اقبال ابن اقبال
مبتدی
- شمولیت
- دسمبر 12، 2012
- پیغامات
- 22
- ری ایکشن اسکور
- 19
- پوائنٹ
- 0
بدعت کیا ہے ؟۔۔۔۔
جواب)۔۔۔ بدعت کا لغوی معنیٰ : نیا کام ، نئی ایجاد ، نئی بات۔
بدعت کا شرعی معنیٰ: ہر وہ کام جو سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری حیاتِ مبارکہ میں نہ ہوبلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہو۔
بدعت کی دو قسمیں ہیں۔
(1)۔۔۔ بدعتِ حسنہ (2)۔۔۔ بدعتِ سیۂ
بدعتِ حسنہ کی تعریف:۔۔۔یہ وہ طریقہ ہے جو سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات کے بعد ایجاد ہوا ہوا ور وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو مثلاً نمازِ تراویح باجماعت ادا کرنا، مساجد میں محرابیں بنانا، مساجد کے بلند مینار تعمیر کروانا، قرآن مجید پر اعراب لگوانا، جمعہ کے دن دو اذانیں دینا، درسِ نظامی (عالم بنانے کا کورس) کا اجراء وغیرہ وغیرہ۔
کتاب کشاف اصطلاحات الفنون جلداوّل صفحہ نمبر122میں حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کے حوالے سے ہے کہ وہ بدعت جو
کتاب اللہ ، سُنّت ، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف نہ ہو تویہ بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔
حدیث شریف:۔۔۔ترجمہ:حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اچھا طریقہ جاری کیا پھر اس پر عمل کیا گیاتواس کے لئے اپنا ثواب بھی ہے اوراسے عمل کرنے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا۔جب کہ ان کے ثوابوں میں کوئی کمی نہ ہوگی اور جس نے برا طریقہ جاری کیا پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تواس کے لئے اپنا گناہ بھی ہے اوران لوگوں کے گناہ کے برابر بھی جو اس پر عمل پیرا ہوئے بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی ہو۔
(بحوالہ :ترمذی جلد 2،ابواب علم ،رقم الحدیث872، صفحہ 239مطبوعہ فرید بک لاہور)
تفسیرِ روح البیان میں ہے کہ ہر وہ کام جِسے علماء اور عارفین ایجاد کریں اوروہ سُنّت کے خلاف نہ ہوتو یہ اچھا کام ہے ۔
مُسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہواکہ ہر وہ اچھا کام جو سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہو بعد میں ایجاد ہو اور شریعت کے مخالف نہ ہو تو ایسے کام کو اپنانا اورایجاد کرنا دونوں باعثِ اجر ہیں۔
بدعتِ سیۂ کی تعریف:۔۔۔ ہر وہ کام جو سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہو بلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہواور وہ شریعت کے مخالف ہو۔
جیسے: عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں جمعہ کا خطبہ پڑھنا۔
کتاب نیل الاوطار باب صلوٰۃ التراویح جلد سوم صفحہ نمبر57میں ہے کہ اگر بدعت ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیۂ ہے ۔
کتاب اصطلاحات الفنون صفحہ نمبر133جلد اول میں ہے کہ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ بدعت جو کتاب ، سُنّت ، اجماع یااثر صحابہ کے خلاف ہو تویہ بدعت ضالہ (سیۂ ) یعنی بُری بدعتہے ۔
معلوم ہوا کہ ’’بدعت‘‘ جو گمراہی کا سبب بنتی ہے اورجسے بدعت ضالہ یا بدعت ضلالۃ کہا گیا ہے وہ اس نئی ایجاد یعنی بدعت پر صادق آتی ہے جو کتاب اللہ ، سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف ہو۔
اس پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ دین میں ہر وہ اچھا کام جو شریعت سے نہ ٹکرائے وہ بدعت نہیں لہٰذا ایّام بزرگانِ دین ، متبرک راتوں میں عبادات ، چہلم ، سوئم ، برسی، میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب اچھے کام ہیں اِن تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ اوراس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتاہے اگر ان کاموں پر بدعت کا فتویٰ لگایا گیا توہر وہ کام بدعت ہوگا جو سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوتاتھا۔
