• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت كی تعريف،اسباب،مظاہر اور نقصانات

ابوبکر میر

مبتدی
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
11
بدعت كی تعريف،اسباب،مظاہر اور نقصانات

تعریف :
لغوی طور پر بدعت کا معنیٰ ہے!کسی چیز کا ایسے طریقے سے ایجاد کرنا جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو۔جبکہ اصطلاحاً بدعت کہتے ہیں!شریعت میں کوئی نئی چیز گھڑ لینا جس کی قرآن و سنت میں کوئی دلیل نہ ہو۔
یاد رکھیں!دنیوی معاملات میں نئی نئی ایجادات جائز ہیں کیونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے۔جیسے بس‘ ریل گاڑی اور جہاز کا سفر‘کمپیوٹر کا استعمال‘ گھڑی پہننا وغیرہ وغیرہ۔جبکہ دین میں نئی ایجاد ات حرام ہیں‘کیونکہ دینی عبادات میں اصل توقیف ہے۔نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے
(من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردّ)
’’جس کسی نے ہمارے دین میں نئی چیز کی ایجاد کی جو دین سے نہیں ہے‘ تو وہ مردود ہے۔[متفق علیہ]
بدعات کے اسباب
۱۔دینی احکام سے لا علمی
۲۔اپنی خواہشات کی پیروی
۳۔مخصوص لوگوں کی رائے کیلئے تعصب برتنا
۴۔کفار سے مشابہت اختیار کرنا
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کامل واکمل نازل کیا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
((اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلٰمَ دِیْناً)) [المائدۃ:۳]
’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیااور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا ۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
((أَمْ لَھُمْ شُرَکَآئُ شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَأْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ وَلَوْ لَا کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ))[الشوری:۲۱]
’’کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے)شریک (مقرر کر رکھے)ہیں جنہوں نے ایسے (احکام )دین مقرر کر دئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی)ان میں فیصلہ کر دیا جاتا ۔یقینا ان ظالموں کے لئے ہی درد ناک عذاب ہے۔‘‘
اور نبی ﷺ نے فرمایا۔خبردار!تم دین میں نئی ایجادات سے باز آجاؤ،بیشک ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔[ابوداؤد،ترمذی]
نبی ﷺ ان کلمات کو اپنے ہر خطبہ کے اندر پڑھا کرتے تھے۔جب دین کامل واکمل ہے اور اس میں کسی قسم کا نقص نہیں تو نئی چیز لانے کی گنجایش ہی باقی نہیں رہتی۔
اگرچہ بعض لوگوں نے بدعت کی دو قسمیں کر ڈالی ہیں ،،بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ،،تو یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ بدعت بدعت ہی ہے ،شریعت میں بدعت حسنہ کا کوئی تصورنہیں۔باقی رہی ان کی دلیل حضرت عمر ؓکی حدیث!جس میں انہوں نے تراویح کی نماز با جماعت ادا کرانے کے بعد کہا تھا’’نعمت البدعۃ ھٰذہ‘‘تو درحقیقت حضرت عمر ؓ کا یہ عمل کوئی نیا نہیں تھابلکہ پہلے سے شریعت میں اس کی دلیل موجود تھی۔کہ نبی ﷺنے تین دن تراویح کی جماعت کروائی۔بعد میں اس خدشہ کے پیش نظر چھوڑ دیا کہ کہیں فرض ہی نہ ہو جائے۔لہذا عمر فاروق ؓ کا یہ عمل بدعت شرعی نہ ہوا بلکہ بدعت لغوی ہوا۔پس جس چیز کی اصل شریعت میں موجود ہے جس کی جانب رجوع کیا جا سکتا ہے،تو جب اسے بدعت کہا جاتا ہے تو اس سے مراد بدعت لغوی ہوتی ہے نہ کہ شرعی !شرعی بدعت وہ ہے جس کی اصل شریعت میں موجود نہ ہو،جس کی طرف رجوع کیا جا سکے اور یہی حرام ہے۔چنانچہ قرآن مجید کو ایک کتاب میں جمع کرنا بدعت لغوی ہے کیونکہ نبی ﷺ کے زمانہ میں قرآن کو مختلف جگہوں پر لکھا جاتا تھا۔لہذا جس طرح قرآن کی کتابت کی اصل شریعت میں موجود تھی اسی طرح باجماعت نماز تراویح کی اصل بھی شریعت میں موجود تھی۔
بدعتی آدمی کی بخشش نہ ہو گی ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
((عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ٭تَصْلیٰ نَاراً حَامِیَۃً))[الغاشیۃ:۳،۴]
’’دنیا میں عمل کرکرکے تھکے ہوئے دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘کیونکہ ان کے اعمال سنت کے مطابق نہ ہوں گے بلکہ بد عت وخرافات پر مبنی ہوں گے۔
حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ تین آدمی ازواج مطہرات کے پاس گئے اور رسول اللہ ﷺ کی عبادت کے بارے میں پوچھا۔جب ان کو بتایا گیا تو گویا انہوں نے اس کو کم سمجھا۔ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ رات کو عبادت کروں گا ‘دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھوں گا‘تیسرے نے کہا کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔جب بنی ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے سختی سے منع کر دیا اور فرمایا
(فمن رغب عن سنتی فلیس منی)[بخاری ‘مسلم]
’’خبردار! جس نے میری سنت سے انکار کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘
حالانکہ انہوں نے نیکی کا ہی اظہار کیا تھا لیکن وہ نیکی سنت کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے نبی ﷺ نے منع کر دیا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودسے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نے ایک لکیر کھینچی پھر اس کے ارد گردکئی لکیریں کھینچیں اور فرمایا!ان تمام متفرق راستوں پر شیطان بیٹھا ہوا ہے جو اپنی طرف دعوت دیتا ہے۔جبکہ میرا راستہ سیدھا راستہ ہے اس کے بعد یہ آیٔت تلاوت فرمائی
(( وان ھذا صراطی مستقیماً فاتّبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ ذٰلکم وصٰکم بہ لعلّکم تتقون))[الانعام:۱۵۳]
’’اور یہ دین میرا راستہ ہے جو کہ سیدھا ہے ۔سو اس راہ پر چلو دوسری راہوں پر مت چلوکہ وہ راہیں تم کو اللہ سے دورکر دیں گی۔اس کا تم کو اللہ نے تاکیدی حکم دیا ہے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔‘‘
یاد رکھیں !اگر کوئی بھی عمل سنت نبوی ؐ کے موافق ہے تو چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی مقبول ہے۔اور اگر بدعت ہے تو بڑے سے بڑے عمل کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
عصر حاضر کی بدعتوں کے چند مظاہر
اس پر فتن دور میں ساری دنیا بدعات وخرافات کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔جو زمانے اور علاقے کے اعتبار سے مختلف ہیں۔جن کا شمار ممکن نہیں۔ان میں سے چند منتشربدعات ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ اذان سے پہلے یا بعد میں مخصوص صلوٰۃ (درود)پڑھنا۔
۲۔عید میلادالنبیؐ کا انعقاد کرنا۔اور استقبال کے لئے کھڑا ہو جانا۔
۳۔اونچی آواز سے مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کی نیت کرنا۔یاروزہ رکھنے کے لئے ’’نویت الصوم من شھر رمضان‘‘جیسے الفاظ ادا کرنا ۔
۴۔قل ‘ ساتہ ‘ تیجہ ‘دسواں‘ اکیسواں ‘چالیسواں ‘گیارہویں جیسی رسمیں کرنا۔
۵۔وضوء کرتے وقت گردن کا مسح کرنا۔
۶۔نماز فجر سے پہلے اٹھ کر سپیکروں میں اللہ ہو کی گردانیں پڑھنا۔
۷۔ہر جمعرات کو غلو پر مبنی شرکیہ نعتیں پڑھنا۔
۸۔مختلف مقامات‘مزارات‘نشانات‘آستانہ جات اور زندہ یا مردہ آدمیوں سے تبرک حاصل کرنا۔
۹۔اجرت پر قرآن خوانی کروانا اس نیت سے کہ یہ میت کیلئے نفع بخش ہے۔
۱۰۔شب معراج(۲۷رجب)یا شب برائت (۱۵شعبان)کی مناسبت سے محفلیں منعقد کرنا۔
۱۱۔ماہ رجب میں رجبی عمرہ کرنا ‘رجبی کونڈے بنانا یاخاص عبادتیں کرنا جن کی کوئی فضیلت نبی ﷺ سے ثابت نہیں
۱۲۔عشرہ محرم میں امام حسین کی نذرو نیاز دینا‘ماتم کرنا یا سبیلیں لگانا۔
۱۳۔نبی ﷺ کا نام سن کر ’’ﷺ ‘‘ کہنے کی بجائے انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگانا۔
۱۴۔محرم کے مہینے میں نکاح وشادی سے پر ہیز کرنااور اس کو منحوس جاننا۔
۱۵۔من گھڑت اور موضوع درود کا مخصوص انداز سے ورد کرنا۔
۱۶۔نماز کے بعد اجتماعی دعا مانگنا یا مخصوص انداز سے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا ورد کرنا۔
۱۷۔قبروں پر قرآن خوانی کرانا یا اذان کہنا یا مردہ دفن کرنے کے بعد چالیس قدم پر دعا مانگنا۔
۱۸۔بچے کی ولادت پر دروازے پر درختوں کے پتے باندھناوغیرہ وغیرہ۔
بدعت كےنقصانات
دین میں نئی نئی چیزیں گھڑ لینے سے درج ذیل مفاسد سامنے آتے ہیں۔
۱۔بدعت انسان کے تمام اعمال کو ضائع کر دیتی ہے اگرچہ زیادہ ہی کیوں نہ ہوں ۔
۲۔بدعت دین کے ناقص ہونے پر دلالت کرتی ہے جبکہ دین کامل واکمل ہے۔
۳۔بدعتی آدمی شیطان کا مدد گار اور رحمان کا دشمن ہے۔کیونکہ بدعت پر عمل کرناشیطان کی اطاعت اور رحمان کی بغاوت ہے۔
۴۔ بدعت اللہ تعالیٰ کو بہت سے گناہوں سے زیادہ مبغوض ہے۔
۵۔بدعتی آدمی سے توبہ کی امید نہیں کی جا سکتی بخلاف دوسرے گناہ گاروں کے ۔کیونکہ بدعتی اپنی بدعت کو نیکی سمجھ کر کررہا ہوتا ہے۔
۶۔تمام قسم کی بدعات گمراہی ہیں اور کوئی بدعت ‘بدعت حسنہ نہیں ۔اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
۷۔عقیدہ میں بدعات سب سے بدتر ہیں کیونکہ یہ شرک تک انسان کو پہنچا دیتی ہیں۔
۸۔ بدعت کا گناہ ہمیشہ قائم رہتا ہے جب تک اس بدعت کا دنیا سے خاتمہ نہ کر دیا جائے۔
۹۔بدعتی آدمی میں شیطان جلدی داخل ہو جاتا ہے۔کیونکہ بدعتی توہم پرست ہوتا ہے۔
۱۰۔بدعت حق وباطل کو خلط ملط کر دیتی ہے اور ان کے درمیان تمیز کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
۱۱۔بدعتی آدمی گویا کہ اپنے آ پ کو شارع کے مد مقابل لے آتا ہے اور اپنے پاس سے دین بناتا ہے۔
۱۲۔بدعتی گویا کہ(نعوذ باللہ) رسول اللہ ﷺ پر خیانت کا الزام لگاتا ہے کہ انہوں نے مکمل دین نہیں پہنچایا اسی لئے تو اپنے پاس سے نئی چیزیں گھڑتا ہے۔ ۱۳ ۔بدعتی آدمی نبی ﷺ کی اتباع چھوڑ کر اپنے نفس اور خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔
۱۴۔بدعتی آدمی کے دل سے ایمان کی مٹھاس اٹھا لی جاتی ہے۔
۱۵۔ قیامت والے دن بدعتی آدمی کونبی ﷺ سے حوض کوثر کا پانی نصیب نہ ہو گا کیونکہ فرشتے بدعتیوں اور نبی ﷺ کے درمیان دیوار کھڑی کر دیں گے۔
الله ہم سب كو بدعات سے بچائے اور سنتوں سے محبت كرنے كی توفيق عطا فرمائے۔آمین
 

