بدعت كی تعريف،اسباب،مظاہر اور نقصانات
تعریف :
لغوی طور پر بدعت کا معنیٰ ہے!کسی چیز کا ایسے طریقے سے ایجاد کرنا جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو۔جبکہ اصطلاحاً بدعت کہتے ہیں!شریعت میں کوئی نئی چیز گھڑ لینا جس کی قرآن و سنت میں کوئی دلیل نہ ہو۔
یاد رکھیں!دنیوی معاملات میں نئی نئی ایجادات جائز ہیں کیونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے۔جیسے بس‘ ریل گاڑی اور جہاز کا سفر‘کمپیوٹر کا استعمال‘ گھڑی پہننا وغیرہ وغیرہ۔جبکہ دین میں نئی ایجاد ات حرام ہیں‘کیونکہ دینی عبادات میں اصل توقیف ہے۔نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
(من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردّ)
’’جس کسی نے ہمارے دین میں نئی چیز کی ایجاد کی جو دین سے نہیں ہے‘ تو وہ مردود ہے۔[متفق علیہ]
بدعات کے اسباب
۱۔دینی احکام سے لا علمی
۲۔اپنی خواہشات کی پیروی
۳۔مخصوص لوگوں کی رائے کیلئے تعصب برتنا
۴۔کفار سے مشابہت اختیار کرنا
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کامل واکمل نازل کیا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
((اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلٰمَ دِیْناً)) [المائدۃ:۳]
’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیااور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا ۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((أَمْ لَھُمْ شُرَکَآئُ شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَأْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ وَلَوْ لَا کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ))[الشوری:۲۱]
’’کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے)شریک (مقرر کر رکھے)ہیں جنہوں نے ایسے (احکام )دین مقرر کر دئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی)ان میں فیصلہ کر دیا جاتا ۔یقینا ان ظالموں کے لئے ہی درد ناک عذاب ہے۔‘‘
اور نبی ﷺ نے فرمایا۔خبردار!تم دین میں نئی ایجادات سے باز آجاؤ،بیشک ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔[ابوداؤد،ترمذی]
نبی ﷺ ان کلمات کو اپنے ہر خطبہ کے اندر پڑھا کرتے تھے۔جب دین کامل واکمل ہے اور اس میں کسی قسم کا نقص نہیں تو نئی چیز لانے کی گنجایش ہی باقی نہیں رہتی۔
اگرچہ بعض لوگوں نے بدعت کی دو قسمیں کر ڈالی ہیں
،،بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ،،تو یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ بدعت بدعت ہی ہے ،شریعت میں بدعت حسنہ کا کوئی تصورنہیں۔باقی رہی ان کی دلیل حضرت عمر ؓکی حدیث!جس میں انہوں نے تراویح کی نماز با جماعت ادا کرانے کے بعد کہا تھا
’’نعمت البدعۃ ھٰذہ‘‘تو درحقیقت حضرت عمر ؓ کا یہ عمل کوئی نیا نہیں تھابلکہ پہلے سے شریعت میں اس کی دلیل موجود تھی۔کہ نبی ﷺنے تین دن تراویح کی جماعت کروائی۔بعد میں اس خدشہ کے پیش نظر چھوڑ دیا کہ کہیں فرض ہی نہ ہو جائے۔لہذا عمر فاروق ؓ کا یہ عمل بدعت شرعی نہ ہوا بلکہ بدعت لغوی ہوا۔پس جس چیز کی اصل شریعت میں موجود ہے جس کی جانب رجوع کیا جا سکتا ہے،تو جب اسے بدعت کہا جاتا ہے تو اس سے مراد بدعت لغوی ہوتی ہے نہ کہ شرعی !شرعی بدعت وہ ہے جس کی اصل شریعت میں موجود نہ ہو،جس کی طرف رجوع کیا جا سکے اور یہی حرام ہے۔چنانچہ قرآن مجید کو ایک کتاب میں جمع کرنا بدعت لغوی ہے کیونکہ نبی ﷺ کے زمانہ میں قرآن کو مختلف جگہوں پر لکھا جاتا تھا۔لہذا جس طرح قرآن کی کتابت کی اصل شریعت میں موجود تھی اسی طرح باجماعت نماز تراویح کی اصل بھی شریعت میں موجود تھی۔
