ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
کیا موذنین کو صلوۃ وسلام کی تعلیم دی گئی؟
پہلے بیان ہو اکہ سنت محمد ﷺ یا فعلیہ ہے یا ترکیہ۔
یعنی رسول اللہ ﷺ کی جیسے آپ کے فعل میں اتباع کی جائے گی ایسے ہی آپ کے ترک (اس موقع پر کسی فعل کونہ بجا لانے)میں بھی اتباع کی جائے گی اِسے سنت ترکیہ کہتے ہیں۔
جیسے پہلی کو سنت فعلیہ کہتے ہیں اس لحاظ سے آپﷺ نے ابومحذورۃ ؓ اور دیگر موذن صحابہ کو اذان کے کلمات سکھلائے۔کسی کو انکار نہیں!
اذان سننے والوں کو تعلیم
فرمایا کہ مؤذن کے ساتھ وہی کلمات کہیں جو وہ کہتا ہے۔اورحی علی الصلوۃ ،حی الفلاح کے جواب میں لاحول ولاقوۃ الا باللہ ثم صلّواعلیّ پھر میر ے اوپر صلوۃ ،درود پڑھو صحیح مسلم
ہماری گزارش
غور کیجیے کہ یہاں آپ ﷺ نے اذان کہنے اور سننے والوں کی تعلیم میں فرق رکھا ہے۔ہر ایک سے الگ عمل مطلوب ہے۔اگر اذان کے بعد موذن سے صلوۃ (درود) پڑھنا مطلوب ہوتا تو آپ اذان کہنے والوں کواذان کے ساتھ یہ بھی تعلیم فرما دیتے۔
جیسے آپ نے اذان سننے والوں کو تعلیم دی اور جواب سکھلایا۔پس آپ کا اذان سننے والوں کو بعد میں صلوۃ (درود) پڑھنے کی تعلیم دینااور اذان کہنے والوں کو صلوۃ(درود) پڑھنے کی تعلیم نہ دینا۔بلکہ سکوت اور خاموشی اختیار فرمانا حالانکہ آپ تعلیم ہی کیلئے مبعوث ہوئے ہیں،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ موذّن سے اذان کے الفاظ کہنے کے علاوہ صلوۃ (درود) کا ترک کرناہی مطلوب ہے پس یہ موذن کے حق میں سنت ترکیہ ہو گی ،
آپ کی سنت معلوم ہو جانے کے بعد قیاس پر عمل نہ کیا جائے گا۔
مزید وضاحت
کہ عہد نبویﷺ میں اذان کے بعدمؤذن سے صلوۃوسلام (درود) سننے میں نہیں آیا اور یہ احتمال پیدا کرنا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آہستہ آواز میں ادا کرتے ہوں دور کا احتمال ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ۔
اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ج وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا ہ
نہیں پیروی کرتے وہ مگر گمان کی اور گمان حق کے مقابلے میںکچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
من گھڑت درود کو سامنے رکھیں تو بظاہررسول اللہ ﷺ کے وقت کے مؤذن اس صلٰوۃ وسلام(درود وسلام)کے تارک ٹھہرے اور رسول اللہ ﷺ نے کئی سال تک اسی پر ان کو برقرار رکھا اور ان کے اس عمل کی تصدیق فرمائی اور کسی ایک دن بھی اس کے ترک پر ان پر ناراضگی نہ فرمائی پس رسول اللہ ﷺ کا اقرار بجائے خود ایک حجت اور دلیل ہے جیسے آپ کا قول وعمل حجت ہے ایسے ہی آپ کی تقریر بھی حجت ہے ۔تو معلوم ہوا کہ مؤذن کا آپ ﷺ پر صلوۃوسلام کو ترک کرنا سنت ہے اور اس کو بجا لانا بدعت مذمومہ ہے۔
البتہ یہ کہنا کہ صحیح مسلم کی حدیث موذن اور سامع دونوں سے صلوۃ پڑھنے کے تقاضے پر دلالت کرتی ہے اور ثم صلّوا میں تمام کو حکم ہے تویہ تکلّف ہے۔حدیث کا سیاق اس کو ثابت نہیں کرتا کیونکہ حدیث شریف میں (اذاسمعتم الموذن الحدیث )سننے والوں کیلئے ہے لہذا ثم صلّوامیں ضمیرانتم ان ہی کی طرف راجع ہوگی۔لہذا موذنین کو اس عمل کا مکلف کہناظاہر کے خلاف اور بلا دلیل ہے۔
اوراگر ہم قاعدہ مذکورہ کو نظر انداز کرتے ہوئے قیاس کے ساتھ اس کے سنت کہنے میں کھلی چھوٹ دے دیںتو کیا رسول اللہ ﷺ نے موذن کے بلند آواز سے اذان کہنے کی طرح سننے والوں کو بھی بلند آواز سے جواب دینے کا پابند فرمایا ہے اور کیا اسے بلند آواز سے صلوۃوسلام کہنے کا مکلف ٹھہرایا ہے جیسے کہ اذان میں بخدا کوئی عاقل اس کاقائل نہیں ورنہ ہر جواب دینے والا موذن بن جائے۔
پہلے بیان ہو اکہ سنت محمد ﷺ یا فعلیہ ہے یا ترکیہ۔
یعنی رسول اللہ ﷺ کی جیسے آپ کے فعل میں اتباع کی جائے گی ایسے ہی آپ کے ترک (اس موقع پر کسی فعل کونہ بجا لانے)میں بھی اتباع کی جائے گی اِسے سنت ترکیہ کہتے ہیں۔
جیسے پہلی کو سنت فعلیہ کہتے ہیں اس لحاظ سے آپﷺ نے ابومحذورۃ ؓ اور دیگر موذن صحابہ کو اذان کے کلمات سکھلائے۔کسی کو انکار نہیں!
