اچانک اور ناگہانی موت کے متعلق سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےمروی ہے ،کہ وہ فرماتے ہیں :
اچانک کی موت مومن کےلئے آسانی و تخفیف ہے اور کافر کےلئے حسرت و افسوس ہے ؛
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مَوْتُ الْفُجَاءَةِ تَخْفِيفٌ عَلَى الْمُؤْمِنِ، وَأَسَفٌ عَلَى الْكُفَّارِ.
رواه عبد الرزاق في المصنف (6776) وذكر الحديث البيهقي (3/534) وقال: " وَرَوَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ مِنْ قَوْلِهِ، وَرَوَاهُ الْحَجَّاجُ عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ مَرْفُوعًا"
رواه ابن أبي شيبة (12007) موقوفا على ابن مسعود وعائشة وقال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَائِشَةَ، قَالَا: «مَوْتُ الْفُجَاءَةِ رَأْفَةٌ بِالْمُؤْمِنِ، وَأَسَفٌ عَلَى الْفَاجِرِ».
وهذا إسناد صحيح إن شاء الله.
الثاني: عن أَبُي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ عَلْقَمَةَ أَقَامَ بِخُرَاسَانَ سَنَتَيْنِ وَنِصْفَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، وَلَا يَجْمَعُ، وَعَادَ ابْنَ عَمٍّ لَهُ فَلَمَسَ جَبْهَتَهُ فَوَجَدَهَا تَرشَحُ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنِ تَخْرُجُ رَشْحًا، وَلَا أُحِبُّ مَوْتًا كَمَوْتِ الْحِمَارِ» قَالَ مُسْلِمٌ: يَعْنِي مَوْتَ الْفُجَاءَةِ.
وهذا إسناد صحيح أبو معشر اسمه زيد بن كليب وثقه النسائي وغيره روى لَهُ مسلم، وأَبُو داود، والتِّرْمِذِيّ، والنَّسَائي، وبقية رجاله رجال الشيخان والحديث أخرجه الشاشي في المسند (343-345) وقال الدارقطني في "العلل" (873) وَسُئِلَ عَنْ حَدِيثِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ مَوْقُوفٍ قَالَ مَوْتُ الْفُجَاءَةِ أَسَفٌ عَلَى الْكَافِرِ تَخْفِيفٌ عَلَى الْمُؤْمِنِ.
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مومن مخلص کو اچانک موت آنا مکروہ ۔ناپسندیدہ۔ نہیں
صحیح البخاری
کتاب جنازے کے احکام و مسائل
باب موت الفجأة البغتة:
باب: ناگہانی موت کا بیان
.
حدیث نمبر: 1388
حدثنا سعيد بن ابي مريم حدثنا محمد بن جعفر ، قال: اخبرني هشام عن ابيه عن عائشة رضي الله عنها"ان رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن امي افتلتت نفسها واظنها لو تكلمت تصدقت فهل لها اجر إن تصدقت عنها؟ ، قال: نعم".
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،"أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ ، قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا مجھے ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کر دوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ملے گا۔
وقوله : افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا أي ماتت فجاة .
وقال الإمام القسطلاني رحمه الله في إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري :
وأشار المؤلّف بهذا إلى أن موت الفجأة ليس بمكروه ، لأنه عليه الصلاة والسلام لم يظهر منه كراهة لما أخبره الرجل بأن أمه افتلتت نفسها .
السلام و علیکم و رحمت الله -
بخاری کی حدیث اور حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کا قول اگرچہ صحیح ہے لیکن یہاں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ الله کی مشیت اور انسان کے عمل میں فرق ہے- الله چاہے تو اپنی مشیت کے تحت کسی مومن کو بری موت یا ناگہانی موت سے ہمکنار کرکے اس کے گناہوں کا ازالہ کردے اور آخرت میں اس کے لئے حساب کتاب کی آسانی پیدا کردے - لیکن نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی تعلیمات ہم کو یہی بتاتی ہیں کہ ایک مومن کو ہمہ وقت آزمائشوں اور ناگہانی آفات سے الله کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے- اس سلسلے میں الله کے نبی کے بہت سے ارشادات اور اعمال مروی ہیں جیسے آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کے فرمان کے مطابق-
صدقہ خیرات کرنا انسان کی بری موت کو ٹالتا ہے -
صلہ رحمی انسان کی عمرو رزق میں برکت کا باعث بنتی ہے -
الله کے نبی خود نمازمیں زندگی و موت کے فتنے سے پناہ مانگتے تھے -
الله کے نبی نے شہادت کی تمنا کو مستحب لیکن جنگ و جدل کی تمنا کو مکروہ قرار دیا ہے- وغیرہ -
لہذا بری موت اور ناگہانی آفات سے الله کی پناہ طلب کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ سنّت عمل ہے -
الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن رکھے (آمین)-