بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ
سب سے پہلے یہ حدیث مبارک ملاحظہ فرمائیے، اور بدعتِ حسنہ کے فلسفہ پر غور فرمائیے :
عن أنس عن النبي صلی اللہ علیہ آلہ وسلم قال ( إنِی فَرطُکُم عَلیٰ الحَوضِ مَن مَرَّ عليَّ شَرِبَ و مَن شَرِبَ لم یَظمَاء ُ أبداً لَیَرِدُنّ عَليّ أقواماً أعرِفُھُم و یَعرِفُونِي ثُمَّ یُحَالُ بینی و بینَھُم فأقولُ إِنَّھُم مِنی، فَیُقال، إِنکَ لا تدری ما أحدَثُوا بَعدَکَ، قَأقُولُ سُحقاً سُحقاً لَمِن غَیَّرَ بَعدِی ) و قال ابن عباس سُحقاً بُعداً سُحیقٌ بَعِیدٌ سُحقۃً، و أسحقہُ أبعَدُہُ۔(صحیح البُخاری/حدیث ٦٥٨٣، ٦٥٨٤/ کتاب الرقاق/ باب فی الحوض، صحیح مسلم / حدیث ٢٢٩٠، ٢٢٩١ /کتاب الفضائل/باب اِثبات حوض نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم و صفاتہ۔ )
’’ میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر ہوں گا جو میرے پاس آئے گا وہ ( اُس حوض میں سے ) پیئے گا اور جو پیئے گا اُسے ( پھر ) کبھی پیاس نہیں لگے گی، میرے پاس حوض پر کچھ لوگ آئیں گے یہاں تک میں اُنہیں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے ( کہ یہ میرے اُمتی ہیں اور میں اُن کا رسول ہوں)، پھر اُن کے اور میرے درمیان (کچھ پردہ وغیرہ)حائل کر دیا جائے گا، اور میں کہوں گا یہ مجھ میں سے ہیں ( یعنی میرے اُمتی ہیں، جیسا کہ صحیح مُسلم کی روایت میں ہے )، تو ( اللہ تعالیٰ ) کہے گا آپ نہیں جانتے کہ اِنہوں نے آپ کے بعد کیا نئے کام کیئے، تو میں کہوں گا دُور ہوں دُور ہوں، جِس نے میرے بعد تبدیلی کی )) اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا۔ ۔ سُحقاً یعنی دُور ہونا،
محترم قارئین!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اِن فرامین پر ٹھنڈے دِل سے غور فرمائیے، دیکھیئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے جو جواب دیا جائے گا اُس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے اعمال نہیں جانتے، اور اللہ تعالیٰ دِین میں نئے کام کرنے والوں کو حوضِ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ہٹوائیں گے، اچھے یا برے نئے کام کے فرق کے بغیر، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے یہ سفارش کرنے کا ذِکر کیا کہ اچھے نئے کام یعنی
"بدعتِ حسنہ " کرنے والوں کو چھوڑ دِیا جائے۔
’’’ غور فرمائیے‘‘‘ بدعت دینی اور بدعت دُنیاوی، یا یوں کہیئے، بدعتِ شرعی اور بدعتِ لغوی میں بہت فرق ہے اور اِس فرق کو سمجھنے والا کبھی
"بدعتِ حسنہ اورسیئہ"کی تقسیم کو درست نہیں جانتا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ مَن أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد۔‘‘(صحیح البخُاری / حدیث ٢٦٩٧/کتاب الصلح /باب ٥)
جِس نے ہمارے اِس کام ( یعنی دِین ) میں ایسا نیا کام بنایا جو اِس میں نہیں ہے تو وہ کام رد ہے۔
غور فرمائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں ہر وہ کام مردود قرار دِیا گیا ہے جو دِین میں نہیں ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں۔ ۔ جو کام دِین میں سے نہیں وہ بدعت ہو سکتا ہے، اور فلان فلان کام تو دِین میں سے ہیں، اور ان کے اس فلسفے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا یہ فرمان رد کرتا ہے کہ
