• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بری موت کے اَسباب اور اس سے بچاؤ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بری موت کے اَسباب اور اس سے بچاؤ

عبدالحمید بن عبدالرحمن سحیبانی
مترجم:عبد المالک سلفی
دنیا میں سب سے قیمتی اثاثہ انسان کی عمر ہے۔ اگر انسان نے اس کو آخرت کی بھلائی کے لئے استعمال کیا، تو یہ تجارت اس کے لئے نہایت ہی مفید ہے اور اگر اسے فسق وفجور میں ضائع کردیا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ شخص دانش مند ہے جو اللہ تعالیٰ کے حساب لینے سے پہلے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کر لے اور اپنے گناہوں سے ڈر جائے، قبل ا س کے کہ وہ گناہ ہی اسے ہلاک اور تباہ و برباد کردیں۔
زیر نظر مضمون میں برے خاتمہ کے اسباب کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔یہ موضوع مسلمانوں کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے اور انسان جس حالت میںزندگی بسر کرتا ہے، اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوتی ہے اور جس حالت میں انسان کی موت واقع ہوگی، اسی حالت میں وہ قیامت کے دن قبر سے اٹھایا جائے گا۔حضرت رسول مقبولﷺ نے فرمایا : من مات علی شییٔ بعثہ اللہ علیہ (رواہ الحاکم)
’’ جس حالت میں آدمی فوت ہوگا، اسی پر اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا‘‘
ہم اللہ تعالیٰ سے اچھے خاتمہ کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے تمام کام سنوار دے اور ہمارے اعمال کی اصلاح فرمائے، بے شک وہ سننے والا،قبول کرنے والا اور بہت قریب ہے۔ (مؤلف)
برے خاتمہ سے مراد یہ ہے کہ قرب ِمرگ آدمی پر برے خیالات کا غلبہ ہو اور وہ شکوک و شبہات اور انکار ونافرمانی کے ساتھ دنیا سے چمٹا رہے اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہوجائے اور اس کا خاتمہ ایسے اعمال پر ہو جو اسے ہمیشہ کے لئے جہنم کا سزاوار بنا دیں ۔
برے خاتمہ کے خوف نے صدیقین کے دلوں کو ہر وقت پارہ پارہ اور پریشان رکھا ہے کہ ان کے لئے اس دنیا میں راحت وآرام نہیں ہے۔ وہ جب کبھی کسی پرسکون گلی میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی گھبراہٹ انہیں خوف کی راہ پر گامزن کر دیتی ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اروح بشجو ثم أغدو بمثلہ
وتحسب أني فی الثیاب صحیح
’’ میں تکلیف کی حالت میں شام کرتا ہوں اور تکلیف کی حالت میں ہی صبح کرتا ہوں اور تو سمجھتا ہے کہ میں کپڑوں میں صحیح سلامت ہوں‘‘
جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو علم عطا فرمایا او راس پر عمل کرنے کا حکم دیا توانہوں نے کہا : عنقریب کرلیں گے۔اور اس ’عنقریب‘نے ان کے اعمال کی عمریں کم کردی ہیں۔ وہ متنبہ ہو کر دن رات جاگتے رہے اور اپنے بڑے بڑے بھیانک ارادوں کو عملی صورت دے دی ، جب انہوں نے جی بھر کے گناہ کرلئے او رکوئی کسر نہ چھوڑی تو ان کے انجام سے ڈرنے لگے۔
اور یہ بات حدیث میں رسولِ مقبولﷺ سے ثابت ہے کہ (لوگوں کے) دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے اور ہم نے کتنے لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگئے اور کتنے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ استقامت اختیار کرنے کے بعد منحرف ہوگئے۔اسی لئے رسول ا یہ دعا کثرت سے پڑھتے تھے
یا مقلِّب القلوب! ثَبِّتْ قلوبنا علیٰ دینک
’’ اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ‘‘
رسولِ مقبول ﷺ کے زمانے میں بعض لوگ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگئے اور نورِ اسلام سے نکل کر کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چلے گئے۔ ان مرتد ہونے والوں میں سے عبیداللہ بن حجش بھی تھا۔ اس نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی اور پھروہ اسلام سے مرتد ہو کر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔ حضرت رسولِ مقبول ﷺ کی وفات کے بعد کتنے لوگ فتنہ ٔ ارتداد کا شکار ہوگئے جن کے خلاف حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جہاد کیا۔ اسی طرح حضرت عمرفاروقؓ کے زمانہ ٔ خلافت میں کئی لوگ دائرۂ اسلام سے نکل کر کفر میں داخل ہوگئے۔