ابوبکر میر

مبتدی
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
11
السلام و علیکم و رحمتہ اللہ وبارکاتہ
شیخ ایک چھوٹا سا اشکال ھے بدعت کے حوالے سے
کہ جس چیز کی اصل شریعیت میں موجود ھو اسکو بدعت نہیں کہا جاتا
مثال کے طور پر تراویخ کی جماعت کی اصل شریعیت میں موجود ھے اس لیے حضرت عمر ؓ کا عمل بدعت نہیں کہلائے گا
اس طرح ہمارے کچھ بھائی عید میلاد النبی کے حوالے سے کہتے ھیں کہ اسکی اصل بھی شریعت میں موجود ھے اس لیے یہ عمل بدعت نہیں ھے اور وہ دلیل دیتے ھیں نبی کریم ﷺ کا روزہ رکھنا
اس حوالے سے تھوڑی سی رہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیر
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام و علیکم و رحمتہ اللہ وبارکاتہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس طرح ہمارے کچھ بھائی عید میلاد النبی کے حوالے سے کہتے ھیں کہ اسکی اصل بھی شریعت میں موجود ھے اس لیے یہ عمل بدعت نہیں ھے اور وہ دلیل دیتے ھیں نبی کریم ﷺ کا روزہ رکھنا
جناب عالی!
روزہ رکھنے سے میلاد کا ثبوت کیسے ملنے لگا؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے روز کا روزہ رکھا کرتے، یہ بالکل سنت ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں!
مسئلہ یہ ہے کہ اول نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیر کے روز کا روزہ رکھتے تھے، نا کہ ہر سال 12 ربیع الاول کا،
دوم کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے، نہ کہ ''کھابوں'' کی دعوت ، اور یہ بات تو سمجھ آ ہی جائے گی کہ جس روز دن میں ''کھابوں'' کی دعوت ہو، تو وہاں روزہ نہیں ہوتا!

