برما جل رہا ہے
تاریخ: اگست 4, 2012 مصنف: اسرا غوری
مصنف: محمد سعد خان
بعض کا خیال ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ نہیں ہے کہ اسکی مذمت کی جائے کیونکہ چند درجن افراد ہی کوتو قتل اور چند خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے، کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ وہ سب مسلمان تھے. کچھ دوسرے یہ کہتے ہیں کہ ہم تو برما سےبہت ہی دور ہیں، اس لیے انہیں تنہا چھوڑ دو اور پہلے اپنے مسائل کو پہلے حل کریں، جبکہ کچھ اس ہیجان کہ شکار ہیں کہ کیا یہ مظالم اصل میں وقوع پزیر ہوئے بھی ہیں یا نہیں۔
بین الاقوامی اور قومی میڈیا دونوں اس ظلم پرمجرمانہ حد تک خاموشی کا شکار ہیں کیونکہ ان کو ابھی تک اپنے اصل آقاوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی کے اس واقع کو دکھانے کی اجازت نہیں ملی۔ میڈیا نے تواس معاملے کو اس وقت تک درخوراعتناء ہی نہ سمجھا جب تک ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس معاملے کی رپورٹ کی اور وہ تمام لوگ جو اس معاملے پرگونگے بنے ہوے ہیں وہ مظلوم کے لئے آواز بلند کرنے پرسوشل میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ لوگ جو ان کی اپنی آزادی اظہار کے حق پر کسی بھی قدغن کے خلاف ہیں وہ چاہتے ہیں کے سوشل میڈیا پہ قدغن لگ جائے تا کہ برما جیسے مسائل کو کہیں بھی جگہ نہ مل سکے۔ وہ سوشل میڈیا فیس بک اور ٹویٹر جیسے میڈیا کے نیٹ ورک پرجعلی تصاویر کے پھیلاؤ کا الزام لگا رہے ہیں، یہ سب کچھ جا نتے ہوئے کہ انھوں نے اپنی تخلیق کردہ جھوٹی کہانیوں اور جعلی پروگراموں کی کس بڑے پیمانے پر تشہیر کی۔ الیکٹرانک میڈیا کا اصل مسئلہ ان کا وہ بھاری سرمایہ ہے جو وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور حکومتی اداروں سے اشتہارات کی مد میں وصول کرتے ہیں، ظاہر ہے وہ اس سرماے کو کھونا نہیں چاہیں گے اس لیے وہ اپنے سپانسرز کی طرف سے متعین کی گی حدود سے آگے نہیں نکل سکتے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا نے عوام کو زبا ن دی ہے۔ عام آدمی اپنے خیالات کا اظہاراور انکی تشہیر کے لئے فیس بک،ٹیوٹراور یو ٹیوب کو استعمال کرسکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان جیسے ممالک میں انٹرنیٹ تک رسائی اور سماجی میڈیا کا استعمال ابھی تک محدود ہے لیکن اسکے باوجود ملک بھر میں تہلکہ پھیلانے کے لیے ایک اچھا ذریعہ ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ سوشل میڈیا کے پاس معلومات کی تصدیق کے لیے قابل اعتماد ذرا ئع نہیں ہیں اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی چیز بغیر تصدیق کے بڑے پیمانے پر پھیلائی جاسکتی، لیکن یہ مسئلہ اس سے کمتر ہے کہ روایتی میڈیا منصوبہ بندی کے تحت لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتا ہے اور اپنی طے شدہ پالیسی اور مفاد کے تحت مخصوص خبروں کو نشر کرتا ہے۔سوشل میڈیا پر اگر کوئی غلط خبرجگہ بنا بھی لے تو تھوڑی ہی دیر میں تردید ہوجاتی ہے۔ لیکن ہم کیوں برما میں مسلم نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائیں؟ وجہ بہت سادہ ہے، اگر ہم آج دوسروں کے خلاف ظلم پر آواز نہیں اٹھائیں گےتو ہم خود ظلم کا اگلا ہدف ہو سکتے ہیں۔ اگر آج میں ڈرون کے خلاف بات نہیں کرونگا تو ایک ڈرون کل میرے گھر پر بمباری کرسکتا ہے۔ اب معاملہ پسند نہ پسند کا نہیں رہا، اب یہ ہم سب پر ایک فرض ہے۔ کیا صرف ظلم کی نشاندہی مظالم کو روکنے کے لیے کافی ہے؟ یقیناً نہیں! ہمارا اس مسئلہ پر آواز اٹھانا وہ عمل ہے جو ہم سب سے پہلے اور کم سے کم کرسکتے ہیں، تو اٹھیں اور میرا ساتھ دیں شاید یہ اس قتل عام کو روکنےکا با عث تو نہ بن سکے لیکن یقینا یہ ہمیں قوت مجتمع کرنے، ظالم کو یقینی طور پر کمزور کرنے اور بلاخر اس جرم کو بزور قوت روکنےسبب بننے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں ہونے والی زیادتیوں پر بھی خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ہمارا ملک بدترین معاشی بحران کے ساتھ ساتھ لاقانونیت، بم دھماکوں اورٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے لہذا جب لوگ کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے اپنے گند کوصاف کرنا چاہیے تو وہ بڑا منطقی لگتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک اجتماعی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہم مسائل کو ایک ایک کرکے حل نہیں کرسکتے کیونکہ ایک مسئلہ حل ہوتے ہی مسائل کی ایک طویل فہرست ہمارا منہ چڑا رہی ہوگی۔ یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک جہد مسلسل ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا ہیں کا ہم اس جنگ میں کس کے ساتھ کھڑے ہوں اور اجتماعی انداز میں اپنا کردار ادا کرنہ ہوگا۔
ایک اور سوال جو کہ اسی تناظر میں ہمارے لبرل طبقہ اشرافیہ کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ ‘یہ مسلم امہ کس چڑیا کا نام ہے؟’ یہ وہ سوال ہے جو ہماری آزاد خیال طبقہ اشرافیہ گمراہ کن اندز میں پوچھتی ہے۔ جی ہاں مسلم امہ پوری دنیا کے ان تمام کلمہ گو مسلمانوں پر مشتمل ہے جن کے دل ایک ساتھ د ھڑکتے ہیں۔ برما میں کسی بھی مسلمان پر کیے جانے والے تشدد پر پاکستان کے مسلمانوں کے جسم سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔
جی نہیں مسلم امہ ننگ ملت،حمیت سے عاری، غدار اور اقتدار پر قابض حکمرانو ں کا نام نہیں لہذا اگر بنگلہ دیشی حسینہ واجد کی حکومت برما کے بے گھر مسلمانوں کے درد کو محسوس نہیں کر رہی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش یا دنیا کےعام مسلمان بھی لاتعلق ہیں۔ اگر او آئی سی خاموش ہے، اس وجہ سے ہے کہ او آئی سی میں شامل حکمران طبقہ زبردستی مسلم امہ کی گردنوں پر مسلط ہے۔ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کا کردار بھی انتہائی شرمناک ہے جو اس کے مختلف مذاہب اورمختلف خطوں کے لئے دوہرے معیار کی نشاندہی کرتا ہے۔ مختصراً یہ کہ بدھ مذہب کے پیروکارجو بالعموم اتنے امن پسند سمجھے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیونٹی بھی نہیں مار سکتےوہ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں،مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں نذر آتش کر رہے ہیں خواتین عصمت دری کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کواب تک بے گھر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ مہاجر کیمپوں میں رہنے کو مجبور ہیں۔ برما کی مسلح ا فواج اس قتل عام میں برابر کے شریک ہیں۔ مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہے ہیں اور ہم خاموش ہیں۔
قرآن کی یہ آیت اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کیلیے یاد دہانی کررہی ہے:
سورہ النسا، آیت- 75
اور تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان بےبس مردوں اورعورتوں ا ور بچوں کی خاطر نہیں لڑ تے جو دعا ئیں کرتے ہیں کہ ا ے ہما رے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں ا ور لےجا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار فرما۔
یہ تحریر محمد سعد خان کی انگلش تحریر کا ترجمہ ہے۔
