شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,013
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
آپ نے کمزور اور غیرمتعلق دلائل دے کر مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔قال الإمام البخاري في صحيحه:
امام بخاری اپنی کتاب الجامع الصحیح میں فرماتے ہیں:
كتاب الأذان
آذان کی کتاب
باب إمامة المفتون والمبتدع، وقال الحسن: صل وعليه بدعته۔
فتنے میں مبتلا اور بدعتی شخص کی امامت کا باب، سیدنا حسن بصری نے فرمایا: تو (اس کے پیچھے) نماز پڑھ لے، اس کی بدعت اسی پر ہے۔
695۔ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ فَقَالَ إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ وَنَتَحَرَّجُ فَقَالَ الصَّلَاةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ قَالَ الزُّهْرِيُّ لَا نَرَى أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ الْمُخَنَّثِ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ لَا بُدَّ مِنْهَا
سیدنا عبید اللہ بن عدی بن خیار (تابعی کبیر) سیدنا عثمان کے پاس آئے اور وہ (اپنے گھر میں) محصورتھے، تو عبید اللہ نے کہا کہ آپ لوگوں کے امیر ہیں اور آپ پر یہ مصیبت آئی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں (یعنی خارجیوں نے آپ کا حصار کیا ہوا ہے)
ہماری امامت فتنہ میں مبتلا ایک شخص (کنانہ بن بشر، رئیس الخوارج) کراتا ہے لہٰذا ہم اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں حرج محسوس کرتے ہیں (یعنی ہماری نماز ہو رہی ہے یا نہیں؟) سیدنا عثمان نے فرمایا کہ نماز ایک بہترین عمل ہے، جب لوگ اچھا عمل کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھا عمل کرو (یعنی ان کے ساتھ نماز پڑھو) اور اگر وہ برا عمل کریں تو تم ان جیسی برائی سے بچو (یعنی خارجی نہ بنو)
زبیدی کہتے ہیں کہ امام زہری نے فرمایا: کسی ہیجڑے کے پیچھے بغیر اشد مجبوری کے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔
696۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ اسْمَعْ وَأَطِعْ وَلَوْ لِحَبَشِيٍّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ
سیدنا انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ابو ذر سے فرمایا: سمع واطاعت کرو اگرچہ کسی ایسے حبشی امیر کی کیوں نہ ہو جس کا سر منقّے جیسا ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے آپ کے متعلق حسن ظن ہے کہ آپ نے دانستہ ایسی کوشش نہیں کی ہوگی بلکہ یہ دلائل کو درست طریقے سے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان میں کوئی بھی مرفوع روایت نہیں جس کے ذریعے حجت قائم کی جاسکے اوردوسرا یکہ یہ تمام موقوف روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج زیل ارشاد کے مخالف ہونے کی وجہ سے مرجوع اور ناقابل توجہ ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کو گرانے میں مدد کی۔(الشریعہ للآجری،صفحہ ٩٦٢، حاشیہ ٢٠٤٠)
تنبیہ: بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا اسکی تعظیم کرنا اور اسے عزت دینا ہی ہےجو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اسلام کی عمارت کوگرانے کے مترادف ہے۔
انس نضر حفظہ اللہ کے پیش کردہ دلائل موضوع سے غیر متعلق ہیں کیونکہ بدعتی کی دو اقسام ہیں ایک بدعتی وہ جو بدعت صغری میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بدعت کبریٰ میں مبتلا ہو۔ اگر حسن بصری رحمہ اللہ وغیرھم کے اقوال کو ہم تسلیم بھی کر لیں تو یہ اقوال ایسے بدعتی شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں ہیں جو بدعت صغری کا شکار ہو اور اس کی بدعت کفر تک نہ پہنچی ہو۔ جبکہ جو مسئلہ زیر بحث ہے وہ دیوبندیوں اور بریلویوں جو بدعت مکفرہ کا شکار ہیں کے پیچھے نماز کے جواز اور عدم جواز سے متعلق ہے۔ پس انس نضر حفظہ اللہ کو چاہیے کہ ایسے دلائل پیش کریں جو موضوع سے متعلق ہوں۔اور ہم نے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ صحابی سے ثابت کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا اسے بھی ملحوظ رکھیں۔
یاد رہے کہ بدعت صغری میں مبتلا بدعتی کے بارے میں بھی راجح اور قرآن وحدیث کی نصوص کے عین مطابق فتویٰ یہی ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
١- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بدعتی شخص کے سلام کا جواب نہیں دیا۔(سنن ترمذی،٢١٥٢)
معلوم ہوا کہ ابن عمر بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل نہیں تھے کیونکہ جو بدعتی کے سلام کا جواب دینا پسند نہ کرتا ہو وہ بدعتی کے پیچھے نماز کیسے پڑھنا پسند کرےگا؟؟؟
٢- سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بدعتیوں کوڈانٹ کر مسجد سے نکال دیا تھا۔(سنن دارمی،٢١٠)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی بدعتیوں سے نفرت کرتے تھے اور انہیں عزت دیتے ہوئے ان کے پیچھے نماز کے قائل نہیں تھے وگرنہ وہ بدعتیوں کو مسجد سے نہ بگھاتے۔