ان میں ایک ربیعہ بن اُمیہ بن خلف بھی تھا جو صحابہ کرام ؓکے ساتھ ایک لشکر میں شامل تھا اور شراب پیتا تھا ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس پر شراب کی حد نافذ کرکے خیبر کی طرف اسے جلا وطن کردیا تو عبید اللہ بن حجش ہرقل شاہِ روم کے پاس چلا گیا اور جاکر عیسائیت میں داخل ہوگیا نعوذ باﷲ من ذلک (الاصابہ)…
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:
’’جب ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،استقامت کا دارومدار اس کی مرضی پر ہے اور انجام کا کسی کو علم نہیں ہے اور انسان کا ارادہ مغلوب ہے تو اپنے ایمان، نماز، روزے اور دیگر عبادات پر فخر مت کرو، اگرچہ یہ تمہارا عمل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی تم یہ کام کرنے پر قادِر ہوئے اور جب تم اس پر فخر کرو گے تو یہ ایسے ہے جیسے تم غیر کے مال پر فخر کرو کیونکہ وہ کسی وقت بھی تم سے چھینا جاسکتا ہے اور تمہارا دل بھلائی سے خالی ہوجائے گا جیسے اونٹ کا پیٹ خالی ہوجاتا ہے کیونکہ کتنے ہی ایسے باغ ہیں کہ شام کو ان کے پھل و پھول ترو تازہ ہوتے ہیں لیکن رات کوان پرسخت آندھی چلتی ہے توصبح کو وہی پھل و پھول مرجھا جاتے ہیں۔انسان کا دل شام کو اللہ کی اطاعت سے منوراور صحیح سالم ہوتا ہے لیکن صبح ہوتی ہے تو اس کے دل پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور وہ بیمار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ عزیز و حکیم کا کام ہے۔ اس لئے اللہ والے ا س بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارا انجام برا نہ ہوجائے۔ جو اللہ سے دھوکہ کرنا چاہتا ہے، اللہ بھی اس کے مکروفریب کا جواب دیتے ہیں۔‘‘
حافظ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ
’’اللہ والوں کا خوف کرنا برحق ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں کے بدلے رسوا نہ کردے اور وہ بدبخت نہ ہوجائیں وہ اپنے گناہوں سے ڈرتے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{اَفَاَمِنُوْا مَکْرَاللّٰہِ} (الاعراف:۹۹)
’’کیا وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بے خوف ہوچکے ہیں‘‘
یہ آیت فاسقوں اور کافروں کے بارے میں ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا بندہ اپنے اللہ کی نافرمانی بھی نہیں کرتا اور اس کی پکڑسے بے خوف بھی نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ممکن ہے کہ اسے گناہوں کی سزا بعد میں دی جائے اور اس میں دھوکہ پیداہوچکا ہو۔ ان کے دل گناہوں سے مانوس ہوجاتے ہیں اور ان پر اچانک عذاب آجاتے ہیں۔ دوسری با ت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوجائیں اور اسے بھول جائیں تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنے ذکر سے غافل کردے۔ ان کی طرف آزمائشیں جلدی آتی ہیں او ران کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی رحمت سے دور ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کے گناہوں کو جانتا ہے جو یہ نہیں جانتے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی تدبیریں گھیر لیتی ہیں اورانہیں پتہ بھی نہیں چلتااو ریہ بات بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو آزمائشوں اور امتحان میں ڈال دیتا ہے اور وہ صبر نہیں کرسکتے جو خود آزمائش کی ایک صورت ہوتی ہیـ۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسلاف کرام کا برے خاتمہ سے ڈرنا
حافظ ابن رجب ؒفرماتے ہیں کہ
اَسلاف پر برے خاتمہ (انجام ؍موت) کا خوف طاری رہتا تھا۔ ان میں ایسے بھی تھے جو اپنے اعمال پر قلق محسوس کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ نیکوکاروں کے دل خاتمہ کے بارے میں ہر وقت فکر مند رہتے ہیں کہ ہم نے آگے کما کر کیابھیجا ہے؟
سفیان ثوری ؒکہتے ہیں کہ
انہوں نے بعض سلف صالحین سے پوچھاکہ کیا آپ کو اس بات نے کبھی رُلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آپ کے متعلق فیصلہ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو مہلت د ی ہے، میں اس پر کبھی مطمئن نہیں رہتا ۔امام سفیان بھی اپنے اعمال اور خاتمہ کی وجہ سے قلق محسوس کیا کرتے تھے اور رو کر کہتے تھے کہ ’’کاش !میں اُمّ الکتاب میں بدبخت نہ لکھا جائوں، میں ڈرتا ہوں کہ موت کے وقت میرا ایمان کہیں مجھ سے چھین نہ لیاجائے۔‘‘