اذان سننے والوں کو تعلیم
فرمایا کہ مؤذن کے ساتھ وہی کلمات کہیں جو وہ کہتا ہے۔اورحی علی الصلوۃ ،حی الفلاح کے جواب میں لاحول ولاقوۃ الا باللہ ثم صلّواعلیّ پھر میر ے اوپر صلوۃ ،درود پڑھو صحیح مسلم
ہماری گزارش
غور کیجیے کہ یہاں آپ ﷺ نے اذان کہنے اور سننے والوں کی تعلیم میں فرق رکھا ہے۔ہر ایک سے الگ عمل مطلوب ہے۔اگر اذان کے بعد موذن سے صلوۃ (درود) پڑھنا مطلوب ہوتا تو آپ اذان کہنے والوں کواذان کے ساتھ یہ بھی تعلیم فرما دیتے۔
جیسے آپ نے اذان سننے والوں کو تعلیم دی اور جواب سکھلایا۔پس آپ کا اذان سننے والوں کو بعد میں صلوۃ (درود) پڑھنے کی تعلیم دینااور اذان کہنے والوں کو صلوۃ(درود) پڑھنے کی تعلیم نہ دینا۔بلکہ سکوت اور خاموشی اختیار فرمانا حالانکہ آپ تعلیم ہی کیلئے مبعوث ہوئے ہیں،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ موذّن سے اذان کے الفاظ کہنے کے علاوہ صلوۃ (درود) کا ترک کرناہی مطلوب ہے پس یہ موذن کے حق میں سنت ترکیہ ہو گی ،
آپ کی سنت معلوم ہو جانے کے بعد قیاس پر عمل نہ کیا جائے گا۔
مزید وضاحت
کہ عہد نبویﷺ میں اذان کے بعدمؤذن سے صلوۃوسلام (درود) سننے میں نہیں آیا اور یہ احتمال پیدا کرنا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آہستہ آواز میں ادا کرتے ہوں دور کا احتمال ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ۔
اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ ج وَاِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا ہ
نہیں پیروی کرتے وہ مگر گمان کی اور گمان حق کے مقابلے میںکچھ حیثیت نہیں رکھتا۔
من گھڑت درود کو سامنے رکھیں تو بظاہررسول اللہ ﷺ کے وقت کے مؤذن اس صلٰوۃ وسلام(درود وسلام)کے تارک ٹھہرے اور رسول اللہ ﷺ نے کئی سال تک اسی پر ان کو برقرار رکھا اور ان کے اس عمل کی تصدیق فرمائی اور کسی ایک دن بھی اس کے ترک پر ان پر ناراضگی نہ فرمائی پس رسول اللہ ﷺ کا اقرار بجائے خود ایک حجت اور دلیل ہے جیسے آپ کا قول وعمل حجت ہے ایسے ہی آپ کی تقریر بھی حجت ہے ۔تو معلوم ہوا کہ مؤذن کا آپ ﷺ پر صلوۃوسلام کو ترک کرنا سنت ہے اور اس کو بجا لانا بدعت مذمومہ ہے۔
البتہ یہ کہنا کہ صحیح مسلم کی حدیث موذن اور سامع دونوں سے صلوۃ پڑھنے کے تقاضے پر دلالت کرتی ہے اور ثم صلّوا میں تمام کو حکم ہے تویہ تکلّف ہے۔حدیث کا سیاق اس کو ثابت نہیں کرتا کیونکہ حدیث شریف میں (اذاسمعتم الموذن الحدیث )سننے والوں کیلئے ہے لہذا ثم صلّوامیں ضمیرانتم ان ہی کی طرف راجع ہوگی۔لہذا موذنین کو اس عمل کا مکلف کہناظاہر کے خلاف اور بلا دلیل ہے۔
اوراگر ہم قاعدہ مذکورہ کو نظر انداز کرتے ہوئے قیاس کے ساتھ اس کے سنت کہنے میں کھلی چھوٹ دے دیںتو کیا رسول اللہ ﷺ نے موذن کے بلند آواز سے اذان کہنے کی طرح سننے والوں کو بھی بلند آواز سے جواب دینے کا پابند فرمایا ہے اور کیا اسے بلند آواز سے صلوۃوسلام کہنے کا مکلف ٹھہرایا ہے جیسے کہ اذان میں بخدا کوئی عاقل اس کاقائل نہیں ورنہ ہر جواب دینے والا موذن بن جائے۔