بدعتی آدمی کی بخشش نہ ہو گی ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
((عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ٭تَصْلیٰ نَاراً حَامِیَۃً))[الغاشیۃ:۳،۴]
’’دنیا میں عمل کرکرکے تھکے ہوئے دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘کیونکہ ان کے اعمال سنت کے مطابق نہ ہوں گے بلکہ بد عت وخرافات پر مبنی ہوں گے۔
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ تین آدمی ازواج مطہرات کے پاس گئے اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت کے بارے میں پوچھا۔جب ان کو بتایا گیا تو گویا انہوں نے اس کو کم سمجھا۔ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ رات کو عبادت کروں گا ‘دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھوں گا‘تیسرے نے کہا کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔جب بنی ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے سختی سے منع کر دیا اور فرمایا
(فمن رغب عن سنتی فلیس منی)[بخاری ‘مسلم]
’’خبردار! جس نے میری سنت سے انکار کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘
حالانکہ انہوں نے نیکی کا ہی اظہار کیا تھا لیکن وہ نیکی سنت کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے نبی ﷺ نے منع کر دیا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودسے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نے ایک لکیر کھینچی پھر اس کے ارد گردکئی لکیریں کھینچیں اور فرمایا!ان تمام متفرق راستوں پر شیطان بیٹھا ہوا ہے جو اپنی طرف دعوت دیتا ہے۔جبکہ میرا راستہ سیدھا راستہ ہے اس کے بعد یہ آیٔت تلاوت فرمائی
(( وان ھذا صراطی مستقیماً فاتّبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ ذٰلکم وصٰکم بہ لعلّکم تتقون))[الانعام:۱۵۳]
’’اور یہ دین میرا راستہ ہے جو کہ سیدھا ہے ۔سو اس راہ پر چلو دوسری راہوں پر مت چلوکہ وہ راہیں تم کو اللہ سے دورکر دیں گی۔اس کا تم کو اللہ نے تاکیدی حکم دیا ہے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘
یاد رکھیں !اگر کوئی بھی عمل سنت نبوی ؐ کے موافق ہے تو چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی مقبول ہے۔اور اگر بدعت ہے تو بڑے سے بڑے عمل کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
عصر حاضر کی بدعتوں کے چند مظاہر
اس پر فتن دور میں ساری دنیا بدعات وخرافات کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔جو زمانے اور علاقے کے اعتبار سے مختلف ہیں۔جن کا شمار ممکن نہیں۔ان میں سے چند منتشربدعات ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ اذان سے پہلے یا بعد میں مخصوص صلوٰۃ (درود)پڑھنا۔
۲۔عید میلادالنبیؐ کا انعقاد کرنا۔اور استقبال کے لئے کھڑا ہو جانا۔
۳۔اونچی آواز سے مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کی نیت کرنا۔یاروزہ رکھنے کے لئے