جواب)۔۔۔ بدعت کا لغوی معنیٰ : نیا کام ، نئی ایجاد ، نئی بات۔
بدعت کا شرعی معنیٰ: ہر وہ کام جو سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری حیاتِ مبارکہ میں نہ ہوبلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہو۔
بدعت کی دو قسمیں ہیں۔
(1)۔۔۔ بدعتِ حسنہ (2)۔۔۔ بدعتِ سیۂ
بدعتِ حسنہ کی تعریف:۔۔۔یہ وہ طریقہ ہے جو سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات کے بعد ایجاد ہوا ہوا ور وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو مثلاً نمازِ تراویح باجماعت ادا کرنا، مساجد میں محرابیں بنانا، مساجد کے بلند مینار تعمیر کروانا، قرآن مجید پر اعراب لگوانا، جمعہ کے دن دو اذانیں دینا، درسِ نظامی (عالم بنانے کا کورس) کا اجراء وغیرہ وغیرہ۔
کتاب کشاف اصطلاحات الفنون جلداوّل صفحہ نمبر122میں حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ کے حوالے سے ہے کہ وہ بدعت جو
کتاب اللہ ، سُنّت ، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف نہ ہو تویہ بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے۔
حدیث شریف:۔۔۔ترجمہ:حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اچھا طریقہ جاری کیا پھر اس پر عمل کیا گیاتواس کے لئے اپنا ثواب بھی ہے اوراسے عمل کرنے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا۔جب کہ ان کے ثوابوں میں کوئی کمی نہ ہوگی اور جس نے برا طریقہ جاری کیا پھر وہ طریقہ اپنایا گیا تواس کے لئے اپنا گناہ بھی ہے اوران لوگوں کے گناہ کے برابر بھی جو اس پر عمل پیرا ہوئے بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی ہو۔
(بحوالہ :ترمذی جلد 2،ابواب علم ،رقم الحدیث872، صفحہ 239مطبوعہ فرید بک لاہور)
تفسیرِ روح البیان میں ہے کہ ہر وہ کام جِسے علماء اور عارفین ایجاد کریں اوروہ سُنّت کے خلاف نہ ہوتو یہ اچھا کام ہے ۔
مُسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہواکہ ہر وہ اچھا کام جو سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہو بعد میں ایجاد ہو اور شریعت کے مخالف نہ ہو تو ایسے کام کو اپنانا اورایجاد کرنا دونوں باعثِ اجر ہیں۔
بدعتِ سیۂ کی تعریف:۔۔۔ ہر وہ کام جو سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہو بلکہ بعد میں ایجاد ہوا ہواور وہ شریعت کے مخالف ہو۔
جیسے: عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں جمعہ کا خطبہ پڑھنا۔
کتاب نیل الاوطار باب صلوٰۃ التراویح جلد سوم صفحہ نمبر57میں ہے کہ اگر بدعت ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیۂ ہے ۔
کتاب اصطلاحات الفنون صفحہ نمبر133جلد اول میں ہے کہ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ بدعت جو کتاب ، سُنّت ، اجماع یااثر صحابہ کے خلاف ہو تویہ بدعت ضالہ (سیۂ ) یعنی بُری بدعتہے ۔
معلوم ہوا کہ ’’بدعت‘‘ جو گمراہی کا سبب بنتی ہے اورجسے بدعت ضالہ یا بدعت ضلالۃ کہا گیا ہے وہ اس نئی ایجاد یعنی بدعت پر صادق آتی ہے جو کتاب اللہ ، سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اجماع یا اثر صحابہ کے خلاف ہو۔
اس پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ دین میں ہر وہ اچھا کام جو شریعت سے نہ ٹکرائے وہ بدعت نہیں لہٰذا ایّام بزرگانِ دین ، متبرک راتوں میں عبادات ، چہلم ، سوئم ، برسی، میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب اچھے کام ہیں اِن تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ اوراس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتاہے اگر ان کاموں پر بدعت کا فتویٰ لگایا گیا توہر وہ کام بدعت ہوگا جو سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوتاتھا۔