٣۔ صالح بن احمد بن حنبل نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا: جسے یہ ڈر ہو کہ وہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھتا ہے جسے وہ نہیں جانتا؟ تو امام احمد نے فرمایا: نماز پڑھ لے، پھر جب اسے معلوم ہوجائے کہ وہ (امام)بدعتی تھا تو وہ نماز دوبارہ پڑھے۔(مسائل صالح،جلد٢،صفحہ ٢٥،حاشیہ ٥٦٢)
٤- امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے پوچھا: میرے گھر کے دروازے پر ایک مسجد ہے جس کا امام صاحب بدعت (بدعتی) ہے؟ انھوں نے فرمایا تو اسکے پیچھے نماز نہ پڑھ۔
اس نے کہا بارش والی رات ہوتی ہےاور میں بوڑھا آدمی ہوں؟ انھوں نے فرمایا: تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھ۔(حیلتہ الاولیاء،جلد٧،صفحہ ٢٨)
٥- مشہور ثقہ امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ کے نزدیک بدعتی کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز دھرانی چاہیے۔(السنہ لعبداللہ بن احمد:٧٥)
یہ تو ہوا جواب ان دلائل کا جو موضوع سے بالکل غیر متعلق تھے اب موضوع سے متعلق دیوبندیوں اور بریلویوں کا حکم اور انکے پیچھے نماز جیسے اہم رکن کی ادائیگی کے جواز اور عدم جواز کا حل سلف صالحین کے فتاواجات سے پیش خدمت ہے۔ دیوبندی صرف بدعتی ہی نہیں بلکہ وحدت الوجودی،ماتریدی اور جہمی بھی ہیں۔ خاص جہمی کے پیچھے نماز پڑھنے سے متعلق سلف صالحین کا موقف ملاحظہ فرمائیں:
١- صحیحین کے راوی اور ثقہ امام سلام بن ابی مطیع البصری صاحب سنت نے فرمایا: جہمیہ کفار ہیں، ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔(مسائل احمد روایۃ ابی داود،صفحہ ٢٦٨)
حیرت ہے ان لوگوں پر جو جہمیہ دیوبندی جو امام سلام کے نزدیک کافر ہیں کے پیچھے نماز پڑھنے کا فتویٰ دے کر لوگوں کی نماز اور ایمان برباد کرنا چاہتے ہیں۔
٢- امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ نے فرمایا: ان (جہمیہ) کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔(السنتہ لعبداللہ بن احمد: ٣٣)
٣- امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ جہمی اوررافضی کے پیچھے نماز پڑھوں یا یہود و نصاریٰ کے پیچھے نماز پڑھوں۔(خلق افعال العباد،صفحہ ٢٢، فقرہ ٥٣)
پتا چلا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کسی دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنا یا کسی یہودی کے پیچھے نماز پڑھنا ایک برابر ہے۔
٤۔ امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ نے خوارج، قدریہ، مرجیہ،جہمیہ،معتزلہ،تمام رافض،تمام نواصب اور گمراہ مبتدعین کے بارے میں فرمایا: اسے سلام نہیں کہنا چاہیے اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔(الشریعہ طبعہ محققہ،صفحہ ٩٦٠)
الحمداللہ ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا تو دور کی بات ہے اس کے جواز کافتویٰ دینا بھی صحیح العقیدہ لوگوں کو گمراہ کرنا اور انکی نمازوں کو مردود بنا نے کا باعث ہے۔ ایسے مفتیان کو لوگوں پر رحم کرنا چاہیے اور انکی نمازوں کو اتنا ارزاں نہیں سمجھنا چاہیے کہ بدعت مفکرہ کے حاملین کے پیچھے نماز پڑھنے کا فتویٰ دینے لگیں۔
آپ کو خوف محسوس نہیں ہوتا کہ اسطرح کے دلائل اور فتوؤں کو پڑھکر اگر کوئی صحیح العقیدہ شخص دیوبندیوں اور بریلویوں کے پیچھے نماز پڑھکر اپنی نمازیں برباد کرنے لگے تو اس کے اعمال کی تباہی میں کیا آپ برابر کے ذمہ دار نہیں ہوگے؟؟؟ اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔آمین
رہی ان علمائے اہل حدیث کی بات جنھوں نے دیوبندیوں کے پیچھے نماز کے جواز کا فتویٰ دیا تو اسکا سبب یہ تھا کہ وہ دیوبندیوں کے عقائد سے متعلق لاعلم اور غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ کیونکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پہلے اہل حدیث عوام تو عوام علماء بھی دیوبندیوں کو موحد جاننے کی غلطی کا شکار تھے۔ پس سابقہ ادوار کے اہل حدیث علماء تو دیوبندیوں سے متعلق لاعلمی کی وجہ سے معذور ہیں۔ لیکن موجودہ دور کے علماء اگر انکے غلط فتوؤں کو بنیاد بناتے ہیں تو انکا کوئی عذر قابل قبول نہیں کیونکہ اس وقت متعدد اس طرح کے ذرائع باآسانی دستیاب ہیں جن کے ذریعے تحقیق کرکے اصل تک پہنچا جا سکتا ہے۔
دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنا شریعت کے احکامات کا مذاق اڑانا ہے کیونکہ دیوبندی کفر میں بھی مبتلا ہیں اور شرک میں بھی اور ایسے بدعتی ہیں کہ بدعت ان کے رگ وپے میں رچ بس گئی ہے۔ دیوبندی اور بریلوی اس حدیث کا بالکل صحیح مصداق ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک میری امت میں ایسی قومیں نکلیں گی جن میں بدعات اس طرح سرائیت کرجائیں گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے شخص میں باؤلے پن کی بیماری سرائیت کرجاتی ہے۔(سنن ابی داود،٤٥٩٧)
چونکہ دیوبندیوں اوربریلویوں نے اپنے دین کی بنیاد ہی بدعت یعنی تقلید پر رکھی ہے اس لئے یہ لعنت ہمہ وقت انکے ساتھ چپکی رہتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے باؤلے کتے کا کاٹا ہوا بیماری ہر وقت اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔ توایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھکر کس کا دل چاہتا ہے کہ اپنی نمازکو باطل کرلے؟