مالک بن دینار رات کو بہت طویل قیام کرتے اور اپنی داڑھی پکڑ کر کہتے کہ
’’اے اللہ !تو جانتا ہے کہ جنت میں کون ہے اور جہنم میں کون ہے، اے اللہ !میری جگہ تو نے کہاں بنائی ہے: جنت میں یا جہنم میں!‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
موت کے وقت سلف کے چند اقوال
اب ہم آپ کے سامنے نصیحت اور عبرت کے لئے سلف صالحین کے چند واقعات بیان کرتے ہیں کہ وہ قربِ مرگ کیا کہتے تھے۔
٭ ٭
حضرت ابوہریرہؓ جب فوت ہونے کے قریب ہوئے تو رونے لگے ۔ جب آپ سے رونے کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ ’’میں اس لئے رو رہا ہو کہ سفر بہت لمبا ہے اور زادِ راہ بہت تھوڑا ہے اور یقین کمزور ہے اور اترنے کی گھاٹی بہت مشکل ہے یا تو جنت کی طرف اور یا پھر جہنم کی طرف!‘‘
٭ ٭
حضرت معاویہ ؓجب فوت ہونے کے قریب ہوئے تو فرمانے لگے کہ
’’مجھے اٹھاکر بٹھا دو چنانچہ آپ کو بٹھا دیا گیا تو آپ اللہ کاذکر اور تسبیح و تقدیس کرنے لگے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمانے لگے کہ اے معاویہ! تو اپنے آپ کو گرتا دیکھ کر اب اپنے ربّ کا ذکر کرنے لگا ۔ جب جوانی کی ٹہنیاں ترو تازہ تھیں، اس وقت تو نے کیوں نہ سوچا اور پھر رونے لگے حتیٰ کہ رونے کی آواز بلند ہونے لگی اور پھر فرمانے لگے: ھو الموت لا مُنجی من الموت والذي أحاذر منہ الموت أدھی وأفظع ’’موت سے کسی کو نجات نہیں جس موت سے میں ڈرتا ہوں وہ نہایت سخت اور ہولناک ہے‘‘
پھرکہنے لگے: اے اللہ !سیاہ کار اور سخت دل بوڑھے پر رحم و کرم فرما، اے اللہ! زادِ راہ تھوڑا ہے میری خطائوں کو معاف فرما اور اسے بخش دے جس کا تیرے سوا کوئی سہارا او رجائے پناہ نہیں ‘‘
٭ ٭
حضرت عمرو ؓبن عاص کے متعلق مروی ہے کہ جب وہ فوت ہونے کے قریب ہوئے تو اپنے محافظوں اور خادموںکو اپنے قریب بلا کر فرمانے لگے کہ کیا تم اللہ سے میرے متعلق کچھ کفایت کرسکتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہرگز نہیں، تو فرمانے لگے: تم یہاں سے چلے جائو اور مجھ سے دورہوجائو پھرانہوں نے پانی منگوا کر وضو کیا اور کہنے لگے کہ مجھے مسجد کی طرف لے چلو ۔ آپ کو مسجد میں لایا گیا تو آپ فرمانے لگے:
’’ اے اللہ! تو نے مجھے حکم دیا اور میں تیری نافرمانیاں کرتا رہا ،تو نے مجھے امانت سونپی اور میں خیانت کرتا رہا ،تو نے میرے لئے حدود متعین کیں اور میں انہیں توڑتا رہا۔ اے اللہ! میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے میں آج تیرے سامنے پیش کرسکوں اور نہ کوئی طاقتور میری مدد کرسکتا ہے بلکہ میں تو گنہگار ہوں اور تیری بخشش کا طلبگار ہوں اور مجھے اپنے گناہوں پراصرار بھی نہیں اور نہ ہی میں تکبر کرنے والا ہوں۔‘‘
(اغتنام الأوقات فی باقیات الصالحات، ص۱۴۴ ا ز شیخ عبدالعزیز سلمان)
٭ ٭
جب سلیمان تمیمی فوت ہونے کے قریب ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کو مبارک ہو، آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے تھے، وہ فرمانے لگے: تم مجھے ایسے نہ کہو ، کیونکہ میںنہیں جانتا کہ میرے لئے وہاں کیا ظاہر ہوگا۔اللہ فرماتے ہیں:
{وَبَدَا لَھُمْ مِنَ اللّٰہِ مَالَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ } (الزمر:۴۷)
’’اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کچھ ظاہر ہوگا، جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہیں تھا‘‘
بعض اہل علم یوں کہہ کر فکر مندی کا اظہار کرتے کہ ’’وہ نیکیاں سمجھ کر اعمال کرتے رہے لیکن دراصل وہ برائیاں تھیں جو میدانِ حشر میں ان کے سامنے ظاہر کردی جائیں گی‘‘
٭ ٭
عامر بن قیس بھی فوت ہونے کے وقت رونے لگے جب ان سے رونے کی وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا :میں اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے رو رہا ہوں
{اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ}
’’بے شک اللہ تعالیٰ تومتقین کے اعمال قبول کرتا ہے‘‘ (المائدہ:۲۷)
بعض کا یہ عمل تھا کہ وہ اپنے آپ کو ڈانٹتے اور نصیحت کرتے کہ اے نفس! وقت گزرنے سے پہلے جلدی کرلے اور زندگی کے دن اور راتوں کی پہر ہ دار ی کر (یعنی دن اور رات اللہ کی عبادت کرتا رہ!)
