- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
بری موت کے اَسباب اور اس سے بچاؤ
عبدالحمید بن عبدالرحمن سحیبانی
مترجم:عبد المالک سلفی
دنیا میں سب سے قیمتی اثاثہ انسان کی عمر ہے۔ اگر انسان نے اس کو آخرت کی بھلائی کے لئے استعمال کیا، تو یہ تجارت اس کے لئے نہایت ہی مفید ہے اور اگر اسے فسق وفجور میں ضائع کردیا اور اسی حال میں دنیا سے چلا گیا تو یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ شخص دانش مند ہے جو اللہ تعالیٰ کے حساب لینے سے پہلے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کر لے اور اپنے گناہوں سے ڈر جائے، قبل ا س کے کہ وہ گناہ ہی اسے ہلاک اور تباہ و برباد کردیں۔مترجم:عبد المالک سلفی
ہم اللہ تعالیٰ سے اچھے خاتمہ کا سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے تمام کام سنوار دے اور ہمارے اعمال کی اصلاح فرمائے، بے شک وہ سننے والا،قبول کرنے والا اور بہت قریب ہے۔ (مؤلف)زیر نظر مضمون میں برے خاتمہ کے اسباب کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔یہ موضوع مسلمانوں کے لئے نہایت اہم ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے اور انسان جس حالت میںزندگی بسر کرتا ہے، اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوتی ہے اور جس حالت میں انسان کی موت واقع ہوگی، اسی حالت میں وہ قیامت کے دن قبر سے اٹھایا جائے گا۔حضرت رسول مقبولﷺ نے فرمایا : من مات علی شییٔ بعثہ اللہ علیہ (رواہ الحاکم)
’’ جس حالت میں آدمی فوت ہوگا، اسی پر اسے قیامت کے دن اٹھایا جائے گا‘‘
برے خاتمہ کے خوف نے صدیقین کے دلوں کو ہر وقت پارہ پارہ اور پریشان رکھا ہے کہ ان کے لئے اس دنیا میں راحت وآرام نہیں ہے۔ وہ جب کبھی کسی پرسکون گلی میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی گھبراہٹ انہیں خوف کی راہ پر گامزن کر دیتی ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:برے خاتمہ سے مراد یہ ہے کہ قرب ِمرگ آدمی پر برے خیالات کا غلبہ ہو اور وہ شکوک و شبہات اور انکار ونافرمانی کے ساتھ دنیا سے چمٹا رہے اور اسی حال میں اس کی موت واقع ہوجائے اور اس کا خاتمہ ایسے اعمال پر ہو جو اسے ہمیشہ کے لئے جہنم کا سزاوار بنا دیں ۔
جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو علم عطا فرمایا او راس پر عمل کرنے کا حکم دیا توانہوں نے کہا : عنقریب کرلیں گے۔اور اس ’عنقریب‘نے ان کے اعمال کی عمریں کم کردی ہیں۔ وہ متنبہ ہو کر دن رات جاگتے رہے اور اپنے بڑے بڑے بھیانک ارادوں کو عملی صورت دے دی ، جب انہوں نے جی بھر کے گناہ کرلئے او رکوئی کسر نہ چھوڑی تو ان کے انجام سے ڈرنے لگے۔اروح بشجو ثم أغدو بمثلہ’’ میں تکلیف کی حالت میں شام کرتا ہوں اور تکلیف کی حالت میں ہی صبح کرتا ہوں اور تو سمجھتا ہے کہ میں کپڑوں میں صحیح سلامت ہوں‘‘
وتحسب أني فی الثیاب صحیح
اور یہ بات حدیث میں رسولِ مقبولﷺ سے ثابت ہے کہ (لوگوں کے) دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے اور ہم نے کتنے لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگئے اور کتنے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ استقامت اختیار کرنے کے بعد منحرف ہوگئے۔اسی لئے رسول ا یہ دعا کثرت سے پڑھتے تھے
رسولِ مقبول ﷺ کے زمانے میں بعض لوگ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگئے اور نورِ اسلام سے نکل کر کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چلے گئے۔ ان مرتد ہونے والوں میں سے عبیداللہ بن حجش بھی تھا۔ اس نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی اور پھروہ اسلام سے مرتد ہو کر عیسائیت میں داخل ہوگیا۔ حضرت رسولِ مقبول ﷺ کی وفات کے بعد کتنے لوگ فتنہ ٔ ارتداد کا شکار ہوگئے جن کے خلاف حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جہاد کیا۔ اسی طرح حضرت عمرفاروقؓ کے زمانہ ٔ خلافت میں کئی لوگ دائرۂ اسلام سے نکل کر کفر میں داخل ہوگئے۔یا مقلِّب القلوب! ثَبِّتْ قلوبنا علیٰ دینک