"جو اِس (یعنی دِین) میں نہیں ہے "، پس ایسا کوئی بھی کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے کے وقت تک دین میں نہیں تھا وہ دین نہیں ہو سکتا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وہ کام جو خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے طرف سے جاری نہیں کیا گیا وہ بھی دینی نکتہ نظر سے قابل اتباع نہیں ہے۔
مثلاً اپنی خود ساختہ عبادات، دُعائیں، ذکر اذکار، چلہ کشیاں، اور ان کے خاص کیفیات، اوقات اور عدد وغیرہ مقرر کرنا، خصوصی یاد گیری کی محافل سجانا اور دن منانے، وغیرہ وغیرہ۔
جی ہاں یہ مذکورہ بالا کام "دِین میں سے " تو ہیں، لیکن جب یہ کام ایسے طور طریقوں پر کیے جائیں جو "دِین میں "نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مذکورہ بالا حُکم لاگو ہوتا ہے۔
بہت توجہ اور تحمل سے سمجھنے کی بات ہے کہ
"دِین میں سے ہونا "اور
"دِین میں ہونا "دو مختلف کیفیات ہیں، کِسی کام ( قولی و فعلی، ظاہری و باطنی، عقیدہ، اور معاملات کے نمٹانے کے احکام وغیرہ )کا دِین میں سے ہونا، یعنی اُس کام کی اصل دِین میں "جائز "ہونا ہے،
اور کِسی کام کا دِین میں ہونا، اُس کام کو کرنے کی کیفیت کا دِین میں ثابت ہونا ہے،
مَن گھڑت، خود ساختہ طریقے اور کیفیات دِین میں سے نہیں ہیں، اللہ کی عِبادت، دُعا، ذِکر و اذکار، عید، صلاۃ و سلام، یہ سب دِین میں تو ہیں، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ "اِن کو کرنے کی کون سی کیفیت اور ہیئت دِین میں ہے ؟؟؟"
قُرآن کی آیات کی اپنی طرف سے تفسیر و شرح کرنا، ، صحیح ثابت شدہ سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کی موافقت کے بغیر اپنی طرف سے معنی و مفہوم نکالنا اور اُس کو بُنیاد بنا کر عِبادات و عقائد اخذ کرنے سے کوئی کام عبادت اور کوئی قول و سوچ عقیدہ نہیں بن سکتے، نہ ہی کچھ حلال و حرام کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کچھ جائز و ناجائز کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کسی کو کافر و مشرک و بدعتی قرار دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ایسے بلا دلیل اور ذاتی آراء و فہم پر مبنی اقوال و افعال و اَفکار دِین کا جُز قرار پا سکتے ہیں، وہ یقیناً دِین میں نئی چیز ہی قرار پائیں گے، جِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعت قرار فرمایا ہے۔
مزید ملاحظہ فرمائیے۔ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ فَإنَّ أصدَقَ الحَدِیثِ کِتَاب اللَّہِ، وَ خیرَ الھدٰی ھدٰي محمَّدٍ، وَ شَرَّ الأمورِ محدَثَاتھَا، وَ کَلَّ محدَثَۃٍ بِدَعَة، وَ کلَّ بِدَعَة ضَلالة ‘‘ (صحیح مُسلم / حدیث ٨٦٧)
پس بے شک سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھی ہدایت محمد کی ہدایت ہے، اور کاموں میں سب سے بُرا کام نیا بنایا ہوا ہے اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
ایک دوسری روایت میں مزید وضاحت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بدعت کے بارے میں فیصلہ فرما دیا ہے، ملاحظہ فرمایے
’’ فَاِنَّ مَن یَعِیشُ مِنکُم فَسیَری اِختلافاًً کثیراً، فَعَلِیکُم بِسُنّتِی وَ سُنَّة الخُلفاء الراشدینَ المھدیَّینَ، عضُّوا علیھا بالنَواجذِ، وَ اِیَّاکُم وَ مُحدَثاتِ الأمور، فَاِنَّ کلَّ بِدَعَة ضَلالَة، وَ کلَّ ضَلالة فِی النَّارِ‘‘(صحیح ابن حبان /کتاب الرقاق، صحیح ابن خُزیمہ /حدیث ١٧٨٥/کتاب الجمعہ /باب٥١،سُنن ابن ماجہ /حدیث ٤٢/باب ٦، مُستدرک الحاکم حدیث ٣٢٩، ٣٣١،اسنادہ صحیح/ احکام الجنائز /مایحرم عندالقبور/١٢)