لہٰذا اگر یہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن بنانے کی دلیل ہے، تو اس نص پر عمل کیا جائے، اور پیر کے روز کا روزہ رکھا جائے! اس نص کی مخالفت کرکے کون سے بے سروپا قیاس پر عمل کرتے ہیں یہ !
 
Last edited:

ابوبکر میر

مبتدی
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
11
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جناب عالی!
روزہ رکھنے سے میلاد کا ثبوت کیسے ملنے لگا؟؟؟
مطلب نبی کریم ﷺ نے روزہ رکھا اس دن جس دن آپ ﷺ پیدا ھوئے
اب آج کل جس طرح میلاد منایا جاتا ھے ڈنڈے جھنڈے سے یہ سب تو خرافات ھیں
لیکن میلاد یعنی پیدائش پر روزہ رکھنے سے
میلاد کی اصل تو مل رھی ھے نا
ویسے ھی جیسے تراویخ کی جماعت کی اصل ملتی ھے
؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیر کے روز روزہ رکھنے سے میلاد کی اصل نہیں ملتی، کیونکہ کسی صحابی سے اس لئے پیر کے روز روزہ رکھنے کا ثبوت نہیں ملتا، یعنی کہ اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس طرح نہیں سمجھا، جبکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے بھی تھے، ثواب و عبادات کے حریص بھی تھے۔
اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب انسان کو کوئی خوشی میسر آئےتو انسان اللہ کا شکر بجا لائے اور اس شکر میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے روزہ رکھے۔ عاشورہ کے روز کا روزہ بھی اس کی ایک مثال ہے! یہود اس خوشی کے دن روزہ رکھتے تھے، جو شریعت محمدی میں بھی برقرار رہی۔ اس طرح اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پیر کا روزہ رکھنا مسنون و مستحب عمل ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنی پیدائش کے روز بھی کہ ہفتہ کے کسی بھی روز پیدا ہوا ہو، سوائے جمعہ کے دن کے (کیونکہ جمعہ کے دن کو روزہ کے لئے خاص کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے) تو اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی رضا کے لئے روزہ رکھ سکتا ہے!
اور اگر یہ پیر کا روزہ رکھنامیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل بنے تو یہ ہفتہ وار عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل بنے گی، نہ کہ سالانہ! اور وہ بھی روزہ رکھنے کی!
تراویح کے معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث موجود ہے، جس میں تراویح پڑھنے کی صراحت بھی موجود ہے، باجماعت پڑھنے کی صراحت بھی موجود ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خود اس جماعت نہ کروانے کی وجہ بھی مذکور ہے۔ اور یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی تھا، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی جاری تھا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مسجد میں ہونے والی متعدد جماعت کو جمع کر کے ایک جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کیا تھا۔
 

ابوبکر میر

مبتدی
شمولیت
دسمبر 18، 2015
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
11
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیر کے روز روزہ رکھنے سے میلاد کی اصل نہیں ملتی، کیونکہ کسی صحابی سے اس لئے پیر کے روز روزہ رکھنے کا ثبوت نہیں ملتا، یعنی کہ اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس طرح نہیں سمجھا، جبکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے بھی تھے، ثواب و عبادات کے حریص بھی تھے۔
اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب انسان کو کوئی خوشی میسر آئےتو انسان اللہ کا شکر بجا لائے اور اس شکر میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے روزہ رکھے۔ عاشورہ کے روز کا روزہ بھی اس کی ایک مثال ہے! یہود اس خوشی کے دن روزہ رکھتے تھے، جو شریعت محمدی میں بھی برقرار رہی۔ اس طرح اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پیر کا روزہ رکھنا مسنون و مستحب عمل ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنی پیدائش کے روز بھی کہ ہفتہ کے کسی بھی روز پیدا ہوا ہو، سوائے جمعہ کے دن کے (کیونکہ جمعہ کے دن کو روزہ کے لئے خاص کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے) تو اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی رضا کے لئے روزہ رکھ سکتا ہے!
اور اگر یہ پیر کا روزہ رکھنامیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل بنے تو یہ ہفتہ وار عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل بنے گی، نہ کہ سالانہ! اور وہ بھی روزہ رکھنے کی!
تراویح کے معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث موجود ہے، جس میں تراویح پڑھنے کی صراحت بھی موجود ہے، باجماعت پڑھنے کی صراحت بھی موجود ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خود اس جماعت نہ کروانے کی وجہ بھی مذکور ہے۔ اور یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی تھا، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی جاری تھا، اور عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مسجد میں ہونے والی متعدد جماعت کو جمع کر کے ایک جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کیا تھا۔
جزاک اللہ خیر
ابن داور بھائی
 
Top