’’نویت الصوم من شھر رمضان‘‘جیسے الفاظ ادا کرنا ۔
۴۔قل ‘ ساتہ ‘ تیجہ ‘دسواں‘ اکیسواں ‘چالیسواں ‘گیارہویں جیسی رسمیں کرنا۔
۵۔وضوء کرتے وقت گردن کا مسح کرنا۔
۶۔نماز فجر سے پہلے اٹھ کر سپیکروں میں اللہ ہو کی گردانیں پڑھنا۔
۷۔ہر جمعرات کو غلو پر مبنی شرکیہ نعتیں پڑھنا۔
۸۔مختلف مقامات‘مزارات‘نشانات‘آستانہ جات اور زندہ یا مردہ آدمیوں سے تبرک حاصل کرنا۔
۹۔اجرت پر قرآن خوانی کروانا اس نیت سے کہ یہ میت کیلئے نفع بخش ہے۔
۱۰۔شب معراج(۲۷رجب)یا شب برائت (۱۵شعبان)کی مناسبت سے محفلیں منعقد کرنا۔
۱۱۔ماہ رجب میں رجبی عمرہ کرنا ‘رجبی کونڈے بنانا یاخاص عبادتیں کرنا جن کی کوئی فضیلت نبی ﷺ سے ثابت نہیں
۱۲۔عشرہ محرم میں امام حسین کی نذرو نیاز دینا‘ماتم کرنا یا سبیلیں لگانا۔
۱۳۔نبی ﷺ کا نام سن کر ’’ﷺ ‘‘ کہنے کی بجائے انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگانا۔
۱۴۔محرم کے مہینے میں نکاح وشادی سے پر ہیز کرنااور اس کو منحوس جاننا۔
۱۵۔من گھڑت اور موضوع درود کا مخصوص انداز سے ورد کرنا۔
۱۶۔نماز کے بعد اجتماعی دعا مانگنا یا مخصوص انداز سے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا ورد کرنا۔
۱۷۔قبروں پر قرآن خوانی کرانا یا اذان کہنا یا مردہ دفن کرنے کے بعد چالیس قدم پر دعا مانگنا۔
۱۸۔بچے کی ولادت پر دروازے پر درختوں کے پتے باندھناوغیرہ وغیرہ۔
بدعت كےنقصانات
دین میں نئی نئی چیزیں گھڑ لینے سے درج ذیل مفاسد سامنے آتے ہیں۔
۱۔بدعت انسان کے تمام اعمال کو ضائع کر دیتی ہے اگرچہ زیادہ ہی کیوں نہ ہوں ۔
۲۔بدعت دین کے ناقص ہونے پر دلالت کرتی ہے جبکہ دین کامل واکمل ہے۔
۳۔بدعتی آدمی شیطان کا مدد گار اور رحمان کا دشمن ہے۔کیونکہ بدعت پر عمل کرناشیطان کی اطاعت اور رحمان کی بغاوت ہے۔
۴۔ بدعت اللہ تعالیٰ کو بہت سے گناہوں سے زیادہ مبغوض ہے۔
۵۔بدعتی آدمی سے توبہ کی امید نہیں کی جا سکتی بخلاف دوسرے گناہ گاروں کے ۔کیونکہ بدعتی اپنی بدعت کو نیکی سمجھ کر کررہا ہوتا ہے۔
۶۔تمام قسم کی بدعات گمراہی ہیں اور کوئی بدعت ‘بدعت حسنہ نہیں ۔اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
۷۔عقیدہ میں بدعات سب سے بدتر ہیں کیونکہ یہ شرک تک انسان کو پہنچا دیتی ہیں۔
۸۔ بدعت کا گناہ ہمیشہ قائم رہتا ہے جب تک اس بدعت کا دنیا سے خاتمہ نہ کر دیا جائے۔
۹۔بدعتی آدمی میں شیطان جلدی داخل ہو جاتا ہے۔کیونکہ بدعتی توہم پرست ہوتا ہے۔
۱۰۔بدعت حق وباطل کو خلط ملط کر دیتی ہے اور ان کے درمیان تمیز کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
۱۱۔بدعتی آدمی گویا کہ اپنے آ پ کو شارع کے مد مقابل لے آتا ہے اور اپنے پاس سے دین بناتا ہے۔
۱۲۔بدعتی گویا کہ(نعوذ باللہ) رسول اللہ ﷺ پر خیانت کا الزام لگاتا ہے کہ انہوں نے مکمل دین نہیں پہنچایا اسی لئے تو اپنے پاس سے نئی چیزیں گھڑتا ہے۔ ۱۳ ۔بدعتی آدمی نبی ﷺ کی اتباع چھوڑ کر اپنے نفس اور خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔
۱۴۔بدعتی آدمی کے دل سے ایمان کی مٹھاس اٹھا لی جاتی ہے۔
۱۵۔ قیامت والے دن بدعتی آدمی کونبی ﷺ سے حوض کوثر کا پانی نصیب نہ ہو گا کیونکہ فرشتے بدعتیوں اور نبی ﷺ کے درمیان دیوار کھڑی کر دیں گے۔
الله ہم سب كو بدعات سے بچائے اور سنتوں سے محبت كرنے كی توفيق عطا فرمائے۔آمین