پس تُم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، تو تُم پر میری اور ہدایت یافتہ، ہدایت دینے والے خلفاء کی سُنّت فرض ہے اُسے دانتوں سے پکڑے رکھو، اور نئے کاموں سے خبردار، بے شک ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا اِن فرامین کے بعد دِین میں کِسی بھی نئے کام یعنی بدعت کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، "ہر "بدعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہی قرار دِیا ہے، کِسی بدعت کو اچھا یعنی بدعتِ حسنہ کہہ کر جائز کرنے کی کو ئی گنجائش نہیں،۔
ان سب معلومات کے حصول کے بعد میں کہتا ہوں کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سئیہ کی تقسیم بذات خود ایک بدعت ہے۔
اِمام الالکائی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا کہ۔
’’ کُلّ بدعة ضلالة و اِن رآھا الناسُ حسنہ‘‘
ہر بدعت گمراہی ہے خواہ لوگ اُسے اچھا ہی سمجھتے ہوں۔
یہ ایک ایسے عظیم القدر صحابی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے جن کے علم، زہد و تقویٰ، اور محبت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ایک بہترین مثال کے طر پر بیان ہوتی ہے، ان کے علاوہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے اِس موضوع پر بہت سے فرامین صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہیں، اِن شاء اللہ کبھی اُن کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی سعی کروں گا۔
اِمام الشاطبی رحمہُ اللہ نے اپنی معروف کتاب
"الأعتصام "میں ابن ماجشون سے نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے اِمام مالک علیہ رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ
’’ جِس نے اِسلام میں نیا کام گھڑا اور ( اُس کام کو ) اچھی بدعت سمجھا تو گویا اُس نے یہ خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ’’ الیَومَ اَ کمَلت لَکُم دِینکُم ‘‘آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مُکمل کر دِیا ) لہذا جو اُس دِن ( یعنی جِس دِن آیت نازل ہوئی ) دین نہیں تھا وہ آج دِین نہیں ہو سکتا "
محترم قارئین ؛
مجھے اُمید ہے کہ اب تک آپ یہ سمجھ چکے ہوں گے کہ
دین میں ہر بدعت، محض بدعت ہے، اور اس میں کہیں سے بھی اچھی یا بری بدعت نکالنے کی گنجائش نہیں، پس ایسا ہر کام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے دُنیا سے رخصت ہونے تک، اور پھر خلافت راشدہ کے اختتام تک دین میں نہیں تھا وہ دین میں نہیں ہو سکتا،
ایسا کوئی بھی کام کرنے والا، کروانے والا اللہ کے ثواب نہیں پائے، بلکہ ایسے کسی بھی کام کو دِین سمجھ کر کرنے والے پر عتاب ضرور ہو گا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاف اور صریح أحکامات کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جیسا کہ جلیل القدر تابعی سعید بن المُسیب رحمہُ اللہ کا فتویٰ ہے جو کہ اِمام البیہقی نے اپنی
"سنن الکبری "صحیح أسناد کے ساتھ نقل کیا کہ "سعید بن المُسیب نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر طلوع ہونے کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑہتا ہے اور اِس نماز میں خوب رکوع اور سجدے کرتا ہے تو سعید نے اُسے اِس کام سے منع کیا، اُس آدمی نے کہا