’’ اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ‘‘
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:ان میں ایک ربیعہ بن اُمیہ بن خلف بھی تھا جو صحابہ کرام ؓکے ساتھ ایک لشکر میں شامل تھا اور شراب پیتا تھا ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس پر شراب کی حد نافذ کرکے خیبر کی طرف اسے جلا وطن کردیا تو عبید اللہ بن حجش ہرقل شاہِ روم کے پاس چلا گیا اور جاکر عیسائیت میں داخل ہوگیا نعوذ باﷲ من ذلک (الاصابہ)…
حافظ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ’’جب ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ،استقامت کا دارومدار اس کی مرضی پر ہے اور انجام کا کسی کو علم نہیں ہے اور انسان کا ارادہ مغلوب ہے تو اپنے ایمان، نماز، روزے اور دیگر عبادات پر فخر مت کرو، اگرچہ یہ تمہارا عمل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی تم یہ کام کرنے پر قادِر ہوئے اور جب تم اس پر فخر کرو گے تو یہ ایسے ہے جیسے تم غیر کے مال پر فخر کرو کیونکہ وہ کسی وقت بھی تم سے چھینا جاسکتا ہے اور تمہارا دل بھلائی سے خالی ہوجائے گا جیسے اونٹ کا پیٹ خالی ہوجاتا ہے کیونکہ کتنے ہی ایسے باغ ہیں کہ شام کو ان کے پھل و پھول ترو تازہ ہوتے ہیں لیکن رات کوان پرسخت آندھی چلتی ہے توصبح کو وہی پھل و پھول مرجھا جاتے ہیں۔انسان کا دل شام کو اللہ کی اطاعت سے منوراور صحیح سالم ہوتا ہے لیکن صبح ہوتی ہے تو اس کے دل پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور وہ بیمار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ عزیز و حکیم کا کام ہے۔ اس لئے اللہ والے ا س بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارا انجام برا نہ ہوجائے۔ جو اللہ سے دھوکہ کرنا چاہتا ہے، اللہ بھی اس کے مکروفریب کا جواب دیتے ہیں۔‘‘
یہ آیت فاسقوں اور کافروں کے بارے میں ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا بندہ اپنے اللہ کی نافرمانی بھی نہیں کرتا اور اس کی پکڑسے بے خوف بھی نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ممکن ہے کہ اسے گناہوں کی سزا بعد میں دی جائے اور اس میں دھوکہ پیداہوچکا ہو۔ ان کے دل گناہوں سے مانوس ہوجاتے ہیں اور ان پر اچانک عذاب آجاتے ہیں۔ دوسری با ت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوجائیں اور اسے بھول جائیں تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنے ذکر سے غافل کردے۔ ان کی طرف آزمائشیں جلدی آتی ہیں او ران کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی رحمت سے دور ہوجاتے ہیں۔’’اللہ والوں کا خوف کرنا برحق ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں کے بدلے رسوا نہ کردے اور وہ بدبخت نہ ہوجائیں وہ اپنے گناہوں سے ڈرتے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{اَفَاَمِنُوْا مَکْرَاللّٰہِ} (الاعراف:۹۹)
’’کیا وہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر سے بے خوف ہوچکے ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ سب کے گناہوں کو جانتا ہے جو یہ نہیں جانتے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی تدبیریں گھیر لیتی ہیں اورانہیں پتہ بھی نہیں چلتااو ریہ بات بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو آزمائشوں اور امتحان میں ڈال دیتا ہے اور وہ صبر نہیں کرسکتے جو خود آزمائش کی ایک صورت ہوتی ہیـ۔‘‘