• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
قال الإمام البخاري﷫ في صحيحه:
امام بخاری﷫ اپنی کتاب الجامع الصحیح میں فرماتے ہیں:
كتاب الأذان
آذان کی کتاب
باب إمامة المفتون والمبتدع، وقال الحسن: صل وعليه بدعته۔
فتنے میں مبتلا اور بدعتی شخص کی امامت کا باب، سیدنا حسن بصری﷫ نے فرمایا: تو (اس کے پیچھے) نماز پڑھ لے، اس کی بدعت اسی پر ہے۔
695۔ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ فَقَالَ إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ وَنَتَحَرَّجُ فَقَالَ الصَّلَاةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ قَالَ الزُّهْرِيُّ لَا نَرَى أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ الْمُخَنَّثِ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ لَا بُدَّ مِنْهَا
سیدنا عبید اللہ بن عدی بن خیار﷫ (تابعی کبیر) سیدنا عثمان﷜ کے پاس آئے اور وہ (اپنے گھر میں) محصورتھے، تو عبید اللہ نے کہا کہ آپ لوگوں کے امیر ہیں اور آپ پر یہ مصیبت آئی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں (یعنی خارجیوں نے آپ کا حصار کیا ہوا ہے)
ہماری امامت فتنہ میں مبتلا ایک شخص (کنانہ بن بشر، رئیس الخوارج) کراتا ہے لہٰذا ہم اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں حرج محسوس کرتے ہیں (یعنی ہماری نماز ہو رہی ہے یا نہیں؟) سیدنا عثمان﷜ نے فرمایا کہ نماز ایک بہترین عمل ہے، جب لوگ اچھا عمل کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھا عمل کرو (یعنی ان کے ساتھ نماز پڑھو) اور اگر وہ برا عمل کریں تو تم ان جیسی برائی سے بچو (یعنی خارجی نہ بنو)
زبیدی کہتے ہیں کہ امام زہری﷫ نے فرمایا: کسی ہیجڑے کے پیچھے بغیر اشد مجبوری کے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔

696۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ اسْمَعْ وَأَطِعْ وَلَوْ لِحَبَشِيٍّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ
سیدنا انس بن مالک﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ابو ذر﷜ سے فرمایا: سمع واطاعت کرو اگرچہ کسی ایسے حبشی امیر کی کیوں نہ ہو جس کا سر منقّے جیسا ہو۔


واللہ تعالیٰ اعلم!
آپ نے کمزور اور غیرمتعلق دلائل دے کر مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔
بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے آپ کے متعلق حسن ظن ہے کہ آپ نے دانستہ ایسی کوشش نہیں کی ہوگی بلکہ یہ دلائل کو درست طریقے سے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم

پہلی بات تو یہ ہے کہ ان میں کوئی بھی مرفوع روایت نہیں جس کے ذریعے حجت قائم کی جاسکے اوردوسرا یکہ یہ تمام موقوف روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج زیل ارشاد کے مخالف ہونے کی وجہ سے مرجوع اور ناقابل توجہ ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کو گرانے میں مدد کی۔(الشریعہ للآجری،صفحہ ٩٦٢، حاشیہ ٢٠٤٠)

تنبیہ: بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا اسکی تعظیم کرنا اور اسے عزت دینا ہی ہےجو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اسلام کی عمارت کوگرانے کے مترادف ہے۔

انس نضر حفظہ اللہ کے پیش کردہ دلائل موضوع سے غیر متعلق ہیں کیونکہ بدعتی کی دو اقسام ہیں ایک بدعتی وہ جو بدعت صغری میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بدعت کبریٰ میں مبتلا ہو۔ اگر حسن بصری رحمہ اللہ وغیرھم کے اقوال کو ہم تسلیم بھی کر لیں تو یہ اقوال ایسے بدعتی شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں ہیں جو بدعت صغری کا شکار ہو اور اس کی بدعت کفر تک نہ پہنچی ہو۔ جبکہ جو مسئلہ زیر بحث ہے وہ دیوبندیوں اور بریلویوں جو بدعت مکفرہ کا شکار ہیں کے پیچھے نماز کے جواز اور عدم جواز سے متعلق ہے۔ پس انس نضر حفظہ اللہ کو چاہیے کہ ایسے دلائل پیش کریں جو موضوع سے متعلق ہوں۔اور ہم نے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ صحابی سے ثابت کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا اسے بھی ملحوظ رکھیں۔

یاد رہے کہ بدعت صغری میں مبتلا بدعتی کے بارے میں بھی راجح اور قرآن وحدیث کی نصوص کے عین مطابق فتویٰ یہی ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

١- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بدعتی شخص کے سلام کا جواب نہیں دیا۔(سنن ترمذی،٢١٥٢)
معلوم ہوا کہ ابن عمر بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل نہیں تھے کیونکہ جو بدعتی کے سلام کا جواب دینا پسند نہ کرتا ہو وہ بدعتی کے پیچھے نماز کیسے پڑھنا پسند کرےگا؟؟؟

٢- سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بدعتیوں کوڈانٹ کر مسجد سے نکال دیا تھا۔(سنن دارمی،٢١٠)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی بدعتیوں سے نفرت کرتے تھے اور انہیں عزت دیتے ہوئے ان کے پیچھے نماز کے قائل نہیں تھے وگرنہ وہ بدعتیوں کو مسجد سے نہ بگھاتے۔

٣۔ صالح بن احمد بن حنبل نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا: جسے یہ ڈر ہو کہ وہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھتا ہے جسے وہ نہیں جانتا؟ تو امام احمد نے فرمایا: نماز پڑھ لے، پھر جب اسے معلوم ہوجائے کہ وہ (امام)بدعتی تھا تو وہ نماز دوبارہ پڑھے۔(مسائل صالح،جلد٢،صفحہ ٢٥،حاشیہ ٥٦٢)

٤- امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے پوچھا: میرے گھر کے دروازے پر ایک مسجد ہے جس کا امام صاحب بدعت (بدعتی) ہے؟ انھوں نے فرمایا تو اسکے پیچھے نماز نہ پڑھ۔
اس نے کہا بارش والی رات ہوتی ہےاور میں بوڑھا آدمی ہوں؟ انھوں نے فرمایا: تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھ۔
(حیلتہ الاولیاء،جلد٧،صفحہ ٢٨)

٥- مشہور ثقہ امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ کے نزدیک بدعتی کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز دھرانی چاہیے۔(السنہ لعبداللہ بن احمد:٧٥)

یہ تو ہوا جواب ان دلائل کا جو موضوع سے بالکل غیر متعلق تھے اب موضوع سے متعلق دیوبندیوں اور بریلویوں کا حکم اور انکے پیچھے نماز جیسے اہم رکن کی ادائیگی کے جواز اور عدم جواز کا حل سلف صالحین کے فتاواجات سے پیش خدمت ہے۔ دیوبندی صرف بدعتی ہی نہیں بلکہ وحدت الوجودی،ماتریدی اور جہمی بھی ہیں۔ خاص جہمی کے پیچھے نماز پڑھنے سے متعلق سلف صالحین کا موقف ملاحظہ فرمائیں:

١- صحیحین کے راوی اور ثقہ امام سلام بن ابی مطیع البصری صاحب سنت نے فرمایا: جہمیہ کفار ہیں، ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔(مسائل احمد روایۃ ابی داود،صفحہ ٢٦٨)
حیرت ہے ان لوگوں پر جو جہمیہ دیوبندی جو امام سلام کے نزدیک کافر ہیں کے پیچھے نماز پڑھنے کا فتویٰ دے کر لوگوں کی نماز اور ایمان برباد کرنا چاہتے ہیں۔

٢- امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ نے فرمایا: ان (جہمیہ) کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔(السنتہ لعبداللہ بن احمد: ٣٣)

٣- امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ جہمی اوررافضی کے پیچھے نماز پڑھوں یا یہود و نصاریٰ کے پیچھے نماز پڑھوں۔(خلق افعال العباد،صفحہ ٢٢، فقرہ ٥٣)
پتا چلا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کسی دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنا یا کسی یہودی کے پیچھے نماز پڑھنا ایک برابر ہے۔

٤۔ امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ نے خوارج، قدریہ، مرجیہ،جہمیہ،معتزلہ،تمام رافض،تمام نواصب اور گمراہ مبتدعین کے بارے میں فرمایا: اسے سلام نہیں کہنا چاہیے اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔(الشریعہ طبعہ محققہ،صفحہ ٩٦٠)

الحمداللہ ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا تو دور کی بات ہے اس کے جواز کافتویٰ دینا بھی صحیح العقیدہ لوگوں کو گمراہ کرنا اور انکی نمازوں کو مردود بنا نے کا باعث ہے۔ ایسے مفتیان کو لوگوں پر رحم کرنا چاہیے اور انکی نمازوں کو اتنا ارزاں نہیں سمجھنا چاہیے کہ بدعت مفکرہ کے حاملین کے پیچھے نماز پڑھنے کا فتویٰ دینے لگیں۔

آپ کو خوف محسوس نہیں ہوتا کہ اسطرح کے دلائل اور فتوؤں کو پڑھکر اگر کوئی صحیح العقیدہ شخص دیوبندیوں اور بریلویوں کے پیچھے نماز پڑھکر اپنی نمازیں برباد کرنے لگے تو اس کے اعمال کی تباہی میں کیا آپ برابر کے ذمہ دار نہیں ہوگے؟؟؟ اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔آمین

رہی ان علمائے اہل حدیث کی بات جنھوں نے دیوبندیوں کے پیچھے نماز کے جواز کا فتویٰ دیا تو اسکا سبب یہ تھا کہ وہ دیوبندیوں کے عقائد سے متعلق لاعلم اور غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ کیونکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پہلے اہل حدیث عوام تو عوام علماء بھی دیوبندیوں کو موحد جاننے کی غلطی کا شکار تھے۔ پس سابقہ ادوار کے اہل حدیث علماء تو دیوبندیوں سے متعلق لاعلمی کی وجہ سے معذور ہیں۔ لیکن موجودہ دور کے علماء اگر انکے غلط فتوؤں کو بنیاد بناتے ہیں تو انکا کوئی عذر قابل قبول نہیں کیونکہ اس وقت متعدد اس طرح کے ذرائع باآسانی دستیاب ہیں جن کے ذریعے تحقیق کرکے اصل تک پہنچا جا سکتا ہے۔

دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنا شریعت کے احکامات کا مذاق اڑانا ہے کیونکہ دیوبندی کفر میں بھی مبتلا ہیں اور شرک میں بھی اور ایسے بدعتی ہیں کہ بدعت ان کے رگ وپے میں رچ بس گئی ہے۔ دیوبندی اور بریلوی اس حدیث کا بالکل صحیح مصداق ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک میری امت میں ایسی قومیں نکلیں گی جن میں بدعات اس طرح سرائیت کرجائیں گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹے ہوئے شخص میں باؤلے پن کی بیماری سرائیت کرجاتی ہے۔(سنن ابی داود،٤٥٩٧)

چونکہ دیوبندیوں اوربریلویوں نے اپنے دین کی بنیاد ہی بدعت یعنی تقلید پر رکھی ہے اس لئے یہ لعنت ہمہ وقت انکے ساتھ چپکی رہتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے باؤلے کتے کا کاٹا ہوا بیماری ہر وقت اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔ توایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھکر کس کا دل چاہتا ہے کہ اپنی نمازکو باطل کرلے؟
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
یہ تھریڈ جس فتوے پر بحت کے نتیجے میں شروع کیا گیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے ان شاء اللہ۔ شاہد بھائی آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ ناصر الدین البانی کی کتابوں میں متعلقہ مقامات کا مطالعہ کریں۔
خوشی ہوئی کہ ضدبازی کے اس دور میں بھی ایسے فتاویٰ دینے والے موجود ہیں۔
والسلام علیکم
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم،
یہ تھریڈ جس فتوے پر بحت کے نتیجے میں شروع کیا گیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے ان شاء اللہ۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہماری عوام ایسی ہوائی فائرنگ سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوتی بلکہ دلیل مانگتی ہے اور اللہ کے فضل سے دلیل نہ آپ کے پاس ہے اور نہ آپکے ہم خیال گروپ کے پاس۔

شاہد بھائی آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ ناصر الدین البانی کی کتابوں میں متعلقہ مقامات کا مطالعہ کریں۔
میرے پاس ابن تیمیہ اور البانی رحمہ اللہ کی کتابیں نہیں ہیں اور مجھے اتنی مشقت میں ڈالنے کے بجائے اگر آپ خود ہی متعلقہ کتابوں سے ایک آدھ دلیل یہاں ذکر کردیں تو مجھ سمیت بہتوں کا بھلا ہوجائے گا۔

خوشی ہوئی کہ ضدبازی کے اس دور میں بھی ایسے فتاویٰ دینے والے موجود ہیں۔
والسلام علیکم
محترم ابھی خوشی ادھوری ہے کیونکہ فتویٰ مکمل نہیں ہے۔ فتویٰ میں صرف دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی بات کی گئی ہے جبکہ بریلویوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے جبکہ بریلویوں اور دیوبندیوں میں بالکل بھی کوئی فرق نہیں دونوں کا حکم ایک ہے۔ بہتر ہے لوگوں کو آگاہ کردیا جائے کہ بریلویوں کے پیچھے بھی نماز جائز ہے۔ پھر جب لوگ مشرکوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے عادی ہوجائیں گے تو خود ہی آپ لوگوں سے یہودیوں اور قادیانیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا فتویٰ بھی مانگیں گے۔ یہودیوں اور قادیانیوں میں دیوبندیوں اور بریلویوں سے صرف ایک ہی مسئلہ میں تو اختلاف ہے اور وہ ہے رسالت تسلیم نہ کرنے کا۔ اگر رسالت تسلیم نہ کرنے کا گناہ یہودیوں اور قادیانیوں کے ذمہ لگا دیا جائے تو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش نکل ہی آئے گی کیونکہ باقی افعال میں تو یہودی اور قادیانی، دیوبندیوں اور بریلویوں کے ہی ہم مسلک ہیں یعنی شرک،بدعت اور کفر میں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی صحابی یا تابعی کا قول حجت نہیں ہوتا۔
بھائی! میں نے امام بخاری کی رائے (ترجمۃ الباب) ذکر کی ہے، جس میں انہوں نے ایک مرفوع حدیث مبارکہ (حبشی اَمیر والی)، ایک موقوف حدیث (سیدنا عثمان﷜ والی) اور ایک مقطوع حدیث (سیدنا حسن بصری﷫ والی) سے استدلال کیا ہے۔ کہ بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔
آپ نے فرمایا کہ
قرآن و حدیث کے مقابلے میں کسی صحابی یا تابعی کا قول حجت نہیں ہوتا۔
بالکل ٹھیک! مجھے آپ سے اتفاق ہے!

