• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کو سمجھیے-6: (بدعات میں خوبی، بدعت حسنہ کا مفہوم)

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
بدعات میں خوبی
دنیا میں شاید ہی کوئی چیز ایسی ہو جس میں اس کی خرابی کے باوجود اس میں کوئی خوبی نہ ہو۔ شراب اور جوئے کے متعلق قرآن پاک میں آتا ہے:
آیت
فیھما اثم کبیر و منافع للناس (البقرۃ:219 )
ترجمہ: ان دونوں (شراب اور جوئے) میں گناہ بڑا ہے اور لوگوں کے لیے ان میں کچھ منافع ہے
اس کے باوجود کہ ان میں منافع ہیں ان کی خرابیوں کی وجہ سے ان کو حرام قرار دے دیا گیا۔اسی طرح بدعت کے محاسن اور خوبیاں بھی گنوائی جاسکتی ہیں لیکن جس چیز کو شریعت نے منع کردیا اس میں خوبیوں کا دعوی بہت بڑی جسارت ہے۔درحقیقت وہ اعمال جن میں شریعت کی اصل نہیں اور لوگوں نے خود بنا رکھے ہوں شیطان انہیں ایسی زینت اور رونق دیتا ہے کہ دین ناواقف لوگ اس کی چمک دمک میں کھو جاتے ہیں۔ اور حرص کے بندے اس کو بڑھاتے ہی رہتے ہیں یہاں تک کہ بہت سے لوگ اس فتنے میں پوری طرح ڈوب جاتے ہیں۔ ابلیس لعین نے کہہ دیا تھا:
آیت
قال رب بما اغويتني لازينن لهم في الارض ولاغوينهم اجمعين(الحجر: 39)
ترجمہ: (شیطان نے) کہا کہ پروردگار جیسا تو نے مجھے رستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لیے (گناہوں) کو آراستہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤں گا
لیکن حق تعالیٰ کا فرمان ہے:
آیت
قل هل ننبئكم بالاخسرين اعمالا () الذين ضل سعيهم في الحياة الدنيا وهم يحسبون انهم يحسنون صنعا() (الکہف: 103-104)
ترجمہ: آپ فرمائیے کہمیں تمہیں بتلاؤں کہ کون لوگ اپنے اعمال میں زیادہ خسارے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی سعی و عمل دنیا کی زندگی میں ضائع اور بے کار ہوگئی اور وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہم اچھا عمل کررہے ہیں
اس لیے ایسا کوئی کام جس کی ضرورت رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے اور بعد کے ادوار میں یکساں ہے ان میں کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا جو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ سے ثابت نہیں تو یہ بدعت قائم کرنا ہے۔ مثلا: ایصال ثواب کے وقت مختلف سورتوں کو پڑھنے کی پابندی، ایصال ثواب کے لیے تیجہ، چہلم وغیرہ کی پابندی، بڑی راتوں میں خود ایجاد کردہ نمازوں اور اذکار کی پابندی اور ان میں چراغاں وغیرہ اور پھر ان خود ایجاد چیزوں کو فرض و واجب کی طرح سمجھنا اور ان میں شریک نہ ہونے والوں پر لعن طعن کرنا وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ صدقہ خیرات، اموات کو ایصال ثواب، بڑی راتوں میں عبادات وغیرہ ان کی ضرورت جیسے آج ہے ایسے صحابہؓ کو بھی تھی ان کے ذریعہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذوق و شوق جیسے آج کسی نیک بندے کو ہوسکتا ہے ان حضرات کو بھی تھا لیکن عبادات کا جو طریقہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے اصحابؓ نے نہیں اختیار کیا وہ دیکھنے میں کتنا ہی دلکش نظر آئے وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک اچھا نہیں۔اہلسنت و الجماعت کے امام، امام مالکؒ کا قول ہے:
ما لم يكن يومئذ دينا فلن يكون اليوم دينا (الاعتصام، للشاطبی)
ترجمہ: جو اُس زمانے میں دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہوسکتا
بدعت حسنہ کا مفہوم
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی
کل بدعۃ ضلالۃ
ترجمہ: ہر بدعت گمراہی ہے