تاریخ: اگست 4, 2012 مصنف: اسرا غوری
مصنف: محمد سعد خان
بعض کا خیال ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ نہیں ہے کہ اسکی مذمت کی جائے کیونکہ چند درجن افراد ہی کوتو قتل اور چند خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے، کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ وہ سب مسلمان تھے. کچھ دوسرے یہ کہتے ہیں کہ ہم تو برما سےبہت ہی دور ہیں، اس لیے انہیں تنہا چھوڑ دو اور پہلے اپنے مسائل کو پہلے حل کریں، جبکہ کچھ اس ہیجان کہ شکار ہیں کہ کیا یہ مظالم اصل میں وقوع پزیر ہوئے بھی ہیں یا نہیں۔
بین الاقوامی اور قومی میڈیا دونوں اس ظلم پرمجرمانہ حد تک خاموشی کا شکار ہیں کیونکہ ان کو ابھی تک اپنے اصل آقاوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی کے اس واقع کو دکھانے کی اجازت نہیں ملی۔ میڈیا نے تواس معاملے کو اس وقت تک درخوراعتناء ہی نہ سمجھا جب تک ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس معاملے کی رپورٹ کی اور وہ تمام لوگ جو اس معاملے پرگونگے بنے ہوے ہیں وہ مظلوم کے لئے آواز بلند کرنے پرسوشل میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ وہ لوگ جو ان کی اپنی آزادی اظہار کے حق پر کسی بھی قدغن کے خلاف ہیں وہ چاہتے ہیں کے سوشل میڈیا پہ قدغن لگ جائے تا کہ برما جیسے مسائل کو کہیں بھی جگہ نہ مل سکے۔ وہ سوشل میڈیا فیس بک اور ٹویٹر جیسے میڈیا کے نیٹ ورک پرجعلی تصاویر کے پھیلاؤ کا الزام لگا رہے ہیں، یہ سب کچھ جا نتے ہوئے کہ انھوں نے اپنی تخلیق کردہ جھوٹی کہانیوں اور جعلی پروگراموں کی کس بڑے پیمانے پر تشہیر کی۔ الیکٹرانک میڈیا کا اصل مسئلہ ان کا وہ بھاری سرمایہ ہے جو وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور حکومتی اداروں سے اشتہارات کی مد میں وصول کرتے ہیں، ظاہر ہے وہ اس سرماے کو کھونا نہیں چاہیں گے اس لیے وہ اپنے سپانسرز کی طرف سے متعین کی گی حدود سے آگے نہیں نکل سکتے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا نے عوام کو زبا ن دی ہے۔ عام آدمی اپنے خیالات کا اظہاراور انکی تشہیر کے لئے فیس بک،ٹیوٹراور یو ٹیوب کو استعمال کرسکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان جیسے ممالک میں انٹرنیٹ تک رسائی اور سماجی میڈیا کا استعمال ابھی تک محدود ہے لیکن اسکے باوجود ملک بھر میں تہلکہ پھیلانے کے لیے ایک اچھا ذریعہ ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ سوشل میڈیا کے پاس معلومات کی تصدیق کے لیے قابل اعتماد ذرا ئع نہیں ہیں اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی چیز بغیر تصدیق کے بڑے پیمانے پر پھیلائی جاسکتی، لیکن یہ مسئلہ اس سے کمتر ہے کہ روایتی میڈیا منصوبہ بندی کے تحت لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتا ہے اور اپنی طے شدہ پالیسی اور مفاد کے تحت مخصوص خبروں کو نشر کرتا ہے۔سوشل میڈیا پر اگر کوئی غلط خبرجگہ بنا بھی لے تو تھوڑی ہی دیر میں تردید ہوجاتی ہے۔ لیکن ہم کیوں برما میں مسلم نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائیں؟ وجہ بہت سادہ ہے، اگر ہم آج دوسروں کے خلاف ظلم پر آواز نہیں اٹھائیں گےتو ہم خود ظلم کا اگلا ہدف ہو سکتے ہیں۔ اگر آج میں ڈرون کے خلاف بات نہیں کرونگا تو ایک ڈرون کل میرے گھر پر بمباری کرسکتا ہے۔ اب معاملہ پسند نہ پسند کا نہیں رہا، اب یہ ہم سب پر ایک فرض ہے۔ کیا صرف ظلم کی نشاندہی مظالم کو روکنے کے لیے کافی ہے؟ یقیناً نہیں! ہمارا اس مسئلہ پر آواز اٹھانا وہ عمل ہے جو ہم سب سے پہلے اور کم سے کم کرسکتے ہیں، تو اٹھیں اور میرا ساتھ دیں شاید یہ اس قتل عام کو روکنےکا با عث تو نہ بن سکے لیکن یقینا یہ ہمیں قوت مجتمع کرنے، ظالم کو یقینی طور پر کمزور کرنے اور بلاخر اس جرم کو بزور قوت روکنےسبب بننے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں ہونے والی زیادتیوں پر بھی خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ہمارا ملک بدترین معاشی بحران کے ساتھ ساتھ لاقانونیت، بم دھماکوں اورٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے لہذا جب لوگ کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے اپنے گند کوصاف کرنا چاہیے تو وہ بڑا منطقی لگتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک اجتماعی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہم مسائل کو ایک ایک کرکے حل نہیں کرسکتے کیونکہ ایک مسئلہ حل ہوتے ہی مسائل کی ایک طویل فہرست ہمارا منہ چڑا رہی ہوگی۔ یہ ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک جہد مسلسل ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا ہیں کا ہم اس جنگ میں کس کے ساتھ کھڑے ہوں اور اجتماعی انداز میں اپنا کردار ادا کرنہ ہوگا۔
ایک اور سوال جو کہ اسی تناظر میں ہمارے لبرل طبقہ اشرافیہ کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ ‘یہ مسلم امہ کس چڑیا کا نام ہے؟’ یہ وہ سوال ہے جو ہماری آزاد خیال طبقہ اشرافیہ گمراہ کن اندز میں پوچھتی ہے۔ جی ہاں مسلم امہ پوری دنیا کے ان تمام کلمہ گو مسلمانوں پر مشتمل ہے جن کے دل ایک ساتھ د ھڑکتے ہیں۔ برما میں کسی بھی مسلمان پر کیے جانے والے تشدد پر پاکستان کے مسلمانوں کے جسم سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔
جی نہیں مسلم امہ ننگ ملت،حمیت سے عاری، غدار اور اقتدار پر قابض حکمرانو ں کا نام نہیں لہذا اگر بنگلہ دیشی حسینہ واجد کی حکومت برما کے بے گھر مسلمانوں کے درد کو محسوس نہیں کر رہی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنگلہ دیش یا دنیا کےعام مسلمان بھی لاتعلق ہیں۔ اگر او آئی سی خاموش ہے، اس وجہ سے ہے کہ او آئی سی میں شامل حکمران طبقہ زبردستی مسلم امہ کی گردنوں پر مسلط ہے۔ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کا کردار بھی انتہائی شرمناک ہے جو اس کے مختلف مذاہب اورمختلف خطوں کے لئے دوہرے معیار کی نشاندہی کرتا ہے۔ مختصراً یہ کہ بدھ مذہب کے پیروکارجو بالعموم اتنے امن پسند سمجھے جاتے ہیں کہ وہ ایک چیونٹی بھی نہیں مار سکتےوہ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں،مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں نذر آتش کر رہے ہیں خواتین عصمت دری کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کواب تک بے گھر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ مہاجر کیمپوں میں رہنے کو مجبور ہیں۔ برما کی مسلح ا فواج اس قتل عام میں برابر کے شریک ہیں۔ مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہے ہیں اور ہم خاموش ہیں۔
قرآن کی یہ آیت اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کیلیے یاد دہانی کررہی ہے:
سورہ النسا، آیت- 75
اور تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان بےبس مردوں اورعورتوں ا ور بچوں کی خاطر نہیں لڑ تے جو دعا ئیں کرتے ہیں کہ ا ے ہما رے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں ا ور لےجا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار فرما۔
یہ تحریر محمد سعد خان کی انگلش تحریر کا ترجمہ ہے۔