جب سلف صالحین کا یہ حال ہے تو ہمیں ان سے زیادہ ڈرنا چاہئے۔ ہمارے دل سخت ہیں اور ہم اپنی لاعلمی کی وجہ سے بے پرواہ ہیں ۔ اس لئے بھی کہ صاف دل معمولی مخالفت سے بھی ڈرتے ہیں جبکہ سخت دلوں پر وعظ و نصیحت بھی اثر نہیں کرتے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے دل ،رونے والی آنکھ اور ذکر کرنے والی زبان کا سوال کرتے ہیں، بے شک وہی یہ چیزیں عطا فرمانے پر قدرت رکھتا ہے!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
برے خاتمہ کے اسباب
اللہ ہمیں برے انجام سے بچائے۔ یاد رہے کہ برا خاتمہ ایسے شخص کے لئے نہیں ہے جو اپنے ظاہر کو درست کرتا اور اپنے باطن کی اصلاح کرتا ہے۔ برائی کے ساتھ اس کا ذکرسنا گیا اور نہ جانا گیا ہے، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ۔براا نجام تو ایسے شخص کے لئے ہے جس کے دل و دماغ میں فتور ہے اور وہ کبائر پر اصرار کرنے والا اور اللہ کی حدود کو پامال کرنے والاہے ۔ بسااوقات اس پر اس چیز کا غلبہ اس قدر ہوجاتا ہے کہ اسے توبہ سے پہلے ہی موت آجاتی ہے۔ شیطان اسے صدمہ کے وقت گمراہ کردیتا اور دہشت کے وقت اسے اچک لیتا ہے یا وہ درست ہوجاتاہے یعنی استقامت اختیار کرتا ہے یا پھر اپنی حالت بدل کر کسی ایسے طریقے یا راستے پر چل پڑتا ہے جواس کے برے خاتمہ اور عاقبت کی بربادی کا سبب بن جاتاہے…برے خاتمہ کے دو درجے ہیں:
اوّل:
یہ کہ فوت ہوتے وقت دل پر شکوک و شبہات اور انکار کا غلبہ ہو او ریہ معاملہ بڑا خطرناک ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پکا جہنمی بنا سکتا ہے۔
دوم :
یہ کہ انسان اعلیٰ اَقدار کو پامال کرے یا اَحکام الٰہی پر اعتراض کرے یا وصیت میں ظلم و زیادتی کرے یا گناہوں پر اصرار کرتے کرتے فوت ہوجائے ، یہ پہلے معاملے سے قدرے مختلف ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
برے خاتمہ کے تمام اسباب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن ہم ان تمام اسباب کی طرف اختصار کے ساتھ صرف اشارہ کردیتے ہیں:​
نمبر1 :بدعات میں پڑنے کی وجہ سے شکوک اور انکار کا شکار ہوجانا:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اسماء و افعال میں دیکھا دیکھی یا غلط رائے کی بنیاد پر باطل عقیدہ رکھا جائے۔ اور جب موت کا وقت قریب آئے تو تب آنکھیں کھلیںکہ میں جس نظریے اور عقیدے کو اپنائے پھرتا رہا، وہ تو باطل اور بے بنیاد عقیدہ تھا۔بے شمار لوگ اس حال میں مرگئے کہ انہوں نے اللہ کے دین میں بدعات کو جاری و ساری کیا تھا اور صراطِ مستقیم سے کج روی اور انحراف کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات میں ان پر حقیقت ِحال واضح ہوگئی۔
ابن فارض عمر بن علی حموی (متوفی ۶۳۲ھ) نامی شخص اللہ تعالیٰ کے متعلق اتحاد او رحلول کا فاسد عقیدہ رکھتا تھا اور کہتا تھا کہ بندہ ربّ ہے اور رب بندہ ہے۔ جبکہ جن با اعتماد لوگوں نے اس کی موت کا وقت دیکھا ہے، بتاتے ہیں کہ جان کنی کے عالم میں اپنی بد بختی اور ہلاکت کا ماتم اس نے ان اشعار کے ذریعے کیا:
إن کان منزلتی فی الحبّ عندکم
ما قد رایتُ فقد ضیّعت ایامی
أمنیۃ ظفرت نفسی بھا زمنا
ولیوم احسبھا أضغاث أحلامی​
( ابن فارض فی سیر اعلام النبلائ؍وفیات الاعیان)​
’’اگر تمہارے ہاں میری محبت ومودّت کا یہی صلہ ہے جو مجھے مل رہا ہے تو میں نے اپنے دن ضائع کردیے۔ایک عرصہ تک میرا نفس میری آرزو پر کامیاب اور فتح یاب رہااور آج میں اس کامیابی کو پریشان کن خواب سمجھتا ہوں۔ ‘‘
یہ بات اس نے اس وقت کہی جب اس پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا تھا اور اس کی کرتوتوں کی حقیقت کھل کر سامنے آچکی تھی ۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ بدعتی کا خاتمہ ایمان کی حالت میں ہو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر2: توبہ کرنے میں کوتاہی اور غفلت کرنا:
ہر مکلف انسان پر ہر لمحہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
{وَتُوْبُوْا اِلیٰ اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّھَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (النور:۳۱)
’’ اے مؤمنو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجائو ‘‘
اور نبی اکرم ﷺ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ اللہ نے معاف فرما دیئے تھے،فرماتے ہیں:
یٰأیھا الناس توبوا إلی اللہ فإنی أتوب فی الیوم مائۃ مرّۃ (رواہ مسلم)
’’ اے لوگو! اللہ کی طرف توبہ کرو میں روزانہ سو مرتبہ اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہوں‘‘
شیطان کے ہتھیاروں میں سے ایک بہت بڑا ہتھیار جس کے ساتھ وہ لوگوں پر حملہ آور ہوتا ہے یہ ہے کہ وہ یہ خیال دل میں ڈالتا ہے کہ کوئی بات نہیں، گناہ کرلو پھرتوبہ کرلینا، ابھی بڑی لمبی عمر باقی ہے۔ اس طرح وہ نافرمان لوگوں کے دلوں میں توبہ سے غفلت ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو نے اب توبہ کرلی اور پھر کوئی گناہ کا ارتکاب کیا تو تیری توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور تو جہنمی بن جائے گا۔ دل میں مزیدوسوسہ یہ ڈال دے گا کہ جب تیری عمر پچاس یا ساٹھ سال ہوجائے گی تو پھر توبہ کرکے مسجد میںبیٹھ جانا اور کثرت سے عبادت کرنا۔ ابھی تو جوانی کی عمر ہے اور اسی عمر میں دنیا کی رنگینیاں اور بہاریں دیکھی جاتی ہیں۔ اپنے نفس کو خوب من مانی کرنے دے اور عبادت و ریاضت کرکے ابھی سے اس پرسختی نہ کر۔ انسان کو توبہ سے محروم رکھنے کے لئے اس طرح کے کئی اور بھی شیطانی مکروفریب ہوتے ہیں۔ اسی لئے سلف صالحین میں سے کسی نے کہا ہے کہ
’’میں تمہیں شیطان کے بہت بڑے لشکر سے ڈراتا ہوں ۔عقلمند مؤمن وہ ہے جو ہر وقت اپنے گناہوں سے اللہ کے سامنیتوبہ کرتا ہے اور برے خاتمہ سے ڈرتا رہتا ہے اور اللہ سے اس کی محبت کا سوال کرتاہے اور ظالم شخص تووہ ہے جو توبہ کو مؤخر کرتا رہتا ہے۔ اس کی مثال اس قافلہ سی ہے جس نے دورانِ سفر ایک وادی میں قیام کیا اور ان میں سے ایک سمجھدار آدمی بازار گیا اور جاکر ضروریاتِ سفر خرید لایا اور قافلے کے چلنے کا انتظا رکرنے لگا۔ جبکہ اپنے آپ کو بڑا چالاک سمجھنے والا آرام سے بیٹھا رہتا ہے کہ کوئی بات نہیں، ابھی تیاری کر لوں گا۔ یہاں تک کہ میر کارواں چلنے کا حکم دے دیتا ہے اور ا س کے پاس زادِ راہ بھی نہیں ہوتا ۔ یہ دنیا میں لوگوں کے لئے مثال ہے… سچے مؤمن کو جب موت آتی ہے تو وہ پشیمان نہیں ہوتا جبکہ نافرمان (توبہ میں تاخیر کرنے والا) کہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے اب دنیا میں بھیج دے ، میں جاکر نیک اعمال کروں گا‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر3:لمبی امیدیں:
اکثر لوگوں کی بدبختی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے فریب میں آجاتے ہیں او روہ انہیں یہ یقین دلاتا رہتا ہے کہ ان کی عمر بڑی لمبی ہے ، بہت سال آنے والے ہیں ۔انسان ان میں لمبی امیدیں بنالیتا ہے او رآنے والے سالوں میں اپنی ہمت لڑاتا ہے۔ جب کبھی اسے موت نظر آتی ہے تو اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کے خیال میں موت اس کی آرزئوں کو گدلا کردیتی ہے۔