ازراہ کرم کوئی ایک آیت کریمہ یا صحیح حدیث مبارکہ بیان کر دیجئے، جس میں صراحت ہو کہ بدعتی کے پیچھے نماز جائز نہیں۔

اگر آپ کے پاس کوئی صریح دلیل موجود نہیں، بلکہ یہ کسی آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ (مثلاً بدعتی کے تعظیم وغیرہ) سے آپ کا اخذ کردہ مفہوم ہے تو فہم حدیث کو حدیث کہنا بہت بڑی جسارت ہے۔

جن احادیث مبارکہ سے آپ نے یہ مفہوم سمجھا کہ بدعتی کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، یہ مفہوم سیدنا عثمان﷜، سیدنا حسن بصری﷫ اور امام بخاری﷫ نے نہیں سمجھا، بلکہ وہ دیگر احادیث مبارکہ کے مفہوم سے یہ بات سمجھے ہیں کہ بدعتی کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔

بہرحال فہم میں اختلاف ہو جاتا ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس اختلاف کی بناء پر اتنی شدّت مناسب نہیں۔ جیسے شاہد نذیر بھائی نے کہا کہ یہ انتہائی نامعقول اور بے ہودہ فتویٰ ہے۔

میں نے جواب میں عرض کیا ہے کہ رائے کا اختلاف ہو سکتا ہے، اور دونوں (مدلل) آراء میں ترجیح کی بات تو کی جا سکتی ہے لیکن کسی ایک رائے کو بے ہودہ اور نا معقول قرار دینا کسی طور صحیح نہیں؟

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آپ نے کمزور اور غیرمتعلق دلائل دے کر مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔
بظاہر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے آپ کے متعلق حسن ظن ہے کہ آپ نے دانستہ ایسی کوشش نہیں کی ہوگی بلکہ یہ دلائل کو درست طریقے سے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ واللہ اعلم
آپ نے فرمایا تھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق بدعتی کی تعظیم کرنا دین کی عمارت کو ڈھادینا ہے۔ کیا دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا اور نماز ہوجانے کا فتویٰ دینا ان بدعتیوں کی تعظیم نہیں ہے؟ کیا کسی ایک صحابی سے بھی ثابت ہے کہ اہل بدعت کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے؟ جب دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے تو میراا ن مفتیان کرام سے سوال ہے کہ بیچارے بریلویوں نے کیا قصور کیا ہے ان کے پیچھے نماز کیوں نہیں ہوتی؟؟؟ دونوں ایک ہی امام کے مقلد، ایک ہی مذہب کے ماننے والے، ایک ہی فقہ پر عمل پیرا، دونوں ہی تصوف کے چاروں سلسلوں میں بیعت کرنے اور کروانے والے، دونوں ہی شرک و بدعت کی لعنت میں مبتلا۔ تو پھر بریلویوں سے یہ امتیازی سلوک کیوں؟ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ بریلویوں کے پیچھے نماز ہوجانے کا فتویٰ بھی دیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا فتویٰ لوگوں کی نماز اور ایمان خراب کروانے کا موجب ہے۔اور اس طرح کے فتوے قرآن و حدیث کو سلف کے فہم کے بغیر سمجھنے کا نتیجہ ہیں۔اللہ اس گمراہی سے محفوظ رکھے۔آمین
اگر درج بالا اقتباس آپ کا ہی ہے تو آپ کا مطالبہ یہ تھا کہ کسی ایک صحابی کا فتویٰ پیش کیا جائے کہ اہل بدعت کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
جسے میں نے پورا کر دیا (سیدنا عثمان﷜ والی موقوف حدیث رئیس الخوارج کے پیچھے نماز ہوجانے سے متعلّق) تو پھر یہ تھریڈ غیر متعلّق کیوں؟؟؟