کے بعد کسی بدعت میں حسن تلاش کرنا ایمان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ البتہ بعض علما نے بعض اعمال کے لیے بدعت حسنہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ انہوں نے ان اعمال کے لیے کیا ہے جو شریعت کے اصولوں کے مطابق ہیں۔ گو احوال کے اعتبار سے ان کی صورت کچھ بدل گئی۔ تراویح اس کی مثال ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تراویح ادا کی اور چند دن بلا کسی اعلان کے جماعت کی شکل بھی بن گئی۔ لیکن فرض ہوجانے کے اندیشے کی وجہ سے آپ ﷺ نے اس کو جماعت سے پڑھنا موقوف فرما دیا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں اس کو ازسرنو جاری کیا جو بدعت نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ کا نعمۃ البدعۃ فرمانا بھی انہی معنوں میں تھا۔
بدعت حسنہ کا ایک اور مفہوم بھی ہے۔ اس سلسلے میں اعلیحضرت مولانا احمد رضا خانؒ کی یہ عبارت ملاحظہ ہو:
’’اذان کے بعد صلوۃ و سلام 781ھ میں سوموار کے دن عشاء کی نماز کے وقت شروع ہوا پھر جمعہ کے دن پھر دس سال کے بعد یعنی 791ھ میں مغرب کے سوا باقی تمام نمازوں کی اذان میں شروع کیا گیا اور وہ بدعت حسنہ ہے۔‘‘ (احکام شریعت ص، 118)
یہاں لفظ بدعت حسنہ، بدعت سئیہ کے مقابل لایا گیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے فتح مصر سے پہلے وہاں فاطمیوں کی حکومت تھی جو روافض یعنی شیعہ تھے۔ انہوں نے اذان میں، جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے لے کر اس وقت تک کسی اضافے کے بغیر دی جاتی تھی، السلام علی ملک الظاھرکا اضافہ کر دیا تھا۔ ان کی حکومت کے ایک صدی سے زائد عرصے میں اس پر عمل ہوتا رہا اور خود اہل سنت اس کو اذان کا حصہ سمجھ بیٹھے تھے (حاشیہ: [1])۔ سلطان صلاح الدینؒ کا مصر فتح کرنے کے بعد اس بدعت کو ختم کرنے کا ارادہ ہوا لیکن یکدم اس کو ختم کرنے سے عوام میں شورش برپا ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے السلام علی ملک الظاھرکو السلام علی رسول اللہسے بدل ڈالا۔ جس سے ان کا مقصد اذان میں اضافے کی بدعت سئیہ کا خاتمہ تھا۔ چنانچہ جب حکومت کو استحکام حاصل ہوگیا تو اذان کو اس بدعت سے خالی کرلیا گیا۔
حاصل یہ ہے اگر کسی جگہ کوئی بدعت سئیہ قائم ہو تو اس کو احسن طریقے سے ختم کرنے کا نام بدعت حسنہ ہے۔ بدعت حسنہ اپنی مصلحت کے اعتبار سے حسنہ ہے کیونکہ ایک بڑی برائی کو ختم کرنا ہے۔ خود بدعت حسنہ میں کوئی حسن نہیں محض تقابل کی وجہ سے آرہا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
حدیث
کل بدعۃ ضلالۃ
ترجمہ: ہر بدعت گمراہی ہے
بدعت حسنہ کی تردید رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے
حدیث

جاء ثلاثة رهط الى بيوت ازواج النبي يسالون عن عبادة النبي فلما اخبروا كانهم تقالوها وقالوا اين نحن من النبي قد غفر له تقدم من ذنبه وما تاخر قال احدهم اما انا فاصلي الليل ابدا وقال الآخر وانا اصوم الدهر ولا افطر وقال الآخر وانا اعتزل النساء فلا اتزوج ابدا فجاء رسول الله اليهم فقال انتم الذين قلتم كذا وكذا اما والله اني لاخشاكم لله واتقاكم له لكني اصوم وافطر واصلي وارقد واتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني (صحیح البخاری، کتاب النکاح )
ترجمہ: تین لوگ رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ ان سے آپ ﷺ کی عبادت کا حال دریافت فرمائیں، جب ان لوگوں کو آپ ﷺ کی عبادت کا حال بتلایا گیا تو انہوں نے آپ ﷺ کی عبادت کو کم خیال کرکے آپس میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں ہم کیا چیز ہیں، اللہ تعالیٰ نے تو آپ ﷺ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے ہیں ان میں سے ایک نے کہا کہ اب میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں دن کو ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا (ابھی یہ بات کرہی رہے تھے) کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگوں نے یوں کہا ہے خبردار میں تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقوی اختیار کرتا ہوں لیکن باوجود اس کے میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں (یہی سنت طریقہ ہے لہذا) جو شخص میری سنت سے انحراف کرے گا وہ مجھ سے نہیں (یعنی میری جماعت سے خارج ہے)