حضرت علی ؓ لمبی اُمیدوں اور خواہشاتِ نفس کی پیروی سے بڑا ڈرا کرتے تھے اور فرمایاکرتے کہ لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں اور خواہشاتِ نفس کی پیروی حق کی اتباع سے روک دیتی ہے۔ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ’’ خبردار دنیا پیچھے کی جانب پھرنے والی ہے اور آخرت جلدی سے آنے والی ہے اور دونوں میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں۔ تمہیں چاہئے کہ تم آخرت کے بیٹے بنو،دنیا کے بیٹے نہ بنو۔‘‘ آج حساب و کتاب نہیں بلکہ عمل کرنے کا موقع ہے اور کل روزِ قیامت حساب وکتاب ہوگااور عمل کی مہلت نہیں ملے گی۔ او رجب انسان دنیا سے محبت کرنے لگے اور اسے آخرت پر ترجیح دینے لگے تو وہ اس دنیا کی زیب و زینت ، عیش و عشرت اور لذتوں میں پڑ کر آخرت میں اپنا گھر ایسے لوگوں کے ساتھ جوارِ رحمت میں بنانے سے محروم رہتا ہے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔
اعمالِ صالحہ میں سبقت اختیار کرنا جھوٹی اُمید سے متاثر نہ ہونے کی علامت ہے کیونکہ ایسے شخص کو گنتی کے چند سانس ،زندگی کے چند دن اور عمر کے اوقات کو غنیمت سمجھنا آسان ہوتا ہے … اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ جو وقت گزر جائے وہ پھر لوٹ کر نہیں آتا!!
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے میرے کندھے سے پکڑ کر فرمایا:
’’ دنیا میں ایسے رہو جیسے تم پر دیسی یا مسافر ہو‘‘ اورعبداللہ بن عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر اور جب صبح کرے تو شام کا انتظار نہ کر۔ اور بیماری سے پہلے صحت کو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت سمجھ‘‘
نبی کریمﷺ نے مؤمنوں کی ایسی چیزوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جو انہیں لمبی امیدوں سے بچا کر فانی دنیاکی حقیقت سمجھانے والی ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے حکم دیا ہے کہ
’’موت کو یاد کرو ،قبروں کی زیارت کرو اور فوت ہونے والوں کی تجہیز و تکفین کرکے، ان کا جنازہ پڑھو۔ بیماروں کی تیمارداری کرو، نیک لوگوں کی ملاقات و زیارت کرو‘‘
دراصل یہ چیزیں مردہ دلوں کو بیدار کرنے والی ہیں،موت کے بعد اپنے ساتھ پیش آنے والا منظر دکھانے والی اور اعمالِ صالحہ پرآمادہ کرنے والی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر4 برائی سے محبت کرنا اور اسے عادت بنا لینا:
جب انسان برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو شیطان اس کی سوچ پر حاوی ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ جب وہ آدمی قریب ُالمرگ ہوتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ دنیا سے جاتے وقت اسے کلمہ پڑھنا نصیب ہوجائے لیکن ا س کی برائیاں اس پرغلبہ پالیتی ہیںاور وہ ایسے کام کرتا ہے جو اس کے برے خاتمہ کا سبب بن جاتے ہیں۔کیا نماز کو ترک کرنے والے اس بات سے نہیں ڈرتے کہ وہ نماز کو ضائع کر رہے ہیں اور انہیں نصیحت بھی کی جاتی ہے لیکن وہ نصیحت قبول نہیں کرتے۔ کیا انہیں اپنے برے انجام سے ڈر نہیں آتا۔ سودی کاروبار کرنے والے جو اپنے اس حرام فعل سے توبہ بھی نہیں کرتے، کیا انہیں ڈر نہیں آتا کہ اس جرمِ عظیم اور گناہِ کبیرہ کی حالت میں انہیں موت آجائے ۔اور جب بندہ سچی توبہ کرلیتا ہے تو اس کے لئے اللہ کی طرف سے خیروبرکت لوٹ آتی ہے۔ اسی لئے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ
’’ عاصی کا عجز و انکسار ، نیک آدمی کے اپنے اچھے اَعمال پر فخر کرنے سے زیادہ اچھا ہے‘‘
’’ جو عمل تجھے عاجزی کی دولت عطا کرے، وہ ایسی نیکی سے بہتر ہے جو تیرے اندر تکبر پیدا کردے‘‘
اللہ کے نیک بندے ابان بن ابی عیاش ؒکے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ
’’ایک دفعہ میں قیام بصرہ کے دوران حضرت انس بن مالکؒ سے ملاقات کے لئے نکلا۔ میں نے دیکھا کہ ایک جنازے کو صرف چار آدمی اُٹھا کر لا رہے تھے، میں نے بطورِ تعجب کہا: سبحان اللہ! ایک مسلمان فوت ہوگیا ہے،بصرہ شہر سے اس کا جنازہ گزر رہا ہے اور جنازے کے ساتھ ان چار آدمیوں کے سواکوئی بھی نہیں ۔ابان بن ابی عیاشؒ کہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ مل گیا اور جنازہ کو اٹھایا پھر جب اس آدمی کو قبر میں دفن کر دیا گیا تو میں نے ان چار آدمیوں سے کہا: کیا وجہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک عورت نے اسے دفن کرنے کے لئے کہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس عورت کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اے اللہ کی بندی! تیرا اس فوت ہونے والے بندے سے کیا رشتہ تھا۔ وہ کہنے لگی کہ وہ میرا بیٹا تھا اور بعض اوقات وہ اپنے آپ پر زیادتی کرنے والا تھا۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ امی جان! جب میں فوت ہونے لگوں تو مجھے کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنا ،تیرے تلقین کرتے کرتے میں اپنی زندگی پوری کر جائوں گا۔ تو اپنے قدم میرے گالوں پر رکھ دینا اور ساتھ یہ کہنا کہ یہ بدلہ ہے ایسے شخص کا جس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ میرے فوت ہونے کی کسی کو اطلاع نہ دینا کیونکہ لوگ میری کرتوتوں کو جانتے ہیں، وہ ہرگز میرا جنازہ نہیں پڑھیں گے۔ پھر جب تو مجھے دفن کردے تو اپنے ہاتھوں کو اللہ کی بارگاہ میں اٹھا کر یہ کہنا کہ
’’ اے اللہ! میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہوجا! ‘‘
جب ابان بن ابی عیاشؒ اس عورت سے سوال کر رہے تھے تو وہ مسکرا رہی تھی۔ ابان نے اس سے کہا کہ اللہ کی بندی! مسکرانے کی کیا وجہ ہے؟ وہ عورت کہنے لگی: جب میں نے اپنے بیٹے کے دفن ہونے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کرکہا کہ ’’یا اللہ! میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں، تو بھی اس سے راضی ہوجا، جو اس نے مجھے وصیت کی تھی، میں نے پوری کردی ‘‘۔تب میں نے اپنے بیٹے کی آواز سنی کہ وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ
’’میں اپنے ربِ کریم کے پاس پیش ہوا ہوں، میرا رب نہ مجھ پر ناراض ہوا ہے اور نہ غضبناک‘‘…
اگر آدمی کے نفس میں عاجزی و انکساری موجود ہو تو وہ فوت ہوتے وقت ظاہر ہوجاتی ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو ہم اللہ سے اس کی پناہ مانگتے ہیں‘‘ (میزان اعتدال للذہبی و تہذیب التہذیب لابن حجر ،ترجمہ ابان بن ابی عیاش)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر5:خود کشی:
مسلمان کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اپنے اللہ سے اجروثواب کی امید رکھتے ہوئے صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اجروثواب سے نوازتے ہیں اور اگر وہ جزع و فزع کرے اور زندگی سے تنگ آجائے اور بیماریوں ،مصائب و آلام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے خود کشی کی راہ اختیار کرے تو ایسے آدمی نے یقینا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ کے غضب کو پکارا اور بلاوجہ اپنے آپ کو قتل کردیا۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت رسولِ مقبولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
’’جوکوئی اپنے آپ کو پھانسی دے گا ، اسے جہنم میں پھانسی دی جائے گی اور جو اپنے آپ کو نیزہ مار کر ختم کرے گا، اسے جہنم میں نیزے مارے جائیں گے‘‘
سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ کفا ر کی نبی کریم ا سے مڈ بھیڑ ہوگئی اور نبی کریم ﷺ اپنے لشکر سے جاملے ،کفار بھی اپنا لشکر لے آئے ۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھیوں میں ایک آدمی تھا جو بڑی دلیری سے ہر مسلح ، غیر مسلح کا پیچھا کرتا اور اپنی تلوار سے اس پرحملہ آور ہوجاتا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی اس دلیرآدمی کے اجر کو نہیں پہنچ سکتا۔ رسولِ مقبول ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ جہنمی ہے‘‘۔ وہیں ایک آدمی نے اس کے بارے میں بتایا کہ ’’میں ا س کے ساتھ نکلا۔ جہاں وہ ٹھہرتا، میں بھی ٹھہرجاتا اور جب وہ چلتا تو میں بھی اس کے ساتھ چل پڑتا۔ حتیٰ کہ وہ آدمی شدید زخمی ہوگیا اور اپنی تکلیف پر صبر نہ کرسکا ۔اس نے اپنی تلوار زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک پر اپنا پیٹ رکھ کر جھول گیااور خو دکشی کرلی۔ یہ سب کچھ دیکھنے والا وہ شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپؐ نے فرمایا : کس وجہ سے تو یہ گواہی دیتا ہے تو اس نے کہا کہ ابھی آپؐ جس آدمی کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ جہنمی ہے تو لوگوں کو یہ بات سمجھ نہ آئی۔ میں نے انہیں کہا کہ چلو میں تمہارے ساتھ اس کے پاس چلتا ہوں پھر لوگوں کو پوری بات سنائی ۔ ا س موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
’’ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جنتیوں والے اعمال کرتا ہے اور وہ جہنمیوں میں ہوتا ہے اور ایک آدمی لوگوں کی نظروں میں جہنمیوں والے اعمال کرتا ہے جبکہ وہ جنتی ہوتا ہے (متفق علیہ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر6:منافقت؍نفاق:
ظاہر باطن سے مختلف ہو اور قول و فعل میں تضاد ہو ۔جس انسان میں دورُخا پن یا اس کے ظاہر و باطن میں اختلاف پایا جائے، وہ منافق ہوتا ہے۔ جو انسان ریا کار او ردھوکے باز ہو وہ بھی منافق ہے ۔عنقریب مرگ کے بعد اسے بھی رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور موت کی سختی کی وجہ سے اس پر موت کی ہچکیاں طاری ہوں گی ۔دنیا میں آنے کے بعد سے انسان پر سب سے بڑی تکلیف کا وقت یہی ہوگا۔سلف میں سے کسی نے کہا کہ
’’جب انسان کا ظاہر و باطن ایک جیسا برابر ہو تو یہ انصاف اورعدل ہے اور جب باطن ظاہر سے بہتر ہو تو یہ بہت بڑی فضیلت ہے اور جب ظاہر باطن سے مختلف ہو تو یہ بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔
صحابہؓ اور سلف صالحین اپنے آپ کے نفاق میں مبتلا ہوجانے سے بہت ڈرتے تھے اور اس سے ان کی تکلیف اور پریشانی شدت اختیار کرجاتی تھی۔ ایک دفعہ عمر فاروقؓ نے فتنوں اور منافقین کے متعلق راز دانِ رسول حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے سوال کیا کہ
’’کیا نبی کریمﷺ نے میرا نام منافقین میں تو نہیں شامل کیا‘‘۔ حذیفہ بن یمانؓ نے فرمایا کہ ’’نہیں لیکن میں آپ کے بعد کسی کی تصدیق نہیں کروں گا‘‘
مسند بزار میں بسند ِصحیح مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ، اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہؓ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ
’’میں قریش میں زیادہ مال و دولت والا ہوں اور مجھے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ کہیں میرا یہ مال مجھے ہلاک ہی نہ کردے‘‘۔
حضرت امّ سلمہؓ نے فرمایا کہ تم صدقہ و خیرات کرو میں نے نبی کریمﷺ سے سنا تھا کہ آپؐ نے فرمایا کہ
’’بے شک میرے بعض صحابی ایسے بھی ہیں جو مجھ سے ا س جدائی کے بعد دوبارہ نہیں ملیں گے‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ وہاں سے نکلے اور ان کا دل خوف سے پارہ پارہ ہورہا تھا کہ ان کی ملاقات حضرت عمر فاروقؓ سے ہوئی ہے تو انہوں نے عمر فاروقؓ کواس کے بارے میں بتایا ۔وہ بھی گھبرا گئے اور اُمّ سلمہؓ کے پاس جاکرعرض کرنے لگے کہ میں اللہ کے واسطے تم سے پوچھتاہوں ،کیا میں ان میں سے تو نہیں؟ ۔ اُمّ سلمہ نے جوا ب دیا کہ
’’آپ ان میں شامل نہیں ہیں اور آپ کے بعد میں کسی کی بر اء ت نہیں کرتی‘‘
 
Top