شاہد نذیر صاحب نے میرے متعلّق فرمایا کہ میں نے کمزور دلائل دے کر مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن پھر انہوں نے میرے بارے میں ’حسن ظن‘ سے کام لیا (جس پر میں ان کا شکر گزار اور ان کیلئے دُعا گو ہوں) کہ میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، بلکہ مجھے دلائل صحیح سمجھ میں نہ آئے۔
میری اپنے عزیز بھائی سے گزارش ہے کہ میں نے امام بخاری﷫ کی رائے (ترجمہ الباب إمامة المفتون والمبتدع) بمعہ احادیث اور مکمل ترجمہ پیش کر دیا ہے،
اگر میں نے ترجمہ میں کوئی غلطی کی ہے
یا کوئی شے چھپانی کی کوشش کی ہے
یا امام بخاری﷫ کی کوئی اور رائے ہے جو میں سمجھ نہیں سکا
یا سمجھ تو لی لیکن ’کچھ ذاتی اغراض‘ یا تعصّب وغیرہ کی بناء پر دوسروں کو مغالطہ دینا چاہا تو

ازراہِ کرام آپ میری اصلاح فرما دیجئے میں ان شاء اللہ! اپنی غلطی پر اصرار نہیں کروں گا، بلکہ تسلیم کر لوں گا۔

جہاں تک دلائل کی کمزوری کی بات ہے تو یہ امام بخاری﷫ کا فہم ہے جو انہوں نے باب کے تحت دی گئی احادیث مبارکہ سے سمجھا۔

میں بھی ان کے اس استدلال کو صحیح سمجھتا ہوں۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان میں کوئی بھی مرفوع روایت نہیں جس کے ذریعے حجت قائم کی جاسکے
حالانکہ میں نے اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں صحیح بخاری سے جو باب اور اس کے تحت دو احادیث مبارکہ پیش کی ہیں ان میں دوسری مرفوع حدیث ہے، ملاحظہ کیجئے:
قال الإمام البخاري﷫ في صحيحه:
امام بخاری﷫ اپنی کتاب الجامع الصحیح میں فرماتے ہیں:
كتاب الأذان
آذان کی کتاب
باب إمامة المفتون والمبتدع، وقال الحسن: صل وعليه بدعته۔
فتنے میں مبتلا اور بدعتی شخص کی امامت کا باب، سیدنا حسن بصری﷫ نے فرمایا: تو (اس کے پیچھے) نماز پڑھ لے، اس کی بدعت اسی پر ہے۔
695۔ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَحْصُورٌ فَقَالَ إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ وَنَتَحَرَّجُ فَقَالَ الصَّلَاةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ قَالَ الزُّهْرِيُّ لَا نَرَى أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ الْمُخَنَّثِ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ لَا بُدَّ مِنْهَا
سیدنا عبید اللہ بن عدی بن خیار﷫ (تابعی کبیر) سیدنا عثمان﷜ کے پاس آئے اور وہ (اپنے گھر میں) محصورتھے، تو عبید اللہ نے کہا کہ آپ لوگوں کے امیر ہیں اور آپ پر یہ مصیبت آئی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں (یعنی خارجیوں نے آپ کا حصار کیا ہوا ہے)
ہماری امامت فتنہ میں مبتلا ایک شخص (کنانہ بن بشر، رئیس الخوارج) کراتا ہے لہٰذا ہم اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں حرج محسوس کرتے ہیں (یعنی ہماری نماز ہو رہی ہے یا نہیں؟) سیدنا عثمان﷜ نے فرمایا کہ نماز ایک بہترین عمل ہے، جب لوگ اچھا عمل کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھا عمل کرو (یعنی ان کے ساتھ نماز پڑھو) اور اگر وہ برا عمل کریں تو تم ان جیسی برائی سے بچو (یعنی خارجی نہ بنو)
زبیدی کہتے ہیں کہ امام زہری﷫ نے فرمایا: کسی ہیجڑے کے پیچھے بغیر اشد مجبوری کے نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔

696۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ اسْمَعْ وَأَطِعْ وَلَوْ لِحَبَشِيٍّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ
سیدنا انس بن مالک﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ابو ذر﷜ سے فرمایا: سمع واطاعت کرو اگرچہ کسی ایسے حبشی امیر کی کیوں نہ ہو جس کا سر منقّے جیسا ہو۔
اوردوسرا یکہ یہ تمام موقوف روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج زیل ارشاد کے مخالف ہونے کی وجہ سے مرجوع اور ناقابل توجہ ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کو گرانے میں مدد کی۔(الشریعہ للآجری،صفحہ ٩٦٢، حاشیہ ٢٠٤٠)
تنبیہ: بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا اسکی تعظیم کرنا اور اسے عزت دینا ہی ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اسلام کی عمارت کوگرانے کے مترادف ہے۔
عرض یہ ہے کہ ان میں سیدنا انس والی مرفوع حدیث مبارکہ بھی ہے، جو صحیح بخاری کی روایت ہونے کی بناء پر صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر ہے۔
مجھے تو شاہد صاحب نے کمزور دلائل پیش کرنے کا طعنہ دیا حالانکہ میں نے صحیح بخاری سے پیش کیے۔
اب ذرا شاہد صاحب کی دلیل کی قوت اور قطعیت ملاحظہ فرمائیے جس کے اردو ترجمے کو شاہد صاحب بہت دھڑلے اور اعتماد سے نبی کریم کا قول فرما رہے ہیں حالانکہ یہ اردو الفاظ نبی کریمﷺ کے ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ نبی کریمﷺ عربی بولتے تھے۔
شاہد صاحب نے جو اردو الفاظ پیش کیے ہیں ان کی عربی یہ ہے:من وقر صاحب بدعة فقد أعان على هدم الإسلام
اس کی قطعیت اور قوت ملاحظہ فرمائیے:

من وقر صاحب بدعة فقد أعان على هدم الإسلام
الراوي: عائشة المحدث: ابن حبان - المصدر: المجروحين - الصفحة أو الرقم: 1/286
خلاصة حكم المحدث: باطل

من وقر أهل البدع فقد أعان على هدم الإسلام
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: ابن الجوزي - المصدر: موضوعات ابن الجوزي - الصفحة أو الرقم: 1/444
خلاصة حكم المحدث: باطل موضوع

من وقر صاحب بدعة أعان على هدم الإسلام
الراوي: - المحدث: ابن تيمية - المصدر: مجموع الفتاوى - الصفحة أو الرقم: 18/346
خلاصة حكم المحدث: معروف عن الفضيل بن عياض

من وقر صاحب بدعة فقد أعان على هدم الإسلام .
الراوي: جابر بن عبدالله و عائشة و عبدالله بن بسر المحدث: العراقي - المصدر: تخريج الإحياء - الصفحة أو الرقم: 2/111
خلاصة حكم المحدث: أسانيده ضعيفة

من مشى إلى صاحب بدعة ليوقره فقد أعان على هدم الإسلام
الراوي: معاذ بن جبل المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 1/193
خلاصة حكم المحدث: فيه بقية وهو ضعيف

من وقر صاحب بدعة؛ فقد أعان على هدم الإسلام
الراوي: إبراهيم بن ميسرة المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 1/141
خلاصة حكم المحدث: مرسل

من وقر صاحب بدعة, فقد أعان على هدم الإسلام .
الراوي: - المحدث: الشوكاني - المصدر: الفوائد المجموعة - الصفحة أو الرقم: 211
خلاصة حكم المحدث: إسناده ضعيف

من وقر صاحب بدعة ؛ فقد أعان على هدم الإسلام
الراوي: إبراهيم بن ميسرة المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 187
خلاصة حكم المحدث: حسن

من و قر صاحب بدعة فقد أعان على هدم الإسلام
الراوي: عائشة المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الضعيفة - الصفحة أو الرقم: 1862
خلاصة حكم المحدث: ضعيف

من وقر صاحب بدعة ، فقد أعان على هدم الإسلام
الراوي: عبدالله بن بسر المازني المحدث: الألباني - المصدر: ضعيف الجامع - الصفحة أو الرقم: 5877
خلاصة حكم المحدث: ضعيف

تفصیل کیلئے دیکھئے: الدرر السنية - الموسوعة الحديثية

تو گویا ان الفاظ کی نبی کریمﷺ کی نسبت ہی ثابت نہیں اگر بالفرض ثابت بھی ہو تو تب اس میں بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت کی صراحت ہے ہی نہیں بلکہ یہ ان الفاظ سے شاہد صاحب کا اپنا فہم ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
تنبیہ: بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا اسکی تعظیم کرنا اور اسے عزت دینا ہی ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اسلام کی عمارت کوگرانے کے مترادف ہے۔
اب اس فہم پر اتنا گھمنڈ کہ اس کی بنا پر کبار سلف صالحین کی رائے (بدعتی کے پیچھے نماز کا جواز) کو ہی نا معقول اور بے ہودہ اور انہیں گمراہی کے فتوے دینے والا قرار دیا جائے؟؟؟

مجھے شاہد نذیر صاحب پر یہ اعتراض نہیں کہ ان کی رائے سیدنا عثمان﷜، سیدنا حسن بصری﷫، سیدنا امام بخاری﷫، امام ابن تیمیہ﷫ وغیرہ سے مختلف کیوں ہے؟؟؟
کیونکہ ہمارا موقف ہی یہ ہے کہ کسی کی اندھی تقلید جائز نہیں،

