، پھر اگر وہ درست (طریقے پر عمل پیرا) رہیں تو تمہارے لیے (اجر) ہے، اور اگر وہ خطا کریں تو تمہارے لیے (اجر) ہے اور (خطا کا وبال) ان پر ہے"۔