Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
بریلویت اور سنت کا مذاق
حدیث نمبر : 435-436
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن عائشة، وعبد الله بن عباس، قالا لما نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم طفق يطرح خميصة له على وجهه، فإذا اغتم بها كشفها عن وجهه، فقال وهو كذلك " لعنة الله على اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد". يحذر ما صنعوا.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو آپ اپنی چادر کو بار بار چہرے پر ڈالتے۔ جب کچھ افاقہ ہوتا تو اپنے مبارک چہرے سے چادر ہٹا دیتے۔ آپ نے اسی اضطراب و پریشانی کی حالت میں فرمایا، یہود و نصاریٰ پر اللہ کی پھٹکار ہو کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں پر مسجد بنا لیا۔ آپ یہ فرما کر امت کو ایسے کاموں سے ڈراتے تھے۔
حدیث نمبر : 437
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " قاتل الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے مالک کے واسطے سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے سعید بن مسیب سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔
تشریح : آپ نے امت کو اس لیے ڈرایا کہ کہیں وہ بھی آپ کی قبر کو مسجد نہ بنالیں۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا میری قبر پر میلہ نہ لگانا۔ ایک دفعہ فرمایاکہ یااللہ! میری قبرکو بت نہ بنادیناکہ لوگ اسے پوجیں۔یہود اورنصاریٰ ہردو کے یہاں قبر پرستی عام تھی اورآج بھی ہے۔ حافظ ابن قیم اغاثۃ اللہفان میں فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص موجودہ عام مسلمانوں کا حدیث نبوی اور آثارصحابہ وتابعین کی روشنی میں موازنہ کرے تووہ دیکھے گا کہ آج مسلمانوں کے ایک جم غفیر نے بھی کس طرح حدیث نبوی کی مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے۔
مثلاً:
( 1 ) حضورعلیہ السلام نے قبورانبیاءپربھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا مگر مسلمان شوق سے کتنی ہی قبورپر نماز پڑھتے ہیں۔
( 2 ) حضور علیہ السلام نے قبروں پر مساجد کی طرح عمارت بنانے سے سختی سے روکا مگر آج ان پر بڑی بڑی عمارات بناکر ان کا نام خانقاہ، مزارشریف اور درگاہ وغیرہ رکھا جاتاہے۔
( 3 ) حضورعلیہ السلام نے قبروں پر چراغاں سے منع فرمایا۔ مگرقبرپرست مسلمان قبروں پر خوب خوب چراغاں کرتے اوراس کام کے لیے کتنی ہی جائیدادیں وقف کرتے ہیں۔
( 4 ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے بھی منع فرمایا۔ مگر یہ لوگ مٹی کے بجائے چونا اور اینٹ سے ان کو پختہ بناتے ہیں۔
( 5 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کتبے لکھنے سے منع فرمایا۔ مگریہ لوگ شاندار عمارتیں بناکر آیات قرآنی قبروں پر لکھتے ہیں۔ گویاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے مخالف اوردین کی ہر ہدایت کے باغی بنے ہوئے ہیں۔
صاحب مجالس الابرار لکھتے ہیں کہ یہ فرقہ ضالہ غلو ( حد سے بڑھنا ) میں یہاں تک پہنچ گیاہے کہ بیت اللہ شریف کی طرح قبروں کے آداب اورارکان ومناسک مقرر کرڈالے ہیں۔ جواسلام کی جگہ کھلی ہوئی بت پرستی ہے۔ پھر تعجب یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو حنفی سنی کہلاتے ہیں۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہرگز ہرگز ایسے امور کے لیے نہیں فرمایا۔ اللہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے۔