مجھے اصل اعتراض اس پر ہے کہ انہوں نے اپنی رائے سے مخالف رائے کو جو کبار سلف صالحین (بشمول صحابہ وتابعین) کی بھی رائے ہے کو نا معقول، بے ہودہ، گمراہی پھیلانے والی اور لوگوں کے عقیدے خراب کرنے والی رائے کیوں قرار دیا ہے؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
انس نضر حفظہ اللہ کے پیش کردہ دلائل موضوع سے غیر متعلق ہیں کیونکہ بدعتی کی دو اقسام ہیں ایک بدعتی وہ جو بدعت صغری میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بدعت کبریٰ میں مبتلا ہو۔ اگر حسن بصری رحمہ اللہ وغیرھم کے اقوال کو ہم تسلیم بھی کر لیں تو یہ اقوال ایسے بدعتی شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں ہیں جو بدعت صغری کا شکار ہو اور اس کی بدعت کفر تک نہ پہنچی ہو۔ جبکہ جو مسئلہ زیر بحث ہے وہ دیوبندیوں اور بریلویوں جو بدعت مکفرہ کا شکار ہیں کے پیچھے نماز کے جواز اور عدم جواز سے متعلق ہے۔ پس انس نضر حفظہ اللہ کو چاہیے کہ ایسے دلائل پیش کریں جو موضوع سے متعلق ہوں۔اور ہم نے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ صحابی سے ثابت کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا اسے بھی ملحوظ رکھیں۔
آپ مجھے حفظہ اللہ نہ لکھا کریں، اگرچہ یہ ایک دُعا ہے اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کیلئے دُعا کی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ عرف بھی ہے کہ علمائے کرام کے ساتھ﷾ لکھا جاتا ہے، اور ہر شخص اپنے بارے میں بخوبی جانتا ہے، میرا علم بہت ہی ناقص ہے، میں ایک ادنیٰ طالب علم اور علماء کا خادم ہوں۔ ان شاء اللہ!
علاوہ ازیں ’دوسروں کو مغالطہ دینے کی کوشش کرنے والا‘ (آپ کے نزدیک) ان الفاظ کا مستحق نہیں!

جہاں تک بدعت مکفّرہ اور غیر مکفّرہ کی بات ہے تو مجھے اس حد تک آپ سے اتفاق ہے کہ جو خود کافر ہے تو چونکہ اس کی اپنی نماز صحیح اور اللہ کے ہاں مقبول نہیں لہٰذا اس کے پیچھے دوسروں کے نماز بھی صحیح نہیں، اور جو خود کافر نہیں، بلکہ فاسق یا مبتدع ہے تو اس کی اپنی نماز بھی صحیح ہے (اگرچہ اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہے) تو اس کے پیچھے نماز بھی جائز ہوگی۔

علاوہ ازیں کسی کو اپنا مستقل امام بنانے اور کسی کے پیچھے نماز ہوجانے میں بہت فرق ہے۔ میرے نزدیک تو کثرت سے صغیرہ گناہوں کے مرتکب کو بھی اپنا مستقل امام نہیں بنانا چاہئے، البتہ کبھی پارک یا ائیر پورٹ وغیرہ پر مجبوراً کسی فاسق یا مبتدع کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
اور یہ فرق محترم حافظ عبد اللہ محدث روپڑی﷫ (جن کا فتویٰ آپ کے نزدیک نا معقول اور بے ہودہ ۔۔۔ وغیرہ ہے) نے بھی کیا ہے، ملاحظہ کیجئے:
البتہ دیوبندی حضرات کی تکفیر سے متعلق آپ کی رائے سے مجھے شدید اختلاف ہے۔

میرے نزدیک ایک جھوٹے یا فاسق شخص (مثلاً داڑھی کٹوانے والا) کو بھی امام نہیں بنانا چاہئے اور نہ ہی اس کے پیچھے مستقل نماز پڑھنی چاہئے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے اگر کبھی نماز پڑھنی پڑے تو ہو جاتی ہے!
میرا آپ سے ایک سادہ سا سوال ہے کہ کیا آپ کے نزدیک جھوٹے یا فاسق شخص کے پیچھے کبھی کبھار نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟

اگر نہیں ہوتی تو پھر آج کس مسجد کا امام معصوم ہے؟؟ ہر ایک سے بشری تقاضوں کے تحت چھوٹی بڑی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں
اس طرح تو شائد شاہد نذیر صاحب کو ہر نماز انفرادی ہی پڑھنے پڑے گی۔ ابتسامہ!!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یاد رہے کہ بدعت صغری میں مبتلا بدعتی کے بارے میں بھی راجح اور قرآن وحدیث کی نصوص کے عین مطابق فتویٰ یہی ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
١- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بدعتی شخص کے سلام کا جواب نہیں دیا۔(سنن ترمذی،٢١٥٢)
معلوم ہوا کہ ابن عمر بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل نہیں تھے کیونکہ جو بدعتی کے سلام کا جواب دینا پسند نہ کرتا ہو وہ بدعتی کے پیچھے نماز کیسے پڑھنا پسند کرےگا؟؟؟