"یا أَبَا مُحَمَّدٍ أَیُعَذِّبُنِی اللَّہ ُ عَلٰی الصَّلَاۃِ"
اے أبا محمد کیا اللہ مجھے نماز پر عذاب دے گا ؟ "
تو سعید رحمۃُ اللہ علیہ نے جواب دِیا
"لَا وَلَکِن یُعَذِّبُکَ اللہ بِخِلَافِ السُّنَّة"
نہیں لیکن تمہیں سُنّت کی خِلاف ورزی پر عذاب دے گا- (سنن البیہقی الکبریٰ / حدیث٤٢٣٤ /کتاب الصلاۃ /باب ٥٩٣ من لم یصل بعد الفجر إلا رکعتی الفجر ثم بادر بالفرض، کی آخری روایت، اِمام الالبانی نے صحیح قراردیا "اِرواء الغلیل /جلد٢ /صفحہ ٢٣٤)
یہ میرا نہیں، دو چار سو سال پہلے بنے ہوئے کسی "گستاخ فرقے "کا نہیں، ایک تابعی کا فتویٰ ہے، اِس پر غور فرمائیے، اور بار بار فرمائیے، یہ اتباع سُنّت، محبت و عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے اظہار کا صحیح اور ہمیشہ سے انداز ہے نا کہ وہ جو کچھ اپنی اپنی منطق، سوچ اور فلسفے کی بُنیاد آیات و احادیث کی تفسیر و تشریح کر کے بنایا جاتا ہے،
محترم قارئین
کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمان
"مَن سَنَّ فی الاِسلامِ سُنَّة حَسنة۔"
جس نے اسلام میں اچھی سنت چالو کی ) کو بدعت حسنہ یعنی اچھی بدعت اور بدعت سیئہ یعنی بری بدعت کی تقسیم کی دلیل بناتے ہیں، جبکہ اس فرمان مبارک میں کِسی "بدعت حسنہ "کی کوئی دلیل نہیں ہے،
اگر آپ اِس فرمان والے واقعے کو پورا پڑہیے، اور صرف یہ غور فرمائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے کب، کیوں اور کس کام کے بارے میں یہ فرمایا ؟ اور یہ بھی غور فرمائیے کہ
"مَن اَبتداعَ فی الاِسلام بَدعة حَسنة" جس نے اسلام میں اچھی بدعت ایجاد کی ) نہیں فرمایا کیونکہ
"سُنة "اور
"بِدعة" قطعاً ایک چیز نہیں ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بڑھ کر شریعیت اور لغت کو جاننے والا کوئی اور نہیں، پوری حدیث اور واقعہ صحیح مُسلم /کتاب الزکاۃ/ باب ٢٠، اور، صحیح ابن حبان /کتاب الزکاۃ /باب ٩، میں پڑھیئے، بڑی وضاحت سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہاں کسی نئے کام کی ایجاد کا نام و نشان بھی نہیں، اور جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے وہ کیا نیا کام نہیں تھا، بلکہ اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا، اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا تھا، جو پہلے سے معروف تھا اور کیا جاتا تھا، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمان
"مَن سَنَّ فی الاِسلامِ سُنَّة حَسنة" جس نے اسلام میں اچھی سنت چالو کی ) میں کسی نئے کام کی ایجاد کو اچھا نہیں کہا گیا،
کچھ اسی طرح کا معاملہ دیگر ان باتوں کا ہے جو بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی دلیل بنائی جاتی ہیں، جیسا کہ امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما کا قول
"نعمة البدعة ھذہ " اور خلفاء راشدین کی طرف سے کیے جانے کچھ کاموں کو بدعت سمجھنا-
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر سُنّت کو پہچاننے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر اُس کام کو جاننے اور پہچاننے اور اُس سے بچنے اور کم از کم اُس پر اِنکار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جو سُنّت کے خِلاف ہے۔