اس حدیث میں صحابہ کرامؓ نے اپنے فہم کے مطابق کثرت عمل کا ارادہ کیا تھا جو دراصل بدعت حسنہ ہے، لیکن چونکہ ان حضراتؓ کا عمل سنت طریقے کے خلاف تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ناپسند فرمایا اور منع فرما دیا۔ بدعت حسنہ کی روح یا فلسفہ یہی ہے کہ اعمال میں اپنے طور پر کچھ رد و بدل کرلیا جائے تاکہ ثواب زیادہ ملے لیکن رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ علمائے اہل سنت والجماعت بدعت کے معاملے میں کس قدر حساس اور سنجیدہ ہیں۔
اہلسنت و الجماعت کے امام، امام مالکؒ (امام دار الہجرۃ) کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے سوال کیا کہ میں احرام کہاں سے باندھوں؟ آپؒ نے جواب دیا کہ ذوالحلیفہ سے جہاں سے رسول اللہ ﷺ نے باندھا تھا۔ جواب میں اس شخص نے کہا کہ میں چاہتا کہ مسجد نبوی میں قبر اطہر کے پاس باندھوں۔ امام مالکؒ نے فرمایا ایسا مت کرنا مجھے تجھ پر فتنے کا اندیشہ ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اس میں فتنے کا کیا اندیشہ ہے بلکہ اس سے تو مسافت میں اضافہ ہوجائے گا (یعنی ایسا کرنے سے مجھے حالت احرام میں زیادہ مسافت طے کرنے کا اجر ملے گا)۔ اس پر امام مالکؒ نے فرمایا:
واي فتنة اعظم من ان ترى انك سبقت الى فضيلة قصر عنها رسول الله ﷺ (الاعتصام للشاطبی)
ترجمہ: اس سے بڑھ کر فتنہ کیا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بڑھ کر رہا ہے
میں نے اللہ پاک کا فرمان سنا ہے:
فليحذر الذين يخالفون عن امره ان تصيبهم فتنة او يصيبهم عذاب اليم (النور : 63)
ترجمہ: تو جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو
یہ واقعہ بدعتی ذہن کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ آخر ایسا کرنے میں کیا خرابی ہے؟ لیکن امام مالکؒ نے اس کا جواب یوں دیا ہے:
’’جو شخص بدعت ایجاد کرتا ہے اور اس کو ثواب کا کام سمجھتا ہے گویا وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ اللہ رسالت میں خیانت کرکے پوری بات امت کو نہیں بتلائی۔ ‘‘ (الاعتصام، للشاطبی)
اب مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی اس روایت کو پڑھیے وہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حدیث
لیس من عمل یقرب الی الجنۃ الا و قد امرتکم بہ ولا عمل یقرب الی النار الا قد نھیتکم عنہ
ترجمہ:’’جنت کے نزدیک لے جانے والا کوئی ایسا عمل نہیں جس کا میں تمہیں حکم نہ دے چکا ہوں اور دوزخ تک پہنچانے والا بھی ایسا کوئی عمل نہیں جس سے میں تمہیں منع نہ کرچکا ہوں۔‘‘
یعنی رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا دین کامل مکمل طریقے سے جس طرح آپ ﷺ پر اترا تھا اسی طرح امت کو پہنچایا ہے۔ جنت میں لے جانے والے تمام اعمال کا صاف صاف حکم دیا اور جہنم والے تمام اعمال سے منع فرمایا ہے۔ اب ان میں رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔3
-----------------------------------------
[1]: بدعت کی اتنی سختی سے ممانعت کا یہی سبب ہے کہ بدعت بہت جلد دین ہی لگنے لگتی ہے اور حرص کے بندے اس کو اتنا بڑھا چڑھا دیتے ہیں کہ عام مسلمان دینی فرائض سے زیادہ اہتمام سے اس پر عمل کرتے ہیں۔
 
Top