٢- سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بدعتیوں کوڈانٹ کر مسجد سے نکال دیا تھا۔(سنن دارمی،٢١٠)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی بدعتیوں سے نفرت کرتے تھے اور انہیں عزت دیتے ہوئے ان کے پیچھے نماز کے قائل نہیں تھے وگرنہ وہ بدعتیوں کو مسجد سے نہ بگھاتے۔

٣۔ صالح بن احمد بن حنبل نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا: جسے یہ ڈر ہو کہ وہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھتا ہے جسے وہ نہیں جانتا؟ تو امام احمد نے فرمایا: نماز پڑھ لے، پھر جب اسے معلوم ہوجائے کہ وہ (امام)بدعتی تھا تو وہ نماز دوبارہ پڑھے۔(مسائل صالح،جلد٢،صفحہ ٢٥،حاشیہ ٥٦٢)

٤- امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے پوچھا: میرے گھر کے دروازے پر ایک مسجد ہے جس کا امام صاحب بدعت (بدعتی) ہے؟ انھوں نے فرمایا تو اسکے پیچھے نماز نہ پڑھ۔
اس نے کہا بارش والی رات ہوتی ہےاور میں بوڑھا آدمی ہوں؟ انھوں نے فرمایا: تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھ۔
(حیلتہ الاولیاء،جلد٧،صفحہ ٢٨)

٥- مشہور ثقہ امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ کے نزدیک بدعتی کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز دھرانی چاہیے۔(السنہ لعبداللہ بن احمد:٧٥)
کوئی ایک نص بھی آپ نے پیش نہیں کی پھر بدعتی (فاسق) کے پیچھے نماز کیوں نہیں ہوتی؟؟؟
جہاں تک امام احمد، سفیان ثوری اور ابو عبید رحمہم اللہ کے فتووں کی بات ہے تو تفصیل میں جائے بغیر عرض ہے کہ فتوے تو اس کے مخالف بھی موجود ہیں (جو آپ کے نزدیک نا معقول اور بے ہودہ اور گمراہی پھیلانے کا باعث ہیں)
تو اپنے مطلب کے فتووں کو آپ کس دلیل کی بناء پر راجح قرار دے رہے ہیں؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یہ تو ہوا جواب ان دلائل کا جو موضوع سے بالکل غیر متعلق تھے اب موضوع سے متعلق دیوبندیوں اور بریلویوں کا حکم اور انکے پیچھے نماز جیسے اہم رکن کی ادائیگی کے جواز اور عدم جواز کا حل سلف صالحین کے فتاواجات سے پیش خدمت ہے۔ دیوبندی صرف بدعتی ہی نہیں بلکہ وحدت الوجودی،ماتریدی اور جہمی بھی ہیں۔ خاص جہمی کے پیچھے نماز پڑھنے سے متعلق سلف صالحین کا موقف ملاحظہ فرمائیں:

١- صحیحین کے راوی اور ثقہ امام سلام بن ابی مطیع البصری صاحب سنت نے فرمایا: جہمیہ کفار ہیں، ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔(مسائل احمد روایۃ ابی داود،صفحہ ٢٦٨)
حیرت ہے ان لوگوں پر جو جہمیہ دیوبندی جو امام سلام کے نزدیک کافر ہیں کے پیچھے نماز پڑھنے کا فتویٰ دے کر لوگوں کی نماز اور ایمان برباد کرنا چاہتے ہیں۔

٢- امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ نے فرمایا: ان (جہمیہ) کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔(السنتہ لعبداللہ بن احمد: ٣٣)

٣- امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ جہمی اوررافضی کے پیچھے نماز پڑھوں یا یہود و نصاریٰ کے پیچھے نماز پڑھوں۔(خلق افعال العباد،صفحہ ٢٢، فقرہ ٥٣)
پتا چلا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کسی دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنا یا کسی یہودی کے پیچھے نماز پڑھنا ایک برابر ہے۔

٤۔ امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ نے خوارج، قدریہ، مرجیہ،جہمیہ،معتزلہ،تمام رافض،تمام نواصب اور گمراہ مبتدعین کے بارے میں فرمایا: اسے سلام نہیں کہنا چاہیے اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔(الشریعہ طبعہ محققہ،صفحہ ٩٦٠)
موجودہ حنفی حضرات خواہ وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی! کو علی الاطلاق کافر سمجھنا صحیح نہیں!

البتہ بدعات مکفرہ کے مرتکب اگر وہ علیٰ وجہ البصیرت اس بدعت پر عمل پیرا ہوں اور اس کے داعی ہوں ان کا معاملہ مختلف ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
Top